مسافتوں کے مسائل
پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے رہنے والے ٹریفک کے ہجوم سے دوچار نظر آتے ہیں
میں نے جب اس کو دیکھا تو اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی، آنکھوں سے جیسے شعلے لپک رہے تھے اور اس کا بلڈ پریشر یقینا آسمان سے باتیں کر رہا ہوگا ، وہ سامنے والے شخص کا گریبان پکڑے اس کو گالیاں دے رہا تھا سامنے والا بھی اس کو مارنے کی کوشش میں آپے سے باہر ہو رہا تھا ، ٹریفک سارا جام تھا اور دور تک لمبی لائن لگ چکی تھی۔
میں بھی جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہ رہی تھی اور سارے دن کی تھکان میرے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی۔ میں دوسرے کسی راستے سے جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ ایک ایمبولنس شور مچاتی آ کھڑی ہوئی مجھے ذرا سی دیر میں اندازہ ہوگیا کہ کوئی بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوگا اور افسوس کی بات یہ تھی کہ وہاں صلح صفائی کروانے کے بجائے زیادہ تر لوگ یا تو تماشہ دیکھ رہے تھے یا وڈیو بنائی جا رہی تھی۔
میں نے گاڑی کو سائیڈ میں کھڑا کرکے کچھ نوجوانوں سے مخاطب ہوکر رش کو ہٹانے اور ایمبولنس کے لیے جگہ بنانے کو کہا ، کچھ لڑکے میرے کہنے سے آگے آئے اور جلدی جلدی گاڑیاں ہٹوانے لگے، میں نے باقی گاڑیوں کو بھی جانے کا اشارہ کیا اور ایک صاحب کو کہا کہ'' کیا ہوا ہے؟'' انھوں نے کہا کہ '' پہلے والا شخص اس آدمی کی گاڑی کو overtake کر کے چلا گیا تھا۔
اس لیے بات اس ذرا سی بات سے یہاں تک پہنچ گئی۔'' میں نے ان سے کہا کہ '' بات کو ختم کروائیں اور راستہ خالی کروائیں اس طرح اور ٹریفک جام ہوگا۔'' بہرحال کسی طرح ان دونوں کو سمجھا بجھا کر روانہ کیا گیا اور میں سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ ہم ایسے کیوں ہیں؟ ان کی اس لڑائی کی وجہ سے کوئی آدھ گھنٹے تک ٹریفک جام رہا۔
اسی طرح بے ہنگم طریقے سے گاڑیاں دوڑانا ایک دم بائیک کو آگے سے لہرا کر لے جانا یا موت کے کنویں کی طرز پر بائیک گھمانا آج کل فیشن کا حصہ ہے کس کو سمجھائیں اور کس سے کہیں ٹریفک کے قوانین کی پاسداری اور ان کا خیال اب خال خال ہی رہ گیا ہے۔ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی بہت سارے مسائل کو جنم دیتی ہے۔
پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے رہنے والے ٹریفک کے ہجوم سے دوچار نظر آتے ہیں۔ ٹریفک کنٹرول کا مسئلہ ٹریفک کے اشاروں کے بارے میں آگاہی کا فقدان گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سڑکوں کا پریشان کن انفرا اسٹرکچر گڑھے کھلے گٹر اور اسپیڈ بریکرز کی بہتات ٹوٹی پھوٹی سڑکیں یہ سب ٹریفک کے عام مسائل ہیں ۔اور تو اور سڑک پر تعمیراتی کام ٹریفک کی روانی پر نمایاں اثر ڈال رہا ہے ، یہ ٹریفک کو متاثر کرتا ہے اور ایک اہم روڈ بلاک ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے سڑکوں کی کھدائی سے مسافروں اور وہاں رہنے والوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔
اس سے درمیان سے گزرنے والی گاڑیوں اور دیگر گاڑیوں کی وجہ سے لمبی قطاریں بن جاتی ہیں جس کی وجہ سے تعمیر کی مدت میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ٹریفک سگنلز عام طور پر خود کار طریقے سے ٹریفک کو کنٹرول کر رہے ہو تے ہیں مگر دیکھا جاتا ہے کہ کافی جگہ سگنلز بند ہیں لائٹس آف ہیں اور ٹریفک پولیس اہلکار خود ٹریفک کو کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں۔
اس طرح کے کنٹرولنگ سسٹم میں غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ شام کا وقت ٹریفک کے شدید دباؤ کا باعث بنتا ہے، ایسے میں ایک طرف والوں کو زیادہ دیر تک کھولنا جب کہ دوسری طرف والوں کو انتظار کروانا اور مختصر لمحے کے لیے فعال کرنا شامل ہے زیادہ تر ڈرائیورز پیشگی کسی معلومات کے سڑک پر گاڑی چلاتے ہیں جمپنگ لین اوور ٹیکنگ تیز رفتاری وغیرہ ایسی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک حادثات بھی بڑھتے ہیں۔
غیر محفوظ ڈرائیونگ ایندھن کے ضیاع اور فضائی آلودگی بھی بڑھتی ہے، اس سے گاڑی چلانے والوں اور مسافروں میں تناؤ بھی بڑھتا ہے ، غیر محفوظ ڈرائیونگ ٹریفک جام اور حادثات کا بھی باعث ہے۔
ٹریفک جام انسانی ذہن پر بھی منفی اثرات ڈالتا ہے۔ پارکنگ کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے ، اس سے ہر انسان کو روزانہ واسطہ پڑتا ہے خاص طور پر اگر ہم کراچی لاہور اور اسلام آباد کی بات کریں تو یہاں لوگوں کو مناسب پارکنگ کی جگہ نہیں ملتی جس کی وجہ سے لوگ عام طور پر گاڑیاں بیچ سڑک پر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے۔
سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے ایک ڈرائیور کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے جیسے سڑک پر ڈبل پارکنگ ، سڑک پر تعمیر کا کام ، روڈ کا بند ہونا اور متبادل سڑک پر ٹریفک کا اژد ہام ، لین کا بند ہونا ایک ہی طرف ٹریفک کا بہاؤ اور اگر راستے میں کوئی مارکیٹس یا مالز ہیں تو جگہ جگہ رکنا اور ہجوم۔ ٹریفک کی یہ تمام رکاوٹیں شدید ٹریفک جام میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
پیدل چلنے والوں کا چلنا سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو سڑک پر ٹریفک کو بڑھاتا ہے ، سڑک کراس کرنے والے ادھر ادھر دیکھے بغیر جلدی میں سڑک کراس کرتے ہیں جس سے غیر یقینی صورت حال جنم لیتی ہے۔
پاکستان میں ماہانہ بنیاد پر گاڑیوں کی تعداد ہزاروں کی تعداد میں تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کے علاوہ گاڑیوں کے بڑھنے سے آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔
ہماری سڑکوں کا اتنا برا حال ہے کہ اس میں روزانہ اضافہ ہوئی گاڑیوں کے ساتھ ڈرائیونگ کرنی عذاب ہوتی جارہی ہے ۔اگر نظر دوڑائی جائے تو ٹریفک حادثات کی وجہ بھی سامنے نظر آتی ہے جیسے اوور اسپیڈنگ، الکوحل کا استعمال کر کے ڈرائیونگ کرنا ، ریڈ لائٹ جمپنگ ، سیٹ بیلٹ یا ہیلمٹ جیسی حفاظتی چیزوں کو پہننے سے اجتناب ، لین ڈرائیونگ کی پابندی نہ کرنا اور غلط طریقے سے اوور ٹیک کرنا وغیرہ تو یہ اہم وجوہات ہیں۔پاکستان میں ٹریفک کی صورتحال دن بدن ابتر ہوئی جا رہی ہے اور ابھی ذکر کیے گئے مسائل سے آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ کس طرح ان مسائل کو کم کیا جائے کیونکہ ان سب مسائل کا سامنا ہر روز ہر شخص کو کرنا ہوتا ہے۔
تاہم صورتحال پر قابو پانے کے لیے ہمیں ایک مناسب ٹریفک نظام کی ضرورت ہے جہاں ڈرائیور اور پیدل چلنے والے موثر طریقے سے سڑک سے گزر سکیں۔ مثال کے طور پر اسمارٹ پارکنگ ، پارکنگ ایریا میں پارکنگ کے انتظار میں کھڑی اضافی گاڑی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک بہترین اقدام ہے۔
اس کے علاوہ رائیڈ شیئرنگ اس سے سڑکوں پر جو گاڑیوں کی بھر مار ہے اس سے نجات ملے گی، کوئی چار یا پانچ آفس کولیگس مل کر ایک گاڑی کو شیئر کر لیں ،پبلک سائیکلنگ سروس اور اسی طرح حکومت بس سروس کے نظام کو بہتر کرے ، جس طرح گرین لائن بسیں اور اورنج لائن ٹرینز یا میٹرو بسیں یا زیر زمین ٹرین سروسز ان سب چیزوں سے بہتری آسکتی ہے۔
سڑکوں کی تعمیر جلدی اور اچھے مٹیریل سے اس کے علاوہ انڈر پاسز اور پلوں کی تعمیر بھی از حد ضروری امر ہے۔ اس کالم کے آغاز میں جو واقعہ آپ کے ساتھ شیئر کیا، یہ ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے ، ٹریفک جام دماغ اور مزاج دونوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ مزاج کو تھوڑا نرم کریں ، برداشت کی عادت ڈالیں اور جلد بازی سے گریز کرتے ہوئے ٹریفک کے قوانین پر عمل کرتے چلیں اورگنگناتے ہوئے ڈرائیونگ کرتے جائیں۔
میں بھی جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہ رہی تھی اور سارے دن کی تھکان میرے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی۔ میں دوسرے کسی راستے سے جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ ایک ایمبولنس شور مچاتی آ کھڑی ہوئی مجھے ذرا سی دیر میں اندازہ ہوگیا کہ کوئی بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوگا اور افسوس کی بات یہ تھی کہ وہاں صلح صفائی کروانے کے بجائے زیادہ تر لوگ یا تو تماشہ دیکھ رہے تھے یا وڈیو بنائی جا رہی تھی۔
میں نے گاڑی کو سائیڈ میں کھڑا کرکے کچھ نوجوانوں سے مخاطب ہوکر رش کو ہٹانے اور ایمبولنس کے لیے جگہ بنانے کو کہا ، کچھ لڑکے میرے کہنے سے آگے آئے اور جلدی جلدی گاڑیاں ہٹوانے لگے، میں نے باقی گاڑیوں کو بھی جانے کا اشارہ کیا اور ایک صاحب کو کہا کہ'' کیا ہوا ہے؟'' انھوں نے کہا کہ '' پہلے والا شخص اس آدمی کی گاڑی کو overtake کر کے چلا گیا تھا۔
اس لیے بات اس ذرا سی بات سے یہاں تک پہنچ گئی۔'' میں نے ان سے کہا کہ '' بات کو ختم کروائیں اور راستہ خالی کروائیں اس طرح اور ٹریفک جام ہوگا۔'' بہرحال کسی طرح ان دونوں کو سمجھا بجھا کر روانہ کیا گیا اور میں سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ ہم ایسے کیوں ہیں؟ ان کی اس لڑائی کی وجہ سے کوئی آدھ گھنٹے تک ٹریفک جام رہا۔
اسی طرح بے ہنگم طریقے سے گاڑیاں دوڑانا ایک دم بائیک کو آگے سے لہرا کر لے جانا یا موت کے کنویں کی طرز پر بائیک گھمانا آج کل فیشن کا حصہ ہے کس کو سمجھائیں اور کس سے کہیں ٹریفک کے قوانین کی پاسداری اور ان کا خیال اب خال خال ہی رہ گیا ہے۔ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی بہت سارے مسائل کو جنم دیتی ہے۔
پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے رہنے والے ٹریفک کے ہجوم سے دوچار نظر آتے ہیں۔ ٹریفک کنٹرول کا مسئلہ ٹریفک کے اشاروں کے بارے میں آگاہی کا فقدان گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سڑکوں کا پریشان کن انفرا اسٹرکچر گڑھے کھلے گٹر اور اسپیڈ بریکرز کی بہتات ٹوٹی پھوٹی سڑکیں یہ سب ٹریفک کے عام مسائل ہیں ۔اور تو اور سڑک پر تعمیراتی کام ٹریفک کی روانی پر نمایاں اثر ڈال رہا ہے ، یہ ٹریفک کو متاثر کرتا ہے اور ایک اہم روڈ بلاک ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے سڑکوں کی کھدائی سے مسافروں اور وہاں رہنے والوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔
اس سے درمیان سے گزرنے والی گاڑیوں اور دیگر گاڑیوں کی وجہ سے لمبی قطاریں بن جاتی ہیں جس کی وجہ سے تعمیر کی مدت میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ٹریفک سگنلز عام طور پر خود کار طریقے سے ٹریفک کو کنٹرول کر رہے ہو تے ہیں مگر دیکھا جاتا ہے کہ کافی جگہ سگنلز بند ہیں لائٹس آف ہیں اور ٹریفک پولیس اہلکار خود ٹریفک کو کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں۔
اس طرح کے کنٹرولنگ سسٹم میں غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ شام کا وقت ٹریفک کے شدید دباؤ کا باعث بنتا ہے، ایسے میں ایک طرف والوں کو زیادہ دیر تک کھولنا جب کہ دوسری طرف والوں کو انتظار کروانا اور مختصر لمحے کے لیے فعال کرنا شامل ہے زیادہ تر ڈرائیورز پیشگی کسی معلومات کے سڑک پر گاڑی چلاتے ہیں جمپنگ لین اوور ٹیکنگ تیز رفتاری وغیرہ ایسی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک حادثات بھی بڑھتے ہیں۔
غیر محفوظ ڈرائیونگ ایندھن کے ضیاع اور فضائی آلودگی بھی بڑھتی ہے، اس سے گاڑی چلانے والوں اور مسافروں میں تناؤ بھی بڑھتا ہے ، غیر محفوظ ڈرائیونگ ٹریفک جام اور حادثات کا بھی باعث ہے۔
ٹریفک جام انسانی ذہن پر بھی منفی اثرات ڈالتا ہے۔ پارکنگ کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے ، اس سے ہر انسان کو روزانہ واسطہ پڑتا ہے خاص طور پر اگر ہم کراچی لاہور اور اسلام آباد کی بات کریں تو یہاں لوگوں کو مناسب پارکنگ کی جگہ نہیں ملتی جس کی وجہ سے لوگ عام طور پر گاڑیاں بیچ سڑک پر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے۔
سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے ایک ڈرائیور کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے جیسے سڑک پر ڈبل پارکنگ ، سڑک پر تعمیر کا کام ، روڈ کا بند ہونا اور متبادل سڑک پر ٹریفک کا اژد ہام ، لین کا بند ہونا ایک ہی طرف ٹریفک کا بہاؤ اور اگر راستے میں کوئی مارکیٹس یا مالز ہیں تو جگہ جگہ رکنا اور ہجوم۔ ٹریفک کی یہ تمام رکاوٹیں شدید ٹریفک جام میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
پیدل چلنے والوں کا چلنا سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو سڑک پر ٹریفک کو بڑھاتا ہے ، سڑک کراس کرنے والے ادھر ادھر دیکھے بغیر جلدی میں سڑک کراس کرتے ہیں جس سے غیر یقینی صورت حال جنم لیتی ہے۔
پاکستان میں ماہانہ بنیاد پر گاڑیوں کی تعداد ہزاروں کی تعداد میں تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کے علاوہ گاڑیوں کے بڑھنے سے آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔
ہماری سڑکوں کا اتنا برا حال ہے کہ اس میں روزانہ اضافہ ہوئی گاڑیوں کے ساتھ ڈرائیونگ کرنی عذاب ہوتی جارہی ہے ۔اگر نظر دوڑائی جائے تو ٹریفک حادثات کی وجہ بھی سامنے نظر آتی ہے جیسے اوور اسپیڈنگ، الکوحل کا استعمال کر کے ڈرائیونگ کرنا ، ریڈ لائٹ جمپنگ ، سیٹ بیلٹ یا ہیلمٹ جیسی حفاظتی چیزوں کو پہننے سے اجتناب ، لین ڈرائیونگ کی پابندی نہ کرنا اور غلط طریقے سے اوور ٹیک کرنا وغیرہ تو یہ اہم وجوہات ہیں۔پاکستان میں ٹریفک کی صورتحال دن بدن ابتر ہوئی جا رہی ہے اور ابھی ذکر کیے گئے مسائل سے آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ کس طرح ان مسائل کو کم کیا جائے کیونکہ ان سب مسائل کا سامنا ہر روز ہر شخص کو کرنا ہوتا ہے۔
تاہم صورتحال پر قابو پانے کے لیے ہمیں ایک مناسب ٹریفک نظام کی ضرورت ہے جہاں ڈرائیور اور پیدل چلنے والے موثر طریقے سے سڑک سے گزر سکیں۔ مثال کے طور پر اسمارٹ پارکنگ ، پارکنگ ایریا میں پارکنگ کے انتظار میں کھڑی اضافی گاڑی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک بہترین اقدام ہے۔
اس کے علاوہ رائیڈ شیئرنگ اس سے سڑکوں پر جو گاڑیوں کی بھر مار ہے اس سے نجات ملے گی، کوئی چار یا پانچ آفس کولیگس مل کر ایک گاڑی کو شیئر کر لیں ،پبلک سائیکلنگ سروس اور اسی طرح حکومت بس سروس کے نظام کو بہتر کرے ، جس طرح گرین لائن بسیں اور اورنج لائن ٹرینز یا میٹرو بسیں یا زیر زمین ٹرین سروسز ان سب چیزوں سے بہتری آسکتی ہے۔
سڑکوں کی تعمیر جلدی اور اچھے مٹیریل سے اس کے علاوہ انڈر پاسز اور پلوں کی تعمیر بھی از حد ضروری امر ہے۔ اس کالم کے آغاز میں جو واقعہ آپ کے ساتھ شیئر کیا، یہ ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے ، ٹریفک جام دماغ اور مزاج دونوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ مزاج کو تھوڑا نرم کریں ، برداشت کی عادت ڈالیں اور جلد بازی سے گریز کرتے ہوئے ٹریفک کے قوانین پر عمل کرتے چلیں اورگنگناتے ہوئے ڈرائیونگ کرتے جائیں۔