وزیراعظم کے صائب خیالات
وزیراعظم شہباز شریف جہاندیدہ ، زیرک اور دور اندیش سیاست دان ہیں، عالمی امور پر ان کی دسترس قابل رشک ہے
ترک خبر رساں ادارے '' انا طولیہ ایجنسی'' کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آیندہ انتخابات اپنے وقت پر اور اگست 2023ء کے بعد ہونگے، موجودہ حکومت آئینی عمل کے نتیجے میں وجود میں آئی اور اسے عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے۔
پاک، ترکیہ تعلقات کو مثالی قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مشترکہ چیلنجز اور ابھرتے ہوئے خطرات کا سامنا کرتے ہوئے دونوں ممالک کو مشترکہ تحقیق اور وسائل کو یکجا کر کے گہری شراکت داری کے ذریعے ملکر کام کرنا چاہیے ، ہم بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف جہاندیدہ ، زیرک اور دور اندیش سیاست دان ہیں، عالمی امور پر ان کی دسترس قابل رشک ہے، ترکیہ کے خبر رساں ادارے کو دوران انٹرویو عالمی امور اور علاقائی معاملات پر انتہائی مثبت اور دانشمندانہ انداز میں اپنے صائب خیالات کا اظہار کیا۔
سب سے اہم بات ہمارے لیے ملک میں سیاسی استحکام اور معیشت کی بحالی کے حوالے سے ہے، وزیراعظم نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ملک میں عام انتخابات مقررہ وقت پر ہونگے ، کیونکہ یہی وہ واحد نقطہ ہے جس پر معیشت کی بحالی کے لیے موجودہ حکومت کے جاری اقدامات اور کاوشیں رنگ لاسکتی ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف دوست ممالک کا اعتماد بحال کرکے بیرونی وسیع سرمایہ کاری کے ذریعے ملکی معیشت کو گرداب سے نکالنے کے لیے خلوص نیت سے کوشش کر رہے ہیں ، قوم توقع کرتی ہے کہ جلد ملکی معیشت کی بحالی ممکن ہوسکے گی، لیکن دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان مسلسل ایسے اعلانات کر رہے ہیں جس نے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا اور تاثر بدستور قائم کیے ہیں، گزشتہ روز انھوں نے استعفیٰ دینے اور صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی دھمکی دی ہے۔
ان سطور کے ذریعے عمران خان سے مودبانہ درخواست ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ احتجاجی اور تخریبی سیاست کی روش ترک کر کے تعمیری اور مثبت سیاست کا راستہ اختیار کریں تو یہ ملک کے مفاد میں زیادہ بہتر ہوگا۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا یک محوریت سے مختلف علاقائی، تجارتی اور اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں بدل رہی ہے، ترکی اور پاکستان دو اہم ممالک ہیں۔ پاکستان جغرافیائی طور پر جنوبی ایشیا کا اہم ترین ملک اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اور مسلم دنیا کی طاقتور ترین وار مشینری رکھنے والا ملک ہے۔
اس خطے میں پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ایک سنگم کی سی ہے جو جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے دہانے پر بدلتی دنیا میں نیا کردار حاصل کررہا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ تعلقات اور چین کا بڑھتا ہوا عالمی کردار اِن تعلقات کو اور بھی بڑھا رہا ہے۔
ایسے ہی ترکی مشرقِ وسطیٰ کا ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ملک ہے۔ تعلیم، ٹیکنالوجی اور مضبوط معیشت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بعد دوسری اہم وار مشینری رکھنے والا، نیٹو کا دوسرا بڑا حصہ دار ہے۔ لہٰذا ان دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات اب اس بدلتی دنیا میں ایک نیا علاقائی اور عالمی توازن بنانے میں نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔
اگر ہم اس سارے خطے پر سرسری نگاہ دوڑائیں تو اس خطے میں اہم ترین ممالک میں چین، روس، بھارت، پاکستان اور ترکی یک محوریت سے ملٹی پولر دنیا میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے جا رہے ہیں۔
اس میں ترکی اور پاکستان تقریباً تمام علاقائی اور عالمی معاملات میں ایک صف میں کھڑے ہیں۔ دونوں ممالک کے یہ آئیڈیل تعلقات درحقیقت ایک فطری اتحادی کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
اگر افغانستان کے مسئلے میں ترکی اپنے ازبک نسلی تعلقات کے حوالے سے اور نیٹو کا رکن ہونے کے ناتے ایک خاص سیاسی مقام رکھتا ہے تو اسی طرح افغانستان، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین ستون ہے۔
9/11 کے بعد ترکی اور پاکستان، افغانستان کے مسئلے پر ایک دوست اور اتحادی کے طور پر بیشتر معاملات میں ایک موقف پر رہے اور ہم نے دیکھا دونوں دوست ممالک افغانستان میں عالمی طاقتوں کی حکمت عملی کے علاوہ اپنے طور پر بھی مصروفِ کار ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک بڑی عالمی طاقتوں کے علاوہ بھی کئی علاقائی اور عالمی معاملات کو سلجھانے میں کوشاں ہیں۔
ترکی اور پاکستان متعدد شعبوں میں شریکِ کار ہیں خصوصاً دفاعی حوالے سے، لیکن ان گہرے تعلقات سے ہم مزید فوائد بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ خصوصاً تعلیم، صحت، صنعت، تجارت اور زراعت کے شعبوں میں۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان کی زراعت کو جدید بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے ترکی کی زرعی ترقی و صنعت سازی سے مستفید ہوا جا سکتا ہے اور اسی طرح تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں بھی۔
اگر ہمارے پالیسی ساز، درج بالا شعبوں میں، ایک دوسرے سے تیز رفتاری سے تعاون بڑھائیں تو پاکستان اس منزل کو چند سالوں میں چھو سکتا ہے جس کا خواب ہر پاکستانی دیکھتا ہے، یعنی ایک جدید تعلیم یافتہ، صنعتی اور مضبوط معیشت رکھنے والا ملک۔ ضرورت صرف سنجیدگی اور فیصلہ کرنے کی ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے ان شعبوں میں تعاون کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے جو ہماری حکومت کے ایجنڈے میں زیادہ نمایاں نہیں، یعنی تعلیم، ٹیکنالوجی، علمی و ادبی تحقیق، زراعت اور صنعت۔ اور اسی طرح ہم ترکوں کے ساتھ متعدد شعبوں میں اپنے تجربات شیئر کرسکتے ہیں، خصوصاً اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹرز اور آئی ٹی کے شعبے میں۔ اگر دونوں ممالک میں اہل فکر و دانش سے متعلق لوگوں کاExchange پروگرام شروع کر دیا جائے تو دونوں ممالک جلد ہی اس مقام پر پہنچ سکتے ہیں جس سے یہ اہم مسلم ریاستیں دیگر مسلم دنیا کی رہنمائی کرسکتی ہیں۔
دوران انٹرویو شہباز شریف نے مزید کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی سب کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی پر مبنی ہے۔ ہم بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں ، تاہم تجارتی تعلقات کی بحالی اور تعلقات کو مکمل معمول پر لانے کے لیے بھارت کو 5 اگست 2019 کے اپنے اقدامات کو واپس لینا ہوگا۔ بلاشبہ اب گیند بھارت کے کورٹ میں ہے کہ وہ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کی مثبت پیش رفت کا کس انداز میں جواب دیتا ہے۔
پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ '' امریکا کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ اور وسیع البنیاد تعلقات ہیں اور ان تعلقات کو گہرا اور وسیع کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔'' جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت روس یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا ایک بار پھر دو کیمپوں میں منقسم ہو چکی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو کسی ایک طرف جھکاؤ نہیں رکھنا چاہیے۔
ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں ہمیشہ گھاس ہی کچلی جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کے لیے متوازن رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ امریکا آج بھی دنیا کی سپر پاور ہے۔ ہمیں اس کی ناراضی مول لینے سے اجتناب کرنا ہوگا۔
تاہم امریکا کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ خطے میں ایک خوش حال، مضبوط اور ترقی کی جانب سفر کرتا پاکستان خود امریکا کی بھی ضرورت ہے۔ امریکا سمیت کسی بھی ملک سے تعلقات میں قومی مفادات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہماری پالیسی ہمارے قومی مفادات کے ہی تابع ہونی چاہیے۔
صدر پوتن کا گیس پائپ لائن منصوبے پر بات کرنا خوش آیند ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ روس پاکستان کے ساتھ دیرپا تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ اس حوالے سے اگر امریکا کو تحفظات ہیں تو انھیں مل بیٹھ کر ختم کیا جا سکتا ہے ، اگر امریکا کے تحفظات دور نہیں ہوتے تو پاکستان کو واشنگٹن سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کا متبادل فراہم کرے۔
یہ پاکستانی خارجہ پالیسی کی کمزوری ہے کہ ہم روس سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ ہندوستان امریکا کے ساتھ بھی تعلقات قائم کیے ہوئے ہے اور روس کے ساتھ بڑے معاہدوں میں شامل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو گیس کی خریداری سے بھی نکل جانا چاہیے اور یہ سیکٹر نجی اداروں کے سپرد کر دینا چاہیے ، اگر نجی ادارے روس سے گیس یا تیل خریدتے ہیں تو امریکا کو بھی مسئلہ نہیں ہو گا اور پاکستان بھی معاشی بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو سکے گا۔
بلاشبہ روس سے تجارتی حجم بڑھانے کا ملک کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ خصوصی طور پر ڈالر کی قدر میں کمی آ سکتی ہے۔
روس آج کل روسی کرنسی روبیل میں معاہدے کر رہا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا امپورٹ بل پٹرولیم مصنوعات کا ہے، اگر پٹرولیم مصنوعات کی ادائیگی ڈالر کے بجائے روبیل میں کی جائے تو پاکستان کو اس کا فائدہ ہو گا۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے موجودہ حکومت کو ایک طویل اور صبر آزما دور سے گذرنا ہے ، سب سے پہلے تو سیاسی استحکام لانا ضروری ہے ، دوئم سستی توانائی کے حصول سے ملکی معیشت کا جام پہیہ رواں کیا جاسکتا ہے۔
تدبر اور فہم و فراست سے فیصلہ سازی کی جائے تو ملکی معیشت گرداب سے نکل سکتی ہے اور ملک میں معاشی استحکام آسکتا ہے جس سے عام آدمی کو یقیناً ریلیف ملے گا۔
پاک، ترکیہ تعلقات کو مثالی قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مشترکہ چیلنجز اور ابھرتے ہوئے خطرات کا سامنا کرتے ہوئے دونوں ممالک کو مشترکہ تحقیق اور وسائل کو یکجا کر کے گہری شراکت داری کے ذریعے ملکر کام کرنا چاہیے ، ہم بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف جہاندیدہ ، زیرک اور دور اندیش سیاست دان ہیں، عالمی امور پر ان کی دسترس قابل رشک ہے، ترکیہ کے خبر رساں ادارے کو دوران انٹرویو عالمی امور اور علاقائی معاملات پر انتہائی مثبت اور دانشمندانہ انداز میں اپنے صائب خیالات کا اظہار کیا۔
سب سے اہم بات ہمارے لیے ملک میں سیاسی استحکام اور معیشت کی بحالی کے حوالے سے ہے، وزیراعظم نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ملک میں عام انتخابات مقررہ وقت پر ہونگے ، کیونکہ یہی وہ واحد نقطہ ہے جس پر معیشت کی بحالی کے لیے موجودہ حکومت کے جاری اقدامات اور کاوشیں رنگ لاسکتی ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف دوست ممالک کا اعتماد بحال کرکے بیرونی وسیع سرمایہ کاری کے ذریعے ملکی معیشت کو گرداب سے نکالنے کے لیے خلوص نیت سے کوشش کر رہے ہیں ، قوم توقع کرتی ہے کہ جلد ملکی معیشت کی بحالی ممکن ہوسکے گی، لیکن دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان مسلسل ایسے اعلانات کر رہے ہیں جس نے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا اور تاثر بدستور قائم کیے ہیں، گزشتہ روز انھوں نے استعفیٰ دینے اور صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی دھمکی دی ہے۔
ان سطور کے ذریعے عمران خان سے مودبانہ درخواست ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ احتجاجی اور تخریبی سیاست کی روش ترک کر کے تعمیری اور مثبت سیاست کا راستہ اختیار کریں تو یہ ملک کے مفاد میں زیادہ بہتر ہوگا۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا یک محوریت سے مختلف علاقائی، تجارتی اور اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں بدل رہی ہے، ترکی اور پاکستان دو اہم ممالک ہیں۔ پاکستان جغرافیائی طور پر جنوبی ایشیا کا اہم ترین ملک اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اور مسلم دنیا کی طاقتور ترین وار مشینری رکھنے والا ملک ہے۔
اس خطے میں پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ایک سنگم کی سی ہے جو جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے دہانے پر بدلتی دنیا میں نیا کردار حاصل کررہا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ تعلقات اور چین کا بڑھتا ہوا عالمی کردار اِن تعلقات کو اور بھی بڑھا رہا ہے۔
ایسے ہی ترکی مشرقِ وسطیٰ کا ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ملک ہے۔ تعلیم، ٹیکنالوجی اور مضبوط معیشت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بعد دوسری اہم وار مشینری رکھنے والا، نیٹو کا دوسرا بڑا حصہ دار ہے۔ لہٰذا ان دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات اب اس بدلتی دنیا میں ایک نیا علاقائی اور عالمی توازن بنانے میں نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔
اگر ہم اس سارے خطے پر سرسری نگاہ دوڑائیں تو اس خطے میں اہم ترین ممالک میں چین، روس، بھارت، پاکستان اور ترکی یک محوریت سے ملٹی پولر دنیا میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے جا رہے ہیں۔
اس میں ترکی اور پاکستان تقریباً تمام علاقائی اور عالمی معاملات میں ایک صف میں کھڑے ہیں۔ دونوں ممالک کے یہ آئیڈیل تعلقات درحقیقت ایک فطری اتحادی کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
اگر افغانستان کے مسئلے میں ترکی اپنے ازبک نسلی تعلقات کے حوالے سے اور نیٹو کا رکن ہونے کے ناتے ایک خاص سیاسی مقام رکھتا ہے تو اسی طرح افغانستان، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین ستون ہے۔
9/11 کے بعد ترکی اور پاکستان، افغانستان کے مسئلے پر ایک دوست اور اتحادی کے طور پر بیشتر معاملات میں ایک موقف پر رہے اور ہم نے دیکھا دونوں دوست ممالک افغانستان میں عالمی طاقتوں کی حکمت عملی کے علاوہ اپنے طور پر بھی مصروفِ کار ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک بڑی عالمی طاقتوں کے علاوہ بھی کئی علاقائی اور عالمی معاملات کو سلجھانے میں کوشاں ہیں۔
ترکی اور پاکستان متعدد شعبوں میں شریکِ کار ہیں خصوصاً دفاعی حوالے سے، لیکن ان گہرے تعلقات سے ہم مزید فوائد بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ خصوصاً تعلیم، صحت، صنعت، تجارت اور زراعت کے شعبوں میں۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان کی زراعت کو جدید بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے ترکی کی زرعی ترقی و صنعت سازی سے مستفید ہوا جا سکتا ہے اور اسی طرح تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں بھی۔
اگر ہمارے پالیسی ساز، درج بالا شعبوں میں، ایک دوسرے سے تیز رفتاری سے تعاون بڑھائیں تو پاکستان اس منزل کو چند سالوں میں چھو سکتا ہے جس کا خواب ہر پاکستانی دیکھتا ہے، یعنی ایک جدید تعلیم یافتہ، صنعتی اور مضبوط معیشت رکھنے والا ملک۔ ضرورت صرف سنجیدگی اور فیصلہ کرنے کی ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے ان شعبوں میں تعاون کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے جو ہماری حکومت کے ایجنڈے میں زیادہ نمایاں نہیں، یعنی تعلیم، ٹیکنالوجی، علمی و ادبی تحقیق، زراعت اور صنعت۔ اور اسی طرح ہم ترکوں کے ساتھ متعدد شعبوں میں اپنے تجربات شیئر کرسکتے ہیں، خصوصاً اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹرز اور آئی ٹی کے شعبے میں۔ اگر دونوں ممالک میں اہل فکر و دانش سے متعلق لوگوں کاExchange پروگرام شروع کر دیا جائے تو دونوں ممالک جلد ہی اس مقام پر پہنچ سکتے ہیں جس سے یہ اہم مسلم ریاستیں دیگر مسلم دنیا کی رہنمائی کرسکتی ہیں۔
دوران انٹرویو شہباز شریف نے مزید کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی سب کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی پر مبنی ہے۔ ہم بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں ، تاہم تجارتی تعلقات کی بحالی اور تعلقات کو مکمل معمول پر لانے کے لیے بھارت کو 5 اگست 2019 کے اپنے اقدامات کو واپس لینا ہوگا۔ بلاشبہ اب گیند بھارت کے کورٹ میں ہے کہ وہ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کی مثبت پیش رفت کا کس انداز میں جواب دیتا ہے۔
پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ '' امریکا کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ اور وسیع البنیاد تعلقات ہیں اور ان تعلقات کو گہرا اور وسیع کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔'' جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت روس یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا ایک بار پھر دو کیمپوں میں منقسم ہو چکی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو کسی ایک طرف جھکاؤ نہیں رکھنا چاہیے۔
ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں ہمیشہ گھاس ہی کچلی جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کے لیے متوازن رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ امریکا آج بھی دنیا کی سپر پاور ہے۔ ہمیں اس کی ناراضی مول لینے سے اجتناب کرنا ہوگا۔
تاہم امریکا کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ خطے میں ایک خوش حال، مضبوط اور ترقی کی جانب سفر کرتا پاکستان خود امریکا کی بھی ضرورت ہے۔ امریکا سمیت کسی بھی ملک سے تعلقات میں قومی مفادات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہماری پالیسی ہمارے قومی مفادات کے ہی تابع ہونی چاہیے۔
صدر پوتن کا گیس پائپ لائن منصوبے پر بات کرنا خوش آیند ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ روس پاکستان کے ساتھ دیرپا تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ اس حوالے سے اگر امریکا کو تحفظات ہیں تو انھیں مل بیٹھ کر ختم کیا جا سکتا ہے ، اگر امریکا کے تحفظات دور نہیں ہوتے تو پاکستان کو واشنگٹن سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کا متبادل فراہم کرے۔
یہ پاکستانی خارجہ پالیسی کی کمزوری ہے کہ ہم روس سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ ہندوستان امریکا کے ساتھ بھی تعلقات قائم کیے ہوئے ہے اور روس کے ساتھ بڑے معاہدوں میں شامل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو گیس کی خریداری سے بھی نکل جانا چاہیے اور یہ سیکٹر نجی اداروں کے سپرد کر دینا چاہیے ، اگر نجی ادارے روس سے گیس یا تیل خریدتے ہیں تو امریکا کو بھی مسئلہ نہیں ہو گا اور پاکستان بھی معاشی بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو سکے گا۔
بلاشبہ روس سے تجارتی حجم بڑھانے کا ملک کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ خصوصی طور پر ڈالر کی قدر میں کمی آ سکتی ہے۔
روس آج کل روسی کرنسی روبیل میں معاہدے کر رہا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا امپورٹ بل پٹرولیم مصنوعات کا ہے، اگر پٹرولیم مصنوعات کی ادائیگی ڈالر کے بجائے روبیل میں کی جائے تو پاکستان کو اس کا فائدہ ہو گا۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے موجودہ حکومت کو ایک طویل اور صبر آزما دور سے گذرنا ہے ، سب سے پہلے تو سیاسی استحکام لانا ضروری ہے ، دوئم سستی توانائی کے حصول سے ملکی معیشت کا جام پہیہ رواں کیا جاسکتا ہے۔
تدبر اور فہم و فراست سے فیصلہ سازی کی جائے تو ملکی معیشت گرداب سے نکل سکتی ہے اور ملک میں معاشی استحکام آسکتا ہے جس سے عام آدمی کو یقیناً ریلیف ملے گا۔