’’ چاول کا بحران‘‘ برآمدات میں 40 فیصد کمی کا خدشہ
سندھ میں سیلاب سے40 فیصد چاول ضائع، موسمی تبدیلی،مہنگی بجلی،پیداواری لاگت بڑھنا بحران کی وجوہات قرار
موسمی اثرات، مہنگی بجلی، ناموافق پالیسیوں اور ریسرچ کے فقدان کی وجہ سے پاکستان کی 2.5 ارب ڈالر مالیتی چاول کی صنعت بحران کا شکار ہوگئی جب کہ ایکسپورٹ میں کمی کے ساتھ مقامی سطح پر بھی چاول کی پیداوار میں کمی ہوجانے سے فوڈ سیکوریٹی کا مسئلہ سر اٹھانے لگا۔
سندھ میں سیلاب سے چاول کی فصل کو پہنچنے والے شدید نقصان کے باعث رواں سال چاول کی ایکسپورٹ 40 فیصد تک کم رہنے کا خدشہ ہے جس سے ملک 500 ملین ڈالر سے زائد زرمبادلہ سے محروم ہوسکتا ہے۔
چاول کی صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس دوسرے بڑے ایکسپورٹ سیکٹر کو نظرانداز کیے جانے سے آنے والے عرصہ میں برآمدات کے علاوہ پاکستان کی فوڈ سیکورٹی بھی متاثر ہوگی۔
گزشتہ سال پاکستان میں چاول کی 8 ملین ٹن پیداوار ریکارڈ کی گئی جس میں سے 4.8 ملین ٹن کی ایکسپورٹ کے ذریعے 2.5 ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کیا گیا۔ رواں سیزن کے دوران سندھ میں چاول کی فصل ضایع ہونے، توانائی کے بحران، بلند پیداواری لاگت اور شرح مبادلہ کے بارے میں بے یقینی سے چاول کی برآمدات 2 ارب ڈالر سے بھی کم رہنے کا خدشہ ہے۔
سندھ کا ''اری'' چاول زیادہ تر ایکسپورٹ کیا جاتا ہے اور مقامی فیڈ ملوں کے استعمال میں لایا جاتا ہے جبکہ پنجاب میں کاشت ہونے والا زیادہ تر باسمتی چاول مقامی سطح پر استعمال کیا جاتا ہے جس کی لوکل کھپت میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کیولانی رام چیلا کے مطابق پاکستان کی چاول کی صنعت اس وقت تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ ایک جانب موسمی تبدیلی کے اثرات، بارشوں اور سیلاب نے پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے سندھ میں کاشت ہونے والا 40 فیصد سے زائد چاول ضایع ہوگیا، چاول کی کاشت کے اہم علاقے میہڑ، لاڑکانہ اور دادو اب بھی زیرآب ہیں۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے دعوے کے مطابق ڈالر کی قیمت 200 روپے پر آنے کے امکانات نے ایکسپورٹرز کو مقامی سطح پر مہنگے داموں چاول کی خریداری اور ایکسپورٹ آرڈرز بک کرنے سے روکا ہوا ہے۔توانائی کا بحران بھی رائس انڈسٹری کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن وفاقی حکومت کو اپنے خدشات اور چاول کی ایکسپورٹ سمیت مقامی سطح پر فوڈ سیکیورٹی کے ممکنہ مسائل کے بارے میں آگاہ کرچکی ہے، تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے تاحال اس مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
انہوں نے تجویز دی کہ کپاس، گندم، چاول، مکئی سمیت اہم اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لیے ماہرین اور ان شعبوں کے تجربہ کار افراد پر مشتمل مشاورتی بورڈ تشکیل دیئے جائیں تاکہ خوراک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے ساتھ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی طلب سے فوائد اٹھانے کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کی جاسکے۔
سندھ کی 1200کے لگ بھگ چھوٹی اور بڑی رائس ملیں جو ایکسپورٹرز کو چاول مہیا کرتی ہیں، ان میں سے پچاس فیصد کے قریب بند ہوچکی ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید ملیں بھی بند ہوجانے کا خدشہ ہے جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ چاول کی صنعت پیداوار نہ ہونے کی وجہ سے بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود منظور شدہ لوڈ کا 50فیصد فکسڈ ٹیکس ادا کرنے کی پابند ہے جس سے یہ شعبہ سرمائے کی قلت کا شکار ہورہا ہے۔
سندھ میں سیلاب سے چاول کی فصل کو پہنچنے والے شدید نقصان کے باعث رواں سال چاول کی ایکسپورٹ 40 فیصد تک کم رہنے کا خدشہ ہے جس سے ملک 500 ملین ڈالر سے زائد زرمبادلہ سے محروم ہوسکتا ہے۔
چاول کی صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس دوسرے بڑے ایکسپورٹ سیکٹر کو نظرانداز کیے جانے سے آنے والے عرصہ میں برآمدات کے علاوہ پاکستان کی فوڈ سیکورٹی بھی متاثر ہوگی۔
گزشتہ سال پاکستان میں چاول کی 8 ملین ٹن پیداوار ریکارڈ کی گئی جس میں سے 4.8 ملین ٹن کی ایکسپورٹ کے ذریعے 2.5 ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کیا گیا۔ رواں سیزن کے دوران سندھ میں چاول کی فصل ضایع ہونے، توانائی کے بحران، بلند پیداواری لاگت اور شرح مبادلہ کے بارے میں بے یقینی سے چاول کی برآمدات 2 ارب ڈالر سے بھی کم رہنے کا خدشہ ہے۔
سندھ کا ''اری'' چاول زیادہ تر ایکسپورٹ کیا جاتا ہے اور مقامی فیڈ ملوں کے استعمال میں لایا جاتا ہے جبکہ پنجاب میں کاشت ہونے والا زیادہ تر باسمتی چاول مقامی سطح پر استعمال کیا جاتا ہے جس کی لوکل کھپت میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کیولانی رام چیلا کے مطابق پاکستان کی چاول کی صنعت اس وقت تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ ایک جانب موسمی تبدیلی کے اثرات، بارشوں اور سیلاب نے پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے سندھ میں کاشت ہونے والا 40 فیصد سے زائد چاول ضایع ہوگیا، چاول کی کاشت کے اہم علاقے میہڑ، لاڑکانہ اور دادو اب بھی زیرآب ہیں۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے دعوے کے مطابق ڈالر کی قیمت 200 روپے پر آنے کے امکانات نے ایکسپورٹرز کو مقامی سطح پر مہنگے داموں چاول کی خریداری اور ایکسپورٹ آرڈرز بک کرنے سے روکا ہوا ہے۔توانائی کا بحران بھی رائس انڈسٹری کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن وفاقی حکومت کو اپنے خدشات اور چاول کی ایکسپورٹ سمیت مقامی سطح پر فوڈ سیکیورٹی کے ممکنہ مسائل کے بارے میں آگاہ کرچکی ہے، تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے تاحال اس مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
انہوں نے تجویز دی کہ کپاس، گندم، چاول، مکئی سمیت اہم اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لیے ماہرین اور ان شعبوں کے تجربہ کار افراد پر مشتمل مشاورتی بورڈ تشکیل دیئے جائیں تاکہ خوراک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے ساتھ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی طلب سے فوائد اٹھانے کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کی جاسکے۔
سندھ کی 1200کے لگ بھگ چھوٹی اور بڑی رائس ملیں جو ایکسپورٹرز کو چاول مہیا کرتی ہیں، ان میں سے پچاس فیصد کے قریب بند ہوچکی ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید ملیں بھی بند ہوجانے کا خدشہ ہے جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ چاول کی صنعت پیداوار نہ ہونے کی وجہ سے بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود منظور شدہ لوڈ کا 50فیصد فکسڈ ٹیکس ادا کرنے کی پابند ہے جس سے یہ شعبہ سرمائے کی قلت کا شکار ہورہا ہے۔