کراچی میں بین الاقوامی کتب میلے کا آغاز
پہلے ہی روز درجنوں اسکولوں کے طلباء و اساتذہ نے کتب میلے کا رخ کیا
پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے تحت ایکسپو سینٹر کراچی میں سترہویں کراچی بین الاقوامی کتب میلے کا افتتاح کر دیا گیا اور اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا، پہلے ہی روز درجنوں اسکولوں کے طلباء و اساتذہ نے کتب میلے کا رخ کیا۔
کتب میلے کی افتتاحی تقریب جمعرات کی دوپہر منعقد ہوئی، تقریب سے وزیر تعلیم سندھ سردار شاہ، مہتاب اکبر راشدی، چیئرمین پبلشرز ایسوسی ایشن عزیز خالد اور وقار متین و دیگر نے بھی خطاب کیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ نے کہا کہ اب دور ڈیجیٹل میڈیا پر چلا گیا، آج کے بچے کتابوں کے ورق پلٹنے کا مزح نہیں لیتے بلکہ ان کا سارا مزح گوگل سرچنگ میں ہے۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ ہم بچوں کی آرگینک ''organic'' نسل تیار کر رہے ہیں، والدین بچوں کو ہائیبرڈ نسل بنانا چھوڑ دیں، والدین لاکھوں روپے خرچ کرکے انگریزی اسکول میں پڑھا کر خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ بہت اچھی انگریزی بولتا ہے لیکن دیگر علوم اور اپنی زبان و تہذیب کے بارے میں بچے کیا جانتے ہیں اس پر والدین توجہ نہیں دیتے۔
انھوں نے کہا کہ آئیڈیاز کے ایک اجلاس میں ہم نے خود کہا تھا کہ ہماری تہذیب سے کبھی اسلحہ نہیں نکلا، یہ دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے۔
سردار شاہ کا کہنا تھا کہ نجی اسکولوں میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ 10 سے 12 ہزار روپے ماہانہ دے کر استاد اردو اور سندھی پڑھا رہے ہیں جبکہ ان لوگوں کو اردو اور سندھی پڑھانا نہیں آتا۔ وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ 15 ہزار نجی اسکول میں اردو سندھی پڑھانے کے لیے اچھے اساتذہ نہیں ہیں، ایسا ہی رہا تو آنے والے دور میں آج کے ادیب و دانشور فاطمہ حسن، سحر انصاری و دیگر کو پڑھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ میں سیاست دان مجبوری میں بنا ہوں لیکن شاعر اپنی خواہش سے ہوں، سب سے پہلی غیر درسی کتب اپنے دادا کی سفارش پر شاہ جو رسالو چوتھی جماعت میں پڑھی تھی۔
علاوہ ازیں، ایک سوال پر وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ کسی بھی ڈپٹی کمشنر کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ سرکاری کالج میں تعمیراتی پلانٹ کی تنصیب کے لیے این او سی جاری کر دے، اگر ڈپٹی کمشنر ضلع وسطی نے شپ اونر کالج کے معاملے میں ایسا کیا ہے تو میں اس پر ایکشن لوں گا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ آج معاشی بدحالی کے اس دور میں نوجوانوں اور بچوں کا اتنی بڑی تعداد میں آنا اور کتابیں خریدنا معاشرے کے لیے ایک امید کی کرن اور اچھا شگون ہے۔
انھوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ''جوانوں کو پیروں کا استاد کر'' اور آج اس کتب میلے میں نوجوانوں کی آمد اور کتابوں کی خریداری علامہ کے اسی مصرعے کے مصداق نظر آتی ہے، اب ہمارے اطراف کتابیں ہی کتابیں اور الفاظ ہی الفاظ ہیں۔
کتب میلے کی افتتاحی تقریب جمعرات کی دوپہر منعقد ہوئی، تقریب سے وزیر تعلیم سندھ سردار شاہ، مہتاب اکبر راشدی، چیئرمین پبلشرز ایسوسی ایشن عزیز خالد اور وقار متین و دیگر نے بھی خطاب کیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ نے کہا کہ اب دور ڈیجیٹل میڈیا پر چلا گیا، آج کے بچے کتابوں کے ورق پلٹنے کا مزح نہیں لیتے بلکہ ان کا سارا مزح گوگل سرچنگ میں ہے۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ ہم بچوں کی آرگینک ''organic'' نسل تیار کر رہے ہیں، والدین بچوں کو ہائیبرڈ نسل بنانا چھوڑ دیں، والدین لاکھوں روپے خرچ کرکے انگریزی اسکول میں پڑھا کر خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ بہت اچھی انگریزی بولتا ہے لیکن دیگر علوم اور اپنی زبان و تہذیب کے بارے میں بچے کیا جانتے ہیں اس پر والدین توجہ نہیں دیتے۔
انھوں نے کہا کہ آئیڈیاز کے ایک اجلاس میں ہم نے خود کہا تھا کہ ہماری تہذیب سے کبھی اسلحہ نہیں نکلا، یہ دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے۔
سردار شاہ کا کہنا تھا کہ نجی اسکولوں میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ 10 سے 12 ہزار روپے ماہانہ دے کر استاد اردو اور سندھی پڑھا رہے ہیں جبکہ ان لوگوں کو اردو اور سندھی پڑھانا نہیں آتا۔ وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ 15 ہزار نجی اسکول میں اردو سندھی پڑھانے کے لیے اچھے اساتذہ نہیں ہیں، ایسا ہی رہا تو آنے والے دور میں آج کے ادیب و دانشور فاطمہ حسن، سحر انصاری و دیگر کو پڑھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ میں سیاست دان مجبوری میں بنا ہوں لیکن شاعر اپنی خواہش سے ہوں، سب سے پہلی غیر درسی کتب اپنے دادا کی سفارش پر شاہ جو رسالو چوتھی جماعت میں پڑھی تھی۔
علاوہ ازیں، ایک سوال پر وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ کسی بھی ڈپٹی کمشنر کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ سرکاری کالج میں تعمیراتی پلانٹ کی تنصیب کے لیے این او سی جاری کر دے، اگر ڈپٹی کمشنر ضلع وسطی نے شپ اونر کالج کے معاملے میں ایسا کیا ہے تو میں اس پر ایکشن لوں گا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ آج معاشی بدحالی کے اس دور میں نوجوانوں اور بچوں کا اتنی بڑی تعداد میں آنا اور کتابیں خریدنا معاشرے کے لیے ایک امید کی کرن اور اچھا شگون ہے۔
انھوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ''جوانوں کو پیروں کا استاد کر'' اور آج اس کتب میلے میں نوجوانوں کی آمد اور کتابوں کی خریداری علامہ کے اسی مصرعے کے مصداق نظر آتی ہے، اب ہمارے اطراف کتابیں ہی کتابیں اور الفاظ ہی الفاظ ہیں۔