ملکہ الزبتھ اورشہزادہ چارلس
ملکہ الزبتھ چاہتیں تو استعفا دے کر اپنے بیٹے کے حق میں دست بردار ہوسکتی تھیں
ملکہ برطانیہ الزبتھ ثانی اب اس جہاں میں اپنے جلوے دکھا کر قصہ پارینہ بن چکی ہیں اوراب وہ کتابوں کاایک لفظ بن گئی ہیں، اس نے بہت سارے ریکارڈ قائم کیے ہوئے ہیں، زیادہ عرصہ حکومت کرنے کا ریکارڈ،زیادہ عمر کا ریکارڈ اور بھی بہت سارے ریکارڈ اس کے نام ہیں لیکن جو اصل ریکارڈ اس نے قائم کیا ہے۔
اس کا ذکر کوئی بھی نہیں کرے گا حالانکہ اس کا اصل ریکارڈ اور پہچان ہے یہ ریکارڈ ایک ''بری ماں'' کا ریکارڈ ہے، وہ اچھی ملکہ بھی ہوگی، اس سے پہلے اچھی شہزادی بھی رہی ہوگی شاید اچھی بیوی بھی رہی ہوگی لیکن اچھی ماں بالکل نہیں تھی،کوئی ماں صر ف اپنے ریکارڈوں کے لیے بیٹے کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتی جیسا اس نے شہزادہ چارلس کے ساتھ کیاہے۔
بہتر چوہتر سال کو بڑھاپا ہی کہاجاتاہے جب ساری تمنائیں، امنگیں، خواہشیں اور حسرتیں اپنی موت آپ مرجاتی ہیں اور انسان اپنی عمر کاصرف کھنڈر رہ جاتا ہے، تو پھر کھنڈر میں بارات اترے بھی تو کیا کہ یہ تو جنازہ اٹھنے کا وقت ہوتا ہے ،کسی دانا دانشورکا یہ فقرہ ہمیں یاد ہے، معلوم نہیں کس نے کہاتھا کہ جب وہ درخت پر چڑھی تو شہزادی تھی اور اتری تو ملکہ بن چکی ہے ۔
اپنے والد کی وفات کے وقت وہ اپنے شوہر کے ساتھ کسی صحت افزا مقام پر سیاحت میں تھی، نوجوان پرجوش اورکھلنڈری شہزادی ایک درخت پر چڑھی اور اسی وقت خبر پہنچی کہ شاہ کا انتقال ہوگیا ہے اورکراؤن پرنس اب ملکہ بن چکی ہے چنانچہ وہ درخت سے اترتے وقت ملکہ ہوگئی تھی ۔
ہمیں ایک منظر یاد ہے ہم اسکول میں پانچویں کلاس کے طالب علم تھے جب ملکہ معظمہ پاکستان کے دورے پر آئی تھیں یہ پانچویں عشرے کی ابتداء کا زمانہ تھا۔
ہمارا اسکول بھی برلب سڑک تھا اورگردونواح کے سارے اسکولوں کے بچے بھی سڑک پر دورویہ کھڑے کیے گئے تھے ،ملکہ معظمہ کا قافلہ پشاور سے راولپنڈی جارہاتھا جب ملکہ کی گاڑی ہمارے سامنے آئی تو ہم نے دیکھاکہ خوبصورت سرخ وسفید ملکہ کے ساتھ ایک ویسا ہی سرخ و سفید اور گول مٹول سا لڑکا کھڑا تھا ملکہ بیٹھی ہوئی تھی اور شہزادہ اس کے پہلو میں شیشے کے ساتھ لگا کھڑا باہر دیکھ رہاہے۔
ملکہ کا دبدبہ اور شخصیت کاطلسم اپنی جگہ کہ اب تک ہم نے ملکاؤں اورشاہوں بادشاہوں کی صرف کہانیاں سنی تھیں، مجسم ملکہ پہلی بار دیکھ رہے تھے اور ساتھ ہی کہانیوں کا شہزادہ ،اس کے علاوہ بھی گاڑی میں ڈرائیور اورکچھ ہوں گے لیکن ہماری نظریں صرف ملکہ اور شہزادے پر ٹکی ہوئی تھیں اس وقت ملکہ دبلی، پتلی اور بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔
وہ تصویرآج بھی ہمارے ذہن میں ویسی کی ویسی موجود ہے ملکہ چھیاسٹھ برس طویل حکومت کے بعد آخرکار اپنے آباؤاجداد سے جاملی لیکن وہ خوبصورت گول مٹول سا شہزادہ جب تحت پر آج بیٹھ گیا ہے، ایک بوڑھے کی شکل میں جس کی آنکھوں میں انتظار منجمد ہوکر مایوسی میں بدل گیا تھا،اب تحت پر بیٹھ بھی گیا تو۔ جب دانت تھے تو چنے نہیں تھے ،اب چنے مل گئے تو دانت نہیں رہے ، زندگی کی ساری بہاریں گزرچکی ہیں صرف خزاں رہ گئی ہے۔
خزاں میں اڑتے پتوں کی کوئی منزل نہیں ہوتی
اسی سے ملتاجلتا ہے دل برباد کا موسم
دنیا میں کتنی مائیں اور ان کی اولادیں گزرچکی ہیں، عموماً دیکھاگیا کہ ماؤں کی ساری توجہ اور ترجیح بچے ہوتے ہیں، ہرماں کی بس یہی خواہش ہوتی ہے کہ جہاں سے بھی ملیں خوشیاں لاکر بچوں پر نچھاورکردیں۔
ملکہ الزبتھ چاہتیں تو استعفا دے کر اپنے بیٹے کے حق میں دست بردار ہوسکتی تھیں، اگر بہت ہی خواہش تھی تو چلو بتیس سال حکومت کرنے کے بعد ملکہ کے بجائے مادر ملکہ بھی بن جاتیں تو نہ تو ان کا احترام کم ہوتا نہ کچھ اور بلکہ اپنی زندگی بھی آرام دہ کرلیتیں، لیکن انھیں تو ریکارڈ بنانا تھے جو اب کاغذوں میں گم ہوگئے۔
دوکہانیاں یاد آرہی ہیں جن میں ایک بالکل سچی اور ہمارے سامنے کی ہے ، ہمارے عزیزوں میں ایک نوجوان کے دونوں گردے فیل ہوگئے،اسے ایک گردہ دینا تھا، باپ بھائی اور دوسرے عزیزوں نے انکار کیا، ماں جوخود بھی بیمار تھی اٹھ کھڑی ہوئی اورکراچی لے جاکر بیٹے کو اپنا ایک گردہ دے دیا، اخراجات کے لیے اپنے زیور بیچے،حالانکہ سامنے کی بات تھی کہ کچھ ہی مہینے زندہ رہ پاتی۔
دوسری کہانی ایک علامتی حکایت ہے، کہتے ہیں کہ ایک نوجوان کسی لڑکی پر عاشق ہوگیا، سنگدل محبوبہ نے شرط رکھی کہ وہ اگر اپنی ماں کا دل نکال کر لائے تو اس کی ہوجائے گی ، ماں کو پتہ چلا تو اس نے بیٹے کوخود مجبورکیاکہ اس کا دل نکال کر اپنی محبوبہ کی شرط پوری کرے۔
بیٹاجب ماں کا دل نکال کرلے جارہا تھا تو راستے میں اسے ٹھوکر لگی ،گر پڑا اور ماں کا دل بھی اس کے ہاتھ سے گر کر الگ جا پڑا، اوراس دل سے آواز آئی کہ بیٹا چوٹ تو نہیں لگی۔
اس کا ذکر کوئی بھی نہیں کرے گا حالانکہ اس کا اصل ریکارڈ اور پہچان ہے یہ ریکارڈ ایک ''بری ماں'' کا ریکارڈ ہے، وہ اچھی ملکہ بھی ہوگی، اس سے پہلے اچھی شہزادی بھی رہی ہوگی شاید اچھی بیوی بھی رہی ہوگی لیکن اچھی ماں بالکل نہیں تھی،کوئی ماں صر ف اپنے ریکارڈوں کے لیے بیٹے کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتی جیسا اس نے شہزادہ چارلس کے ساتھ کیاہے۔
بہتر چوہتر سال کو بڑھاپا ہی کہاجاتاہے جب ساری تمنائیں، امنگیں، خواہشیں اور حسرتیں اپنی موت آپ مرجاتی ہیں اور انسان اپنی عمر کاصرف کھنڈر رہ جاتا ہے، تو پھر کھنڈر میں بارات اترے بھی تو کیا کہ یہ تو جنازہ اٹھنے کا وقت ہوتا ہے ،کسی دانا دانشورکا یہ فقرہ ہمیں یاد ہے، معلوم نہیں کس نے کہاتھا کہ جب وہ درخت پر چڑھی تو شہزادی تھی اور اتری تو ملکہ بن چکی ہے ۔
اپنے والد کی وفات کے وقت وہ اپنے شوہر کے ساتھ کسی صحت افزا مقام پر سیاحت میں تھی، نوجوان پرجوش اورکھلنڈری شہزادی ایک درخت پر چڑھی اور اسی وقت خبر پہنچی کہ شاہ کا انتقال ہوگیا ہے اورکراؤن پرنس اب ملکہ بن چکی ہے چنانچہ وہ درخت سے اترتے وقت ملکہ ہوگئی تھی ۔
ہمیں ایک منظر یاد ہے ہم اسکول میں پانچویں کلاس کے طالب علم تھے جب ملکہ معظمہ پاکستان کے دورے پر آئی تھیں یہ پانچویں عشرے کی ابتداء کا زمانہ تھا۔
ہمارا اسکول بھی برلب سڑک تھا اورگردونواح کے سارے اسکولوں کے بچے بھی سڑک پر دورویہ کھڑے کیے گئے تھے ،ملکہ معظمہ کا قافلہ پشاور سے راولپنڈی جارہاتھا جب ملکہ کی گاڑی ہمارے سامنے آئی تو ہم نے دیکھاکہ خوبصورت سرخ وسفید ملکہ کے ساتھ ایک ویسا ہی سرخ و سفید اور گول مٹول سا لڑکا کھڑا تھا ملکہ بیٹھی ہوئی تھی اور شہزادہ اس کے پہلو میں شیشے کے ساتھ لگا کھڑا باہر دیکھ رہاہے۔
ملکہ کا دبدبہ اور شخصیت کاطلسم اپنی جگہ کہ اب تک ہم نے ملکاؤں اورشاہوں بادشاہوں کی صرف کہانیاں سنی تھیں، مجسم ملکہ پہلی بار دیکھ رہے تھے اور ساتھ ہی کہانیوں کا شہزادہ ،اس کے علاوہ بھی گاڑی میں ڈرائیور اورکچھ ہوں گے لیکن ہماری نظریں صرف ملکہ اور شہزادے پر ٹکی ہوئی تھیں اس وقت ملکہ دبلی، پتلی اور بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔
وہ تصویرآج بھی ہمارے ذہن میں ویسی کی ویسی موجود ہے ملکہ چھیاسٹھ برس طویل حکومت کے بعد آخرکار اپنے آباؤاجداد سے جاملی لیکن وہ خوبصورت گول مٹول سا شہزادہ جب تحت پر آج بیٹھ گیا ہے، ایک بوڑھے کی شکل میں جس کی آنکھوں میں انتظار منجمد ہوکر مایوسی میں بدل گیا تھا،اب تحت پر بیٹھ بھی گیا تو۔ جب دانت تھے تو چنے نہیں تھے ،اب چنے مل گئے تو دانت نہیں رہے ، زندگی کی ساری بہاریں گزرچکی ہیں صرف خزاں رہ گئی ہے۔
خزاں میں اڑتے پتوں کی کوئی منزل نہیں ہوتی
اسی سے ملتاجلتا ہے دل برباد کا موسم
دنیا میں کتنی مائیں اور ان کی اولادیں گزرچکی ہیں، عموماً دیکھاگیا کہ ماؤں کی ساری توجہ اور ترجیح بچے ہوتے ہیں، ہرماں کی بس یہی خواہش ہوتی ہے کہ جہاں سے بھی ملیں خوشیاں لاکر بچوں پر نچھاورکردیں۔
ملکہ الزبتھ چاہتیں تو استعفا دے کر اپنے بیٹے کے حق میں دست بردار ہوسکتی تھیں، اگر بہت ہی خواہش تھی تو چلو بتیس سال حکومت کرنے کے بعد ملکہ کے بجائے مادر ملکہ بھی بن جاتیں تو نہ تو ان کا احترام کم ہوتا نہ کچھ اور بلکہ اپنی زندگی بھی آرام دہ کرلیتیں، لیکن انھیں تو ریکارڈ بنانا تھے جو اب کاغذوں میں گم ہوگئے۔
دوکہانیاں یاد آرہی ہیں جن میں ایک بالکل سچی اور ہمارے سامنے کی ہے ، ہمارے عزیزوں میں ایک نوجوان کے دونوں گردے فیل ہوگئے،اسے ایک گردہ دینا تھا، باپ بھائی اور دوسرے عزیزوں نے انکار کیا، ماں جوخود بھی بیمار تھی اٹھ کھڑی ہوئی اورکراچی لے جاکر بیٹے کو اپنا ایک گردہ دے دیا، اخراجات کے لیے اپنے زیور بیچے،حالانکہ سامنے کی بات تھی کہ کچھ ہی مہینے زندہ رہ پاتی۔
دوسری کہانی ایک علامتی حکایت ہے، کہتے ہیں کہ ایک نوجوان کسی لڑکی پر عاشق ہوگیا، سنگدل محبوبہ نے شرط رکھی کہ وہ اگر اپنی ماں کا دل نکال کر لائے تو اس کی ہوجائے گی ، ماں کو پتہ چلا تو اس نے بیٹے کوخود مجبورکیاکہ اس کا دل نکال کر اپنی محبوبہ کی شرط پوری کرے۔
بیٹاجب ماں کا دل نکال کرلے جارہا تھا تو راستے میں اسے ٹھوکر لگی ،گر پڑا اور ماں کا دل بھی اس کے ہاتھ سے گر کر الگ جا پڑا، اوراس دل سے آواز آئی کہ بیٹا چوٹ تو نہیں لگی۔