آسمان طب کا روشن ستارہ حافظ ڈاکٹر طاہر شمسی
ان کا کردار کینسر کے مریضوں کے حوالے سے تاریخ کا حصہ بنے گا
حافظ، ڈاکٹر طاہر شمسی ہمیشہ نئے جذبوں کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے تھے، پچھلے دسمبر میں وہ اپنے رب کی طرف لوٹ گئے ۔
ان کا کردار کینسر کے مریضوں کے حوالے سے تاریخ کا حصہ بنے گا۔ وہ کینسر کے علاج کے حوالے سے نمایاں ترین شخص تھے ،خون کے کینسر کے ماہر ڈاکٹر تھے ۔رب نے ان کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی۔ پاکستان میں بون میرو کے اعلیٰ ڈاکٹر تھے سچائی اور ایمانداری ان کی پہچان تھی ۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کا بون میرو بھی انھوں نے کیا تھا بہت سے لوگ تھوڑی سی کامیابی اور شہرت کے بعد لوگوں کے سلام کا جواب دینا گوارا نہیں کرتے مگر حافظ ڈاکٹر طاہر شمسی کینسر کے غریب مریضوں سے بہت ہی شفقت سے پیش آتے تھے کئی مرتبہ NIBD اسپتال جانے کا موقعہ ملا مگر ان کو میں نے مریضوں سے انکساری سے ملتے دیکھا ان کی نگاہ میں امیر اور غریب ایک ہی درجہ رکھتے تھے۔
ادب کے معاملے میں بہت باادب تھے جوش ملیح آبادی، استاد قمر جلالوی اور پروین شاکر کے سیکڑوں شعر انھیں یاد تھے۔
روزنامہ ایکسپریس ان کا پسندیدہ اخبار تھا اور ادب کے پیج کو بہت پسند کرتے تھے جب بھی راقم کا کالم چھپتا تو مجھے بھیجتے کہ لو کالم پڑھ لو، کئی صحافی حضرات کو خون کے مرض کے حوالے سے ان کے پاس لے کر گیا بہت توجہ سے دیکھا اور ہر ممکن مدد کی ۔
ایک مقامی روزنامے کے صحافی کا بیٹاتھیلیسیما کا شکار ہو گیا تو راقم ان کے پاس لے کر گیا ،ان صحافی سے بہت ہی محبت اور خلوص سے ملے اور صحافی کو تسلی دی کہ'' امتحان تو آتے ہی ہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا آپ حوصلے کو بلند رکھیں'' اور پھر انھوں نے اس صحافی کی بھرپور مدد کی مجھے بحیثیت بھائی کے سمجھاتے کہ محمد شاہد خان! زندگی جہاں لے کر جاتی ہے وہاں سکون سے چلے جائیں رب کے بنائے ہوئے نقشے سے الجھنے کے بجائے سمجھنے کی کوشش کریں، منزلوں تک جانے کی ضرورت نہیں، منزلیں آپ کے سامنے ہوں گی۔
ڈاکٹر طاہر شمسی، امن اور محبت کا درس دینے والی شخصیت تھے اور میڈیکل کیسز اور خون کی بیماریوں کے حوالے سے پاکستان کے ماہر ڈاکٹروں میں ان کا شمار ہوتا تھا، ڈاکٹر طاہر شمسی کا شمار ان ہیماٹولوجسٹ میں تھا جن کی خدمات کا تذکرہ دنیا بھر میں ہوا۔ ڈاکٹر حافظ طاہر شمسی نے کورونا کے حوالے سے پلازمہ سے علاج کا طریقہ بتایا تھا۔
اس علاج کی وجہ سے سیکڑوں مریضوں کو پلازمہ تھراپی کے باعث کورونا سے نجات ملی تھی وہ 27 سال قبل پاکستان میں بون میرو کے آغاز کے لیے امریکا گئے تھے۔
1988 میں ڈاؤ میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی اور پھر 2011 میں خون کے کینسر اور بیماریوں کے حوالے سے NIBD میں ایٹم سیل پروگرام کے ڈائریکٹر اور برطانوی رائل کالج آف پیتھالوجسٹ کے فیلو بھی رہے۔
1995 میں وہ پہلے اور آخری ڈاکٹر تھے جنھوں نے بون میرو ٹرانسپلانٹ روشناس کرایا اور لیاری کے نوجوانوں کا علاج کیا ان کی میت میں، میں نے سیکڑوں بلوچ حضرات کو دیکھا۔ انتقال سے قبل انھوں نے 650 سے زیادہ کامیاب بون میرو کیے۔ بین الاقوامی طور پر 100 تحقیقی مقالے تحریر کیے، پنجاب حکومت ان سے تربیت لینے کے حوالے سے خدمات حاصل کرچکی ہے اور ان کی تحقیقاتی تحریریں دنیا بھر کے جرائد میں شایع ہو چکی ہیں۔
2016 میں ان کی اعلیٰ خدمات کے عوض لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز بھی دیا گیا اور مزے کی بات دیکھیں امریکا میں ڈاؤ گریجویٹ ایسوسی ایشن نے انھیں یہ ایوارڈ دیا۔ مریض اور ان کے لواحقین ان کو دعا میں یاد رکھتے تھے وہ سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے، حافظ ہونے کی وجہ سے ان کی تلاوت قابل ذکر تھی۔ مملکت خداداد ایک نیک اور اچھے ڈاکٹر سے محروم ہوگئی۔ ان کے یوم وصال پر ہر شخص غم زدہ تھا۔
راقم نے زندگی میں کئی جنازے دیکھے مگر حافظ ڈاکٹر شمسی کا جنازہ محبت کرنے والوں سے بھرپور تھا۔ ان کے چاہنے والے کینسر کے مریض میں نے وہیل چیئر پر دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھے حد نگاہ سر ہی سر تھے، انھیں یوسف پورہ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ بحیثیت ڈاکٹر ہونے کے پروردگار عالم نے انھیں اپنی خاص محبت سے نوازا تھا۔
راقم کی اکثر ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ اپنے کینسر کے مریضوں سے جنون کی حد تک پیار کرتے تھے اور مالی معاونت بھی کرتے تھے۔ سیاست سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہمیشہ وطن سے سلامتی اور محبت کا درس دیتے تھے۔
اپنے جونیئر سے بہت محبت کرتے تھے۔ ڈاکٹر قرۃ العین عینی سے ہمیشہ بیٹیوں کا سلوک کرتے اور ان کے انتقال کے بعد ڈاکٹر عینی ہی مریضوں کو دیکھتی ہیں۔ وہ بھی ڈاکٹر طاہر شمسی کی طرح مریضوں سے شفقت سے پیش آتی ہیں۔ ایک دفعہ میں ایک مریض کو NIBD لے کر گیا، ڈاکٹر عینی ان کے کمرے میں بیٹھی تھیں، میں نے مریض کا سارا حال ڈاکٹر طاہر شمسی کو بتایا انھوں نے بڑی شفقت سے ڈاکٹر قرۃ العین عینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ'' یہ میری بیٹی کی طرح ہیں، آپ انھیں بھی مریض کو دکھا دیا کریں۔''
ان کا اسٹاف اب تک رنجیدہ ہے ان کے جانے سے کیونکہ ان کا رویہ بہت شفقت بھرا تھا اپنے اسٹاف کے ساتھ۔ رب نے انھیں باصلاحیت بیٹے سے نوازا۔ اسامہ طاہر اب NIBD کے انتظامی معاملات دیکھتے ہیں ہم نے ایک دفعہ ڈاکٹر طاہر شمسی سے پوچھا کس شخصیت کو پسند کرتے ہیں؟ جواب دیتے ہوئے کہا'' میرے پیارے نبی اور پاکستان کے حوالے سے صرف اور صرف قائد اعظم کیونکہ انھوں نے ہمیں ایک خودمختار ملک دیا۔ نوجوان نسل کو چاہیے کہ دل و جان سے قائد اعظم کا احترام کریں۔'' انھیں ایک شعر بہت پسند تھا، اکثر محفل میں سناتے تھے:
خلوص دل سے ہو سجدہ تو اس سجدے کا کیا کہنا
سرک آیا وہیں کعبہ جبیں ہم نے جہاں رکھ دی
وہ صراط مستقیم کو اپنا مشن سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر حافظ طاہر شمسی ادب کے ایوانوں کے شہ سوار تھے، حالانکہ میڈیکل سے وابستہ افراد اکثر آپ کو ادب سے وابستہ نہیں ملیں گے۔
قارئین گرامی! ان کے انتقال کی خبر سن کر راقم کو ایسا محسوس ہوا کہ میرا سگا بھائی دنیا سے چلا گیا۔ کینسر کے مریضوں کو بہت شفقت سے حوصلہ دینے کی کوشش کرتے کہ غریبوں سے محبت کا ثبوت دیں کہ کینسر تو ویسے ہی انسان کو جیتے جی مار دیتا ہے۔ راقم ان کے کمرے میں موجود تھا، میں اپنے ساتھ ایک مقامی صحافی جن کا تعلق نواب شاہ سے تھا، ان کی بیٹی کو خون کا کینسر ہو گیا تھا۔
ڈاکٹر حافظ طاہر شمسی کے پاس لے کر گیا، انھوں نے ساری صورت حال ان کو بتائی، بچی کی عمر دس سال تھی، زار و قطار روتے ہوئے انھوں نے اس کا مرض بتایا مسکراتے ہوئے کہا کہ'' یار! کچھ نہیں ہوتا،ابھی تو اس کا علاج ہوگا، اس کے بعد ہم مل کر اس کی شادی کریں گے۔بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں، چلو حوصلے سے کام لو'' اور مزے کی بات دیکھیں ڈاکٹر طاہر شمسی نے اس بچی کا علاج کیا اور وہ بچی بہت بہتر ہے۔ رب نے انھیں بلا لیا۔ یہ رب کا معاملہ ہے-
ان کا کردار کینسر کے مریضوں کے حوالے سے تاریخ کا حصہ بنے گا۔ وہ کینسر کے علاج کے حوالے سے نمایاں ترین شخص تھے ،خون کے کینسر کے ماہر ڈاکٹر تھے ۔رب نے ان کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی۔ پاکستان میں بون میرو کے اعلیٰ ڈاکٹر تھے سچائی اور ایمانداری ان کی پہچان تھی ۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کا بون میرو بھی انھوں نے کیا تھا بہت سے لوگ تھوڑی سی کامیابی اور شہرت کے بعد لوگوں کے سلام کا جواب دینا گوارا نہیں کرتے مگر حافظ ڈاکٹر طاہر شمسی کینسر کے غریب مریضوں سے بہت ہی شفقت سے پیش آتے تھے کئی مرتبہ NIBD اسپتال جانے کا موقعہ ملا مگر ان کو میں نے مریضوں سے انکساری سے ملتے دیکھا ان کی نگاہ میں امیر اور غریب ایک ہی درجہ رکھتے تھے۔
ادب کے معاملے میں بہت باادب تھے جوش ملیح آبادی، استاد قمر جلالوی اور پروین شاکر کے سیکڑوں شعر انھیں یاد تھے۔
روزنامہ ایکسپریس ان کا پسندیدہ اخبار تھا اور ادب کے پیج کو بہت پسند کرتے تھے جب بھی راقم کا کالم چھپتا تو مجھے بھیجتے کہ لو کالم پڑھ لو، کئی صحافی حضرات کو خون کے مرض کے حوالے سے ان کے پاس لے کر گیا بہت توجہ سے دیکھا اور ہر ممکن مدد کی ۔
ایک مقامی روزنامے کے صحافی کا بیٹاتھیلیسیما کا شکار ہو گیا تو راقم ان کے پاس لے کر گیا ،ان صحافی سے بہت ہی محبت اور خلوص سے ملے اور صحافی کو تسلی دی کہ'' امتحان تو آتے ہی ہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا آپ حوصلے کو بلند رکھیں'' اور پھر انھوں نے اس صحافی کی بھرپور مدد کی مجھے بحیثیت بھائی کے سمجھاتے کہ محمد شاہد خان! زندگی جہاں لے کر جاتی ہے وہاں سکون سے چلے جائیں رب کے بنائے ہوئے نقشے سے الجھنے کے بجائے سمجھنے کی کوشش کریں، منزلوں تک جانے کی ضرورت نہیں، منزلیں آپ کے سامنے ہوں گی۔
ڈاکٹر طاہر شمسی، امن اور محبت کا درس دینے والی شخصیت تھے اور میڈیکل کیسز اور خون کی بیماریوں کے حوالے سے پاکستان کے ماہر ڈاکٹروں میں ان کا شمار ہوتا تھا، ڈاکٹر طاہر شمسی کا شمار ان ہیماٹولوجسٹ میں تھا جن کی خدمات کا تذکرہ دنیا بھر میں ہوا۔ ڈاکٹر حافظ طاہر شمسی نے کورونا کے حوالے سے پلازمہ سے علاج کا طریقہ بتایا تھا۔
اس علاج کی وجہ سے سیکڑوں مریضوں کو پلازمہ تھراپی کے باعث کورونا سے نجات ملی تھی وہ 27 سال قبل پاکستان میں بون میرو کے آغاز کے لیے امریکا گئے تھے۔
1988 میں ڈاؤ میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی اور پھر 2011 میں خون کے کینسر اور بیماریوں کے حوالے سے NIBD میں ایٹم سیل پروگرام کے ڈائریکٹر اور برطانوی رائل کالج آف پیتھالوجسٹ کے فیلو بھی رہے۔
1995 میں وہ پہلے اور آخری ڈاکٹر تھے جنھوں نے بون میرو ٹرانسپلانٹ روشناس کرایا اور لیاری کے نوجوانوں کا علاج کیا ان کی میت میں، میں نے سیکڑوں بلوچ حضرات کو دیکھا۔ انتقال سے قبل انھوں نے 650 سے زیادہ کامیاب بون میرو کیے۔ بین الاقوامی طور پر 100 تحقیقی مقالے تحریر کیے، پنجاب حکومت ان سے تربیت لینے کے حوالے سے خدمات حاصل کرچکی ہے اور ان کی تحقیقاتی تحریریں دنیا بھر کے جرائد میں شایع ہو چکی ہیں۔
2016 میں ان کی اعلیٰ خدمات کے عوض لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز بھی دیا گیا اور مزے کی بات دیکھیں امریکا میں ڈاؤ گریجویٹ ایسوسی ایشن نے انھیں یہ ایوارڈ دیا۔ مریض اور ان کے لواحقین ان کو دعا میں یاد رکھتے تھے وہ سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے، حافظ ہونے کی وجہ سے ان کی تلاوت قابل ذکر تھی۔ مملکت خداداد ایک نیک اور اچھے ڈاکٹر سے محروم ہوگئی۔ ان کے یوم وصال پر ہر شخص غم زدہ تھا۔
راقم نے زندگی میں کئی جنازے دیکھے مگر حافظ ڈاکٹر شمسی کا جنازہ محبت کرنے والوں سے بھرپور تھا۔ ان کے چاہنے والے کینسر کے مریض میں نے وہیل چیئر پر دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھے حد نگاہ سر ہی سر تھے، انھیں یوسف پورہ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ بحیثیت ڈاکٹر ہونے کے پروردگار عالم نے انھیں اپنی خاص محبت سے نوازا تھا۔
راقم کی اکثر ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ اپنے کینسر کے مریضوں سے جنون کی حد تک پیار کرتے تھے اور مالی معاونت بھی کرتے تھے۔ سیاست سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہمیشہ وطن سے سلامتی اور محبت کا درس دیتے تھے۔
اپنے جونیئر سے بہت محبت کرتے تھے۔ ڈاکٹر قرۃ العین عینی سے ہمیشہ بیٹیوں کا سلوک کرتے اور ان کے انتقال کے بعد ڈاکٹر عینی ہی مریضوں کو دیکھتی ہیں۔ وہ بھی ڈاکٹر طاہر شمسی کی طرح مریضوں سے شفقت سے پیش آتی ہیں۔ ایک دفعہ میں ایک مریض کو NIBD لے کر گیا، ڈاکٹر عینی ان کے کمرے میں بیٹھی تھیں، میں نے مریض کا سارا حال ڈاکٹر طاہر شمسی کو بتایا انھوں نے بڑی شفقت سے ڈاکٹر قرۃ العین عینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ'' یہ میری بیٹی کی طرح ہیں، آپ انھیں بھی مریض کو دکھا دیا کریں۔''
ان کا اسٹاف اب تک رنجیدہ ہے ان کے جانے سے کیونکہ ان کا رویہ بہت شفقت بھرا تھا اپنے اسٹاف کے ساتھ۔ رب نے انھیں باصلاحیت بیٹے سے نوازا۔ اسامہ طاہر اب NIBD کے انتظامی معاملات دیکھتے ہیں ہم نے ایک دفعہ ڈاکٹر طاہر شمسی سے پوچھا کس شخصیت کو پسند کرتے ہیں؟ جواب دیتے ہوئے کہا'' میرے پیارے نبی اور پاکستان کے حوالے سے صرف اور صرف قائد اعظم کیونکہ انھوں نے ہمیں ایک خودمختار ملک دیا۔ نوجوان نسل کو چاہیے کہ دل و جان سے قائد اعظم کا احترام کریں۔'' انھیں ایک شعر بہت پسند تھا، اکثر محفل میں سناتے تھے:
خلوص دل سے ہو سجدہ تو اس سجدے کا کیا کہنا
سرک آیا وہیں کعبہ جبیں ہم نے جہاں رکھ دی
وہ صراط مستقیم کو اپنا مشن سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر حافظ طاہر شمسی ادب کے ایوانوں کے شہ سوار تھے، حالانکہ میڈیکل سے وابستہ افراد اکثر آپ کو ادب سے وابستہ نہیں ملیں گے۔
قارئین گرامی! ان کے انتقال کی خبر سن کر راقم کو ایسا محسوس ہوا کہ میرا سگا بھائی دنیا سے چلا گیا۔ کینسر کے مریضوں کو بہت شفقت سے حوصلہ دینے کی کوشش کرتے کہ غریبوں سے محبت کا ثبوت دیں کہ کینسر تو ویسے ہی انسان کو جیتے جی مار دیتا ہے۔ راقم ان کے کمرے میں موجود تھا، میں اپنے ساتھ ایک مقامی صحافی جن کا تعلق نواب شاہ سے تھا، ان کی بیٹی کو خون کا کینسر ہو گیا تھا۔
ڈاکٹر حافظ طاہر شمسی کے پاس لے کر گیا، انھوں نے ساری صورت حال ان کو بتائی، بچی کی عمر دس سال تھی، زار و قطار روتے ہوئے انھوں نے اس کا مرض بتایا مسکراتے ہوئے کہا کہ'' یار! کچھ نہیں ہوتا،ابھی تو اس کا علاج ہوگا، اس کے بعد ہم مل کر اس کی شادی کریں گے۔بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں، چلو حوصلے سے کام لو'' اور مزے کی بات دیکھیں ڈاکٹر طاہر شمسی نے اس بچی کا علاج کیا اور وہ بچی بہت بہتر ہے۔ رب نے انھیں بلا لیا۔ یہ رب کا معاملہ ہے-