کراچی عذابوں کی زد میں

کراچی پاکستان کا لاوارث شہر ہے، جہاں قانون نام کی کوئی شے موجود نہیں

کراچی کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر خاموش مت رہیے۔ (فوٹو: فائل)

کراچی پاکستان کا لاوارث شہر ہے، جہاں قانون نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ کراچی میں آکر کچھ بھی کریں، آپ سے کوئی نہیں پوچھے گا۔

آپ عوام کا پانی عوام کو فروخت کرنا چاہتے ہیں تو آپ کےلیے کراچی بہترین چوائس ہے، آپ شہریوں کی جگہ پر ان کی گاڑی کھڑی کرنے کے پیسے وصول کرنا چاہتے ہیں تو اس حوالے سے بھی کراچی ہی کا نام آپ کے دماغ میں گونجے گا۔ اگر آپ بچت بازار لگانے کے خواہشمند ہیں اور زمین میسر نہیں، تو گھبرانے کی ضرورت نہیں، کراچی میں آپ کسی بھی گراؤنڈ پر یہ کام آسانی سے کرسکتے ہیں، کوئی نہیں پوچھے گا۔ بس جیب گرم ہونی چاہیے۔ اگر آپ لوگوں کا علاج کرنا چاہتے ہیں اور آپ ڈاکٹر بھی نہیں، تو پریشان مت ہوں، کراچی ہے نا۔

آپ بنا کسی محنت کے بس ایک پستول دکھا کر پیسہ کمانا چاہتے ہیں تو بھی کراچی آپ کےلیے ایک محفوظ جگہ ثابت ہوگی۔ آپ یہاں آکر یہ کام باآسانی کرسکتے ہیں۔ آپ پاکستان کے شہری نہیں اور آپ کراچی میں رہنا چاہتے ہیں، تو آپ بے فکر ہوکر کراچی آجائیے، یہاں آپ سے کوئی بھی شناخت نہیں مانگے گا۔ بس جیب میں نوٹ ضرور ہونے چاہئیں۔

کراچی پر جہاں ہر طرح کے عذاب مسلط ہیں وہیں آج کل پارکنگ مافیا بھی اپنے کام میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ پارکنگ مافیا میں کام کرنے والوں میں یقیناً کراچی کا کوئی بھی شہری موجود نہیں، اس میں جتنے بھی لوگ رکھے گئے ہیں وہ سب کراچی سے باہر کے ہیں، جنہیں بات کرنے کی تمیز تک نہیں۔ یہ لوگ کراچی کے شہریوں کو دن رات لوٹنے میں مصروف ہیں، مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جگہ جگہ پارکنگ مافیا متعلقہ اداروں کو نظر نہیں آتی۔ صدر موبائل مارکیٹ میں موٹر سائیکل پارکنگ 30 روپے کردی گئی ہے۔ ایک لائن کے بجائے تین تین لائن لگا کر لوگوں سے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے بٹورے جارہے ہیں۔ کوئی پارکنگ دینے سے انکار کردے تو اس کی بائیک لفٹر کے ذریعے اٹھالی جاتی ہے جہاں واپسی کےلیے تین سو روپے کے بجائے سات سو روپے وصولی کا ایک الگ قانون بنا ہوا ہے۔

کراچی کی پارکنگ مافیا اتنی مضبوط ہے کہ آپ اس کے خلاف کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ زیادہ سے زیادہ شور شرابا کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ کراچی میں چند ایک کے سوا باقی تمام پارکنگ ایریاز غیرقانونی ہیں، مگر یہ قانون کی آنکھوں کے سامنے قائم بھی ہیں اور ترقی بھی کررہے ہیں۔ کراچی دنیا کا واحد میگا سٹی ہے جہاں کی اپنی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے، باقی دو کروڑ آبادی کراچی سے باہر کے لوگوں کی ہے۔ اس میگا سٹی میں کراچی والوں کےلیے کوئی سہولت نہیں، جو باہر والوں کو دستیاب ہے۔ جس میں سب سے بڑی سہولت سرکاری نوکری کی ہے۔ اگر آپ کراچی کے پیدائشی ہیں تو آپ کا سرکاری نوکری پر کوئی حق نہیں۔ یہ حق باہر والوں کےلیے رکھا گیا ہے۔ آپ کراچی میں رہتے ہیں تو آپ کو پانی کے لیے بوند بوند کو ترسنا ہوگا، کیوں کہ اس پر باہر سے آنے والوں کا قبضہ ہے۔ آپ کو پانی کےلیے واٹر ٹینکرز مافیا کی منتیں کرنی ہوں گی اور ان کے منہ مانگے دام پر پانی لینا ہوگا۔ اس کی بڑی وجہ یہاں قانون نہیں جو چیک اینڈ بیلنس رکھے۔

کراچی پر ایک عذاب کے الیکٹرک بھی ہے جو ماہانہ بل ادا نہ کرنے پر فوری طور پر آپ کے دروازے پر پہنچ جاتا ہے، مگر بل بھرنے کے بعد آپ کی شکایت سننے کےلیے آپ کو اس کے دفتر کے دھکے کھانے ہوں گے اور وہاں بھی مرضی انہی کی چلے گی آپ کی نہیں۔ سردیوں کا موسم آچکا ہے، بجلی کی ضرورت میں کمی بھی واقع ہوئی ہے، مگر اس کے باوجود غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ تاحال موجود ہے۔ اس پر کمپلین کرنے پر آپ کو رٹا ہوا جواب ملتا ہے کہ ٹیکنیکل فالٹ ہے، جس پر کام ہورہا ہے۔ اور یہ ٹیکنیکل فالٹ ایسا ہوتا ہے کہ سالہا سال ختم نہیں ہوتا۔


کراچی والوں پر تفریحی جگہوں پر جانے پر ایک قسم کی پابندی ہے۔ کیوں کہ وہاں بھی غیروں کا قبضہ ہے۔ آپ کراچی کی کسی بھی تفریحی جگہ پر چلے جائیں جہاں گورنمنٹ نے داخلہ فری کر رکھا ہے لیکن وہاں بیٹھا ایک شخص آپ سے زبردستی ٹکٹ وصول کرے گا، بائیک کی پارکنگ الگ سے ادا کرنی ہوگی۔ بیگ چیک اس لیے ہوں گے کہ آپ کھانے پینے کی اشیا نہیں لے جاسکتے کیوں کہ اندر اسٹال موجود ہیں جہاں سے آپ مضر صحت چیزیں خرید کر کھائیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں آپ کو داخلہ نہیں دیا جائے گا۔ یہاں پر موجود لوگ اگر آپ دیکھیں تو یقیناً ان کے پاس شناختی کارڈ تک موجود نہیں ہوں گے۔

ٹریفک پولیس بھی کراچی والوں کےلیے عذاب سے کم نہیں۔ اس میں بھی مقامی پولیس اہلکار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ٹریفک پولیس کا کام ٹریفک کلیئر کرنا نہیں، ان کا کام صرف میلہ لگا کر موٹر سائیکل سواروں کو لوٹنا ہے۔ بدترین ٹریفک جام ہوگا لیکن ٹریفک پولیس کا دھیان اس کے بجائے بغیر ہیلمٹ والے موٹر سائیکل کی طرف ہوگا۔ یا پھر ایسی سوزوکی پر نظریں ہوں گی جو لوڈ ہوکر جارہی ہوگی۔ جگہ جگہ میلہ لگا کر کھڑے ہونے والے یہ ٹریفک پولیس اہلکار صبح گھر سے خالی جیب نکلتے ہیں، مگر جب شام کو ان کی واپسی ہوتی ہے تو چہرے خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ سب سے بڑی مثال ٹاور اور آرٹس کونسل پر لگنے والے میلے کی ہے، جہاں رات کو بارہ بجے بھی یہ سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔

کراچی والے ان عذابوں کے ساتھ تو جی ہی رہے ہیں مگر آج کل کراچی والوں پر ایک نیا عذاب کھیلوں کے گراؤنڈز میں بچت بازاروں کی بھرمار ہے جہاں اشیائے خورونوش کی قیمتیں مارکیٹ سے ڈبل قیمت پر مل رہی ہیں، جہاں کوئی چیکنگ والا نہیں۔ تھانے اور ڈی سی آفس کی سیٹنگ سے چلنے والے ان بچت بازاروں میں فی اسٹال پانچ سو روپے اور فی ٹھیلہ تین سو روپے چارج کیا جاتا ہے۔ جہاں سے روزانہ لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس پر بھی ہمارا قانون بے بس ہے۔ ان کے پاس اجازت نامہ نہ ہونے کے باوجود یہ لوگ بدمعاشی کے ساتھ گراؤنڈز پر بچت بازار لگارہے ہیں۔ ضلع کیماڑی اور بلدیہ ٹاؤن اس حوالے سے بہت مشہور ہیں جہاں کوئی ایسا گراؤنڈ نہیں جہاں پر بچت بازار نہ چل رہے ہوں۔ ان سے وصولی کرنے والا بھی مقامی نہیں ہوگا۔ لیکن یہاں بھی قانون بے بس ہے۔ ضلع کیماڑی میں ہی ہم نے واٹر بورڈ کی مین لائنوں میں ہیوی جنریٹر فٹ ہوتے دیکھے، جنہیں روکنے والا اس روئے زمین پر کوئی نہیں۔

ضلع کیماڑی میں ہی بس ٹرمینل کے ساتھ اسمگلنگ کا سامان بلاخوف و خطر بک رہا ہے، اور فروخت کرنے والے بھی آپ کو پاکستانی نہیں بلکہ دوسرے ملک کے شہری ملیں گے۔ لیکن آپ ان سے بحث نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ ان کی طاقت آپ کی طاقت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کا حال دیکھ لیجئے، جن کے پاس شناختی کارڈ تک موجود نہیں وہ لوگ ڈرائیور اور کنڈیکٹرز ملیں گے۔ یہ خواتین و بزرگوں سے بدتمیزی اور ہتک آمیز سلوک روا رکھتے ہیں، لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ وہ ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ اللہ اللہ کرکے سندھ گورنمنٹ نے بجلی سے چلنے والی بسوں کو سڑکوں پر لانے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن اسے ناکام بنانے کےلیے پبلک ٹرانسپورٹ مافیا نے یقیناً پلان بھی پہلے ہی بنالیا ہوگا۔ کیوں کہ ان کے رہتے ہوئے کراچی میں کوئی دوسری سروس آج تک کامیاب نہیں ہوسکی۔

کراچی میں قانون صرف کراچی والوں کےلیے ہے، باقی کسی دوسرے شہری پر اس کا اطلاق شاید نہیں ہوتا۔ کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسے سلوک کا سلسلہ کب رکے گا اس کا اندازہ لگانا بھی ایک مشکل کام ہے۔ آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ کراچی کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر خاموش مت رہیے، ورنہ کل یہ سلسلہ دوسرے شہروں تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story