مہنگائی نے غیر مسلموں کی آخری رسومات بھی مشکل بنادیں
تجہیزوتکفین اورآخری رسومات کی ادائیگی کا خرچ 50ہزار سے 1 لاکھ روپے تک ہے،مسیحی سماجی کارکن
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غیر مسلموں کیلئے آخری رسومات کی ادائیگی بھی مشکل بنادی ہے۔
پاکستان میں مسلمانوں کی طرح غیرمسلموں کوبھی اپنے پیاروں کی تجہیزوتکفین اورآخری رسومات کی ادائیگی پر بھاری اخراجات برداشت کرناپڑتے ہیں جس پر50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک خرچ آتے ہیں۔
غیرمسلم شہریوں کے مطابق مہنگائی اس قدربڑھ چکی ہے کہ مرنے والوں کی آخری رسومات اداکرنا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔
مسیحی سماجی کارکن کاشف کا کہنا ہے کے یہاں عام طورپر میت کو تابوت میں رکھ کردفن دیا کیاجاتا ہے،مقامی سطح پرتیارکیا جانیوالاتابوت 8 سے 10 ہزار روپے میں ملتا ہے جبکہ بہترین لکڑی سے تیارکئے گئے غیرملکی تابوت 50 ہزارسے لیکردولاکھ روپے تک میں ملتے ہیں۔
اس کے علاوہ کفن کاکپڑا، خوشبو،پھول ،ان سے بڑھ کر گوراقبرستان میں قبرکی فیس 20 سے 25 ہزار روپے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک مسیحی کی تجہیزوتکفین پرایک لاکھ روپے تک خرچ ہوجاتے ہیں۔ فوتگی پراظہارتعزیت کے لئے آنیوالے رشتہ داروں اوردوست احباب کے کھانے کے اخراجات بھی شامل کرلئے جائیں توپھر ہرشخص کے سماجی رتبے ،خاندان اورتعلقات پرمنحصر ہے کہ وہ کس قدرخرچ کرتا ہے۔
مسیحی برادری کے علاوہ پاکستان میں بڑی تعداد میں سکھ اورہندوبھی آباد ہیں۔ان دونوں مذاہب کے یہاں کم عمربچوں کی توتدفین ہی کی جاتی ہے تاہم 12 سال سے بڑی عمرمیں فوت ہونیوالوں کی چتاجلائی جاتی ہے۔
لاہور میں سکھ اورہندوبرادری کے لئے دریائے راوی کے قریب بابوصابو کے علاقہ میں الگ الگ شمشان گھاٹ بنے ہوئے ہیں ۔ سکھوں کے شمشان گھاٹ میں آج تک کسی فوت ہوجانیوالے سکھ کی چتانہیں جلائی گئی تاہم ہندوشمشان گھاٹ میں کئی میتیوں کی آخری رسومات اداکی جاچکی ہیں۔
سکھ رہنما سرداربشن سنگھ نے بتایا کہ لاہورمیں پہلے صرف ان کا ہی خاندان آباد تھا۔ان کے والد سمیت خاندان کوجودیگربزرگ فوت ہوئے ان کی آخری رسومات گوردوارہ جنم استھان ننکانہ صاحب میں ادا کی گئی تھیں تاہم اب لاہورمیں سکھوں کے 50 سے زیادہ گھرہیں جبکہ ہندوبرادری کے بھی کم وبیش 100 کے قریب گھرہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ چتاجلانے کے لئے کم وبیش 10 سے 15 من لکڑی درکارہوتی ہے اوراس وقت لکڑی ایک ہزارروپے من ہے۔ اس کے لئے دیسی گھی اورخوشبو وغیرہ پراخراجات آتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سکھوں اورہندوؤں میں جب کوئی فوت ہوتا ہے تو پرشادبھی تقسیم کیاجاتا ہے جو آخری رسومات کا حصہ ہے۔اس طرح آخری رسومات پرکم وبیش 50 سے 60 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔
پاکستان میں بسنے والی ہندوبرادری دنیا سے رخصت ہونیوالے اپنے پیاروں کی چتا کے بعد راکھ کو قریبی دریااورنہرمیں بہادیتی ہے تاہم بعض لوگ اپنےپیاروں کی چندہڈیاں اورراکھ مٹی کے کوزے میں بندکرکے ہمسایہ ملک انڈیا بھیجتے ہیں جہاں انہیں گنگا میں بہادیا جاتا ہے۔
لاہورکےکرشنامندر کے پجاری کاشی رام کہتے ہیں ہندوعقیدے کے مطابق انسانی جسم پانچ چیزوں سے بنا ہے مٹی، پانی، آگ، ہوا اور آکاش (آسمان)۔ وہ کہتے ہیں ' انسانی جسم کو ان پانچ چیزوں سے بنا کر دنیا میں بھیجا گیا۔ مگرجب انسان کی موت ہوتی ہے تب ان چیزوں کو اپنی اصلیت کی طرف لوٹنا پڑتا ہے۔
آل پاکستان ہندوپنچائیت کے سیکرٹری روی دوانی کے مطابق '' ہندو اپنے مردوں کو جلاتے ہیں تاہم اگرکوئی بچہ شیرخواری میں فوت جائے، یاکسی کی آگ میں جلنے سے موت ہوجاتی ہے یا پھر کسی ہندو بچے کی جنیا کی رسم( ہندومذہب کے بنیادی عقائد سے آگاہی اورمذہب قبول کرنے کی رسم) اداکرنے سے قبل موت ہوجائے توایسے بچوں کو میت کو دریامیں بہادیا جاتا ہے لیکن ہندوؤں کی بعض ذاتوں میں دریامیں بہانے کی بجائے قبربنانے کا بھی رواج ہے۔
روی دوانی نے بتایا لکڑیاں مہنگی ہونے کی وجہ سے بھی بعض انتہائی غریب ہندوؤں کے یہاں اگنی سنسکارکی بجائے دفنانے اوردریامیں بہانے کا رواج ہے۔
پاکستان میں مسلمانوں کی طرح غیرمسلموں کوبھی اپنے پیاروں کی تجہیزوتکفین اورآخری رسومات کی ادائیگی پر بھاری اخراجات برداشت کرناپڑتے ہیں جس پر50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک خرچ آتے ہیں۔
غیرمسلم شہریوں کے مطابق مہنگائی اس قدربڑھ چکی ہے کہ مرنے والوں کی آخری رسومات اداکرنا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔
مسیحی سماجی کارکن کاشف کا کہنا ہے کے یہاں عام طورپر میت کو تابوت میں رکھ کردفن دیا کیاجاتا ہے،مقامی سطح پرتیارکیا جانیوالاتابوت 8 سے 10 ہزار روپے میں ملتا ہے جبکہ بہترین لکڑی سے تیارکئے گئے غیرملکی تابوت 50 ہزارسے لیکردولاکھ روپے تک میں ملتے ہیں۔
اس کے علاوہ کفن کاکپڑا، خوشبو،پھول ،ان سے بڑھ کر گوراقبرستان میں قبرکی فیس 20 سے 25 ہزار روپے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک مسیحی کی تجہیزوتکفین پرایک لاکھ روپے تک خرچ ہوجاتے ہیں۔ فوتگی پراظہارتعزیت کے لئے آنیوالے رشتہ داروں اوردوست احباب کے کھانے کے اخراجات بھی شامل کرلئے جائیں توپھر ہرشخص کے سماجی رتبے ،خاندان اورتعلقات پرمنحصر ہے کہ وہ کس قدرخرچ کرتا ہے۔
مسیحی برادری کے علاوہ پاکستان میں بڑی تعداد میں سکھ اورہندوبھی آباد ہیں۔ان دونوں مذاہب کے یہاں کم عمربچوں کی توتدفین ہی کی جاتی ہے تاہم 12 سال سے بڑی عمرمیں فوت ہونیوالوں کی چتاجلائی جاتی ہے۔
لاہور میں سکھ اورہندوبرادری کے لئے دریائے راوی کے قریب بابوصابو کے علاقہ میں الگ الگ شمشان گھاٹ بنے ہوئے ہیں ۔ سکھوں کے شمشان گھاٹ میں آج تک کسی فوت ہوجانیوالے سکھ کی چتانہیں جلائی گئی تاہم ہندوشمشان گھاٹ میں کئی میتیوں کی آخری رسومات اداکی جاچکی ہیں۔
سکھ رہنما سرداربشن سنگھ نے بتایا کہ لاہورمیں پہلے صرف ان کا ہی خاندان آباد تھا۔ان کے والد سمیت خاندان کوجودیگربزرگ فوت ہوئے ان کی آخری رسومات گوردوارہ جنم استھان ننکانہ صاحب میں ادا کی گئی تھیں تاہم اب لاہورمیں سکھوں کے 50 سے زیادہ گھرہیں جبکہ ہندوبرادری کے بھی کم وبیش 100 کے قریب گھرہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ چتاجلانے کے لئے کم وبیش 10 سے 15 من لکڑی درکارہوتی ہے اوراس وقت لکڑی ایک ہزارروپے من ہے۔ اس کے لئے دیسی گھی اورخوشبو وغیرہ پراخراجات آتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سکھوں اورہندوؤں میں جب کوئی فوت ہوتا ہے تو پرشادبھی تقسیم کیاجاتا ہے جو آخری رسومات کا حصہ ہے۔اس طرح آخری رسومات پرکم وبیش 50 سے 60 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔
پاکستان میں بسنے والی ہندوبرادری دنیا سے رخصت ہونیوالے اپنے پیاروں کی چتا کے بعد راکھ کو قریبی دریااورنہرمیں بہادیتی ہے تاہم بعض لوگ اپنےپیاروں کی چندہڈیاں اورراکھ مٹی کے کوزے میں بندکرکے ہمسایہ ملک انڈیا بھیجتے ہیں جہاں انہیں گنگا میں بہادیا جاتا ہے۔
لاہورکےکرشنامندر کے پجاری کاشی رام کہتے ہیں ہندوعقیدے کے مطابق انسانی جسم پانچ چیزوں سے بنا ہے مٹی، پانی، آگ، ہوا اور آکاش (آسمان)۔ وہ کہتے ہیں ' انسانی جسم کو ان پانچ چیزوں سے بنا کر دنیا میں بھیجا گیا۔ مگرجب انسان کی موت ہوتی ہے تب ان چیزوں کو اپنی اصلیت کی طرف لوٹنا پڑتا ہے۔
آل پاکستان ہندوپنچائیت کے سیکرٹری روی دوانی کے مطابق '' ہندو اپنے مردوں کو جلاتے ہیں تاہم اگرکوئی بچہ شیرخواری میں فوت جائے، یاکسی کی آگ میں جلنے سے موت ہوجاتی ہے یا پھر کسی ہندو بچے کی جنیا کی رسم( ہندومذہب کے بنیادی عقائد سے آگاہی اورمذہب قبول کرنے کی رسم) اداکرنے سے قبل موت ہوجائے توایسے بچوں کو میت کو دریامیں بہادیا جاتا ہے لیکن ہندوؤں کی بعض ذاتوں میں دریامیں بہانے کی بجائے قبربنانے کا بھی رواج ہے۔
روی دوانی نے بتایا لکڑیاں مہنگی ہونے کی وجہ سے بھی بعض انتہائی غریب ہندوؤں کے یہاں اگنی سنسکارکی بجائے دفنانے اوردریامیں بہانے کا رواج ہے۔