پاکستان کے دفاعی‘ سیاسی اور معاشی مسائل

پاکستان کے عوام کی اکثریت کے مفادات کے برعکس کام کررہے ہیں اور ان کے مفادات پاکستان کی سلامتی کے ساتھ متصادم ہورہے ہیں

پاکستان کے عوام کی اکثریت کے مفادات کے برعکس کام کررہے ہیں اور ان کے مفادات پاکستان کی سلامتی کے ساتھ متصادم ہورہے ہیں (فوٹو فائل)

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ مادر وطن کے دفاع کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا اور امن کو خراب کرنیوالوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

دہشت گردی کیخلاف ہماری جنگ قوم کی حمایت سے جاری رہے گی جب تک ہم پائیدار امن اور استحکام حاصل نہیں کر لیتے،کسی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک کی محنت سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کو روکنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے وادی تیراہ، ضلع خیبر کا دورہ کیا، آرمی چیف نے پاکستان افغانستان بارڈر پر تعینات فارورڈ فوجیوں کے ساتھ دن گزارا،آرمی چیف کو فیلڈ کمانڈر نے ویسٹرن بارڈرز مینجمنٹ آپریشنل تیاریوں اور بارڈر کنٹرول کے اقدامات کے بارے میں بریف کیا۔

پاک فوج کے سربراہ سید عاصم منیر نے کہا کہ قبائلی عوام اور سیکیورٹی فورسز کی بے شمار قربانیوں سے ریاست کی رٹ قائم ہوئی ہے۔

انھوں نے کور ہیڈ کوارٹرز پشاور کا دورہ کیااور شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے پھولوں کی چادر چڑھائی،آرمی چیف کو آپریشنل، ٹریننگ اور فارمیشن کے دیگر امور کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی اور نئے ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لیے سماجی و اقتصادی ترقی کے منصوبوں کے لیے محفوظ ماحول پیدا کرنے کی کوششوں سے آگاہ کیا گیا۔

پاک فوج کے سربراہ نے پہلے کنٹرول لائن کا دورہ کیا اور وہاں پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ وقت گزارا اور پھر وادی تیراہ میں پاک افغان سرحد پر تعینات نوجوانوں کے ساتھ وقت گزارا ۔

پاکستان کو مشرقی سرحد پر جو مسائل درپیش ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں، بھارت کا کردار کیسا رہا ہے، اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پورا پاکستان اس سے آگاہ ہے۔

اسی طرح پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر بھی سنگین نوعیت کے مسائل موجود ہیں، سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے۔افغانستان کی سرزمین پر موجود عسکریت پسند گروہ پوری طرح فعال اور متحرک ہیں۔داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسی تنظمیںافغانستان کی طالبان حکومت اور پاکستان کے لیے مسائل پیدا کررہی ہیں۔

افغانستان کی عبوری حکومت تاحال اپنے ملک میں موجود عسکریت پسند گروہ کا خاتمہ نہیں کرسکی ہے اور نہ ہی اس نے اس جانب کوئی سنجیدہ قدم اٹھایا ہے۔ممکن ہے کہ اس معاملے میں افغانستان کی حکومت کے اندر کوئی مسائل ہوں جس کی وجہ سے عسکریت پسندوں کے خلاف افغان حکومت کوئی آپریشن نہیں کرسکی لیکن اس کی اس کمزوری یا سوچی سمجھی پالیسی کی وجہ سے افغانستان کے عوام کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔

افغانستان کی عبوری حکومت کے لیے خارجہ سطح پر قبولیت کا بحران ہے اور ابھی تک اقوام عالم نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے ۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے اور دہشت گردوں کو اپنے علاقوں سے مار بھگایا ہے' اس کے برعکس طالبان کی عبوری حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف کوئی جنگ نہیں لڑی اور نہ ہی وہ اب اس جانب قدم اٹھا رہے ہیں ' سابق سوویت افواج اور افغان کمیونسٹ حکومت کی افواج کے خلاف گوریلا کارروائی کرنا ایک الگ قسم کی حکمت عملی ہے' اسی طرح افغانستان میں نیٹو افواج اور افغان نیشنل آرمی کے خلاف گوریلا کارروائیاں کرنا بھی الگ حکمت عملی ہے۔

اس کے برعکس دہشت گردوں اور جرائم پیشہ مافیاز کے خلاف لڑنا ایک الگ سائنس ہے۔ طالبان کی حکومت نے تاحال دہشت گردوں ' ان کے سہولت کاروں اور ان کے ہینڈلرز کے خلاف کوئی جنگ نہیں لڑی اور نہ ہی ان کے پاس اس حوالے سے کوئی حکمت عملی موجود ہے۔

اس صورت حال کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان اپنی سیکیورٹی کے معاملات پر سختی اور عدم برداشت کا مظاہرہ کرے۔ کسی عسکریت پسند گروپ کو پاکستان کے اندر آ کر کارروائیاں کرنے کا کوئی اختیار اور حق نہیں ہے اور اسی طرح کسی ملک کو پاکستان میں کارروائیاں کرنے والوں کو پناہ دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔


پاکستان کو اس حوالے سے ایک واضح سوچ اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا ۔ پاک فوج کے سربراہ نے جس عزم کا اظہار کیا ہے ' پوری قوم ان کے اس عزم کے ساتھ کھڑی ہے کیونکہ پاکستان کے عوام ملک میں امن و امان اور معاشی خوشحالی چاہتے ہیں' پاکستان اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر سیاسی محاذ آرائی بھی خاصی شدید ہو چکی ہے ۔

کچھ قوتیں سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کر کے پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کو بڑھاوا دے رہی ہیں اور ملک کے معاشی بحران کو بھی بڑھانے کا کام کر رہی ہیں۔ بڑے تسلسل کے ساتھ سوشل میڈیا پر یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے' کبھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان سری لنکا بننے والا ہے ' اسی طرح قومی سلامتی کے اداروںکے خلاف بھی سنگین نوعیت کی پروپیگنڈا مہم شروع کی گئی ہے۔

اسی طرح وزارت خزانہ نے ملک میں معاشی ایمرجنسی لگانے کے حوالے سے زیرگردش خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ معاشی بہتری اور استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور افواہوں پر دھیان نہ دیں جو کہ پاکستان کے قومی مفاد کے خلاف ہیں۔ وزارت خزانہ کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر مبینہ معاشی ہنگامی تجاویز پر ایک غلط پیغام گردش کر رہا ہے۔

فنانس ڈویژن نہ صرف مذکورہ پیغام میں کیے گئے دعوؤں کی سختی سے تردید کرتا ہے بلکہ واشگاف طور پر اعلان کرتا ہے معاشی ایمرجنسی لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

بدقسمتی سے اس پیغام کا مقصد ملک میں معاشی صورتحال کے بارے میں غیر یقینی صورتحال پیدا کرنا ہے اور اسے صرف وہی لوگ پھیلا سکتے ہیں جو پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال نہیں دیکھنا چاہتے، معاشی مشکلات کے اس دور میں ایسے جھوٹے پیغامات گھڑنا اور پھیلانا قومی مفاد کے خلاف ہے۔

پاکستان کی معیشت میں موروثی طاقت اور تنوع کے پیش نظر پاکستان کا سری لنکا سے موازنہ کرنا بھی بالکل نامناسب ہے، موجودہ مشکل معاشی صورتحال بنیادی طور پر اجناس کی سپر سائیکل، روس، یوکرین جنگ، عالمی کساد بازاری، تجارتی سر گرمیوں، فیڈ کی پالیسی ریٹ میں اضافے اور بے مثال سیلاب سے تباہی جیسے خارجی عوامل کا نتیجہ ہے۔

حکومت اس طرح کے بیرونی عوامل کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے، حکومت تمام بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کو پورا کرتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے'موجودہ حکومت کی کوششوں سے آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ پٹری پر آ گیا ہے اور نویں جائزے کے لیے مذاکرات اب ایک اعلیٰ مرحلے پر ہیں۔

حکومت کی حالیہ کوششوںسے حالیہ مہینوں میں کم کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور ایف بی آر کے ریونیو اہداف حاصل کیے گئے۔ مستقبل قریب میں بیرونی کھاتوں پر دباؤ میں کمی کا بھی امکان ہے۔ جب کہ وسط مدتی ڈھانچے میں ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت باقی ہے، ملک کی معاشی صورتحال اب استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا سکوک بانڈز کی ادائیگیاں کردی ہیں، پاکستان کو ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں ہے، آئی ایم ایف سے آن لائن بات چیت جاری ہے، پاکستان آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنا چاہتا ہے، باہمی معاہدوں کے تحت قرضوں کی ادائیگی رول اوور کی جا رہی ہے۔

ہمارے پاس وسائل موجود ہیں، قرضے بروقت واپس ادا کریں گے، روس سے سستے تیل کی خریداری کے لیے بات کر رہے ہیں۔

پاکستان جن مشکلات میں گھرا ہوا ہے 'ان سے نکلنے کے لیے ملک کے اندر سیاسی استحکام ' زمینی حقائق کے مطابق معاشی پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ سول حکومت کا بھرپور تعاون ضروری ہے۔

بلاشبہ ماضی میں پاکستان کو اس قسم کی صورت حال کا سامنا نہیں رہا لیکن اب کچھ عرصے سے پس پردہ قوتیں اپنے مفادات کے لیے پاکستان کی حکومت ہی نہیں بلکہ ریاست کو کمزور کرنے کے مشن پر گامزن ہیں۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے ادارے اس صورت حال سے مکمل طور پر آگاہ ہیں اور ایسے عناصر کی کارستانیوں کو بھی ٹیکل کرنا جانتے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی قوتوں اور دانشور حلقوں کو موجودہ حالات میں اپنا فرض اس طریقے سے ادا کرنا چاہیے کہ جو لوگ یا گروہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کی اکثریت کے مفادات کے برعکس کام کر رہے ہیں اور ان کے مفادات پاکستان کی سلامتی کے ساتھ متصادم ہو رہے ہیں۔

انھیں بے نقاب کریں اور متبادل بیانیے کی تشکیل کریں۔ پاکستان کو اب 70سال پرانے بیانیے سے نکل کر آج کے حالات کے مطابق نئے بیانیے کے ساتھ اقوام عالم کے ساتھ معاملات طے کرنے پڑیں گے۔
Load Next Story