ڈھاکا فوجی یا سیاسی ناکامی
اگر شیخ مجیب سیاسی حقیقت تھا تو وہ پاکستان کو توڑ نہیں رہا تھا، وہ تو پاکستان کا منتخب وزیر اعظم بننے کا حقدار تھا
کیا سیاسی ناکامی، کیا فوجی ناکامی، کسے کچھ خبر نہیں، حقیقت تو محفوظ ہوئی تھی حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں جو مکمل شایع نہیں ہوئی۔
لگ بھگ جو بھی گواہ پیش ہوئے پیشے کے اعتبار سے عسکری شعبے سے تعلق رکھتے تھے، جو چند سول پوشاک والے حاضر ہوئے ان میں ایک گواہ میرے والد قاضی فیض محمد، سینئر وائس پریذیڈنٹ آل پاکستان عوامی لیگ بھی تھے، وہ خطوط تو میرے پاس تھے جو جسٹس حمود الرحمان نے میرے والد کو لکھے اور میرے والد نے جوابا انھیں لکھے مگر کمیشن میں کیا ریکارڈ بیان کرایا، وہ نہیں پتہ۔ البتہ کچھ اندازہ ہے، ایک خط میں انھوں نے جسٹس حمود الرحمان کو لکھا کہ ''میں اس سانحہ کا چشم دید گواہ ہوں، چوبیس مارچ کی آخری رات، میں شیخ مجیب الرحمان کے دھان منڈی والے گھر میں ان کے ساتھ تھا، میرا دل خون کے آنسو روتا ہے...''
کوئی سات یا آٹھ خطوط تھے کمیشن کے سربراہ اور میرے والدکے درمیان، وہ اصل خطوط میں نے حسینہ واجدکو دیے تھے، تاکہ یہ شیخ مجیب کے دھان منڈی والے گھر میں محفوظ رکھے جائیں جو اب ان کے نام سے میوزیم ہے۔
حسینہ واجد صاحبہ نے ایک خط لکھ کر دیا جس میں وہ تمام خطوط جو شیخ مجیب نے ابا کو لکھے یا جو بھی عوامی لیگ سے منسلک میرے گھر میں تھا، جو ان کو دیا، اس کو تحریری طور پر لیا اور محبتوں سے بھرا وہ خط اب بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ جس میں وہ لکھتی ہیں ''تم جو یہ خطوط اور کاغذات مجھے دے رہے ہو، اس سے تاریخ کو ایک نیا رخ ملتا ہے،'' کب تھا شیخ مجیب کو پاکستان توڑنے کا خیال؟
ایک خط میں وہ میرے والد کو لکھتے ہیں کہ جب وہ نوابشاہ آئے تھے، نوابشاہ سے جیکب آباد غالباً پھر کوئٹہ نکل گئے تھے، جب نواب اکبر بگٹی نے عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ یہ جولائی 1970 کا زمانہ ہے ، عام انتخابات سے دو یاچھ ماہ پہلے کا۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں سمندری طوفان آیا تھا جس نے پوری کایا ہی پلٹ دی تھی کہ ہم مغربی پاکستان کے رہنے والے اور جنرل یحییٰ کی حکومت ان کی مدد کو نہیں پہنچی تھی۔
وہ لکھتے ہیں ''قاضی صاحب اس مرتبہ مشرقی پاکستان میں کچھ نئی طرح سے دیکھنے کو ملا ، مجھے مشرقی و مغربی پاکستان کے لوگ ایک جیسے نظر آئے ، وہی ستم دہقانوں، مزدوروں کے ساتھ یہاں بھی ہو رہا ہے جو وہاں بھی ہو رہا ہے۔ وہی محکوموں و مظلوموں کی حکایا ت ہیں، وہ ہی گماشتہ سرما یہ دار طبقہ ہے۔ آپ ان لوگوں کو بتائیں، ہماری حکومت آئے گی ہم ان کو اس ظلم و ستم سے آزادی دلائیں گے۔''
اس خط میں ایسا کچھ نہیں، جس سے پاکستان توڑنے کی بو آتی ہو۔ میں نے یہی سوال ڈھاکا میں بہت سے لوگوں سے کیا تھا۔ وہ میری بات سے متفق نظر آئے مگر اب ان کو مختلف بیانیہ چاہیے، جس سے بہت سے حقائق چھپ جاتے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو شیخ حسینہ واجدصاحبہ کا کہ انھوں نے یہ لکھ کر دیا کہ جو دستاویزات میں دے رہا ہوں وہ ایک نیارخ ہے ان تاریخی حقائق پر۔
اگر شیخ مجیب سیاسی حقیقت تھا تو وہ پاکستان کو توڑ نہیں رہا تھا، وہ تو پاکستان کا منتخب وزیر اعظم بننے کا حقدار تھا۔ یہ ماجرا تو بھٹو صاحب سے کوئی پوچھے، اس وقت جو جنرل یحییٰ کے وزیر خارجہ تھے اور جنرل ایوب خان کے بھی وزیر خارجہ رہے۔
وہ بھی سیاسی حقیقت تھے مگر مغربی پاکستان کی، جو پنجاب کا ہیرو تھا۔ وہ پنجاب جس نے بڑھ چڑھ کے عام انتخابات میں حصہ لیا ۔ پنجاب میںلگ بھگ ستر فیصد ووٹ ڈالنے کا تناسب تھا، 1970 کے عام انتخابات میں۔ وہ کیا تھا ؟ ایک بیانیہ تھا، جو بھٹو کو ورثے میں ملا تھا اور اس میں بھٹو نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ یہ سب ہمارے پیارے لیڈر ہیں جوآگے جاکر آمر ضیاء الحق سے جنگ ہار گئے، مگر 1970 کے سانحے کو رونما ہونے سے روکنے کے حوالے سے کوئی کردار نہ ادا کرسکے۔
اس سانحے میں سارے مغربی پاکستان کے اشراف، سیاستدان اور حکمران طبقہ مجرم ہے اور اس میں آج کی عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کے کردار کو الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ میرے والد اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ شیخ مجیب اور ولی خان یا نیشنل عوامی پارٹی کی آخری میٹنگ میں، میں بذاتِ خود موجود تھا ، مگر کوئی حل یاواضح موقف ان کی طرف سے نہیں آیا ،فقط زبانی کلامی قرارداد طے پائی مگر اور یہ بھی نہیں کہ مغربی پاکستان جاکر دباؤ ڈالیں کہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کیا جائے، ایسی کوئی بات نہیں ہوئی، جس کا دکھ شیخ مجیب کو ہوا تھا۔
بہت سال بعد میں نے ایک نجی ٹی وی چینل کے لیے بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کا انٹرویو کیا تھا۔
اس انٹر ویو میں ، میں نے یہی سوال اٹھایا تھا کہ میرے والد کہتے تھے کہ نیپ( نیشنل عوامی پارٹی)کا مشرقی پاکستان کے سانحے میں کردار مبہم اور کمزور تھا۔ جواباً خیر بخش مری نے مجھے سے کہا ''آپ کے والد درست کہتے تھے، لیکن ہم اپنی پارٹی میں موقف تو رکھتے تھے لیکن ہماری پارٹی میں ہمارے موقف کی اتنی اہمیت نہ تھی۔''
1970 کے پس منظر میں ذوالفقار علی بھٹو کیا تھے، سیاسی لیڈر تھے یا فوجی لیڈر تھے ؟کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔ سردار شیر باز مزاری اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ''اور بہت ٹھوس شواہدات کے پس منظر میں اور بریگیڈیئر اے آر صدیقی اپنی جنرل یحییٰ کی کتاب میں کم و بیش میں، ایسی ہی بات کرتے ہیں کہ'' جنرل یحییٰ تو اپنا اثر کھو بیٹھا تھا ۔ طاقتور تھے جنرل پیرزادہ اور باقی پنجاب سے جنرل اور ساتھ بھٹو صاحب۔یہاں تک کہ جنرل یحییٰ لاڑکانہ ذوالفقارعلی بھٹو سے مشورہ کرنے پہنچ جاتے۔ ''
(جاری ہے)
لگ بھگ جو بھی گواہ پیش ہوئے پیشے کے اعتبار سے عسکری شعبے سے تعلق رکھتے تھے، جو چند سول پوشاک والے حاضر ہوئے ان میں ایک گواہ میرے والد قاضی فیض محمد، سینئر وائس پریذیڈنٹ آل پاکستان عوامی لیگ بھی تھے، وہ خطوط تو میرے پاس تھے جو جسٹس حمود الرحمان نے میرے والد کو لکھے اور میرے والد نے جوابا انھیں لکھے مگر کمیشن میں کیا ریکارڈ بیان کرایا، وہ نہیں پتہ۔ البتہ کچھ اندازہ ہے، ایک خط میں انھوں نے جسٹس حمود الرحمان کو لکھا کہ ''میں اس سانحہ کا چشم دید گواہ ہوں، چوبیس مارچ کی آخری رات، میں شیخ مجیب الرحمان کے دھان منڈی والے گھر میں ان کے ساتھ تھا، میرا دل خون کے آنسو روتا ہے...''
کوئی سات یا آٹھ خطوط تھے کمیشن کے سربراہ اور میرے والدکے درمیان، وہ اصل خطوط میں نے حسینہ واجدکو دیے تھے، تاکہ یہ شیخ مجیب کے دھان منڈی والے گھر میں محفوظ رکھے جائیں جو اب ان کے نام سے میوزیم ہے۔
حسینہ واجد صاحبہ نے ایک خط لکھ کر دیا جس میں وہ تمام خطوط جو شیخ مجیب نے ابا کو لکھے یا جو بھی عوامی لیگ سے منسلک میرے گھر میں تھا، جو ان کو دیا، اس کو تحریری طور پر لیا اور محبتوں سے بھرا وہ خط اب بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ جس میں وہ لکھتی ہیں ''تم جو یہ خطوط اور کاغذات مجھے دے رہے ہو، اس سے تاریخ کو ایک نیا رخ ملتا ہے،'' کب تھا شیخ مجیب کو پاکستان توڑنے کا خیال؟
ایک خط میں وہ میرے والد کو لکھتے ہیں کہ جب وہ نوابشاہ آئے تھے، نوابشاہ سے جیکب آباد غالباً پھر کوئٹہ نکل گئے تھے، جب نواب اکبر بگٹی نے عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ یہ جولائی 1970 کا زمانہ ہے ، عام انتخابات سے دو یاچھ ماہ پہلے کا۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں سمندری طوفان آیا تھا جس نے پوری کایا ہی پلٹ دی تھی کہ ہم مغربی پاکستان کے رہنے والے اور جنرل یحییٰ کی حکومت ان کی مدد کو نہیں پہنچی تھی۔
وہ لکھتے ہیں ''قاضی صاحب اس مرتبہ مشرقی پاکستان میں کچھ نئی طرح سے دیکھنے کو ملا ، مجھے مشرقی و مغربی پاکستان کے لوگ ایک جیسے نظر آئے ، وہی ستم دہقانوں، مزدوروں کے ساتھ یہاں بھی ہو رہا ہے جو وہاں بھی ہو رہا ہے۔ وہی محکوموں و مظلوموں کی حکایا ت ہیں، وہ ہی گماشتہ سرما یہ دار طبقہ ہے۔ آپ ان لوگوں کو بتائیں، ہماری حکومت آئے گی ہم ان کو اس ظلم و ستم سے آزادی دلائیں گے۔''
اس خط میں ایسا کچھ نہیں، جس سے پاکستان توڑنے کی بو آتی ہو۔ میں نے یہی سوال ڈھاکا میں بہت سے لوگوں سے کیا تھا۔ وہ میری بات سے متفق نظر آئے مگر اب ان کو مختلف بیانیہ چاہیے، جس سے بہت سے حقائق چھپ جاتے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو شیخ حسینہ واجدصاحبہ کا کہ انھوں نے یہ لکھ کر دیا کہ جو دستاویزات میں دے رہا ہوں وہ ایک نیارخ ہے ان تاریخی حقائق پر۔
اگر شیخ مجیب سیاسی حقیقت تھا تو وہ پاکستان کو توڑ نہیں رہا تھا، وہ تو پاکستان کا منتخب وزیر اعظم بننے کا حقدار تھا۔ یہ ماجرا تو بھٹو صاحب سے کوئی پوچھے، اس وقت جو جنرل یحییٰ کے وزیر خارجہ تھے اور جنرل ایوب خان کے بھی وزیر خارجہ رہے۔
وہ بھی سیاسی حقیقت تھے مگر مغربی پاکستان کی، جو پنجاب کا ہیرو تھا۔ وہ پنجاب جس نے بڑھ چڑھ کے عام انتخابات میں حصہ لیا ۔ پنجاب میںلگ بھگ ستر فیصد ووٹ ڈالنے کا تناسب تھا، 1970 کے عام انتخابات میں۔ وہ کیا تھا ؟ ایک بیانیہ تھا، جو بھٹو کو ورثے میں ملا تھا اور اس میں بھٹو نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ یہ سب ہمارے پیارے لیڈر ہیں جوآگے جاکر آمر ضیاء الحق سے جنگ ہار گئے، مگر 1970 کے سانحے کو رونما ہونے سے روکنے کے حوالے سے کوئی کردار نہ ادا کرسکے۔
اس سانحے میں سارے مغربی پاکستان کے اشراف، سیاستدان اور حکمران طبقہ مجرم ہے اور اس میں آج کی عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کے کردار کو الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ میرے والد اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ شیخ مجیب اور ولی خان یا نیشنل عوامی پارٹی کی آخری میٹنگ میں، میں بذاتِ خود موجود تھا ، مگر کوئی حل یاواضح موقف ان کی طرف سے نہیں آیا ،فقط زبانی کلامی قرارداد طے پائی مگر اور یہ بھی نہیں کہ مغربی پاکستان جاکر دباؤ ڈالیں کہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کیا جائے، ایسی کوئی بات نہیں ہوئی، جس کا دکھ شیخ مجیب کو ہوا تھا۔
بہت سال بعد میں نے ایک نجی ٹی وی چینل کے لیے بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کا انٹرویو کیا تھا۔
اس انٹر ویو میں ، میں نے یہی سوال اٹھایا تھا کہ میرے والد کہتے تھے کہ نیپ( نیشنل عوامی پارٹی)کا مشرقی پاکستان کے سانحے میں کردار مبہم اور کمزور تھا۔ جواباً خیر بخش مری نے مجھے سے کہا ''آپ کے والد درست کہتے تھے، لیکن ہم اپنی پارٹی میں موقف تو رکھتے تھے لیکن ہماری پارٹی میں ہمارے موقف کی اتنی اہمیت نہ تھی۔''
1970 کے پس منظر میں ذوالفقار علی بھٹو کیا تھے، سیاسی لیڈر تھے یا فوجی لیڈر تھے ؟کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔ سردار شیر باز مزاری اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ''اور بہت ٹھوس شواہدات کے پس منظر میں اور بریگیڈیئر اے آر صدیقی اپنی جنرل یحییٰ کی کتاب میں کم و بیش میں، ایسی ہی بات کرتے ہیں کہ'' جنرل یحییٰ تو اپنا اثر کھو بیٹھا تھا ۔ طاقتور تھے جنرل پیرزادہ اور باقی پنجاب سے جنرل اور ساتھ بھٹو صاحب۔یہاں تک کہ جنرل یحییٰ لاڑکانہ ذوالفقارعلی بھٹو سے مشورہ کرنے پہنچ جاتے۔ ''
(جاری ہے)