پولیو مہم سبوتاژ کرنے کی سازش
کوئٹہ میں پولیو مہم ٹیموں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے جانے والے بلوچستان کانسٹیبلری کے ایک ٹرک پر کچلاک بائی پاس پر خودکش حملہ کیا گیا ہے ۔دہشت گردی کی اس واردات میں پولیس اہلکار، ماں اور اس کے دو بیٹے جاں بحق ہوگئے جب کہ سولہ اہلکاروں سمیت ستائیس افراد زخمی ہوگئے۔
صدر مملکت اور وزیراعظم نے اس خودکش حملے کی مذمت کی ہے۔ وزیراعظم میاںشہباز شریف نے کہا کہ شرپسند عناصر ملک سے پولیو کے خاتمے کی اس مہم کو روکنے میں ہمیشہ ناکام رہیں گے ، کیونکہ ملک سے پولیو کا مکمل خاتمہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ملک میں جاری پولیو مہم سے منسلک ہیلتھ ورکرز اور سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں پر حملوں کی ایک طویل تاریخ ہے، یہ حملے ایک بھیانک مستقبل کی بھی غمازی کر رہے ہیں۔
اس وقت دنیا میں پاکستان، نائجیریا اور افغانستان چند ایسے ممالک ہیں ، جہاں پولیو وائرس آج بھی موجود ہے اور اس نے بچوں کی صحت اور تندرستی کو مسلسل خطرے میں ڈال رکھا ہے۔
دوسری جانب سیلاب کی وجہ سے ملک کے کئی علاقوں تک رسائی تقریباً منقطع ہونے کی وجہ سے انسداد پولیو مہم مزید چیلنجنگ بن گئی ہے۔
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم کا آغاز 1994 میں ہوا تھا اور اس جنوبی ایشیائی ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کی منزل بہت قریب آ چکی تھی ، تاہم انسداد پولیو مہم کے خلاف شروع ہونی والی مہمات اور پولیو ورکرز پر آئے دن ہونے والے حملوں نے اس مقصد کو شدید نقصان پہنچایا۔ 2014 میں پولیو کیسز عروج پر پہنچ چُکے تھے اور ان کی تعداد 306 ہوگئی تھی۔
یہ وہ نازک وقت تھا جب طالبان کے خلاف ایک جارحانہ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 2015 میں پولیو کیسز میں واضح کمی کے ساتھ ان کی تعداد گر کر 54 ہو گئی تھی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس کے بعد کے تین سالوں کے دوران ملک بھر میں پولیو کیسز کی سالانہ تعداد 20 یا اس سے بھی کم رہ گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے ایما اور اس کی مالی اعانت سے چلائی جانے والی پولیو مہم کی مخالفت پاکستان کے مذہبی قدامت پسندوں اور عسکریت پسند حلقوں نے کی۔
جن کا یہ ماننا ہے کہ پولیو مہم مغرب کی ایک سازش ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کو اولاد سے محروم کرنا ہے ، کیونکہ ان کے خیال میں پولیو کے قطرے بانجھ پن کا سبب بن سکتے ہیں۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کا پروگرام گزشتہ 25 سالوں سے بچوں کو معذوری کا شکار کرنے والے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔
اس پروگرام کے تحت ہونے والی کوششوں کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہوا ہے کہ آج پاکستان میں پولیو کے کیسز کی تعداد میں 99 فی صد تک کمی واقع ہوچکی ہے جب کہ پاکستان میں 1990 کی دہائی کے اوائل میں پولیو کیسز کی تعداد 20,000 تھی۔
بدقسمتی سے پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں اب بھی پولیو کے کیسز موجود ہیں، ہم ان سطور کے ذریعے گزارش کرتے ہیں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی اجتماعی مشن کے طور پر پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری رکھیں جب کہ والدین سے اپیل ہے کہ پولیو ٹیموں کے ساتھ تعاون کریں۔
صدر مملکت اور وزیراعظم نے اس خودکش حملے کی مذمت کی ہے۔ وزیراعظم میاںشہباز شریف نے کہا کہ شرپسند عناصر ملک سے پولیو کے خاتمے کی اس مہم کو روکنے میں ہمیشہ ناکام رہیں گے ، کیونکہ ملک سے پولیو کا مکمل خاتمہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ملک میں جاری پولیو مہم سے منسلک ہیلتھ ورکرز اور سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں پر حملوں کی ایک طویل تاریخ ہے، یہ حملے ایک بھیانک مستقبل کی بھی غمازی کر رہے ہیں۔
اس وقت دنیا میں پاکستان، نائجیریا اور افغانستان چند ایسے ممالک ہیں ، جہاں پولیو وائرس آج بھی موجود ہے اور اس نے بچوں کی صحت اور تندرستی کو مسلسل خطرے میں ڈال رکھا ہے۔
دوسری جانب سیلاب کی وجہ سے ملک کے کئی علاقوں تک رسائی تقریباً منقطع ہونے کی وجہ سے انسداد پولیو مہم مزید چیلنجنگ بن گئی ہے۔
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم کا آغاز 1994 میں ہوا تھا اور اس جنوبی ایشیائی ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کی منزل بہت قریب آ چکی تھی ، تاہم انسداد پولیو مہم کے خلاف شروع ہونی والی مہمات اور پولیو ورکرز پر آئے دن ہونے والے حملوں نے اس مقصد کو شدید نقصان پہنچایا۔ 2014 میں پولیو کیسز عروج پر پہنچ چُکے تھے اور ان کی تعداد 306 ہوگئی تھی۔
یہ وہ نازک وقت تھا جب طالبان کے خلاف ایک جارحانہ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 2015 میں پولیو کیسز میں واضح کمی کے ساتھ ان کی تعداد گر کر 54 ہو گئی تھی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس کے بعد کے تین سالوں کے دوران ملک بھر میں پولیو کیسز کی سالانہ تعداد 20 یا اس سے بھی کم رہ گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے ایما اور اس کی مالی اعانت سے چلائی جانے والی پولیو مہم کی مخالفت پاکستان کے مذہبی قدامت پسندوں اور عسکریت پسند حلقوں نے کی۔
جن کا یہ ماننا ہے کہ پولیو مہم مغرب کی ایک سازش ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کو اولاد سے محروم کرنا ہے ، کیونکہ ان کے خیال میں پولیو کے قطرے بانجھ پن کا سبب بن سکتے ہیں۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کا پروگرام گزشتہ 25 سالوں سے بچوں کو معذوری کا شکار کرنے والے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔
اس پروگرام کے تحت ہونے والی کوششوں کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہوا ہے کہ آج پاکستان میں پولیو کے کیسز کی تعداد میں 99 فی صد تک کمی واقع ہوچکی ہے جب کہ پاکستان میں 1990 کی دہائی کے اوائل میں پولیو کیسز کی تعداد 20,000 تھی۔
بدقسمتی سے پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں اب بھی پولیو کے کیسز موجود ہیں، ہم ان سطور کے ذریعے گزارش کرتے ہیں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی اجتماعی مشن کے طور پر پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری رکھیں جب کہ والدین سے اپیل ہے کہ پولیو ٹیموں کے ساتھ تعاون کریں۔