حمزہ شہباز سے ملاقات
اچھے دن ہوں برے دن ہوں یہیں رہنا ہے۔ میں نے تو مشرف کی بھی سب سے لمبی قید کاٹی تھی
پنجاب اسمبلی کے حوالے سے آجکل بہت شور ہے۔ سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا پنجاب اسمبلی ٹوٹ جائے گی۔ کیا چوہدری پرویز الہیٰ عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی توڑ دیں گے۔ کیا پنجاب اسمبلی ٹوٹنے سے پہلے پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب میں کوئی سیاسی چال چلے گی۔
پنجاب اسمبلی بچانے کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس کیا کارڈ ہیں۔ کیا پنجاب میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔
کیا گورنر پنجاب اعتماد کے ووٹ کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب کو کہیں گے۔ جب پاک فوج نے غیر سیاسی ہونے کا اعلان کر دیا تھا تو پھر جنرل باجوہ نے چوہدری پرویز الہیٰ کو عمران خان کے ساتھ پنجاب میں جانے کے لیے کیوں کہا۔ پنجاب میں آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔ غرض کہ اس وقت پاکستان کا سیاسی منظر نامہ پنجاب کے گرد گھوم رہا ہے۔
ایسے میں ان گنت سوالات میں اکثر سوالات کے جوابات پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کے پاس ہیں۔ اس لیے میں نے برادرم عمران گورایہ کو حمزہ شہباز سے ملاقات کے لیے کہا۔ انھوں نے ملاقات کا وقت طے کروا دیا۔
اور اس طرح میں حمزہ شہباز کے سیاسی دفتر میں ان سے ملاقات کے لیے پہنچ گیا۔ میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے۔ اور میری کوشش تھی کہ میں سب سوالات کے اکٹھے جواب لے لوں۔
میں نے حمزہ شہباز سے پوچھا کہاں غائب ہیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہاں یہاں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں۔ میں تو کبھی بھی کہیں نہیں گیا۔ جب ظلم کے کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ حمزہ شہباز تب بھی یہاں تھا۔ جیل کاٹی ہے۔ ظلم سہا ہے۔
لیکن یہاں سے کہیں گیا نہیں۔ مجھے تو بیرون ملک جانے کی اجازت بھی تب دی گئی جب میری بیٹی بیمار تھی میں تب بھی وطن واپس آگیا تھا۔ مجھے سب نے کہا واپس نہ جائیں پھر گرفتار ہو جائیں گے۔ میں نے تب بھی کہا تھا کہ حمزہ شہباز جیل سے ڈر کر باہر نہیں بھاگا تھا۔ اس لیے مزمل صاحب حمزہ نے کہاں جانا ہے۔ حمزہ اس مٹی کا بیٹا ہے۔ اس نے اسی مٹی میں رہنا ہے۔
اس لیے کہاں جانا ہے۔ اچھے دن ہوں برے دن ہوں یہیں رہنا ہے۔ میں نے تو مشرف کی بھی سب سے لمبی قید کاٹی تھی۔ جب تک مشرف اقتدار میں رہا میں قید رہا۔ نہ مجھے بیرون ملک اپنی والدہ اور والد سے ملنے جانے کی اجازت تھی۔ جب میرے والد کو کینسر ہوا اور وہ علاج کے لیے امریکا گئے ۔ زندگی موت کا مسئلہ تھا۔
ہمیں نہیں معلوم تھا کہ کیا ہوگا۔ڈاکٹر کہہ رہے تھے معاملہ بہت سیریس ہے۔ تو مجھے تب بھی مشرف نے اپنی قید سے رہا نہیں کیا۔والد صاحب نے آپریشن تھیٹر جانے سے پہلے مجھے جو خط لکھا تھا وہ آج بھی میرے پاس ہے۔ جب کبھی زیادہ پریشان ہوں تو وہ خط پڑھ لیتا ہوں۔
تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دن اس سے تو اچھے ہیں۔ اس لیے حمزہ نے کہیں نہیں جانا۔ میں جانا بھی چاہوں تو پاکستان کی مٹی کو مجھ سے اتنا پیار ہے مجھے جانے نہیں دیتی۔ جب سب چلے بھی جاتے ہیں تو حمزہ یہیں ہوتا ہے۔میں تو بالغ ہی جیل میں ہوا ہوں۔ ہمارے خاندان میں سب سے پہلے میں ہی جیل میں گیا تھا۔
میں نے کہا نظر نہیں آرہے۔ کہنے لگے کچھ دن گھر میں تھا۔ میری کمر میں شدید درد تھا۔ شیٹیکا کا درد تھا۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کا کہا تھا۔ لیکن اب تو روزانہ یہاں موجود ہوں۔ جب دل چاہے آجایا کریں۔ یہیں ملوں گا۔ میں نے کہا کیا ہو رہا ہے۔ کہنے لگے سیاست ہو رہی ہے۔
ملک کی خدمت ہو رہی ہے۔ میں نے کہا کیا گیم پلان ہے۔ حمزہ شہباز مسکرائے اور کہنے لگے جو بھی ہوگا پاکستان کے آئین وقانون کے اندر ہوگا۔
ہم نے پہلے بھی کوئی غیر آئینی کام نہیں کیا۔ میں نے کہا اعتماد کا ووٹ بہترین آپشن ہے یا تحریک عدم اعتماد بہترین آپشن ہے۔ حمزہ مسکرائے کہنے لگے خبر لینا چاہتے ہیں۔ دونوں ہی آئینی آپشن ہیں۔ لیکن سیاست میں ٹائمنگ اہم ہوتی ہے۔ جب وقت آئے گا تو ٹائمنگ کے حساب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) پی ڈی ایم کی قیادت کے ساتھ مل کر کوئی قدم اٹھائے گی۔
کوئی جلدی نہیں ہے۔ پھر مسکراتے ہوئے بولے کوئی طوفان نہیں۔ کھیل دیکھیں کھلاڑیوں کو دیکھیں۔ ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے۔ آپ اختتام کا پوچھ رہے ہیں۔دونوں کارڈ ہمارے ہاتھ میں ہیں اپنے وقت پر دونوں کارڈ اکٹھے بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ایک ایک کر کے بھی استعمال ہو سکتے ہیں ۔ جلدی کوئی نہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے ۔
ہم اپنی ٹائمنگ پر کارڈ کھیلیں گے۔ دونوں کی تیاری مکمل ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ تیاری مکمل ہے۔ میں نے پی ڈی ایم کے ساتھیوں سے بھی ملاقات کی ہے۔ ان سے بھی تفصیلی مشاورت ہوئی ہے۔ سب تیار ہیں۔
میں نے کہا چوہدری کہاں کھڑے ہیں۔ حمزہ مسکرائے اور قہقہہ لگایا۔ کہنے لگے وہیں کھڑے جہاں ہمیشہ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلے ہیں۔ ہمیں تو وہ وہیں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ انھوں نے اپنا سیاسی قبلہ کوئی تبدیل نہیں کیا۔
میں نے کہا بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ اب تو سب واضح ہو گیا ہے کہ چوہدری پرویز الہیٰ اور چوہدری مونس الہیٰ دونوں نے کہہ دیا ہے کہ انھیں جنرل باجوہ نے عمران خان کی طرف بھیجا۔ انھوں نے کہا ابھی تو ایک سچ سامنے آیا ہے۔ ہماری حکومت پنجاب میں کیسے ختم کی گئی۔ اس کے باقی سچ ابھی سامنے آنے ہیں۔
پنجاب اسمبلی بچانے کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس کیا کارڈ ہیں۔ کیا پنجاب میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔
کیا گورنر پنجاب اعتماد کے ووٹ کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب کو کہیں گے۔ جب پاک فوج نے غیر سیاسی ہونے کا اعلان کر دیا تھا تو پھر جنرل باجوہ نے چوہدری پرویز الہیٰ کو عمران خان کے ساتھ پنجاب میں جانے کے لیے کیوں کہا۔ پنجاب میں آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔ غرض کہ اس وقت پاکستان کا سیاسی منظر نامہ پنجاب کے گرد گھوم رہا ہے۔
ایسے میں ان گنت سوالات میں اکثر سوالات کے جوابات پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کے پاس ہیں۔ اس لیے میں نے برادرم عمران گورایہ کو حمزہ شہباز سے ملاقات کے لیے کہا۔ انھوں نے ملاقات کا وقت طے کروا دیا۔
اور اس طرح میں حمزہ شہباز کے سیاسی دفتر میں ان سے ملاقات کے لیے پہنچ گیا۔ میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے۔ اور میری کوشش تھی کہ میں سب سوالات کے اکٹھے جواب لے لوں۔
میں نے حمزہ شہباز سے پوچھا کہاں غائب ہیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہاں یہاں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں۔ میں تو کبھی بھی کہیں نہیں گیا۔ جب ظلم کے کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ حمزہ شہباز تب بھی یہاں تھا۔ جیل کاٹی ہے۔ ظلم سہا ہے۔
لیکن یہاں سے کہیں گیا نہیں۔ مجھے تو بیرون ملک جانے کی اجازت بھی تب دی گئی جب میری بیٹی بیمار تھی میں تب بھی وطن واپس آگیا تھا۔ مجھے سب نے کہا واپس نہ جائیں پھر گرفتار ہو جائیں گے۔ میں نے تب بھی کہا تھا کہ حمزہ شہباز جیل سے ڈر کر باہر نہیں بھاگا تھا۔ اس لیے مزمل صاحب حمزہ نے کہاں جانا ہے۔ حمزہ اس مٹی کا بیٹا ہے۔ اس نے اسی مٹی میں رہنا ہے۔
اس لیے کہاں جانا ہے۔ اچھے دن ہوں برے دن ہوں یہیں رہنا ہے۔ میں نے تو مشرف کی بھی سب سے لمبی قید کاٹی تھی۔ جب تک مشرف اقتدار میں رہا میں قید رہا۔ نہ مجھے بیرون ملک اپنی والدہ اور والد سے ملنے جانے کی اجازت تھی۔ جب میرے والد کو کینسر ہوا اور وہ علاج کے لیے امریکا گئے ۔ زندگی موت کا مسئلہ تھا۔
ہمیں نہیں معلوم تھا کہ کیا ہوگا۔ڈاکٹر کہہ رہے تھے معاملہ بہت سیریس ہے۔ تو مجھے تب بھی مشرف نے اپنی قید سے رہا نہیں کیا۔والد صاحب نے آپریشن تھیٹر جانے سے پہلے مجھے جو خط لکھا تھا وہ آج بھی میرے پاس ہے۔ جب کبھی زیادہ پریشان ہوں تو وہ خط پڑھ لیتا ہوں۔
تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دن اس سے تو اچھے ہیں۔ اس لیے حمزہ نے کہیں نہیں جانا۔ میں جانا بھی چاہوں تو پاکستان کی مٹی کو مجھ سے اتنا پیار ہے مجھے جانے نہیں دیتی۔ جب سب چلے بھی جاتے ہیں تو حمزہ یہیں ہوتا ہے۔میں تو بالغ ہی جیل میں ہوا ہوں۔ ہمارے خاندان میں سب سے پہلے میں ہی جیل میں گیا تھا۔
میں نے کہا نظر نہیں آرہے۔ کہنے لگے کچھ دن گھر میں تھا۔ میری کمر میں شدید درد تھا۔ شیٹیکا کا درد تھا۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کا کہا تھا۔ لیکن اب تو روزانہ یہاں موجود ہوں۔ جب دل چاہے آجایا کریں۔ یہیں ملوں گا۔ میں نے کہا کیا ہو رہا ہے۔ کہنے لگے سیاست ہو رہی ہے۔
ملک کی خدمت ہو رہی ہے۔ میں نے کہا کیا گیم پلان ہے۔ حمزہ شہباز مسکرائے اور کہنے لگے جو بھی ہوگا پاکستان کے آئین وقانون کے اندر ہوگا۔
ہم نے پہلے بھی کوئی غیر آئینی کام نہیں کیا۔ میں نے کہا اعتماد کا ووٹ بہترین آپشن ہے یا تحریک عدم اعتماد بہترین آپشن ہے۔ حمزہ مسکرائے کہنے لگے خبر لینا چاہتے ہیں۔ دونوں ہی آئینی آپشن ہیں۔ لیکن سیاست میں ٹائمنگ اہم ہوتی ہے۔ جب وقت آئے گا تو ٹائمنگ کے حساب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) پی ڈی ایم کی قیادت کے ساتھ مل کر کوئی قدم اٹھائے گی۔
کوئی جلدی نہیں ہے۔ پھر مسکراتے ہوئے بولے کوئی طوفان نہیں۔ کھیل دیکھیں کھلاڑیوں کو دیکھیں۔ ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے۔ آپ اختتام کا پوچھ رہے ہیں۔دونوں کارڈ ہمارے ہاتھ میں ہیں اپنے وقت پر دونوں کارڈ اکٹھے بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ایک ایک کر کے بھی استعمال ہو سکتے ہیں ۔ جلدی کوئی نہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے ۔
ہم اپنی ٹائمنگ پر کارڈ کھیلیں گے۔ دونوں کی تیاری مکمل ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ تیاری مکمل ہے۔ میں نے پی ڈی ایم کے ساتھیوں سے بھی ملاقات کی ہے۔ ان سے بھی تفصیلی مشاورت ہوئی ہے۔ سب تیار ہیں۔
میں نے کہا چوہدری کہاں کھڑے ہیں۔ حمزہ مسکرائے اور قہقہہ لگایا۔ کہنے لگے وہیں کھڑے جہاں ہمیشہ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلے ہیں۔ ہمیں تو وہ وہیں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ انھوں نے اپنا سیاسی قبلہ کوئی تبدیل نہیں کیا۔
میں نے کہا بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ اب تو سب واضح ہو گیا ہے کہ چوہدری پرویز الہیٰ اور چوہدری مونس الہیٰ دونوں نے کہہ دیا ہے کہ انھیں جنرل باجوہ نے عمران خان کی طرف بھیجا۔ انھوں نے کہا ابھی تو ایک سچ سامنے آیا ہے۔ ہماری حکومت پنجاب میں کیسے ختم کی گئی۔ اس کے باقی سچ ابھی سامنے آنے ہیں۔