خلفشار سے آگے
ہم یہاں اپنے ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان زبردست معرکہ آرائی دیکھ رہے ہیں جس سے ملک کا حال روز بروز بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے ، معیشت دیوالیہ کے قریب ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کو مفلوج کردیا ہے۔
حزب اختلاف صرف اس بات پر حکومت سے دست گریبان رہی کہ آرمی چیف اس کی پسند کا بننا چاہیے جب کہ ایسا ہونا مشکل ہے کیونکہ آرمی چیف کی تعیناتی آئین کے مطابق ہوتی ہے پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور اب بھی ویسے ہی ہوئی ہے۔
پہلے ٹاپ کے چار پانچ جنرلوں میں کسی ایک کو آرمی چیف مقرر کیا جاتا رہا ہے۔ حزب اختلاف اپنے پسندیدہ جنرل کو آرمی چیف مقرر کرنے کا واویلا مچاتی رہی ۔اب جب وزیر اعظم نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے آرمی چیف کے نام کی سمری صدر مملکت کو بھیج کر اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکال دی۔
اپوزیشن نے اپنی پسند کے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے ملک کے طول و عرض میں احتجاج شروع کیا۔ لاہور سے شروع ہونے والا لانگ مارچ دو افراد کی جانیں لینے کے بعد اب اپنی اہمیت کھو چکا ہے تاہم پھر بھی قائد حزب اختلاف کی جانب سے اسے جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ اب 26 نومبر کو تمام پی ٹی آئی کارکنان اور عوام کو راولپنڈی میں جمع ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس اعلان نے حکومت کے لیے کئی چیلنجز کھڑے کر دیے ہیں۔
وہ پہلے ہی 25 مئی کو پی ٹی آئی کے کارکنان اور سپورٹرز کی احتجاجی ریلی کے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے وار کو نہیں بھول پائی ہے۔ وہ اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے ابھی بھی لگی ہوئی ہے کہ اب 26 نومبر کی پی ٹی آئی کی ریلی سے نمٹنے کے لیے نئے سخت انتظامات کرنے میں جٹ گئی ہے۔
ادھر ملک انارکی سے گزر رہا ہے ، ادھر ہمارے پڑوس دہلی میں پاکستان دشمنی میں '' نو منی فار ٹیرر'' نامی کانفرنس جاری ہے ۔ جس میں دنیا کے کئی ممالک کے مندوبین شرکت کر رہے ہیں۔ اس کانفرنس کا اصل مقصد پاکستان کو بدنام کرنا اور اسے دہشت گردی کا منبع اور سپورٹر قرار دینا ہے۔ بھارت ایسا اس لیے کر رہا ہے کہ وہ خود اپنی دہشت گردی کو چھپانا چاہتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی بھی ملک دہشت گرد نہیں ہے۔
اس کی دہشت گردی کے ثبوت تو پاکستان کئی بار دے چکا ہے مگر وہ اب تک کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکا ہے۔ اس کے الزامات صرف بیانات تک ہی محدود رہے ہیں۔ دو سال قبل پاکستان کی جانب سے باقاعدہ ایک ڈوزیئر جاری کیا گیا تھا جس میں پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔
اس ڈوزیئر کو اقوام متحدہ میں پیش کیے جانے کے علاوہ تمام اہم ممالک کو بھیجا گیا تھا۔ ان ڈوزیئر میں بھارت کی دہشت گردی کی پول کھولی گئی تھی جس پر بھارت بہت سیخ پا ہوا تھا ، لگتا ہے اب اس نے جو یہ کانفرنس منعقد کی ہے یہ اسی ڈوزیئر کی سچائی کو زائل کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
تاہم بھارت چاہے ایسی ہزاروں کانفرنسیں منعقد کرلے اس کی دہشت گردی سے تمام ممالک واقف ہوچکے ہیں اور وہ اسے دہشت گرد ملک سمجھتے ہیں مگر وہ خود کو پاک صاف سمجھتا ہے تو اس سے اس کی دہشت گردی کی چھاپ مٹ نہیں سکتی۔ وہ اپنی مسلم اقلیت اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھا رہا ہے وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔
اول تو جموں کشمیر پر اس کا قبضہ ناجائز ہے۔ اسے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق شہریوں کو آزادی دینا چاہیے۔ اس سلسلے میں اسے کشمیر میں آزادانہ طور پر رائے شماری منعقد کرنا ہوگی مگر وہ اس عمل سے ڈرتا ہے کیونکہ کشمیری ہر صورت میں پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں ، وہ اب بھی خود کو پاکستانی کہتے ہیں۔
مرحوم علی شاہ گیلانی ہمیشہ خود کو پاکستانی کہتے تھے اور لکھتے بھی تھے۔ کشمیری گزشتہ پچھتر سال سے بھارتی غلامی سے نکلنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اگر بھارت نے وہاں اپنی نو لاکھ فوج متعین نہ کی ہوتی تو کشمیری کبھی کے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر پاکستان میں شمولیت اختیار کرچکے ہوتے۔
بھارت کشمیریوں کو زبردستی اپنا غلام رکھنا چاہتا ہے اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ کشمیر کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور کشمیری اس کی اطاعت کو قبول کرچکے ہیں تو پھر کشمیر کو فوجی چھاؤنی کیوں بنایا گیا ہے۔ گزشتہ عرصے امریکا سے اچھے تعلقات کے ذریعے مودی نے پوری کوشش کی تھی کہ کشمیر کے معاملے پر امریکا اپنی پالیسی بھارت کے حق میں تبدیل کردے ۔ ٹرمپ کے دور میں ضرور اسے سکون رہا وہ اس لیے کہ ٹرمپ کو نوازنے میں مودی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس نے ٹرمپ کی بھارت میں بے مثال دعوت کی تھی۔
جس پر اربوں روپے خرچ کیے گئے تھے۔ اب بائیڈن کے دور میں بھارت سے پہلے جیسے تعلقات نہیں رہے ہیں۔ بائیڈن نے مودی کی چاپلوسی سے خود کو دور رکھا ہے ، وہ چین کے معاملے میں ضرور بھارت کے ساتھ ہیں لیکن دوسرے عالمی معاملات میں ان کی پالیسی بھارت نواز نہیں ہے ، وہ روس سے بھارت کی دوستی کے سخت خلاف ہیں۔
انھوں نے دراصل امریکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مودی کو برداشت کیا ہوا ہے ورنہ امریکی اخبارات مسلسل مودی کے خلاف لکھ رہے ہیں۔ وہ اسے اقلیتوں کا قاتل اور ایک جارح انتہا پسند شخص کہہ رہے ہیں۔ دنیا کی تمام بڑی انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل بھارت کی انسان کش پالیسیوں کی مذمت کررہی ہیں۔ پاکستان میں متعین امریکی سفیر بلوم ڈونلڈ نے گزشتہ ماہ آزاد کشمیر کا دورہ کیا تھا انھوں نے وہاں کے امن وامان کی تعریف کی تھی۔
بھارت نے اس کی سخت مذمت کی تھی اور اس دورے کی شکایت امریکی حکام سے کی تھی جس کے جواب میں امریکا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ امریکا اپنی پرانی کشمیر پالیسی پر قائم ہے یعنی وہ بھارتی کشمیر کو مقبوضہ خیال کرتا ہے اور کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق آزادی دینے کا حامی ہے۔
وہ پہلے بھی یہ کہتا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں باہم مل کر مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کریں وہ اب بھی یہی بات کہتا ہے۔
اس امریکی وضاحتی بیان پر مودی سخت برہم ہے کیونکہ وہ تو یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ امریکا نے اب کشمیر کو بھارت کا داخلی معاملہ تسلیم کرلیا ہے مگر یہ مودی کی بھول ہے۔ وہ لاکھ کوشش کرے پھر بھی امریکا کیا دنیا کا کوئی بھی ملک کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں سے انحراف نہیں کرسکتا۔ اب مودی کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں ہٹا لے اور کشمیریوں کو آزادی دینے کے لیے اقدامات کرے۔
حزب اختلاف صرف اس بات پر حکومت سے دست گریبان رہی کہ آرمی چیف اس کی پسند کا بننا چاہیے جب کہ ایسا ہونا مشکل ہے کیونکہ آرمی چیف کی تعیناتی آئین کے مطابق ہوتی ہے پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور اب بھی ویسے ہی ہوئی ہے۔
پہلے ٹاپ کے چار پانچ جنرلوں میں کسی ایک کو آرمی چیف مقرر کیا جاتا رہا ہے۔ حزب اختلاف اپنے پسندیدہ جنرل کو آرمی چیف مقرر کرنے کا واویلا مچاتی رہی ۔اب جب وزیر اعظم نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے آرمی چیف کے نام کی سمری صدر مملکت کو بھیج کر اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکال دی۔
اپوزیشن نے اپنی پسند کے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے ملک کے طول و عرض میں احتجاج شروع کیا۔ لاہور سے شروع ہونے والا لانگ مارچ دو افراد کی جانیں لینے کے بعد اب اپنی اہمیت کھو چکا ہے تاہم پھر بھی قائد حزب اختلاف کی جانب سے اسے جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ اب 26 نومبر کو تمام پی ٹی آئی کارکنان اور عوام کو راولپنڈی میں جمع ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس اعلان نے حکومت کے لیے کئی چیلنجز کھڑے کر دیے ہیں۔
وہ پہلے ہی 25 مئی کو پی ٹی آئی کے کارکنان اور سپورٹرز کی احتجاجی ریلی کے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے وار کو نہیں بھول پائی ہے۔ وہ اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے ابھی بھی لگی ہوئی ہے کہ اب 26 نومبر کی پی ٹی آئی کی ریلی سے نمٹنے کے لیے نئے سخت انتظامات کرنے میں جٹ گئی ہے۔
ادھر ملک انارکی سے گزر رہا ہے ، ادھر ہمارے پڑوس دہلی میں پاکستان دشمنی میں '' نو منی فار ٹیرر'' نامی کانفرنس جاری ہے ۔ جس میں دنیا کے کئی ممالک کے مندوبین شرکت کر رہے ہیں۔ اس کانفرنس کا اصل مقصد پاکستان کو بدنام کرنا اور اسے دہشت گردی کا منبع اور سپورٹر قرار دینا ہے۔ بھارت ایسا اس لیے کر رہا ہے کہ وہ خود اپنی دہشت گردی کو چھپانا چاہتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی بھی ملک دہشت گرد نہیں ہے۔
اس کی دہشت گردی کے ثبوت تو پاکستان کئی بار دے چکا ہے مگر وہ اب تک کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکا ہے۔ اس کے الزامات صرف بیانات تک ہی محدود رہے ہیں۔ دو سال قبل پاکستان کی جانب سے باقاعدہ ایک ڈوزیئر جاری کیا گیا تھا جس میں پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔
اس ڈوزیئر کو اقوام متحدہ میں پیش کیے جانے کے علاوہ تمام اہم ممالک کو بھیجا گیا تھا۔ ان ڈوزیئر میں بھارت کی دہشت گردی کی پول کھولی گئی تھی جس پر بھارت بہت سیخ پا ہوا تھا ، لگتا ہے اب اس نے جو یہ کانفرنس منعقد کی ہے یہ اسی ڈوزیئر کی سچائی کو زائل کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
تاہم بھارت چاہے ایسی ہزاروں کانفرنسیں منعقد کرلے اس کی دہشت گردی سے تمام ممالک واقف ہوچکے ہیں اور وہ اسے دہشت گرد ملک سمجھتے ہیں مگر وہ خود کو پاک صاف سمجھتا ہے تو اس سے اس کی دہشت گردی کی چھاپ مٹ نہیں سکتی۔ وہ اپنی مسلم اقلیت اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھا رہا ہے وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔
اول تو جموں کشمیر پر اس کا قبضہ ناجائز ہے۔ اسے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق شہریوں کو آزادی دینا چاہیے۔ اس سلسلے میں اسے کشمیر میں آزادانہ طور پر رائے شماری منعقد کرنا ہوگی مگر وہ اس عمل سے ڈرتا ہے کیونکہ کشمیری ہر صورت میں پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں ، وہ اب بھی خود کو پاکستانی کہتے ہیں۔
مرحوم علی شاہ گیلانی ہمیشہ خود کو پاکستانی کہتے تھے اور لکھتے بھی تھے۔ کشمیری گزشتہ پچھتر سال سے بھارتی غلامی سے نکلنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اگر بھارت نے وہاں اپنی نو لاکھ فوج متعین نہ کی ہوتی تو کشمیری کبھی کے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر پاکستان میں شمولیت اختیار کرچکے ہوتے۔
بھارت کشمیریوں کو زبردستی اپنا غلام رکھنا چاہتا ہے اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ کشمیر کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور کشمیری اس کی اطاعت کو قبول کرچکے ہیں تو پھر کشمیر کو فوجی چھاؤنی کیوں بنایا گیا ہے۔ گزشتہ عرصے امریکا سے اچھے تعلقات کے ذریعے مودی نے پوری کوشش کی تھی کہ کشمیر کے معاملے پر امریکا اپنی پالیسی بھارت کے حق میں تبدیل کردے ۔ ٹرمپ کے دور میں ضرور اسے سکون رہا وہ اس لیے کہ ٹرمپ کو نوازنے میں مودی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس نے ٹرمپ کی بھارت میں بے مثال دعوت کی تھی۔
جس پر اربوں روپے خرچ کیے گئے تھے۔ اب بائیڈن کے دور میں بھارت سے پہلے جیسے تعلقات نہیں رہے ہیں۔ بائیڈن نے مودی کی چاپلوسی سے خود کو دور رکھا ہے ، وہ چین کے معاملے میں ضرور بھارت کے ساتھ ہیں لیکن دوسرے عالمی معاملات میں ان کی پالیسی بھارت نواز نہیں ہے ، وہ روس سے بھارت کی دوستی کے سخت خلاف ہیں۔
انھوں نے دراصل امریکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مودی کو برداشت کیا ہوا ہے ورنہ امریکی اخبارات مسلسل مودی کے خلاف لکھ رہے ہیں۔ وہ اسے اقلیتوں کا قاتل اور ایک جارح انتہا پسند شخص کہہ رہے ہیں۔ دنیا کی تمام بڑی انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل بھارت کی انسان کش پالیسیوں کی مذمت کررہی ہیں۔ پاکستان میں متعین امریکی سفیر بلوم ڈونلڈ نے گزشتہ ماہ آزاد کشمیر کا دورہ کیا تھا انھوں نے وہاں کے امن وامان کی تعریف کی تھی۔
بھارت نے اس کی سخت مذمت کی تھی اور اس دورے کی شکایت امریکی حکام سے کی تھی جس کے جواب میں امریکا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ امریکا اپنی پرانی کشمیر پالیسی پر قائم ہے یعنی وہ بھارتی کشمیر کو مقبوضہ خیال کرتا ہے اور کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق آزادی دینے کا حامی ہے۔
وہ پہلے بھی یہ کہتا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں باہم مل کر مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کریں وہ اب بھی یہی بات کہتا ہے۔
اس امریکی وضاحتی بیان پر مودی سخت برہم ہے کیونکہ وہ تو یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ امریکا نے اب کشمیر کو بھارت کا داخلی معاملہ تسلیم کرلیا ہے مگر یہ مودی کی بھول ہے۔ وہ لاکھ کوشش کرے پھر بھی امریکا کیا دنیا کا کوئی بھی ملک کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں سے انحراف نہیں کرسکتا۔ اب مودی کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں ہٹا لے اور کشمیریوں کو آزادی دینے کے لیے اقدامات کرے۔