تعمیر میں سست روی کورنگی ایکسپریس وے ’’اسٹریس وے‘‘ بن گیا
ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ حکومت کی ناقص حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے فقدان کا منہ بولتا ثبوت کورنگی ایکسپریس وے شہریوں کے لیے تکلیف اور پریشانی کا راستہ بن کر رہ گیا، اس اہم ترین گزرگاہ کا کوئی متبادل راستہ نہیں، ڈیفنس اور کورنگی سے آمدورفت کے لیے لاکھوں شہری اس ٹریک کو استعمال کرتے ہیں جبکہ صنعتی علاقے تک رسائی کے لیے بھی لاتعداد شہری اس سڑک کو استعمال کرتے ہیں۔
بارشوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والے ایکسپریس وے کی تعمیر بہت تاخیر سے شروع ہوئی، بالائی ٹریک کو ادھیڑ کر استرکاری میں کئی ماہ لگے تاہم بلوچ کالونی سے قیوم آباد چورنگی جانے والے بالائی ٹریک کا ایک بڑا حصہ اب بھی استرکاری سے محروم ہے اور ادھڑی سڑک ٹریفک کی روانی کا سبب بن رہی ہے۔
شہری حیران ہیں کہ بالائی ٹریک کی استرکاری مکمل کیے بغیر سڑک کے کنارے کنکریٹ کے بلاکس لگانے کا عمل شروع کردیا گیا جو زور شور سے جاری ہے تاہم قیوم آباد سے بلوچ کالونی آنے والے ٹریک کو کنکریٹ (کرش) بچھاکر بھلادیا گیا جو شہریوں کے لیے اذیت کا باعث بن رہا ہے۔
قیوم آباد سے بلوچ کالونی جانے والے ٹریک پر اقراء یونیورسٹی سے آگے نکاسی آب کی لائن بچھانے کے لیے کھدائی کرکے اسے مٹی سے بھر چھوڑ دیا گیا، آگے جاکر اس ٹوٹی پھوٹی سڑک کا نشان بھی گرد مٹی میں غائب ہوجاتا ہے، کورنگی ایکسپریس وے پر واقع پیٹرول پمپ سے آگے تک کا راستہ مکمل طور پر کچے کا علاقہ بنا ہوا ہے جہاں گاڑیاں رینگتی ہوئی گزرتی ہیں اور مصروف اوقات میں گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے۔
گاڑیاں کئی کئی گھنٹے ٹریفک میں پھنسی رہتی ہیں اس دوران جرائم پیشہ عناصر رات کے وقت ٹریفک جام میں پھنس جانے والی گاڑیوں میں موجود شہریوں سے لوٹ مارکرتے ہیں۔
کورنگی ایکسپریس وے سندھ کے بیورو کریٹس، سیاست دانوں اور سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی گزرگاہ ہے جو ڈیفنس سے شاہراہ فیصل کی جانب جانے کے لیے اس سڑک کو استعمال کرتے ہیں تاہم اثرورسوخ کے حامل افراد کی گزرگاہ ہونے کے باوجود اس سڑک کی قسمت نہ جاگ سکی اس طرح غریب امیر ہر طبقے کے شہری اس مسئلے سے یکساں طور پر پریشانی کا شکا رہیں۔
کورنگی ایکسپریس وے سے موٹر سائیکل پر گزرنے والے افراد بالخصوص بچوں اور فیملی کے ساتھ موٹرسائیکل پر سفر کرنے والے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گزرنے پر مجبور ہیں کیونکہ گرد مٹی کے بادلوں کی وجہ سے حد نگاہ نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے اکثر حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
کورنگی ایکسپریس وے کے قیوم آباد سے بلوچ کالونی جانے والے ٹریک پر واقع فرنیچر مارکیٹ کے تاجر بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں ۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ گرد کی وجہ سے ان کے شورومز میں رکھا قیمتی فرنیچر خراب ہورہا ہے جبکہ ٹریفک جام اور سڑک کی ابتر صورتحال کی وجہ سے خریدار مارکیٹ کا رخ نہیں کررہے جس سے کاروبار بری طرح متاثر ہورہا ہے۔
دریں اثنا ایکسپریس وے پر سخت محنت سے لگائے جانے والے درخت جو بارشوں کے دوران دلکش نظارہ پیش کرتے تھے اب دھول مٹی کی وجہ سے سوکھ چکے ہیں۔
شہریوں نے سندھ حکومت سے اپیل کی ہے کہ کورنگی ایکسپریس وے کی فی الفور تعمیر کو یقینی بنایا جائے اور غفلت کا مظاہرہ کرکے تاخیر کرنے والے افسران اور متعلقہ افراد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔