بلدیاتی نظام کی کامیابی جمہوری معاشرے کی ضرورت

تمام جمہوری معاشروں میں بلدیاتی نظام رائج ہوتا ہے جس کے ذریعے عوامی مسائل باآسانی حل ہوجاتے ہیں

جمہوری معاشرے کےلیے بلدیاتی نظام انتہائی اہم ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں، تمام امیدوار اپنے حلقوں میں متحرک ہیں اور ووٹ لینے کےلیے کوششیں کررہے ہیں۔ روزانہ کی بنیادوں پر لوگوں سے ملاقاتیں بھی کررہے ہیں اور کارنر میٹنگز اور چھوٹے موٹے جلسے بھی منعقد ہورہے ہیں۔

اسلام آباد کی تمام یونین کونسلوں میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بہت سے امیدوار میدان میں ہیں جن میں کئی امیدوار سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہیں جبکہ آزاد حیثیت سے بھی انتخابات میں حصہ لیا جارہا ہے۔ امیدوار اپنی تشہیر پر بھی رقم خرچ کررہے ہیں۔ کسی جگہ بڑے بڑے سائن بورڈز لگادیے گئے ہیں اور کہیں چھوٹے بڑے پینافلیکس آویزاں کردیے گئے ہیں۔ گلی محلوں میں ہر طرف کھمبوں پر امیدواروں کے پینافلیکس اور بینرز نظر آرہے ہیں جن میں وہ عوام سے ووٹ کی اپیل کررہے ہیں، جو کہ جمہوری سیاست کا ایک اہم حصہ ہے۔

ظاہر ہے کہ الیکشن میں اسی لیے حصہ لیا جاتا ہے کہ عوام ووٹ دیں گے اور اس کے بعد وہ عوام کےلیے کام کریں گے۔ بنیادی طور پر تو سب اپنا یہی مقصد بتاتے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے کام کرنے کےلیے انہیں فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ فنڈز کے بغیر تو کوئی شخص بھی کام نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی امیدوار ایسا ہوتا ہے جو اپنی جیب سے رقم خرچ کرے۔ چند ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی جیب سے ترقیاتی کام کروا بھی دیتے ہیں لیکن ایسے لوگ انتہائی کم ہوتے ہیں۔

اب جب تمام امیدوار اپنی جیب سے رقم نہیں خرچ کرتے بلکہ تمام امیدوار خرچ کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتے کیونکہ ترقیاتی کاموں کےلیے اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے، اس کےلیے کروڑوں روپے کے فنڈز درکار ہوتے ہیں، ہر شخص کے پاس تو کروڑوں روپے کے فنڈز موجود نہیں ہوتے، اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ حکومت انہیں فنڈ جاری کرے اور وہ عوام کےلیے کام کریں۔ جن کاموں کا وعدہ کرکے انہوں نے عوام سے ووٹ حاصل کیے تھے۔

وطن عزیز پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر بلدیاتی نظام مضبوط نہیں ہوسکا اور اس کی راہ میں خود جمہوری نمائندے ہی رکاوٹ بنتے ہیں، جو خود کو جمہوری تو کہتے ہیں لیکن وہ بلدیاتی نظام کو منظم یا مضبوط نہیں کرنا چاہتے ہیں۔


جمہوری معاشرے کے لیے بلدیاتی نظام انتہائی اہم ہوتا ہے کیونکہ بلدیاتی نمائندے ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو عوام کے بہت قریب ہوتے ہیں اور عوام اپنے مسائل باآسانی ان تک پہنچا سکتے ہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا تو ایک بہت بڑا حلقہ ہوتا ہے، وہ پورے حلقے کے لوگوں کے مسائل نہیں سن سکتے، انہیں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی شرکت کرنا ہوتی ہے، قومی اسمبلی کے اندر قانون سازی کے عمل میں شریک ہوتے ہیں، دیگر بڑے اجتماعات میں شرکت کرنا اور کئی طرح کے کام ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے حلقے میں زیادہ نہیں جاسکتے۔ جس کی وجہ سے عوام اپنے مسائل حکومت تک نہیں پہنچاسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی نظام کو اہمیت حاصل ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے جو نمائندے منتخب ہوتے ہیں وہ عوام کے قریب ہوتے ہیں، اس کے ذریعے اختیارات انتہائی نچلی سطح تک عوامی حقیقی نمائندوں تک منتقل ہوجاتے ہیں۔

یہ یونین کونسل کی سطح کے نمائندے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے وارڈ ہوتے ہیں جو ایک یا دو محلوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جن کا ایک نمائندہ ہوتا ہے جو جمہوری طریقے سے ووٹ لے کر منتخب ہوتا ہے۔ یہ عوامی نمائندے عوام کے قریب ہوتے ہیں جن سے وہ کسی بھی وقت ملاقات کرسکتے ہیں، یہ عام طور پر ان کے محلے دار، رشتے دار ہوتے ہیں۔ اس لیے عوام کو اپنے مسائل حکام بالا تک پہنچانا اس نظام کے ذریعے بہت آسان ہوجاتا ہے۔

تمام جمہوری معاشروں میں بلدیاتی نظام رائج ہوتا ہے جس کے ذریعے سے عوامی مسائل باآسانی حل ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں حکومت پہلے تو چاہتی ہی نہیں کہ بلدیاتی انتخابات ہوں کیونکہ ایم این اے اور ایم پی اے کہتے ہیں کہ بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے کام ہوگا تو ہمارے ووٹ کم ہوجائیں گے۔ کیونکہ وہ بھی قانون سازی کےلیے تو اسمبلی میں جاتے نہیں، وہ بھی لوگوں کی نالیاں گلیاں بناکر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کا کام یہ نہیں ہوتا، یہ کام تو بلدیاتی نمائندوں کا ہوتا ہے۔ تو جب وہ اس راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں تو عدالت کے حکم پر بلدیاتی انتخابات کرائے جاتے ہیں۔ جب بلدیاتی انتخابات ہوجاتے ہیں اس کے بعد بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات نہیں دیتے، جس کی وجہ سے وہ عوام کے کام نہیں کروا سکتے تو پھر بلدیاتی نظام کا یا انتخابات کروانے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔ پھر یہ ایک بے سود مشق بن جاتی ہے جس پر خرچہ بھی ہوتا ہے اور وقت بھی برباد ہوتا ہے۔

حکومت کو چاہیے اس نظام کو ملک میں صحیح معنوں میں نافذ کرے اور بلدیاتی نظام کو مضبوط بنائے تاکہ عوام کی فلاح و بہبود کے کام باآسانی ہوسکیں اور ایم این ایز، ایم پی ایز کے جو کام ہیں وہ اپنے کام جاری رکھیں اور بلدیاتی نمائندوں کو اپنے کام کرنے دیں۔ ان کےلیے اچھی طرح فنڈ جاری کریں تاکہ وہ عوام کے کام آسانی کرسکیں اور عوامی مسائل عوامی سطح پر ہی حل کرسکیں۔ اگر ان کا پہلے سے ہی فنڈز جاری نہ کرنے کا ارادہ ہے، جیسا کہ پہلے ہوتا رہا ہے تو پھر بلدیاتی انتخابات ہی نہیں کرانے چاہئیں۔

زیادہ بہتر یہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں اور اختیارات نچلی سطح پر منتقل کردینے چاہئیں تاکہ عوام اپنے قریبی نمائندوں کے ذریعے اپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل بنیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story