مداخلت کے بغیر سیاست
اب بھی عمران جیسے سیاستدان اپنی حرکات سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ غیر سول قوتیں مداخلت کرتے ہوئے صرف ان کی مدد کریں
گزشتہ سال اعلیٰ فوجی حکام نے سیاست سے دور اور غیر جانب دار ہونے کا جو فیصلہ کیا تھا اس کا پی ٹی آئی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے بھرپور خیرمقدم کیا تھا ،یہ ملکی سیاسی تاریخ کا انتہائی اہم فیصلہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں سیاستدانوں کے باہمی تنازعات اور اختلافات کے باعث پہلی غیر سول مداخلت جنرل ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958 کو کی تھی۔ اس موقع پر ملک کی خراب سیاسی صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے لیے اس وقت کے گورنر جنرل اسکندر مرزا نے خود ملک میں مارشل لا لگوایا تھا جس کا فائدہ جنرل ایوب خان نے اٹھایا اور وہ اسکندر مرزا کو اقتدار سے محروم کرکے خود اقتدار میں آگئے تھے اور انھوں نے اپنے مخالف تمام سیاستدانوں پر ایبڈو کے تحت پابندیاں لگا کر اپنے حامی سیاستدانوں کو اپنی حکومت میں شامل کیا تھا جن میں ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر شامل تھے۔
صدر ایوب خان کا دور بلاشبہ ملک کی ترقی کا سنہری دور تھا جس کی اب تک کوئی مثال نہیں ملتی اور پھر 1967 میں بھٹو نے حکومت سے الگ ہو کر اپنے سیاسی قائد ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی ایوب خان کے خلاف میدان میں تھیں جس پر جنرل ایوب نے سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس بھی بلائی تھی جو ناکام رہی تھی۔
اگر سیاستدان اپنے باہمی اختلاف بالائے طاق رکھ کر ملک کا سوچتے اور کانفرنس کو کامیاب ہونے دیتے تو نئے انتخابات کا کوئی راستہ نکل آتا اور جنرل یحییٰ خان کو اقتدار میں آنے کا موقعہ نہ ملتا مگر سیاستدانوں کی سیاسی مفاد پرستی کے باعث نئے عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکا اور جنرل ایوب نے اقتدار سیاستدانوں کے بجائے جنرل یحییٰ خان کو دینا ہی بہتر سمجھا تھا جس کے بعد یحییٰ خان ملک سے مارشل لا ہٹانے پر اپنے منصوبے پر تیار تھے اور یحییٰ خان 1970 کے عام انتخابات میں صدر منتخب ہونا چاہتے تھے مگر نتائج ان کے حق میں نہیں آئے اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے دو کے سوا تمام نشستیں جیت کر اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرلی تھی جس کی وجہ سے یحییٰ خان صدر نہیں بن سکتے تھے اور انھوں نے مجیب الرحمن کو اقتدار نہیں دیا اور بھٹو بھی ایسا نہیں چاہتے تھے۔
اقتدار کے چکر میں ملک دولخت ہو گیا اور اکثریتی حصہ گنوا کر جنرل یحییٰ خان کو اقتدار بھٹو کے سپرد کرنا پڑا تھا اور پنجاب و سندھ میں اپنی اکثریت کے باعث بھٹو صاحب وزیر اعظم بنے۔ سندھ و پنجاب میں پی پی کی اور دو چھوٹے صوبوں میں نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی کی حکومتیں بنیں جو بھٹو کو قبول نہ تھیں اور کچھ عرصے بعد انھوں نے بلوچستان میں گورنر راج لگایا تھا جس پر وزیر اعلیٰ سرحد مولانا مفتی محمود نے بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا اور دونوں صوبوں میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومتیں قائم ہو گئی تھیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پالیسیوں سے اپوزیشن کو متحد ہونے پر اسی طرح مجبور کردیا تھا جس طرح وزیر اعظم عمران خان نے اپنے غیر جمہوری اقدامات اور اپوزیشن کے خلاف اپنے دشمنوں والے رویے سے اپوزیشن کو متحد ہونے پر مجبور کیا۔
عمران خان اپنے اقتدار میں دعوے کرتے رہے کہ ان کی حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں، عمران پروجیکٹ پر عمل بالاتروں نے 2011 میں عمران خان کی باتوں سے متاثر ہو کر اور ان پر مکمل اعتماد کرکے شروع کیا تھا مگر 2013 میں اس پر عمل نہ ہو سکا تھا اور نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن گئے تھے اور انھوں نے آصف زرداری کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھے تھے جس کی وجہ سے عمران خان کے 2014 کے دھرنے کی مخالفت میں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کی بات نہیں مانی تھی اور کے پی میں عمران خان کی حکومت بننے دی تھی جس نے دھرنے میں نواز شریف حکومت کی اپنے وسائل کے ساتھ مخالفت کی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ 2018 میں آرٹی ایس بٹھا کر پی ٹی آئی کو جعلی اکثریت دلائی گئی اور انھیں دیگر پارٹیوں کی حمایت دلا کر عمران خان کو وزیر اعظم بنایا گیا اور اتنی کھلی حمایت کی گئی تھی اور عمران خان کے بقول اسٹیبلشمنٹ نے ہر مشکل وقت اور ضرورت پر عمران حکومت کا ساتھ دیا تھا۔
عمران خان کے غلط سیاسی رویے اور ملک کے لیے نقصان دہ پالیسیوں کی وجہ سے فروری 2021 میں جنرلوں نے سیاست سے دور رہنے کا آئینی فیصلہ کیا اور تحریک عدم اعتماد میں عمران حکومت نہیں بچائی اور نیوٹرل رہے جس کے بعد عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوگئے اور نازیبا الفاظ استعمال کرنا شروع کر دیے۔
موجودہ حکومت غیر سول مداخلت سے بہت دور اور محفوظ ہے مگر ماضی گواہ ہے کہ ہر حکومت نے خود غیر سول قوتوں کو مداخلت پر مجبور کیا۔ ہر سویلین وزیر اعظم جمہوری ڈکٹیٹر بنا رہا جس کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا لگے اور ہر ایک نے غیر سول قوتوں کو اپنی سیاسی ضرورت اور مدد کے لیے مجبور کیا ۔ اب بھی عمران جیسے سیاستدان اپنی حرکات سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ غیر سول قوتیں مداخلت کرتے ہوئے صرف ان کی مدد کریں۔ اگر اب غیر سول مداخلت ہوئی تو اس کے ذمے دار بھی سیاستدان خود ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں سیاستدانوں کے باہمی تنازعات اور اختلافات کے باعث پہلی غیر سول مداخلت جنرل ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958 کو کی تھی۔ اس موقع پر ملک کی خراب سیاسی صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے لیے اس وقت کے گورنر جنرل اسکندر مرزا نے خود ملک میں مارشل لا لگوایا تھا جس کا فائدہ جنرل ایوب خان نے اٹھایا اور وہ اسکندر مرزا کو اقتدار سے محروم کرکے خود اقتدار میں آگئے تھے اور انھوں نے اپنے مخالف تمام سیاستدانوں پر ایبڈو کے تحت پابندیاں لگا کر اپنے حامی سیاستدانوں کو اپنی حکومت میں شامل کیا تھا جن میں ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر شامل تھے۔
صدر ایوب خان کا دور بلاشبہ ملک کی ترقی کا سنہری دور تھا جس کی اب تک کوئی مثال نہیں ملتی اور پھر 1967 میں بھٹو نے حکومت سے الگ ہو کر اپنے سیاسی قائد ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی ایوب خان کے خلاف میدان میں تھیں جس پر جنرل ایوب نے سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس بھی بلائی تھی جو ناکام رہی تھی۔
اگر سیاستدان اپنے باہمی اختلاف بالائے طاق رکھ کر ملک کا سوچتے اور کانفرنس کو کامیاب ہونے دیتے تو نئے انتخابات کا کوئی راستہ نکل آتا اور جنرل یحییٰ خان کو اقتدار میں آنے کا موقعہ نہ ملتا مگر سیاستدانوں کی سیاسی مفاد پرستی کے باعث نئے عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکا اور جنرل ایوب نے اقتدار سیاستدانوں کے بجائے جنرل یحییٰ خان کو دینا ہی بہتر سمجھا تھا جس کے بعد یحییٰ خان ملک سے مارشل لا ہٹانے پر اپنے منصوبے پر تیار تھے اور یحییٰ خان 1970 کے عام انتخابات میں صدر منتخب ہونا چاہتے تھے مگر نتائج ان کے حق میں نہیں آئے اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے دو کے سوا تمام نشستیں جیت کر اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرلی تھی جس کی وجہ سے یحییٰ خان صدر نہیں بن سکتے تھے اور انھوں نے مجیب الرحمن کو اقتدار نہیں دیا اور بھٹو بھی ایسا نہیں چاہتے تھے۔
اقتدار کے چکر میں ملک دولخت ہو گیا اور اکثریتی حصہ گنوا کر جنرل یحییٰ خان کو اقتدار بھٹو کے سپرد کرنا پڑا تھا اور پنجاب و سندھ میں اپنی اکثریت کے باعث بھٹو صاحب وزیر اعظم بنے۔ سندھ و پنجاب میں پی پی کی اور دو چھوٹے صوبوں میں نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی کی حکومتیں بنیں جو بھٹو کو قبول نہ تھیں اور کچھ عرصے بعد انھوں نے بلوچستان میں گورنر راج لگایا تھا جس پر وزیر اعلیٰ سرحد مولانا مفتی محمود نے بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا اور دونوں صوبوں میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومتیں قائم ہو گئی تھیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پالیسیوں سے اپوزیشن کو متحد ہونے پر اسی طرح مجبور کردیا تھا جس طرح وزیر اعظم عمران خان نے اپنے غیر جمہوری اقدامات اور اپوزیشن کے خلاف اپنے دشمنوں والے رویے سے اپوزیشن کو متحد ہونے پر مجبور کیا۔
عمران خان اپنے اقتدار میں دعوے کرتے رہے کہ ان کی حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں، عمران پروجیکٹ پر عمل بالاتروں نے 2011 میں عمران خان کی باتوں سے متاثر ہو کر اور ان پر مکمل اعتماد کرکے شروع کیا تھا مگر 2013 میں اس پر عمل نہ ہو سکا تھا اور نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن گئے تھے اور انھوں نے آصف زرداری کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھے تھے جس کی وجہ سے عمران خان کے 2014 کے دھرنے کی مخالفت میں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کی بات نہیں مانی تھی اور کے پی میں عمران خان کی حکومت بننے دی تھی جس نے دھرنے میں نواز شریف حکومت کی اپنے وسائل کے ساتھ مخالفت کی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ 2018 میں آرٹی ایس بٹھا کر پی ٹی آئی کو جعلی اکثریت دلائی گئی اور انھیں دیگر پارٹیوں کی حمایت دلا کر عمران خان کو وزیر اعظم بنایا گیا اور اتنی کھلی حمایت کی گئی تھی اور عمران خان کے بقول اسٹیبلشمنٹ نے ہر مشکل وقت اور ضرورت پر عمران حکومت کا ساتھ دیا تھا۔
عمران خان کے غلط سیاسی رویے اور ملک کے لیے نقصان دہ پالیسیوں کی وجہ سے فروری 2021 میں جنرلوں نے سیاست سے دور رہنے کا آئینی فیصلہ کیا اور تحریک عدم اعتماد میں عمران حکومت نہیں بچائی اور نیوٹرل رہے جس کے بعد عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوگئے اور نازیبا الفاظ استعمال کرنا شروع کر دیے۔
موجودہ حکومت غیر سول مداخلت سے بہت دور اور محفوظ ہے مگر ماضی گواہ ہے کہ ہر حکومت نے خود غیر سول قوتوں کو مداخلت پر مجبور کیا۔ ہر سویلین وزیر اعظم جمہوری ڈکٹیٹر بنا رہا جس کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا لگے اور ہر ایک نے غیر سول قوتوں کو اپنی سیاسی ضرورت اور مدد کے لیے مجبور کیا ۔ اب بھی عمران جیسے سیاستدان اپنی حرکات سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ غیر سول قوتیں مداخلت کرتے ہوئے صرف ان کی مدد کریں۔ اگر اب غیر سول مداخلت ہوئی تو اس کے ذمے دار بھی سیاستدان خود ہوں گے۔