ظاہر جعفر کی ذہنی صحت پر میڈیکل بورڈ بنانے کی درخواست مدعی سے جواب طلب
ٹرائل کورٹ نے صرف وڈیو دیکھ کر سزا دی، وکیل ظاہر جعفر
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں سزا یافتہ مرکزی مجرم ظاہر جعفر کا میڈیکل کرانے کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیے.
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس سرداراعجازاسحاق خان پر مشتمل بینچ نے نور مقدم قتل کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔
ظاہر جعفر کے وکیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے صرف وڈیو دیکھ کر سزا دی ۔ایف آئی آر میں نورمقدم کی والدین سے کالزکا ذکرموجود ہے مگر والدین کے موبائل قبضہ میں نہیں لیے گئے۔ مقتولہ کے فون ریکارڈ کے مطابق اس کا اپنی ماں سے رابطہ ہوتا تھا لیکن والدہ کو تفتیش میں شامل نہیں کیا گیا ،والدہ کا ایک بیان آجاتا تو کیس میں کافی شفافیت آسکتی تھی۔
مرکزی مجرم ظاہرجعفر کے وکیل عثمان کھوسہ نے دلائل میں کہا ظاہرجعفرکے گھرموجودگی کے دوران نور مقدم کے موبائل سے پولیس کو کوئی کال نہیں کی گئی۔نہ کسی رشتہ دار کو کال کرکے کہا گیا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔نورمقدم نے 19 جولائی کو والدہ کو کال کی کہ وہ لاہور جارہی ہے تاہم اس کال کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا سی ڈی آر میں کال ڈیٹا آتا ہے،وٹس ایپ کال یا ڈیٹا کال ریکارڈ میں نہیں آتے۔
وکیل عثمان کھوسہ نے کہا فون سے وٹس ایپ ڈیٹا ڈیلیٹ ہوجاتا ہے مگر اسے ریکور کیا جاسکتا ہے، وٹس ایپ ڈیٹا ریکور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ٹرائل کورٹ نے اغوا کے جرم میں بھی سزا سنائی جبکہ 18جولائی 2021 کو نورمقدم خود اپنی مرضی سے آئی۔ ٹرائل کورٹ نے سی سی ٹی وی پر انحصار کیا۔صرف وڈیو چلادینے سے جرم ثابت نہیں ہوتا۔
وکیل نے کہا موقع سے اڑھائی انچ کا بلیڈ اور ساڑھے تین انچ کا دستہ ریکور ہوا۔گھرمیں پستول بھی موجود تھا،قتل کے لیے وہ استعمال ہوسکتا تھا مگرنہیں کیا گیا۔
عدالت نےاپیل پر مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس سرداراعجازاسحاق خان پر مشتمل بینچ نے نور مقدم قتل کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔
ظاہر جعفر کے وکیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے صرف وڈیو دیکھ کر سزا دی ۔ایف آئی آر میں نورمقدم کی والدین سے کالزکا ذکرموجود ہے مگر والدین کے موبائل قبضہ میں نہیں لیے گئے۔ مقتولہ کے فون ریکارڈ کے مطابق اس کا اپنی ماں سے رابطہ ہوتا تھا لیکن والدہ کو تفتیش میں شامل نہیں کیا گیا ،والدہ کا ایک بیان آجاتا تو کیس میں کافی شفافیت آسکتی تھی۔
مرکزی مجرم ظاہرجعفر کے وکیل عثمان کھوسہ نے دلائل میں کہا ظاہرجعفرکے گھرموجودگی کے دوران نور مقدم کے موبائل سے پولیس کو کوئی کال نہیں کی گئی۔نہ کسی رشتہ دار کو کال کرکے کہا گیا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔نورمقدم نے 19 جولائی کو والدہ کو کال کی کہ وہ لاہور جارہی ہے تاہم اس کال کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا سی ڈی آر میں کال ڈیٹا آتا ہے،وٹس ایپ کال یا ڈیٹا کال ریکارڈ میں نہیں آتے۔
وکیل عثمان کھوسہ نے کہا فون سے وٹس ایپ ڈیٹا ڈیلیٹ ہوجاتا ہے مگر اسے ریکور کیا جاسکتا ہے، وٹس ایپ ڈیٹا ریکور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ٹرائل کورٹ نے اغوا کے جرم میں بھی سزا سنائی جبکہ 18جولائی 2021 کو نورمقدم خود اپنی مرضی سے آئی۔ ٹرائل کورٹ نے سی سی ٹی وی پر انحصار کیا۔صرف وڈیو چلادینے سے جرم ثابت نہیں ہوتا۔
وکیل نے کہا موقع سے اڑھائی انچ کا بلیڈ اور ساڑھے تین انچ کا دستہ ریکور ہوا۔گھرمیں پستول بھی موجود تھا،قتل کے لیے وہ استعمال ہوسکتا تھا مگرنہیں کیا گیا۔
عدالت نےاپیل پر مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔