گوادر کے عوام کے مسائل
گوادر کے شہریوں کو جو صدیوں سے ماہی گیری کے شعبہ سے منسلک ہیں پورے ہفتہ سمندر میں جانے کی اجازت نہیں ہے
لالہ فہیم کو کتابوں سے عشق ہے۔ انھوں نے اپنے عشق کو عملی شکل دینے کے لیے کراچی کے مشہور اردو بازار میں ایک نئی عمارت میں دکان لے لی۔
وہ کتابیں فروخت کرتے ہیں اور کتابیں شایع کرتے ہیں۔ تین ماہ قبل اپنی دکان پر آئے اور کچھ لوگ انھیں اپنے ساتھ لے گئے۔ اب لالہ فہیم دوبارہ اپنے گھر آگئے ہیں۔
اچانک گھر سے جانے پر ان کے اہل خانہ نے سندھ ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی مگر اب یہ معاملہ داخل دفتر ہوچکا ہے۔ لالہ فہیم کا تعلق مکران ڈویژن سے ہے۔ گوادر میں جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن نے دوبارہ '' حق دو تحریک '' شروع کردی ہے۔
گوادر کے شہری مولانا ہدایت الرحمن کے مطالبات کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمن کا مطالبہ ہے کہ گوادر کے لوگوں کی نوے فیصد اکثریت کا تعلق ماہی گیری کے شعبہ سے ہے۔ مکران کے غریب ماہی گیروں سے ماہی گیری کا حق چھین لیا گیا ہے۔ غیر ملکی جدید ترین ٹرالر مکران ڈویژن سے ملحقہ سمندر میں جدید مشینری کے ذریعہ مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں اور ساری مچھلیاں ان کے الیکٹرانک جال میں پھنس جاتی ہیں۔
گوادر کے شہریوں کو جو صدیوں سے ماہی گیری کے شعبہ سے منسلک ہیں پورے ہفتہ سمندر میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ماہی گیروں کو مختصر مدت کے لیے سمندر میں جانے کی اجازت دی جاتی ہے، یوں غریب ماہی گیر خالی ہاتھ واپس آتے ہیں۔ گوادر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ گوادر شہر ان کا ہے مگر شہر میں داخل ہونے کے لیے روزانہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو اپنی شناخت بار بار بتانی پڑتی ہے ۔
'' حق دو تحریک '' کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ ایسے افراد کی واپسی کا ہے جو لاپتہ ہوئے۔ ان میں سے کچھ افراد برسوں سے لاپتہ ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں ان مطالبات کو منوانے کے لیے گزشتہ سال جدوجہد کا آغاز کیا گیا تھا۔
ان کی قیادت میں ہزاروں افراد نے کئی مہینوں تک گوادر سپر ہائی وے پر دھرنا دیا تھا۔ اسلام آباد کی وفاقی حکومت اور کوئٹہ کی صوبائی حکومت کے عہدیداروں نے مولانا ہدایت الرحمن سے مذاکرات کیے تھے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو نے مولانا ہدایت الرحمن کے مطالبات ماننے کی یقین دہانی کرائی مگر ایک سال گزرنے کے باوجود گوادر کے شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے کیے گئے وعدے وفا نہ ہوئے۔ مولانا ہدایت الرحمن نے اکتوبر کے مہینہ میں پھر اعلان کیا کہ اگر وعدوں پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو وہ 20 نومبر کو پھر جمع ہوں گے۔
20نومبر کے دھرنے میں ہزاروں افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوئے مگر مکران کے باسیوں کے مسائل کو حل کرنے اور کیے گئے وعدے پورے کرنے کے لیے نہ تو بلوچستان کی حکومت تیار ہے نہ موجودہ وفاقی حکومت توجہ دے رہی ہے۔
بلوچستان کا ایک مسئلہ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا ہے۔ نئی صدی کے آغاز سے سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت کے علاوہ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور اب میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومتیں برسر اقتدار رہیں مگر یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا جس کی ذمے داری لاپتہ افراد کی بازیابی تھی۔
جسٹس جاوید اقبال بعد ازاں نیب کے سربراہ بن گئے۔ تحریک انصاف کے مخالف سیاست دانوں کو چن چن کر جیل بھجوایا گیا مگر کمیشن لاپتہ افراد کے مسئلہ کے حل کے لیے پوسٹ آفس کی طرح کردار ادا کرنے کے علاوہ کچھ نہ کرسکا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور انسانی حقوق کمیشن HRCP نے کمیشن کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے لاپتہ افراد کے مسئلہ کا مستقل حل نکالنے میں سب سے زیادہ دلچسپی لی۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے کہا کہ جس شہری کو ریاستی اداروں کے اہلکار اغواء کریں وہ شخص لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہوگا۔ کسی شہری کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کا بل پارلیمنٹ میں دو سال قبل پیش ہوا تھا۔
سینیٹ نے اس بل کو منظور کرلیا تھا مگر تحریک انصاف کی انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک دن یہ انکشاف کیا کہ بل کا مسودہ لاپتہ ہوگیا ہے مگر موجودہ حکومت کے اقتدار کے تین ماہ بعد پارلیمنٹ شہری کے لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دیا گیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر سندھ حکومت نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو 5 لاکھ روپے ادا کیے ہیں۔
بلوچستان کے کئی کتابوں کے مصنف ، صحافی عزیز سنگھور نے مولانا ہدایت الرحمن کو حق دو تحریک کے محرکات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ جماعت اسلامی نے کبھی بھی نہ تو قوم پرستانہ سیاست کی ہے اور نہ ہی اس طرح ریاستی اداروں کو چیلنج کیا مگر ہدایت الرحمن کی مقبولیت کی بناء پر خاموشی اختیار کر لی گئی ہے۔
مولانا ہدایت الرحمن اس جدوجہد کے ذریعے بلوچ عوام میں مقبول ہوگئے ہیں ۔ عزیز سنگھور کا کہنا ہے کہ گوادر میں منشیات کا خاتمہ ہونا چاہیے ، ماہی گیروں کو آسانی سے ساحل سمندر میں مچھلی کا شکار کرنے کا حق ملنا چاہیے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما ماضی میں گوادر کے عوام کی تحریک کی حمایت کرتے رہے ہیں مگر اب مسلم لیگ ن کے قائد شہباز شریف کی حکومت سابقہ حکومت کی طرح گوادر کے عوام کو مایوس کر رہی ہے جس کا فائدہ دوسرے اٹھا رہے ہیں۔ کیا گوادر کے عوام کے مسائل حل ہونگے؟
وہ کتابیں فروخت کرتے ہیں اور کتابیں شایع کرتے ہیں۔ تین ماہ قبل اپنی دکان پر آئے اور کچھ لوگ انھیں اپنے ساتھ لے گئے۔ اب لالہ فہیم دوبارہ اپنے گھر آگئے ہیں۔
اچانک گھر سے جانے پر ان کے اہل خانہ نے سندھ ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی مگر اب یہ معاملہ داخل دفتر ہوچکا ہے۔ لالہ فہیم کا تعلق مکران ڈویژن سے ہے۔ گوادر میں جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن نے دوبارہ '' حق دو تحریک '' شروع کردی ہے۔
گوادر کے شہری مولانا ہدایت الرحمن کے مطالبات کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمن کا مطالبہ ہے کہ گوادر کے لوگوں کی نوے فیصد اکثریت کا تعلق ماہی گیری کے شعبہ سے ہے۔ مکران کے غریب ماہی گیروں سے ماہی گیری کا حق چھین لیا گیا ہے۔ غیر ملکی جدید ترین ٹرالر مکران ڈویژن سے ملحقہ سمندر میں جدید مشینری کے ذریعہ مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں اور ساری مچھلیاں ان کے الیکٹرانک جال میں پھنس جاتی ہیں۔
گوادر کے شہریوں کو جو صدیوں سے ماہی گیری کے شعبہ سے منسلک ہیں پورے ہفتہ سمندر میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ماہی گیروں کو مختصر مدت کے لیے سمندر میں جانے کی اجازت دی جاتی ہے، یوں غریب ماہی گیر خالی ہاتھ واپس آتے ہیں۔ گوادر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ گوادر شہر ان کا ہے مگر شہر میں داخل ہونے کے لیے روزانہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو اپنی شناخت بار بار بتانی پڑتی ہے ۔
'' حق دو تحریک '' کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ ایسے افراد کی واپسی کا ہے جو لاپتہ ہوئے۔ ان میں سے کچھ افراد برسوں سے لاپتہ ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں ان مطالبات کو منوانے کے لیے گزشتہ سال جدوجہد کا آغاز کیا گیا تھا۔
ان کی قیادت میں ہزاروں افراد نے کئی مہینوں تک گوادر سپر ہائی وے پر دھرنا دیا تھا۔ اسلام آباد کی وفاقی حکومت اور کوئٹہ کی صوبائی حکومت کے عہدیداروں نے مولانا ہدایت الرحمن سے مذاکرات کیے تھے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو نے مولانا ہدایت الرحمن کے مطالبات ماننے کی یقین دہانی کرائی مگر ایک سال گزرنے کے باوجود گوادر کے شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے کیے گئے وعدے وفا نہ ہوئے۔ مولانا ہدایت الرحمن نے اکتوبر کے مہینہ میں پھر اعلان کیا کہ اگر وعدوں پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو وہ 20 نومبر کو پھر جمع ہوں گے۔
20نومبر کے دھرنے میں ہزاروں افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوئے مگر مکران کے باسیوں کے مسائل کو حل کرنے اور کیے گئے وعدے پورے کرنے کے لیے نہ تو بلوچستان کی حکومت تیار ہے نہ موجودہ وفاقی حکومت توجہ دے رہی ہے۔
بلوچستان کا ایک مسئلہ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا ہے۔ نئی صدی کے آغاز سے سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت کے علاوہ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور اب میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومتیں برسر اقتدار رہیں مگر یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا جس کی ذمے داری لاپتہ افراد کی بازیابی تھی۔
جسٹس جاوید اقبال بعد ازاں نیب کے سربراہ بن گئے۔ تحریک انصاف کے مخالف سیاست دانوں کو چن چن کر جیل بھجوایا گیا مگر کمیشن لاپتہ افراد کے مسئلہ کے حل کے لیے پوسٹ آفس کی طرح کردار ادا کرنے کے علاوہ کچھ نہ کرسکا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور انسانی حقوق کمیشن HRCP نے کمیشن کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے لاپتہ افراد کے مسئلہ کا مستقل حل نکالنے میں سب سے زیادہ دلچسپی لی۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے کہا کہ جس شہری کو ریاستی اداروں کے اہلکار اغواء کریں وہ شخص لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہوگا۔ کسی شہری کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کا بل پارلیمنٹ میں دو سال قبل پیش ہوا تھا۔
سینیٹ نے اس بل کو منظور کرلیا تھا مگر تحریک انصاف کی انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک دن یہ انکشاف کیا کہ بل کا مسودہ لاپتہ ہوگیا ہے مگر موجودہ حکومت کے اقتدار کے تین ماہ بعد پارلیمنٹ شہری کے لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دیا گیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر سندھ حکومت نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو 5 لاکھ روپے ادا کیے ہیں۔
بلوچستان کے کئی کتابوں کے مصنف ، صحافی عزیز سنگھور نے مولانا ہدایت الرحمن کو حق دو تحریک کے محرکات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ جماعت اسلامی نے کبھی بھی نہ تو قوم پرستانہ سیاست کی ہے اور نہ ہی اس طرح ریاستی اداروں کو چیلنج کیا مگر ہدایت الرحمن کی مقبولیت کی بناء پر خاموشی اختیار کر لی گئی ہے۔
مولانا ہدایت الرحمن اس جدوجہد کے ذریعے بلوچ عوام میں مقبول ہوگئے ہیں ۔ عزیز سنگھور کا کہنا ہے کہ گوادر میں منشیات کا خاتمہ ہونا چاہیے ، ماہی گیروں کو آسانی سے ساحل سمندر میں مچھلی کا شکار کرنے کا حق ملنا چاہیے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما ماضی میں گوادر کے عوام کی تحریک کی حمایت کرتے رہے ہیں مگر اب مسلم لیگ ن کے قائد شہباز شریف کی حکومت سابقہ حکومت کی طرح گوادر کے عوام کو مایوس کر رہی ہے جس کا فائدہ دوسرے اٹھا رہے ہیں۔ کیا گوادر کے عوام کے مسائل حل ہونگے؟