ایک تھپڑ کی قیمت نسلیں چکاتی ہیں
ہمیں طے کرنا ہے کہ غصہ اور اشتعال ہم پر سوار رہیں گے یا ہمارے مطیع ہوں گے
اقوامِ متحدہ کے تحت پچیس نومبر خواتین پر تشدد کی روک تھام کے سالانہ عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔خواتین پر ہمہ اقسام تشدد کے جتنے واقعات سامنے آتے ہیں۔
ان سے کہیں زیادہ واقعات بدنامی ، شرمندگی ، کسی نہ کسی کی ناراضی یا دباؤ کے سبب پوشیدہ رہ جاتے ہیں۔خواتین پر تشدد محض مارپیٹ، ریپ ، پسند کی شادی ، شک یا غیرت کے نام پر قتل کا نام نہیں۔بلکہ اس کی تعریف بہت وسیع ہے۔
اس دائرے میں جنسی امتیاز کی بنیاد پر حمل ضایع کرنے یا کروانے سے لے کر کم سن بچیوں کی جبری شادی، جنسی ہراسانی ، راہ چلتے توہین آمیز فقرے بازی یا جسم کو چھونا، خاموش تعاقب ، سائبر ہراسانی و بلیک میلنگ ، خواتین کی ختنہ یا رسم و رواج یا سزا کے نام پر ان کے اعضا بگاڑنا ، جسمانی غلامی یا جسم فروشی کی خاطر انسانی اسمگلنگ سمیت کئی قانونی و اخلاقی جرائم اور زیادتیاں صنفی تشدد کی تعریف میں شامل ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انیس سو ترانوے میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے بعد جو تعریف مرتب کی اس کے مطابق '' صنفی تشدد کی کوئی بھی شکل جس کا نتیجہ جسمانی ، جنسی ، نفسیاتی نقصان کی شکل میں نکلے اور جبر ، یکطرفہ دباؤ اور نجی و اجتماعی زندگی کی طے شدہ بنیادی انسانی آزادیوں اور حقوق کو محدود یا پابند کرنے کا سبب بنے۔ صنفی تشدد کہلاتا ہے ''۔
تشدد کی ان تمام اقسام کا اثر زندگی کے ہر مرحلے پر محسوس ہوتا ہے اور انسانی صلاحیتوں کی فطری نشو و نما کی راہ میں ایک رکاوٹ بنتا ہے۔
مثلاً لڑکیوں کو اگر ابتدائی تعلیم حاصل کرنے سے روکا جائے تو اس ایک بنیادی حق کو محدود پا پابند کرنے کے نتیجے میں اس لڑکی پر اعلیٰ تعلیم اور اس تعلیم کے مادی و سماجی و عائلی ثمرات تک رسائی کے دروازے خود بخود بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔گویا کسی ایک بنیادی حق کی محرومی متعدد حقوق کی محرومی کا سبب بن جاتی ہے۔
اگرچہ صنفی تشدد کی کسی بھی شکل کا نشانہ کوئی بھی کہیں بھی کسی بھی وقت بن سکتا ہے۔مگر اس کا زیادہ تر ہدف نوعمر ، گھریلو ، ضعیف یا ذہنی و جسمانی معذور یا پناہ گزین یا متبادل جنسی رجہانات کی حامل خواتین بنتی ہیں۔صنفی تشدد ایک مساوی اور ترقی یافتہ سماج کی تشکیل میں حائل بنیادی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔چنانچہ ہر فرد اور ریاست کو اس بارے میں اپنے فرائض اور اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے آگاہ اور متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریز کے مطابق اس دنیا میں ہر گیارہویں منٹ میں کوئی نہ کوئی لڑکی یا عورت اپنے کسی جاننے والے یا رشتے دار کے ہاتھوں قتل ہوتی ہے۔
عالمی ادارہِ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) نے سن دو ہزار سے دو ہزار اٹھارہ تک کے عرصے میں ایک سو اکسٹھ ممالک میں لیے گئے تفصیلی جائزے کی روشنی میں نتیجہ اخذ کیا کہ پندرہ سے پچاس برس کی عمر کے دائرے میں آنے والی ہر تین میں سے ایک عورت زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر اپنے ساتھی یا شوہر کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کے تجربے سے کم ازکم ایک بار ضرور گذرتی ہے۔
اس بابت ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک یا سماج کی کوئی تمیز نہیں۔امریکا اور یورپ کی بائیس فیصد اور باقی خطوں کی پچیس تا تینتیس فیصد خواتین اپنے قرابت داروں بالخصوص ساتھی یا شوہر کے ہاتھوں جسمانی تشدد کا نشانہ بنی ہیں۔
جتنی خواتین قتل ہوتی ہیں ان میں سے اڑتیس فیصد اپنے شوہر یا ساتھی کے ہاتھوں ہوتی ہیں۔جو خواتین جنسی حملوں کا نشانہ بنتی ہیں ان میں سے محض چھ فیصد کسی اجنبی کے ہاتھوں اس تجربے سے گذرتی ہیں۔
اس رجحان میں کمی نہ ہونے کے متعدد اسباب ہیں۔جیسے پیٹنے اور پٹنے والے کا یا ان دو میں سے کسی ایک کا ناخواندہ ہونا۔بچپن میں بدسلوکی دیکھنے یا بد سلوکی کا نشانہ بننے کا نفسیات پر نقش کوئی ذاتی تجربہ ، پرسنلٹی ڈس آرڈر ، شراب و منشیات کی لت ، تشدد کے کسی بھی عمل کی بازپرس یا جوابدہی سے مبرا رہنے کا تجربہ ، جا بے جا مردانگی یا صنفی احساس ِ برتری جتانے یا دکھانے کی خواہش ، مرد کو بالا دست اور عورت کو کمتر درجہ دینے والی سماجی سوچ ، عورت کا معاشی دستِ نگر ہونا یا ریاستی سطح پر صنفی تشدد کے خلاف ناکافی یا ناقص قانون سازی یا اس پر نامکمل عمل درآمد وغیرہ وغیرہ۔
صنفی تشدد محض ایک واقعہ نہیں ہوتا بلکہ اس ایک واقعہ سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔اس کے سبب جو گھٹن ، مایوسی یا غصہ جنم لیتا ہے وہ انتقام ، خود کشی اور قتل سمیت کوئی بھی سنگین رخ اختیار کر سکتا ہے۔
بیالیس فیصد خواتین صنفی تشدد کے سبب اندرونی یا بیرونی چوٹوں کا بھی شکار ہوتی ہیں۔اس کے سبب اسقاطِ حمل کا خطرہ دوگنا اور بچے کی قبل از وقت پیدائش کا خطرہ اکتالیس فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔کم وزن اور کم ذہن بچوں کی پیدائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جسمانی و جنسی تشدد کے سبب خواتین میں جنسی بیماریوں کا پھیلاؤ ڈیڑھ گنا زائد ہو سکتا ہے۔
صنفی تشدد کے سبب مسلسل اعصابی تناؤ اور اس کے نتیجے میں نفسیاتی پیچیدگیاں ، کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمولات میں گڑبڑ ، مسلسل جسمانی کھنچاؤ ، سر یا جسم کے دیگر حصوں میں درد ، بلڈ پریشر اور شوگر کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں یا بڑھ سکتے ہیں۔
یہ سب مل ملا کے بچوں کی نشوونما، نفسیات اور مسلسل عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ اگلی پیڑھی میں منتقل ہوتے جاتے ہیں۔بچوں میں بھی بڑوں کی دیکھا دیکھی پرتشدد رویہ پروان چڑھتا ہے جو ان کی تعلیم، صحت ، تعلقات اور ذہنی ترقی پر بری طرح اثر انداز ہو سکتا ہے۔ان کی بھوک متاثر ہوتی ہے۔ان میں الگ تھلگ رہنے کی عادت پیدا ہو سکتی ہے اور قریبی رشتوں پر ان کا اعتبار اور اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے۔
گویا صنفی تشدد محض دو افراد کا نجی معاملہ نہیں ہوتا بلکہ اردگرد کے ماحول اور رشتوں کو بھی دبے پاؤں اپنی لپپٹ میں لے لیتا ہے۔لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کو معلوم ہونا چاہیے کہ صنفی تشدد کی منفی لہریں دور دور تک اپنے اثرات چھوڑتی ہیں۔یعنی فوری اشتعال یا وقتی غصہ بھی سو گنا خراج لیے بغیر نہیں ٹلتا۔
اب ہمیں طے کرنا ہے کہ غصہ اور اشتعال ہم پر سوار رہیں گے یا ہمارے مطیع ہوں گے۔ اشتعال اور غصہ دوسرے کو راکھ کرنے سے پہلے خود آپ کو بھسم کر دیتا ہے۔یہ بات جتنی جلد سمجھ میں آ جائے اتنا ہی تشدد کرنے والے اور تشدد کا شکار ہونے والے کے لیے بہتر ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
ان سے کہیں زیادہ واقعات بدنامی ، شرمندگی ، کسی نہ کسی کی ناراضی یا دباؤ کے سبب پوشیدہ رہ جاتے ہیں۔خواتین پر تشدد محض مارپیٹ، ریپ ، پسند کی شادی ، شک یا غیرت کے نام پر قتل کا نام نہیں۔بلکہ اس کی تعریف بہت وسیع ہے۔
اس دائرے میں جنسی امتیاز کی بنیاد پر حمل ضایع کرنے یا کروانے سے لے کر کم سن بچیوں کی جبری شادی، جنسی ہراسانی ، راہ چلتے توہین آمیز فقرے بازی یا جسم کو چھونا، خاموش تعاقب ، سائبر ہراسانی و بلیک میلنگ ، خواتین کی ختنہ یا رسم و رواج یا سزا کے نام پر ان کے اعضا بگاڑنا ، جسمانی غلامی یا جسم فروشی کی خاطر انسانی اسمگلنگ سمیت کئی قانونی و اخلاقی جرائم اور زیادتیاں صنفی تشدد کی تعریف میں شامل ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انیس سو ترانوے میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے بعد جو تعریف مرتب کی اس کے مطابق '' صنفی تشدد کی کوئی بھی شکل جس کا نتیجہ جسمانی ، جنسی ، نفسیاتی نقصان کی شکل میں نکلے اور جبر ، یکطرفہ دباؤ اور نجی و اجتماعی زندگی کی طے شدہ بنیادی انسانی آزادیوں اور حقوق کو محدود یا پابند کرنے کا سبب بنے۔ صنفی تشدد کہلاتا ہے ''۔
تشدد کی ان تمام اقسام کا اثر زندگی کے ہر مرحلے پر محسوس ہوتا ہے اور انسانی صلاحیتوں کی فطری نشو و نما کی راہ میں ایک رکاوٹ بنتا ہے۔
مثلاً لڑکیوں کو اگر ابتدائی تعلیم حاصل کرنے سے روکا جائے تو اس ایک بنیادی حق کو محدود پا پابند کرنے کے نتیجے میں اس لڑکی پر اعلیٰ تعلیم اور اس تعلیم کے مادی و سماجی و عائلی ثمرات تک رسائی کے دروازے خود بخود بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔گویا کسی ایک بنیادی حق کی محرومی متعدد حقوق کی محرومی کا سبب بن جاتی ہے۔
اگرچہ صنفی تشدد کی کسی بھی شکل کا نشانہ کوئی بھی کہیں بھی کسی بھی وقت بن سکتا ہے۔مگر اس کا زیادہ تر ہدف نوعمر ، گھریلو ، ضعیف یا ذہنی و جسمانی معذور یا پناہ گزین یا متبادل جنسی رجہانات کی حامل خواتین بنتی ہیں۔صنفی تشدد ایک مساوی اور ترقی یافتہ سماج کی تشکیل میں حائل بنیادی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔چنانچہ ہر فرد اور ریاست کو اس بارے میں اپنے فرائض اور اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے آگاہ اور متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریز کے مطابق اس دنیا میں ہر گیارہویں منٹ میں کوئی نہ کوئی لڑکی یا عورت اپنے کسی جاننے والے یا رشتے دار کے ہاتھوں قتل ہوتی ہے۔
عالمی ادارہِ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) نے سن دو ہزار سے دو ہزار اٹھارہ تک کے عرصے میں ایک سو اکسٹھ ممالک میں لیے گئے تفصیلی جائزے کی روشنی میں نتیجہ اخذ کیا کہ پندرہ سے پچاس برس کی عمر کے دائرے میں آنے والی ہر تین میں سے ایک عورت زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر اپنے ساتھی یا شوہر کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کے تجربے سے کم ازکم ایک بار ضرور گذرتی ہے۔
اس بابت ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک یا سماج کی کوئی تمیز نہیں۔امریکا اور یورپ کی بائیس فیصد اور باقی خطوں کی پچیس تا تینتیس فیصد خواتین اپنے قرابت داروں بالخصوص ساتھی یا شوہر کے ہاتھوں جسمانی تشدد کا نشانہ بنی ہیں۔
جتنی خواتین قتل ہوتی ہیں ان میں سے اڑتیس فیصد اپنے شوہر یا ساتھی کے ہاتھوں ہوتی ہیں۔جو خواتین جنسی حملوں کا نشانہ بنتی ہیں ان میں سے محض چھ فیصد کسی اجنبی کے ہاتھوں اس تجربے سے گذرتی ہیں۔
اس رجحان میں کمی نہ ہونے کے متعدد اسباب ہیں۔جیسے پیٹنے اور پٹنے والے کا یا ان دو میں سے کسی ایک کا ناخواندہ ہونا۔بچپن میں بدسلوکی دیکھنے یا بد سلوکی کا نشانہ بننے کا نفسیات پر نقش کوئی ذاتی تجربہ ، پرسنلٹی ڈس آرڈر ، شراب و منشیات کی لت ، تشدد کے کسی بھی عمل کی بازپرس یا جوابدہی سے مبرا رہنے کا تجربہ ، جا بے جا مردانگی یا صنفی احساس ِ برتری جتانے یا دکھانے کی خواہش ، مرد کو بالا دست اور عورت کو کمتر درجہ دینے والی سماجی سوچ ، عورت کا معاشی دستِ نگر ہونا یا ریاستی سطح پر صنفی تشدد کے خلاف ناکافی یا ناقص قانون سازی یا اس پر نامکمل عمل درآمد وغیرہ وغیرہ۔
صنفی تشدد محض ایک واقعہ نہیں ہوتا بلکہ اس ایک واقعہ سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔اس کے سبب جو گھٹن ، مایوسی یا غصہ جنم لیتا ہے وہ انتقام ، خود کشی اور قتل سمیت کوئی بھی سنگین رخ اختیار کر سکتا ہے۔
بیالیس فیصد خواتین صنفی تشدد کے سبب اندرونی یا بیرونی چوٹوں کا بھی شکار ہوتی ہیں۔اس کے سبب اسقاطِ حمل کا خطرہ دوگنا اور بچے کی قبل از وقت پیدائش کا خطرہ اکتالیس فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔کم وزن اور کم ذہن بچوں کی پیدائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جسمانی و جنسی تشدد کے سبب خواتین میں جنسی بیماریوں کا پھیلاؤ ڈیڑھ گنا زائد ہو سکتا ہے۔
صنفی تشدد کے سبب مسلسل اعصابی تناؤ اور اس کے نتیجے میں نفسیاتی پیچیدگیاں ، کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمولات میں گڑبڑ ، مسلسل جسمانی کھنچاؤ ، سر یا جسم کے دیگر حصوں میں درد ، بلڈ پریشر اور شوگر کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں یا بڑھ سکتے ہیں۔
یہ سب مل ملا کے بچوں کی نشوونما، نفسیات اور مسلسل عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ اگلی پیڑھی میں منتقل ہوتے جاتے ہیں۔بچوں میں بھی بڑوں کی دیکھا دیکھی پرتشدد رویہ پروان چڑھتا ہے جو ان کی تعلیم، صحت ، تعلقات اور ذہنی ترقی پر بری طرح اثر انداز ہو سکتا ہے۔ان کی بھوک متاثر ہوتی ہے۔ان میں الگ تھلگ رہنے کی عادت پیدا ہو سکتی ہے اور قریبی رشتوں پر ان کا اعتبار اور اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے۔
گویا صنفی تشدد محض دو افراد کا نجی معاملہ نہیں ہوتا بلکہ اردگرد کے ماحول اور رشتوں کو بھی دبے پاؤں اپنی لپپٹ میں لے لیتا ہے۔لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کو معلوم ہونا چاہیے کہ صنفی تشدد کی منفی لہریں دور دور تک اپنے اثرات چھوڑتی ہیں۔یعنی فوری اشتعال یا وقتی غصہ بھی سو گنا خراج لیے بغیر نہیں ٹلتا۔
اب ہمیں طے کرنا ہے کہ غصہ اور اشتعال ہم پر سوار رہیں گے یا ہمارے مطیع ہوں گے۔ اشتعال اور غصہ دوسرے کو راکھ کرنے سے پہلے خود آپ کو بھسم کر دیتا ہے۔یہ بات جتنی جلد سمجھ میں آ جائے اتنا ہی تشدد کرنے والے اور تشدد کا شکار ہونے والے کے لیے بہتر ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)