پاک افغان تجارتی تعلقات
پاکستان کوافغانستان سے اورافغانستان کے راستے وسط ایشیائی ملکوں سے تجارت بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے
بات ہم اپنے پڑوسی برادر اسلامی ملک افغانستان سے شروع کرتے ہیں، جس کے ساتھ صدیوں نہیں ہزاروں سال سے ہمارے تجارتی تعلقات ہیں۔
دور قدیم میں بنگلہ دیش کے ساحلی شہر چٹاگانگ کی دریائے کرنافلی سے لے کر دریائے سندھ اٹک کے مقام سے آگے درہ خیبر سے ہوتے ہوئے،کابل اس سے آگے قندھار اور دوسرا روٹ کابل سے وسط ایشیائی ممالک حتیٰ کہ یورپ تک اور انگلینڈ تک سامان تجارت اور ڈھاکا کی ململ اور برصغیر کی ہزاروں اشیا پہنچ جایا کرتی تھیں۔
قیام پاکستان سے پہلے جرنیلی سڑک کے ذریعے سفری اور تجارتی سہولیات سے دنیا بھرکے سیاحوں ، تاجروں اور مسافروں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ قیام پاکستان کے بعد اگرچہ وہاں کی حکومت کے پاکستان کے ساتھ گرم جوش تعلقات نہ تھے لیکن دونوں ممالک کے باشندے ایک مذہب اور ثقافت میں بندھے ہوئے تھے۔
اسی طرح دو طرفہ تجارت بھی زوروں پر تھی۔ پھر ایک وقت آیا کہ دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں چمن کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ، جہاں اب اکثر کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہزاروں ٹرک سامان تجارت سے لدے پھندے ایک طرف کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ سیکڑوں تاجر پریشان حال ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ دو دن چار دن یا زائد عرصے کے لیے آمد و رفت بند ہو جاتی ہے۔
اس مرتبہ چمن بارڈر پرکشیدگی کا حکومت نے بروقت نوٹس لیا۔ افغانستان سے بہت سے امور پر گفتگو کی خاطر وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے گزشتہ دنوں افغانستان کا دورہ کیا۔ موجودہ حکومت کے دور میں یہ پہلا اعلیٰ سطح رابطہ تھا جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے نیا طریقہ وضع کیا جائے گا اور مشترکہ مسائل باہمی مذاکرات کے ذریعے طے کیے جائیں گے۔
افغانستان نے تاپی منصوبے جو گیس منصوبہ ہے ریلوے لائنز اور دیگر اہم منصوبوں پر پیش رفت کے لیے آمادگی کا عندیہ دیا ہے۔ اس بات پر کہ پاکستان افغانستان کا جنوبی اور وسطی ایشیا کو ٹرانسپورٹ اور توانائی منصوبوں کے ذریعے جوڑنے پر اتفاق کیا گیا۔ افغان قیادت سے ملاقات میں تعلیم، صحت، زراعت، تجارت، سرمایہ کاری، انسداد دہشت گردی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہاں پر دیگر امور کے علاوہ پاکستان کے لیے سب سے اہم امور باہمی تجارت کا بھی ہے۔ پاکستان ایک وقت اربوں روپے کی ایکسپورٹ افغانستان کوکیا کرتا تھا۔ پاکستان کی برآمدات کے بارے میں ایک سہ ماہی ٹریڈ ریویو، پی بی ایس کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے جس میں 20 اہم ترین ان ممالک کو کی جانے والی ایکسپورٹ کی مالیت اور کل ایکسپورٹ میں اس کا حصہ بیان کیا جاتا ہے اور یہ فارن ٹریڈ سے متعلق انتہائی اہم ترین اعداد و شمار پیش کرنے کا سہرا پی بی ایس کے ٹریڈ سیکشن کراچی کو جاتا ہے۔
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایک وقت افغانستان پاکستان کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر تھا۔ پاکستان کی کل برآمدات کا تیسرا شراکت دار ملک افغانستان تھا اور کل برآمدات کا کبھی 9 فیصد کبھی 8 یا 7 فیصد سے بھی زائد حصے پر افغانستان براجمان تھا ، لیکن کئی سالوں سے صورت حال تبدیل ہوچکی ہے۔
2019-20 میں20 ممالک کی فہرست میں افغانستان ساتویں نمبر پر تھا۔ جسے پاکستان کی کل برآمدات کا 3.98 فیصد برآمد کیا جاتا تھا۔ اس سے قبل سال 2018-19 میں پاکستان نے افغانستان کو ایک کھرب 76 ارب 37 کروڑ روپے کا سامان برآمد کیا تھا اور افغانستان کو کل برآمدات کا 5.64 فیصد حصہ برآمد کرچکا تھا۔
2020-21 کے دوران برآمدی مالیت ایک کھرب 64ارب روپے تھی جوکہ 2021-21 یعنی جولائی 2021 سے جون 2022 تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے افغانستان کو ایک کھرب 43ارب 41 کروڑ روپے کی برآمدات کرکے دسویں نمبر پر آگیا۔ اب اسے دوبارہ تیسرے یا چوتھے نمبر پر لانے کے لیے اور باہمی تجارت کو دگنا کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔
یہ صرف چند سال قبل کی بات ہے جب افغانستان کے مختلف شہروں اور قصبوں کی مارکیٹوں میں پاکستانی مال، سامان، مصنوعات کی کثرت ہوا کرتی تھی۔ اب دیگر ممالک خصوصاً انڈیا کی مصنوعات بڑی تیزی سے جگہ لے رہی ہے۔ دونوں ممالک کے تاجر اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
حکومت پاکستان ان تاجروں کو رسائی دے ان کو سہولیات دے جو افغانستان جا کر پاکستانی برآمدات کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
مختلف تجارتی مراکز میں جاکر جائزہ لینے والوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں پہلے کے مقابلے میں پاکستانی اشیا اور مصنوعات مہنگی ہونے کے باعث اس کی طلب کم ہو رہی ہے اور اس کا متبادل دیگر ممالک جوکہ سستا کرکے افغانستان کو برآمد کررہے ہیں وہ جگہ لے رہے ہیں۔ پاکستانی تاجروں، صنعتکاروں اور ایکسپورٹرز کو اس جانب خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ بصورت دیگر پاکستانی برآمدی مالیت کا حجم کم ہوتا چلا جائے گا۔
تاپی منصوبے کے لیے پاکستان افغانستان اور تاجکستان کے درمیان کئی سال قبل خاصی پیش رفت ہوئی تھی۔ جوکہ اب سرد خانے کی نذر ہو چکی ہے۔ 1979 میں روس کے ٹوٹنے کے بعد کئی وسط ایشیائی ملکوں نے آزادی حاصل کی اور ان کی تجارت پاکستان کے ساتھ زور شور سے جاری رہی ، لیکن جلد ہی پاکستان اور افغانستان میں بدامنی اور دیگر بہت سے مسائل کے باعث ان ملکوں کے تاجروں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔
جسے بحال کرنے اور وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان کے ذریعے جن ملکوں تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے ان تمام ملکوں کے لیے پاکستان تجارت بڑھانے کا روڈ میپ تیار کرے۔
1990 کی دہائی میں لوگ نجی طور پر کچھ مال تجارت لے کر پاکستان آتے تھے اور یہاں سے لدے پھندے وسط ایشیائی ریاستوں کی جانب واپس چلے جاتے تھے جس سے یہاں پر سیاحت و تجارت کو فروغ حاصل ہو رہا تھا ، لیکن اب یہ سلسلہ اس لیے ختم ہو چکا ہے کہ نائن الیون اور اس کے بعد سے ملک میں سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوگئے تھے جو اب نہیں ہیں۔
لہٰذا اب ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو افغانستان سے اور افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ملکوں سے تجارت بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
دور قدیم میں بنگلہ دیش کے ساحلی شہر چٹاگانگ کی دریائے کرنافلی سے لے کر دریائے سندھ اٹک کے مقام سے آگے درہ خیبر سے ہوتے ہوئے،کابل اس سے آگے قندھار اور دوسرا روٹ کابل سے وسط ایشیائی ممالک حتیٰ کہ یورپ تک اور انگلینڈ تک سامان تجارت اور ڈھاکا کی ململ اور برصغیر کی ہزاروں اشیا پہنچ جایا کرتی تھیں۔
قیام پاکستان سے پہلے جرنیلی سڑک کے ذریعے سفری اور تجارتی سہولیات سے دنیا بھرکے سیاحوں ، تاجروں اور مسافروں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ قیام پاکستان کے بعد اگرچہ وہاں کی حکومت کے پاکستان کے ساتھ گرم جوش تعلقات نہ تھے لیکن دونوں ممالک کے باشندے ایک مذہب اور ثقافت میں بندھے ہوئے تھے۔
اسی طرح دو طرفہ تجارت بھی زوروں پر تھی۔ پھر ایک وقت آیا کہ دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں چمن کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ، جہاں اب اکثر کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہزاروں ٹرک سامان تجارت سے لدے پھندے ایک طرف کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ سیکڑوں تاجر پریشان حال ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ دو دن چار دن یا زائد عرصے کے لیے آمد و رفت بند ہو جاتی ہے۔
اس مرتبہ چمن بارڈر پرکشیدگی کا حکومت نے بروقت نوٹس لیا۔ افغانستان سے بہت سے امور پر گفتگو کی خاطر وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے گزشتہ دنوں افغانستان کا دورہ کیا۔ موجودہ حکومت کے دور میں یہ پہلا اعلیٰ سطح رابطہ تھا جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے نیا طریقہ وضع کیا جائے گا اور مشترکہ مسائل باہمی مذاکرات کے ذریعے طے کیے جائیں گے۔
افغانستان نے تاپی منصوبے جو گیس منصوبہ ہے ریلوے لائنز اور دیگر اہم منصوبوں پر پیش رفت کے لیے آمادگی کا عندیہ دیا ہے۔ اس بات پر کہ پاکستان افغانستان کا جنوبی اور وسطی ایشیا کو ٹرانسپورٹ اور توانائی منصوبوں کے ذریعے جوڑنے پر اتفاق کیا گیا۔ افغان قیادت سے ملاقات میں تعلیم، صحت، زراعت، تجارت، سرمایہ کاری، انسداد دہشت گردی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہاں پر دیگر امور کے علاوہ پاکستان کے لیے سب سے اہم امور باہمی تجارت کا بھی ہے۔ پاکستان ایک وقت اربوں روپے کی ایکسپورٹ افغانستان کوکیا کرتا تھا۔ پاکستان کی برآمدات کے بارے میں ایک سہ ماہی ٹریڈ ریویو، پی بی ایس کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے جس میں 20 اہم ترین ان ممالک کو کی جانے والی ایکسپورٹ کی مالیت اور کل ایکسپورٹ میں اس کا حصہ بیان کیا جاتا ہے اور یہ فارن ٹریڈ سے متعلق انتہائی اہم ترین اعداد و شمار پیش کرنے کا سہرا پی بی ایس کے ٹریڈ سیکشن کراچی کو جاتا ہے۔
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایک وقت افغانستان پاکستان کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر تھا۔ پاکستان کی کل برآمدات کا تیسرا شراکت دار ملک افغانستان تھا اور کل برآمدات کا کبھی 9 فیصد کبھی 8 یا 7 فیصد سے بھی زائد حصے پر افغانستان براجمان تھا ، لیکن کئی سالوں سے صورت حال تبدیل ہوچکی ہے۔
2019-20 میں20 ممالک کی فہرست میں افغانستان ساتویں نمبر پر تھا۔ جسے پاکستان کی کل برآمدات کا 3.98 فیصد برآمد کیا جاتا تھا۔ اس سے قبل سال 2018-19 میں پاکستان نے افغانستان کو ایک کھرب 76 ارب 37 کروڑ روپے کا سامان برآمد کیا تھا اور افغانستان کو کل برآمدات کا 5.64 فیصد حصہ برآمد کرچکا تھا۔
2020-21 کے دوران برآمدی مالیت ایک کھرب 64ارب روپے تھی جوکہ 2021-21 یعنی جولائی 2021 سے جون 2022 تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے افغانستان کو ایک کھرب 43ارب 41 کروڑ روپے کی برآمدات کرکے دسویں نمبر پر آگیا۔ اب اسے دوبارہ تیسرے یا چوتھے نمبر پر لانے کے لیے اور باہمی تجارت کو دگنا کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔
یہ صرف چند سال قبل کی بات ہے جب افغانستان کے مختلف شہروں اور قصبوں کی مارکیٹوں میں پاکستانی مال، سامان، مصنوعات کی کثرت ہوا کرتی تھی۔ اب دیگر ممالک خصوصاً انڈیا کی مصنوعات بڑی تیزی سے جگہ لے رہی ہے۔ دونوں ممالک کے تاجر اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
حکومت پاکستان ان تاجروں کو رسائی دے ان کو سہولیات دے جو افغانستان جا کر پاکستانی برآمدات کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
مختلف تجارتی مراکز میں جاکر جائزہ لینے والوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں پہلے کے مقابلے میں پاکستانی اشیا اور مصنوعات مہنگی ہونے کے باعث اس کی طلب کم ہو رہی ہے اور اس کا متبادل دیگر ممالک جوکہ سستا کرکے افغانستان کو برآمد کررہے ہیں وہ جگہ لے رہے ہیں۔ پاکستانی تاجروں، صنعتکاروں اور ایکسپورٹرز کو اس جانب خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ بصورت دیگر پاکستانی برآمدی مالیت کا حجم کم ہوتا چلا جائے گا۔
تاپی منصوبے کے لیے پاکستان افغانستان اور تاجکستان کے درمیان کئی سال قبل خاصی پیش رفت ہوئی تھی۔ جوکہ اب سرد خانے کی نذر ہو چکی ہے۔ 1979 میں روس کے ٹوٹنے کے بعد کئی وسط ایشیائی ملکوں نے آزادی حاصل کی اور ان کی تجارت پاکستان کے ساتھ زور شور سے جاری رہی ، لیکن جلد ہی پاکستان اور افغانستان میں بدامنی اور دیگر بہت سے مسائل کے باعث ان ملکوں کے تاجروں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔
جسے بحال کرنے اور وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان کے ذریعے جن ملکوں تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے ان تمام ملکوں کے لیے پاکستان تجارت بڑھانے کا روڈ میپ تیار کرے۔
1990 کی دہائی میں لوگ نجی طور پر کچھ مال تجارت لے کر پاکستان آتے تھے اور یہاں سے لدے پھندے وسط ایشیائی ریاستوں کی جانب واپس چلے جاتے تھے جس سے یہاں پر سیاحت و تجارت کو فروغ حاصل ہو رہا تھا ، لیکن اب یہ سلسلہ اس لیے ختم ہو چکا ہے کہ نائن الیون اور اس کے بعد سے ملک میں سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوگئے تھے جو اب نہیں ہیں۔
لہٰذا اب ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو افغانستان سے اور افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ملکوں سے تجارت بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔