محبت کی مہک
محبت کی مہک ہمیں بھٹکاتی ہے،اس صحرا میں جہاں ہم اپنے بچھڑے ہوئے دوست کو تلاش کرتے ہیں ۔۔۔
KARACHI:
اب تو انگلش کی وجہ سے اردو ونگلش ہو گئی ہے۔ اس لیے کس کو یاد ہوگی یہ کلاسیکل کہاوت کہ ''مچھلی طرح دار پڑوسن نے پکائی اور مدتوں اپنے جسم سے تیری خوشبو نہ گئی'' مگر اب بات رسوئی سے نکل کر ایسی رسم کی راہ پر چل نکلی ہے جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں گیا تھا۔کچھ دن قبل امریکا کے مشہور اخبار ''یو ایس ٹوڈے'' اور برطانیہ کے معروف میڈیا ''گارجین'' میں ایک رپورٹ شایع ہوئی ہے جس کے مطابق اب ڈیٹنگ کے لیے پارٹنر کی تصویر سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے اس کے جسم سے آنے والی اس مہک کو جو کسی کے لیے خوشبو اور کسی کے لیے بدبو بھی ہوسکتی ہے۔
جب ہم سائنس کے اس انوکھے پہلو سے آشنا نہیں تھے اس وقت ہم اپنے ادراک کو کام میں لاتے ہوئے یہ سوچا کرتے تھے کہ شاید ہر انسان کے جسم سے ایسی برقی لہریں جنم لیتی ہیں جو کسی دوسرے انسان کے بدن سے نکلنے والی لہروں سے مطابقت رکھتی ہیں؛ اس طرح ان دونوں انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے میں ایک کشش سی محسوس ہوتی ہے۔ مگر اب ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہر جاندار کے جسم سے فیرامون Pheromone نامی ایک ایسا کیمیائی مادہ خارج ہوتا ہے جس کو سونگھ کر دوسرا جاندار اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کے قریب آنے یا نہ آنے کا فیصلہ کرتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کا کردار اور اس کے خیالات جو دوسرے اہم پہلوؤں سے مل کر ایک انسان کی شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں اور وہ شخصیت بحیثیت مجموعی کسی انسان کے لیے قابل محبت یا قابل نفرت ہونے کا سبب بنتی ہے مگر سائنسدانوں کا موقف ہے کہ اس میں بنیادی کردار پھر بھی اس خوشبو کا ہے جو انسان کے جسم سے پھوٹتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ جب امریکا کا مشہور ڈائریکٹر مارٹن بریسٹ اپنی مقبول ترین فلم Scent of a Woman بنا رہا تھا تو اس کے ذہن میں یہ بات نہیں ہوگی کہ انسانوں کے درمیان اہم تعلق خیالات کا نہیں بلکہ خوشبو کا ہے مگر مذکورہ فلم میں ایک ریٹائرڈ اور اندھے فوجی افسر کا کردار ادا کرنے والے الپچینو نے جس طرح عورتوں کی خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے ان کی شخصیت کے بارے میں اپنے خیالات کو پیش کیا، وہ ایک لاجواب تصور تھا۔ مگر اب وہ تصور حقیقت کا روپ حاصل کرچکا ہے اور لوگوں کو یہ یقین آنے لگا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان مضبوط تعلق کسی مفاد کا نہیں بلکہ اس مہک کا ہے جس سے مجبور ہوکر وہ ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں اور اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ خوشبو ان کے احساسات پر اس قدر حاوی ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے پارٹنر کی شکل و صورت کے بارے میں بھی اتنا نہیں سوچتے۔اور یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ شروع سے ہوتا آ رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ کہاوت کیوں جنم لیتی کہ ''دل لگے کھوتی سے تو پری کیا چیز ہے'' مگر اس زمانے کے لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ دل کے لگنے کی اہم وجہ اتفاقی نہیں اور نہ انڈین فلموں میں پیش ہونے والے ''جنم جنم کے رشتوں'' کا کوئی مافوق الفطرت معاملہ ہے۔ اب یہ سارا قصہ محض اس خوشبو کا ہے جس کا خوبصورت تذکرہ خوشبو جیسی شاعرہ پروین شاکر کے اس شعر میں بھی ہے :
''پرل کا نیچرل پنک' ... ریولان کا ہینڈ لوشن... الزبتھ آرڈن کا بلش آن بھی... میڈورا میں پھر نیل پالش کا کوئی نیا شیڈ آیا؟... مرے اس بنفشی دوپٹے سے ملتی ہوئی ... رائمل میں لپ اسٹک ملے گی؟... ہاں؛ وہ ٹیولپ کا شیمپو بھی دیجیے گا... یاد آیا... کچھ روز پہلے جو ٹیوزر لیا تھا؛ وہ بالکل ہی بیکار نکلا... دورس دیجیے گا!... ذرا بل بنا دیجیے... ارے ! وہ جو کونے میں سینٹ رکھا ہوا ہے
دکھائیں ذرا... اسے ٹیسٹ کرکے تو دیکھوں... (خدایا! خدایا! ... یہ خوشبو تو اس کی پسندیدہ خوشبو رہی ہے...سدا اس کے ملبوس سے پھوٹتی تھی!) ...ذرا اس کی قمیت بتادیں... اس قدر!... اچھا یوں کیجیے... باقی چیزیں کبھی اور لے جاؤں گی... آج تو صرف اس سینٹ کو پیک کردیجیے!''
پروین شاکر کا یہ شعر پڑھ کر ہمیں یہ احساس تو ہوا تھا کہ ہم ''ڈپارٹمنٹل اسٹور'' میں بھی کسی خوشبو کی تلاش میں جاتے ہیں مگر اس مہک کے ساتھ ہماری محبت کا اتنا گہرا رشتہ ہے؟ یہ بات ہمیں پہلے معلوم نہ تھی۔ مگر اب جب میڈیا میں یہ خوبصورت خیال آیا ہے تو ہمیں اس آؤٹ ڈور ایڈورٹائزنگ تصویر کی کشش بھی سمجھ میں آ رہی ہے جس میں صابن کے ایک اشتہار میں ایک مرد ایک عورت کے پیچھے اس کے شانوں کی مہک محسوس کرتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرکے کھڑا ہے۔ جب کسی کو اپنی پسند کی خوشبو مل جاتی ہے تب اس کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔
سندھی زبان کے عظیم رومانوی شاعر شیخ ایاز نے اپنی ایک نظم میں لکھا ہے کہ:
''میری چولی کو دھوبی گھاٹ پر مت دھو
اس میں جس کی خوشبو ہے
میں اس کی دیوانی ہوں''
ایسی ہی کسی خوشبو کو اپنے جسم و جاں میں سمانے کے خاطر وہ لوگ دنوں تک نہیں نہاتے جنہیں دن تو کیا رات میں بھی بغیر نہائے نیند نہیں آتی۔ مگر محبت کی مہک ان کی آنکھوں کو نیند کے نگری میں لے جانے کے لیے کافی ہوا کرتی ہے۔ اس خوشبو کے سبب ہمیں وہ مہکتے ہوئے سپنے بھی آتے ہیں جو ہمیں اس دنیا سے دور لے جاتے ہیں جس میں بارود کی بو پھیلتی جاتی ہے اور اس بو کے باعث ہم سانس لینے میں بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔
اب جب کوئی مجھ سے پوچھے گا کہ تم دیگر کالم نگاروں کی طرح سیاست اور حکومت پر کیوں نہیں لکھتے تو میں کہوں گا کہ سیاست کے دامن پر جو ظلم بربریت اور ناانصافی کے داغ ہیں ان سے آنے والی بدبو کے سبب میرا دم گھٹنے لگتا ہے، اس لیے میں ایسے موضوعات پر لکھنا پسند کرتا ہوں جس میں پیار کی خوشبو ہو، جس میں محبت کی مہک ہو۔
محبت کی وہ مہک ہمیں بھٹکاتی ہے، اس صحرا میں جہاں ہم اپنے بچھڑے ہوئے دوست کو تلاش کرتے ہیں۔ محبت کی وہ مہک سرحدوں سے بالاتر ہے، محبت کی اس مہک کو محسوس کرتے ہوئے پرندے اپنے آشیانے تو کیا اپنی سرزمین کو بھی چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ محبت کی اس مہک کے لیے تتلیاں ہواؤں کے دوش پر ایک چمن سے دوسرے چمن اور ایک پھول سے دوسرے پھول کی طرف اڑتی رہتی ہیں۔ ان تتلیوں اور ان بھنوروں کو بے وفا اور ہرجائی ہونے کے طعنے بھی ملتے ہیں مگر طعنوں کے تیر مارنے والوں کو کون کہے کہ ان کا کوئی قصور نہیں۔ اگر قصور ہے تو محبت کی اس مہک کا جو انھیں محبت کا مسافر ہونے پر مجبور کردیتی ہے۔
اب تو انگلش کی وجہ سے اردو ونگلش ہو گئی ہے۔ اس لیے کس کو یاد ہوگی یہ کلاسیکل کہاوت کہ ''مچھلی طرح دار پڑوسن نے پکائی اور مدتوں اپنے جسم سے تیری خوشبو نہ گئی'' مگر اب بات رسوئی سے نکل کر ایسی رسم کی راہ پر چل نکلی ہے جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں گیا تھا۔کچھ دن قبل امریکا کے مشہور اخبار ''یو ایس ٹوڈے'' اور برطانیہ کے معروف میڈیا ''گارجین'' میں ایک رپورٹ شایع ہوئی ہے جس کے مطابق اب ڈیٹنگ کے لیے پارٹنر کی تصویر سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے اس کے جسم سے آنے والی اس مہک کو جو کسی کے لیے خوشبو اور کسی کے لیے بدبو بھی ہوسکتی ہے۔
جب ہم سائنس کے اس انوکھے پہلو سے آشنا نہیں تھے اس وقت ہم اپنے ادراک کو کام میں لاتے ہوئے یہ سوچا کرتے تھے کہ شاید ہر انسان کے جسم سے ایسی برقی لہریں جنم لیتی ہیں جو کسی دوسرے انسان کے بدن سے نکلنے والی لہروں سے مطابقت رکھتی ہیں؛ اس طرح ان دونوں انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے میں ایک کشش سی محسوس ہوتی ہے۔ مگر اب ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہر جاندار کے جسم سے فیرامون Pheromone نامی ایک ایسا کیمیائی مادہ خارج ہوتا ہے جس کو سونگھ کر دوسرا جاندار اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کے قریب آنے یا نہ آنے کا فیصلہ کرتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کا کردار اور اس کے خیالات جو دوسرے اہم پہلوؤں سے مل کر ایک انسان کی شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں اور وہ شخصیت بحیثیت مجموعی کسی انسان کے لیے قابل محبت یا قابل نفرت ہونے کا سبب بنتی ہے مگر سائنسدانوں کا موقف ہے کہ اس میں بنیادی کردار پھر بھی اس خوشبو کا ہے جو انسان کے جسم سے پھوٹتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ جب امریکا کا مشہور ڈائریکٹر مارٹن بریسٹ اپنی مقبول ترین فلم Scent of a Woman بنا رہا تھا تو اس کے ذہن میں یہ بات نہیں ہوگی کہ انسانوں کے درمیان اہم تعلق خیالات کا نہیں بلکہ خوشبو کا ہے مگر مذکورہ فلم میں ایک ریٹائرڈ اور اندھے فوجی افسر کا کردار ادا کرنے والے الپچینو نے جس طرح عورتوں کی خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے ان کی شخصیت کے بارے میں اپنے خیالات کو پیش کیا، وہ ایک لاجواب تصور تھا۔ مگر اب وہ تصور حقیقت کا روپ حاصل کرچکا ہے اور لوگوں کو یہ یقین آنے لگا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان مضبوط تعلق کسی مفاد کا نہیں بلکہ اس مہک کا ہے جس سے مجبور ہوکر وہ ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں اور اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ خوشبو ان کے احساسات پر اس قدر حاوی ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے پارٹنر کی شکل و صورت کے بارے میں بھی اتنا نہیں سوچتے۔اور یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ شروع سے ہوتا آ رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ کہاوت کیوں جنم لیتی کہ ''دل لگے کھوتی سے تو پری کیا چیز ہے'' مگر اس زمانے کے لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ دل کے لگنے کی اہم وجہ اتفاقی نہیں اور نہ انڈین فلموں میں پیش ہونے والے ''جنم جنم کے رشتوں'' کا کوئی مافوق الفطرت معاملہ ہے۔ اب یہ سارا قصہ محض اس خوشبو کا ہے جس کا خوبصورت تذکرہ خوشبو جیسی شاعرہ پروین شاکر کے اس شعر میں بھی ہے :
''پرل کا نیچرل پنک' ... ریولان کا ہینڈ لوشن... الزبتھ آرڈن کا بلش آن بھی... میڈورا میں پھر نیل پالش کا کوئی نیا شیڈ آیا؟... مرے اس بنفشی دوپٹے سے ملتی ہوئی ... رائمل میں لپ اسٹک ملے گی؟... ہاں؛ وہ ٹیولپ کا شیمپو بھی دیجیے گا... یاد آیا... کچھ روز پہلے جو ٹیوزر لیا تھا؛ وہ بالکل ہی بیکار نکلا... دورس دیجیے گا!... ذرا بل بنا دیجیے... ارے ! وہ جو کونے میں سینٹ رکھا ہوا ہے
دکھائیں ذرا... اسے ٹیسٹ کرکے تو دیکھوں... (خدایا! خدایا! ... یہ خوشبو تو اس کی پسندیدہ خوشبو رہی ہے...سدا اس کے ملبوس سے پھوٹتی تھی!) ...ذرا اس کی قمیت بتادیں... اس قدر!... اچھا یوں کیجیے... باقی چیزیں کبھی اور لے جاؤں گی... آج تو صرف اس سینٹ کو پیک کردیجیے!''
پروین شاکر کا یہ شعر پڑھ کر ہمیں یہ احساس تو ہوا تھا کہ ہم ''ڈپارٹمنٹل اسٹور'' میں بھی کسی خوشبو کی تلاش میں جاتے ہیں مگر اس مہک کے ساتھ ہماری محبت کا اتنا گہرا رشتہ ہے؟ یہ بات ہمیں پہلے معلوم نہ تھی۔ مگر اب جب میڈیا میں یہ خوبصورت خیال آیا ہے تو ہمیں اس آؤٹ ڈور ایڈورٹائزنگ تصویر کی کشش بھی سمجھ میں آ رہی ہے جس میں صابن کے ایک اشتہار میں ایک مرد ایک عورت کے پیچھے اس کے شانوں کی مہک محسوس کرتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرکے کھڑا ہے۔ جب کسی کو اپنی پسند کی خوشبو مل جاتی ہے تب اس کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔
سندھی زبان کے عظیم رومانوی شاعر شیخ ایاز نے اپنی ایک نظم میں لکھا ہے کہ:
''میری چولی کو دھوبی گھاٹ پر مت دھو
اس میں جس کی خوشبو ہے
میں اس کی دیوانی ہوں''
ایسی ہی کسی خوشبو کو اپنے جسم و جاں میں سمانے کے خاطر وہ لوگ دنوں تک نہیں نہاتے جنہیں دن تو کیا رات میں بھی بغیر نہائے نیند نہیں آتی۔ مگر محبت کی مہک ان کی آنکھوں کو نیند کے نگری میں لے جانے کے لیے کافی ہوا کرتی ہے۔ اس خوشبو کے سبب ہمیں وہ مہکتے ہوئے سپنے بھی آتے ہیں جو ہمیں اس دنیا سے دور لے جاتے ہیں جس میں بارود کی بو پھیلتی جاتی ہے اور اس بو کے باعث ہم سانس لینے میں بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔
اب جب کوئی مجھ سے پوچھے گا کہ تم دیگر کالم نگاروں کی طرح سیاست اور حکومت پر کیوں نہیں لکھتے تو میں کہوں گا کہ سیاست کے دامن پر جو ظلم بربریت اور ناانصافی کے داغ ہیں ان سے آنے والی بدبو کے سبب میرا دم گھٹنے لگتا ہے، اس لیے میں ایسے موضوعات پر لکھنا پسند کرتا ہوں جس میں پیار کی خوشبو ہو، جس میں محبت کی مہک ہو۔
محبت کی وہ مہک ہمیں بھٹکاتی ہے، اس صحرا میں جہاں ہم اپنے بچھڑے ہوئے دوست کو تلاش کرتے ہیں۔ محبت کی وہ مہک سرحدوں سے بالاتر ہے، محبت کی اس مہک کو محسوس کرتے ہوئے پرندے اپنے آشیانے تو کیا اپنی سرزمین کو بھی چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ محبت کی اس مہک کے لیے تتلیاں ہواؤں کے دوش پر ایک چمن سے دوسرے چمن اور ایک پھول سے دوسرے پھول کی طرف اڑتی رہتی ہیں۔ ان تتلیوں اور ان بھنوروں کو بے وفا اور ہرجائی ہونے کے طعنے بھی ملتے ہیں مگر طعنوں کے تیر مارنے والوں کو کون کہے کہ ان کا کوئی قصور نہیں۔ اگر قصور ہے تو محبت کی اس مہک کا جو انھیں محبت کا مسافر ہونے پر مجبور کردیتی ہے۔