سود کے خاتمے کےلیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت

سود کی لعنت کی وجہ سے معاشی نظام تباہ ہوجاتا ہے اور دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں آجاتی ہے

قرآن و حدیث کی رو سے سود قطعی طور پر حرام ہے۔ (فوٹو: فائل)

وفاقی شرعی عدالت نے بائیس سال کے نہایت طویل عرصے کے بعد سود کی حرمت کا فیصلہ دیا۔ حالانکہ یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں تھا کہ اس پر غور و خوض اور بحث و مباحثہ ہوتا، ماہرین کی آرا لی جاتیں کہ سود حرام ہے یا نہیں، یا اس کی کہیں کچھ گنجائش ہوسکتی ہے یا نہیں؟ یہ تو سیدھا سادہ اور واضح مسئلہ ہے کہ قرآن و حدیث کی رو سے سود قطعی طور پر حرام ہے۔ اس کے باوجود نہ جانے کن وجوہ کی بنا پر اس سادہ سے فیصلے پر بھی بائیس سال کا طویل عرصہ لگ گیا۔

بہرحال سود کی حرمت کا فیصلہ شرعی عدالت نے سنا ہی دیا اور اس کے ساتھ ہی حکومت کو پابند کردیا گیا کہ وہ پانچ سال کے عرصے میں سودی نظام کو ختم کرے۔ اس فیصلے پر پوری پاکستانی قوم کو خوشی سے جھوم جانا چاہیے تھا، حکمران اس پر فوری طور پر عملدرآمد شروع کردیتے، بینک سودی نظام کے خاتمے کےلیے کوششیں شروع کردیتے، مگر بدقسمتی سے ہمارے کلمہ گو حکمرانوں اور بینکرز کو یہ فیصلہ پسند نہ آیا، کیونکہ ہمارے رگ و ریشے میں سود اس قدر رچ بس چکا ہے کہ ہمیں اب یہ برا نہیں لگتا۔

حکومت اور چند بینکوں نے شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی، مگر علمائے کرام نے حکومت کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ ان کی کاوشوں سے حکومت نے یہ اپیل واپس لے لی اور ملک سے سود کے خاتمے کےلیے اقدامات کا ارادہ کرلیا۔ اس سلسلے میں مفتی تقی عثمانی جو پہلے سے ہی موجودہ معاشی نظام کو اسلامی نظام معیشت کے سانچے میں ڈھالنے کےلیے کوشاں تھے، انہوں نے اپنی کوششیں تیز کردیں۔ وہ کئی بڑے چھوٹے اجلاس کرچکے ہیں جن میں ماہرین معیشت کے ساتھ مل بیٹھ کر وہ ملک سے سودی نظام کے خاتمے کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔ امید ہے کہ ان کی کاوشیں رنگ لائیں گی اور اسلام کے نام پر عظیم قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا یہ ملک سود کی لعنت سے پاک ہوگا۔

سود کی حرمت میں تو کسی کو ذرا برابر شک نہیں ہے اور نہ ہی کبھی اس کی حرمت کے بارے میں امت مسلمہ میں کبھی اختلاف ہوا ہے۔ قرآن کریم میں اس کی حرمت پر صریح الفاظ میں احکامات موجود ہیں۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس کی سختی سے ممانعت آئی ہے بلکہ احادیث میں تو سود لینے اور دینے والے کے علاوہ سودی معاملے کو لکھنے اور اس پر گواہ بننے والے پر بھی لعنت آئی ہے۔


جب بات چل ہی نکلی ہے تو یہاں میں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ ہمارے ہاں بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو سود لینا دینا پسند نہیں کرتے جو کہ بہت اچھی بات ہے، انہیں اگر سود کی پیشکش کی جائے تو کبھی نہیں لیں گے لیکن وہ ایسے اداروں میں ملازمتیں کرتے ہیں جہاں سودی معاملات ہوتے ہیں۔ اب انہیں سود کے معاملات کو لکھنا اور آگے بھیجنا پڑتا ہے۔ ان میں سے کئی ادارے ایسے ہیں جن کا کام ہی سود پر چلتا ہے، لہٰذا ان کی تنخواہیں سودی پیسے سے آتی ہیں، لیکن چند ادارے ایسے بھی ہیں جہاں ان کی تنخواہیں سود سے نہیں آتیں جیسے کچھ سرکاری ادارے ہیں جہاں سودی معاملات ہوتے ہیں لیکن ملازمین کی تنخواہیں سرکاری خزانے سے آتی ہیں براہ راست سودی پیسہ اس میں شامل نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود وہ ملازمت درست نہیں کیونکہ حدیث مبارکہ کی رو سے یہ لوگ سودی معاملے کو لکھنے والوں میں شامل ہونے کی وجہ سے لعنت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اس لیے ان لوگوں کو یہ سوچ کر بے فکر نہیں ہوجانا چاہیے کہ ہم تو سود لیتے یا دیتے نہیں ہیں، اس لیے ہم بری الذمہ ہیں۔ نہیں! بلکہ یہ لوگ سودی کاروبار میں وسیلہ یا ذریعہ بن رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ بھی گناہ میں شریک ہیں۔

سود کی لعنت کی وجہ سے معاشی نظام تباہ ہوجاتا ہے اور دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں آجاتی ہے۔ یہ سودی نظام ہی ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں معاشی بے قاعدگیاں پائی جاتی ہیں۔ پوری دنیا کا معاشی نظام سود کی لعنت میں جکڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشت نہایت غیر متوازن ہے۔ چند افراد کے پاس دولت کے انبار ہیں جبکہ بہت سے ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کا کھانا تک نصیب نہیں ہوتا۔ یہ اصول ہمیشہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اسلام جب کسی فعل سے روکتا ہے تو اس میں انسانیت کےلیے ضرور بضرور نقصان ہوتا ہے اور جب اسلام کسی بات کا حکم دیتا ہے تو اس میں انسانیت کےلیے فائدہ ہوتا ہے چاہے کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔

اس لیے وطن عزیز کو سود کی لعنت سے پاک کرکے اسے صحیح معنوں میں حقیقی اسلامی ملک بنانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سود کے خاتمے کےلیے علمائے کرام کی سربراہی میں ماہرین معیشت اور ماہرین شریعت کی ایک فعال کمیٹی تشکیل دے، جو ملک سے سودی نظام کے خاتمے کے طریقہ کار پر غورکرنے کے بعد حکومت کو سفارشات پیش کرے۔ پھر ان سفارشات کی روشنی میں حکومت جلد از جلد ملک سے سودی نظام کو ختم کرکے اسلامی معاشی نظام کا نفاذ کرے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھر دنیا پاکستان میں خیر و برکتیں اپنی آنکھوں سے دیکھے گی، انشاء اللہ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story