عالمی حکومتوں نے مہنگائی کا مقابلہ کیسے کیا
اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں سے عوام کو محفوظ رکھنے والی سرکاری کوششوں کا معلومات افروز احوال
پچھلے آٹھ نو ماہ سے بڑھتی مہنگائی نے کروڑوں پاکستانیوں کا ماہانہ بجٹ تتر بتر کر ڈالا۔ خوراک، ایندھن اور روزمرہ استعمال کی کئی اشیا کی قیمتیں اس دوران دگنی تگنی بڑھ گئیں۔تاہم مہنگائی کی یہ لہر پاکستان تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے دنیا کے ہر ملک کو نشانہ بنایا۔
اس لہر نے کئی باتوں کے علاوہ دنیا والوں پہ یہ اہم سچائی بھی آشکارا کی کہ کن ممالک کا حکمران طبقہ باشعور، قابل،مستعد اور گڈگورنس (اچھے انتظام حکومت)میں آگے ہے جبکہ کون سے ملکوں میں نالائق، غبی، کام چور اور بدانتظامی کی حامل حکومتیں عوام پہ مسلط ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جہاں حکمران طبقہ عوام کی خدمت اور اس کے مفادات پورے کرنے میں ناکام رہا۔
عمدہ انتظام حکومت کی اہمیت
1947ء میں پاکستان اور بھارت ایک ساتھ آزاد ہوئے۔1971ء میں مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا۔ درست کہ بھارتی حکمران طبقے کو ہم سے بہتر معاشی سیٹ اپ ملا مگر 1990ء تک دونوں معاصر ملکوں کی معیشت متوازی انداز میں ترقی کر رہی تھی۔
اس کے بعد پاکستان زوال کا شکار ہو گیا۔جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش ہر شعبہ حیات میں، چاہے وہ معیشت ہو، سیاست یا معاشرت، پاکستان سے آگے نکل چکے۔خاص طور پہ ہمارے دونوں پڑوسیوں کی معیشت اب ہم سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ بنیادی تبدیلی جنم لینے کی بڑی اہم وجہ یہ کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں حکمران طبقہ گڈ گورنس اپنانے میں کامیاب رہا۔
عوام کے مسائل حل کرنے اور ملک وقوم کو ترقی وخوشحالی کی راہ پہ گامزن کرنے کی خاطر اس نے عمدہ انتظام حکومت وضع کر لیا۔جبکہ پاکستانی حکمران طبقے کی شاید سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ پچھتر سال گذر جانے کے باوجود وہ موزوں انتظام ونظام مملکت تشکیل نہیں دے پایا۔ بدانتظامی اور غفلت کی ایک حالیہ مثال ملاحظہ فرمائیے۔
بدانتظامی کی تازہ مثال
سویابین ہماری پولٹری صنعت میں پلتی مرغیوں کی خوراک کا اہم جزو ہے۔یہ انھیں مطلوبہ غذائیات فراہم کرتا ہے۔بطور مویشیوں کے چارے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔پاکستان میں سویابین کی پیداوار بہت کم ہے، لہذا یہ غذا بیرون ملک سے منگوائی جاتی ہے۔اس کی دستیابی ممکن بناتی ہے کہ عام پاکستانی کو مرغی کا گوشت، انڈے اور دودھ سستا اور وافر مل سکے۔مگر پچھلے دنوں حکومت کی سست روی اور غفلت کی وجہ سے پاکستان میں سویابین کی قلت پیدا ہو گئی۔
اس قلت نے چکن، انڈے اور دودھ کی قیمتیں خاطر خواہ بڑھا دیں کیونکہ مطلوبہ خوراک نہ ہونے سے یہ غذائیں نایاب ہو گئیں۔ہمارے حکمران طبقے کی روایتی بدانتظامی کی اس مثال کا قصّہ یہ ہے کہ چار سال قبل حکومت نے فیصلہ کیا تھا، پاکستان میں سویابین، پالم آئل، کنولا وغیرہ کے جو غیرملکی بیج درآمد ہوتے ہیں، وزارت موسمیاتی تبدیلی (Ministry of Climate Change) کے ماہرین ان کا معائنہ کرنے کے بعد یہ سرٹیفیکٹ دیں گے کہ وہ پاک صاف اور کھانے کے لائق ہیں۔لیکن چار سال گذر گئے، متعلقہ وزارت میں سرٹیفیکٹ بنانے کا میکنزم ہی نہیں بن پایا۔
اس دوران غیرملکی بیجوں کی درآمد جاری رہی۔وہ سرٹیفیکٹ کے بغیر کراچی بندرگاہ پر اتار کر مختلف پاکستانی شہروں میں جاتے رہے۔
اس سال ماہ اکتوبر میں اچانک وزارت موسمیاتی تبدیلی نے فیصلہ کیا کہ درآمد شدہ بیج اسی وقت اندرون ملک جائیں گے جب وہ انھیں سرٹیفیکٹ عطا کر دے۔چناں چہ کراچی بندرگاہ پہ غیرملکی بیج لانے والے بحری جہازوں سے انھیں اتارنے کا کام روک دیا گیا۔
18 نومبر 22ء کو راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر، ثاقب رفیق نے پریس کانفرنس میں یہ افسوس ناک انکشاف کیا کہ 20 اکتوبر سے ایک لاکھ ٹن تیس ہزار ٹن سویابین کراچی بندرگاہ پہ رکی پڑی ہے۔وجہ یہ کہ تقریباً ایک ماہ گذر چکا، اب تک وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین نے اسے ریلیز کرنے کے لیے مطلوبہ سرٹیفیکٹ جاری نہیں کیا۔اس باعث پاکستان میں مرغیوں اور موشیوں کی خوراک(فیڈ)بنانے والی ملوں میں سویابین نایاب ہو گئی۔غذا کی عدم دستیابی سے مرغیاں اور انڈے بھی کم تعداد میں بننے لگے۔
اس امر نے چکن کی قیمت سوا چار سو روپے فی کلو سے بھی زیادہ کر دی،جبکہ انڈوں و دودھ کی قیمت کو بھی پر لگ گئے۔اس سارے قضیے سے عیاں ہے کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی نے سرٹیفیکٹ کا میکنزم بنائے بغیر بندرگاہ پہ بیج روک لیے۔
اس دوران یہ دعوی سامنے آیا کہ درآمد شادی سیویابین کے بیج ''ایم یو'' (Genetically modified organism) ہیں۔
اور یہ پاکستان میں کینسر پیدا کر ہے ہیں۔حالانکہ دنیا کے نامی گرامی کینسر ریسرچ سینٹروں کی تحقیق کے مطابق جی ایم یو بیج انسانی صحت کے لیے مضر نہیں۔بعض لوگوں کا دعوی ہے کہ ممکن ہے، اس کھیل کے پیچھے سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے مالی مفاد پوشیدہ ہوں۔اس باعث سست روی کا روایتی کھیل کھیلا گیا۔مگر اس کھیل سے نقصان کس کا ہوا؟ عام پاکستانی کاکہ اسے مہنگا چکن ، انڈے اور دودھ خریدنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس قسم کے مفاداتی چکر اکثر سرکاری محکموں میں چلتے رہتے اور عوام کو دق کرتے ہیں۔
تکلیف تو عام آدمی کو!
درج بالا مثال سے عیاں ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں حکمران طبقے کی بدانتظامی اور کرپشن مسئلہ بن چکی، خراب حکومت عوام کی تکالیف ومشکلات دور کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔رکن پارلیمنٹ ہوں یا سرکاری افسر اور دیگر ارکان ِحکومت، انھیں تو عوام کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ ''آمدن ''سے بھاری بھرکم تنخواہیں مل جاتی ہیں۔
لہذا چکن پانچ سو روپے مہنگا بھی ہو جائے تو انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔تکلیف تو عام آدمی کو ہوتی ہے جو اب خواب میں بھی مرغی اور انڈا کھانے کا نہیں سوچ سکتا کہ حکومتی بدانتظامی کے باعث یہ غذائیں بہت مہنگی ہو گئیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں مہنگائی کی حالیہ لہر ایندھن اور خوراک مہنگے ہونے سے پیدا ہوئی۔ دونوں کی قیمتوں میں اضافہ روس یوکرین جنگ نے کیا۔یہ ملک کثیر مقدار میں ایندھن وغذائیں دنیا والوں کو سپلائی کرتے ہیں۔آبادی میں تیزی سے اضافہ بھی ان اشیائے ضرورت کی قلت جنم دے رہا ہے۔دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے بڑھ چکی۔
1900ء میں عالمی آبادی تقریباً ڈیرھ ارب تھی۔محض سوا سو سال کے مختصر عرصے میں یہ عدد ساڑھے چھ ارب سے زیادہ بڑھ گیا۔برق رفتاری سے انسانی نفوس بڑھنے کے باعث ہی کرہ ارض کے تمام قدرتی وسائل اب شکست وریخت کا شکار ہیں۔موسموں اور آب وہوا سے لے کر چرند پرند اور ننھے منے کیڑے تک ،سبھی انسانی آبادی کے تیزرفتار پھیلاؤ سے متاثر ہو چکے۔
امریکی حکومت کی کامیابی
دنیا بھر میں حکومتوں نے مختلف حکمت عملیاں اپنا کر مہنگائی کا مقابلہ کیا۔امریکا کرہ ارض کی سب سے بڑی معیشت ہے۔وہاں حکومت کی زیرسرپرستی چلتے سٹیٹ بینک(فیڈرل ریزرو)نے ڈالر کی شرح سود میں اضافہ کر دیا۔مارچ 22ء میں یہ شرح تقریباً صفر تھی جو اب چار فیصد کے قریب پہنچ چکی۔
(اس میں مذید اضافہ متوقع ہے)شرح سود بڑھنے سے ڈالر تقریباً ہر کرنسی کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہو گیا۔چناں چہ امریکیوں کو بیرون ممالک سے مہناگئی پیدا کرنے والی دونوں اشیا،ایندھن اور غذائیں سستی ملنے لگیں۔اس عمل سے امریکا میں مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملی۔امریکی حکومت نے نچلے و متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے لاکھوں امریکی شہریوں کو نقد 1400 ڈالر بھی ادا کیے۔
مقصد یہ تھا کہ انھیں مہنگی خوراک خریدنے اور ایندھن کے بل ادا کرنے میں آسانی رہے۔مزید براں سبھی امریکی ریاستوں میں حکومت نے نجی شعبے کے تعاون سے ''فوڈ بینک''قائم کیے جہاں سے عام آدمی کو سستی خوراک مل سکتی ہے۔انتہائی غریب لوگوں میں پکے کھانے تقسیم کرنے کے منصوبے بھی شروع کیے گئے۔
غرض امریکی حکمران طبقے نے عوام کی تکالیف و مسائل دیکھتے ہوئے بروقت و اہم اقدامات کیے تاکہ مہنگائی کی لہر انھیں زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکے۔
مہنگائی پہ قابو پانے کے سلسلے میں امریکی حکومت اپنی کوششوں میں کامیاب رہی۔جون 22ء میں امریکا میں مہنگائی کی شرح 9.1 فیصد ہو گئی تھی۔یہ گذشتہ چالیس برس میں بلند ترین سطح تھی۔تاہم امریکی حکومت کے مہنگائی شکن بہترین اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ شرح نومبر 22ء میں کم ہو کر 7.7فیصد پر آ گئی۔اس کمی سے امریکا میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا۔
لالچ وہوس بری بلا
پاکستان میں بھی وفاقی حکومت کے حکم پر سٹیٹ بینک نے شرح سود بڑھا دی تاکہ عوام کو مالیاتی اداروں سے زیادہ منافع مل سکے(گو کاروباریوں کے لیے قرض لینا مہنگا ہو گیا) ۔ صوبائی حکومتوں نے سستا آٹا دینے کے منصوبے شروع کیے۔نیز حکومت پنجاب نے ضرورت مندوں میں نقد رقوم کی تقسیم کا آغاز کیا۔مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پہ بدانتظامی ہونے سے عوامی فلاح وبہبود کے تمام سرکاری منصوبے تنازعات کا شکار رہتے ہیں۔
مثلاً عوام شکایت کرتے ہیں کہ دکان داروں نے سستا آٹا خرید کر ذخیرہ کر لیا۔اسی طرح ماضی میں اچھے خاصے سرکاری افسر اور سیاست داں ''غربا ''کی فہرست میں اپنے نام شامل کرا کر سرکاری رقم بٹور چکے۔بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ لالچ وہوس اچھے خاصے انسان کو حیوان سے بھی بدتر بنا دیتا ہے۔
2018ء میں پاکستان میں مہنگائی کی سالانہ شرح 5.8 فیصد تھی جب پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی۔نئی حکومت نے نئے ٹیکس لگائے اور مروج ٹیکسوں کی شرح بھی بڑھا دی۔چناں چہ ملک میں مہنگائی بڑھنے لگی۔2021ء میں وہ 9.5 فیصد تک پہنچ گئی۔
جب روس یوکرین جنگ چھڑی تو مہنگائی آسمان پہ جا پہنچی۔آج وطن عزیز میں سرکاری طور پہ شرح مہنگائی 30 فیصد تک پہنچ چکی۔ملکی و غیر ملکی معاشیات دانوں کے مطابق مگر حقیقی شرح کافی زیادہ ہے۔مثلاً امریکی یونیورسٹی ، جان ہوپکنز سے وابستہ مشہور ماہر معاشیات، پروفیسر سٹیو ہین کے (Steve H. Hanke)وقتاً فوقتاً ان ممالک کی فہرست اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے جاری کرتے ہیں۔
جہاں ماہانہ شرح مہنگائی بہت زیادہ ہو۔ان کی تازہ ترین فہرست کی رو سے ماہ اکتوبر 22ء میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 44 فیصد تھی۔یہ دنیا میں انیسویں (19)بلند شرح رہی۔
پانامہ کی سوشلسٹ حکومت
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہ سطور قلمبند کرتے وقت افریقی ملک زمبابوے میں شرح مہنگائی عالمی سطح پہ سب سے زیادہ ہے یعنی 280فیصد۔جبکہ پروفیسر ہینکے کی تحقیق کی رو سے زمبابوے میں حقیقی شرح'' 377''فیصد ہے۔
سرکاری طور پہ دنیا میں سب سے کم شرح مہنگائی جنوبی امریکن ملک، پانامہ میں ہے یعنی 1.76فیصد۔مگر وہاں بھی حقیقی شرح چار فیصد ہو سکتی ہے۔پانامہ میں جولائی 22ء میں عوام بڑھتی مہنگائی کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئے تھے۔
انھوں نے پھر حکومت کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے کیے۔پُرزور عوامی مظاہروں کے بعد حکومت نے ایندھن کی قیمت 24 فیصد کم کر دی جس سے مہنگائی میں بھی کمی واقع ہوئی۔اس کے علاوہ روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں بھی منجمند کر دی گئیں۔
نیزکم از کم تنخواہ میں بھی اضافہ کر دیا گیا تاکہ غریب مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں۔یوں پانامہ کی سوشلسٹ حکومت نے عوام دوست اقدامات سے مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب رہی۔پانامہ کی آبادی کم ہے،چوالیس لاکھ کے قریب۔گویا ہمارے راولپنڈی اسلام آباد کی آبادی سے کچھ زیادہ۔آبادی کم ہونے سے بھی پانامہ کے حکمران طبقے کو عمدہ نظام حکومت وضع کرنے اور مہنگائی پہ قابو پانے میں مدد ملی۔مملکت کی شرح پیدائش بھی خاصی کم ہے۔ہر سال آبادی میں چالیس پینتالیس ہزار نفوس کا اضافہ ہوتا ہے۔جبکہ پاکستان میں ہر برس تقریباً چالیس لاکھ انسان آبادی میں شامل ہو جاتے ہیں جس سے مقامی وسائل پہ خاصا دباؤ پڑ چکا۔
زمبابوے کا بُرا حال
دنیا میں سب سے زیادہ مہنگائی زمبابوے میں ہے جہاں کی کرکٹ ٹیم نے پچھلے دنوں پاکستانی ٹیم کو شکست دے کر اسے ورلڈ کپ سے تقریباً باہر کر دیا تھا۔وہاں بھی ذاتی مفادات کے اسیر حکمران طبقے نے اپنی بدانتظامی اور نالائقی کی وجہ سے زبردست معاشی بحران پیدا کر رکھا ہے۔
ایک دو فیصد لوگ قومی وسائل پہ قبضہ جما کر دولت مند ہو چکے۔جبکہ بقیہ فیصد عوام میں سے بیشتر ہر ماہ محض اتنی کمائی کر پاتے ہیں کہ ضروریات زندگی پوری ہو جائیں۔زمبابوے کی آبادی ڈیرھ کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔
اس افریقی ملک کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہاں قدرتی وسائل کم ہیں۔چناں چہ برآمدات بھی کم ہوتی ہیں۔اکثر لوگ کھیتی باڑی کر کے اپنی غذا خود اگاتے ہیں۔اُدھر پاکستان کی طرح زمبابوین حکمران طبقے نے بھی قرضے لے کر شاہانہ طرز زندگی اختیار کر لیا۔جب سود دینے اور قرضے اتارنے کا وقت آیا تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
اس نے پھر عوام پہ ٹیکسوں کی بھرمار کر دی تاکہ رقم پا کر سود وقرضوں کی ادائیگی کر سکے۔زیادہ ٹیکس لگنے سے ملک میں ہر شے بہت مہنگی ہو گئی ۔اب صرف امرا ہی وافر مقدار میں غذائیں اور ایندھن خرید سکتے ہیں۔مثلاً زمبابوے میں ایک لیٹر دودھ ہماری کرنسی میں 379 روپے میں ملتا ہے۔ایک کلو آٹے کی قیمت ساڑھے پانچ سو روپے ہو چکی۔
درجن انڈے 441 روپے میں ملتے ہیں۔ایک کلو سیب 660 روپے میں دستیاب ہے۔انسان گائے کا ایک کلو گوشت 1200 روپے میں ہی خرید پاتا ہے۔عام سبزی، آلو 350 روپے اور ٹماٹر 341 روپے میں ملتی ہے۔
ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 320 روپے تک پہنچ چکی۔شہروں میں ایک کمرے کا فلیٹ ساٹھ ہزار روپے کرائے پر ملتا ہے۔ایک طرف ضروری اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں تو دوسری سمت ساٹھ یا ستر فیصد زمبابوین لوگوں کی ماہانہ آمدن بیس ہزار روپے یا اس سے کم ہے۔
اس آمدن کا کثیر حصہ خوراک و ایندھن خریدنے پر لگ جاتا ہے۔مملکت میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں صرف بڑھتی ہیں...ان میں کمی شاذ ونادر ہی آتی ہے۔اس باعث عام آدمی کے لیے زمبابوے ارضی جہنم کا روپ دھار چکا۔
چین اور بھارت میں کیا ہوا؟
کرہ ارض پر جی ڈی پی (پی پی پی) کے حساب سے چین سب سے بڑی معاشی قوت ہے۔وہاں سرکاری طور پہ مہنگائی 2.8فیصد ہے۔غیر سرکاری لحاظ سے مہنگائی کچھ زیادہ ہو گی۔چین کی حکومت ڈالر کے سب سے بڑے ذخائر رکھتی ہے۔
اس نے اسی ذخیرے سے بڑھتی مہنگائی کا مقابلہ کیا کہ مارکیٹ میں ڈالر وافر مقدار میں پھینک دئیے۔اس طرح چینی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قدر زیادہ نہیں بڑھنے پائی۔یوں چین سستے داموں بیرون ممالک سے ضرورت کی اشیا منگواتا رہا۔ منڈیوں میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں زیادہ نہیں بڑھ پائیں۔بھارت کے پاس بھی ڈالر کا کثیر ذخیرہ جمع تھا۔مہنگائی کی لہر شروع ہوئی تو بھارتی حکمران طبقے نے بھی چین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وافر ڈالر مارکیٹ میں ڈال دئیے۔یوں بھارتی روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رہی۔
بھارت میں بھی خوراک و ایندھن کی قیمتیں آپے سے باہر نہیں ہوئیں۔یہ واضح رہے کہ چین اور بھارت، دونوں روس سے سستے داموں ایندھن خریدتے رہے۔اس روش کی وجہ سے بھی دونوں ملکوں میں مہنگائی بڑھ نہ پائی۔مزید براں یہ پڑوسی خوراک وافر مقدار میں پیدا کرتے ہیں۔
اس لیے غذائیں وہاں زیادہ مہنگی نہیں ہوئیں۔بھارت میں مہنگائی کی شرح سرکاری طور پہ 7.41 فیصد ہے۔غیر سرکاری شرح آٹھ فیصد یا زیادہ بھی ہو سکتی ہے کہ مودی حکومت منفی اعدادوشمار پوشیدہ رکھنے میں مشہور ہے۔
شرح مہنگائی ممالک میں
پروفیسر سٹیو ہینکے کے مطابق زمبابوے کے بعد ان ملکوں میں مہنگائی کی شرح زیادہ ہے:کیوبا(166 فیصد)، گھانا(158 فیصد)، وینزویلا(135 فیصد)، سری لنکا 115 فیصد)، ترکی (102 فیصد)، لبنان (88 فیصد)، لاؤس(79 فیصد)، سیر الیون(76 فیصد)، یوکرین (68 فیصد)، مصر(67 فیصد)، برما(66 فیصد)، جنوبی سوڈان (60 فیصد)، نائیجیریا(60 فیصد)، شام (60 فیصد)،ارجنٹائن (54 فیصد)، ملاوی (47 فیصد)، سوڈان (43 فیصد) پاکستان (41 فیصد)، کولمبیا (39فیصد)، ایران (33 فیصد) اور الجزائر (25 فیصد)درج بالا فہرست میں بعض ممالک عالمی یا مقامی سطح پر معاشی پابندیوں کا نشانہ بنے ہیں جیسے کیوبا، وینزویلا اور ایران۔اس باعث وہاں مہنگائی زیادہ ہے۔
کچھ ملک خانہ جنگی یا جنگ کا شکار ہیں ،مثلاً یوکرین، برما، شام، جنوبی سوڈان، لبنان وغیرہ۔اس کی وجہ سے ان کی معیشت بگڑ چکی۔تاہم بیشتر ممالک میں حکمران طبقے کی بدانتظامی اور کرپشن کے باعث مہنگائی نے جنم لیا۔وہاں حکومت کے اخراجات زیادہ ہیں اور آمدن کم، لہذا حکمران زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگا کر اپنی کمائی بڑھاتے ہیں۔
نیز قرضے بھی لیے جاتے ہیں۔مگر یہ انداز ِحکمرانی مملکت میں مہنگائی پیدا کر کے سب سے زیادہ عام آدمی کو نقصان پہنچاتا اور اس کی زندگی کو عذاب بنا دیتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی ملک قدرتی وسائل سے مالامال ہے مگر وہاں کرپٹ حکمران طبقہ عوام پہ مسلط ہو جائے تو وہ کبھی ترقی یافتہ اور خوشحال ریاست نہیں بن سکتا۔
کرپٹ حکمران طبقے کا عذاب
مثال کے طور پر افریقی مملکت گھانا کو لیجیے جو فی الوقت شرح مہنگائی میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔اس دیس میں سوا تین کروڑ انسان آباد ہیں۔یہ براعظم افریقہ میں سونے کی پیداوار میں سرفہرست ہے۔اور کوکا جیسی قیمتی غذا کی پیداوار میں آئیوری کوسٹ کے بعد دوسرا بڑا ملک جس سے کافی و چاکلیٹ بنتی ہے۔تیل، ہیرے، مینگنیز اور باکسائیٹ بھی ریاست کے اہم قدرتی وسائل ہیں۔
مگر گھانا کو بدقستمی سے کرپٹ و نااہل حکمران طبقہ چمٹ گیا۔یہ طبقہ رشوت خوری کے ذریعے قدرتی وسائل کی فروخت سے ہونے والی سرکاری آمدن کا بیشتر حصہ چٹ کر جاتا ہے۔لہذا بیش قیمت قدر تی وسائل ہونے کے باوجود گھانا میں عوام غربت، جہالت، بیماری، مہنگائی اور بیروزگاری جیسے عفریتوں کا نشانہ بنے اجیرن زندگی گذار رہے ہیں۔بس ایک فیصد طبقے کو آسائشیں اور عیش و آرام میسر ہے۔
گھانا کا حکمران طبقہ تو اتنا زیادہ کرپٹ ہے کہ سرکاری آمدن ہڑپ کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی وغیرملکی مالیاتی اداروں سے قرض بھی لیتا ہے ۔یہ قرضے بھی اس کا شاہانہ طرز ِزندگی برقرار رکھتے ہیں۔ قرضوں کا سود عوام کے خون پسینے کی کمائی پہ بھاری ٹیکس لگا کر ادا کیا جاتا ہے۔
غرض گھانا میں حکمران طبقے نے عام آدمی کو قربانی کا بکرا بنا لیا ۔وہ اس کا لہو نچوڑنے میں مصروف ہے۔حکمران تو عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔جبکہ عوام ان کی خدمت کرنے پر مجبور۔کوئی خونی انقلاب ہی عوام کو خون چوسنے والے حکمران طبقے سے نجات دلائے گا۔
خوشحال ملک بھی زوال پذیر
عمدہ نظام حکومت اور قابل لیڈرشپ نہ ہونے سے اچھے خاصے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک بھی بتدریج زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔اس عجوبے کی ایک مثال جنوبی امریکن ملک ارجنٹائن ہے۔ ساڑھے چار کروڑسے زائد آبادی رکھنے والا یہ دیس بیسویں صدی کے اوائل میں دنیا کے دس امیرترین اور ترقی یافتہ ممالک میں شامل تھا۔
وجہ یہی کہ قدرت الہی نے اسے قدرتی وسائل کی دولت وافر عطا فرمائی ۔چناں چہ تب کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرح ارجنٹائن میں بھی عوام خوشحال اور مطمئن زندگی گذار رہے تھے۔پھر جرنیلوں، سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کے درمیان کبھی اقتدار اور کبھی انا کی جنگ ہونے لگی۔گویا ارکان حکومت کے درمیان اتحاد نہیں رہا اور ملک ان کی سازشوں اور لڑائیوں کی آماج گاہ بن گیا۔یوں ہر شعبہ حیات میں تنزلی آنے لگی اور آخرکار نظام حکومت بھی بدانتظامی و ابتری کا شکار ہو گیا۔یہ معاملہ جنم لینے پر سب سے زیادہ متاثر معیشت ہوئی اور معاشی بحران عام آدمی کو ہی بدترین زک پہنچاتا ہے۔
پچھلے پچاس برس سے ارجنٹائنی حکمران طبقہ ریاست میں نظام حکومت درست نہیں کر پایا بلکہ کرپشن نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حکومت کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اور سرکاری آمدن کم۔لہذا اس نے عوام پہ ٹیکسوں کی بھرمار کی تو اس روش نے مملکت میں مہنگائی بڑھا دی۔حکومت زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپ کر اور ملکی وغیرملکی مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر اخراجات پورے کرتی ہے۔
اس لیے حکومت پہ بھاری قرض چڑھ چکا۔جبکہ بے انتہا نوٹ چھاپنے سے ملک میں افراط زر نے جنم لیا جو مہنگائی میں اضافہ کرتا ہے۔ان عوامل کی بنا پر ارجنٹائن میں مہنگائی کی حقیقی شرح تقریباً 100 فیصد ہو چکی۔
بیشتر ارجنٹائنی اب دو ملازمتیں کر رہے ہیں تاکہ گھریلو اخراجات پورے کر سکیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایک ملازمت کی تنخواہ تو فوراً ختم ہو جاتی ہے۔ارجنٹائنی حکومت نے بہرحال مہنگائی پہ قابو پانے کے لیے اقدامات کیے۔مثلاً روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں منجمند کر دیں۔
بجلی وپٹرول کی قیمتیں گھٹا دیں۔کم سے کم تنخواہ میں اضافہ کر دیا۔حتی کہ گائے کے گوشت کی برآمد پر پابندی لگا دی تاکہ ملک میں وہ سستا ہو سکے۔مگر مہنگائی بہت زیادہ ہونے سے اس نے بدستور نچلے و متوسط طبقوں کے عوام کو تنگ کر رکھا ہے۔وہ بہ مشکل ضروریات زندگی پوری کررہے ہیں۔کسی آسائش کی آرزو کرنا تو جیسے خواب بن چکا۔
پاکستان اور کئی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح ارجنٹائن کا بھی بڑا مسئلہ عمدہ نظام حکومت اور اہل قیادت کی عدم موجودگی ہے۔موجودہ حکمران طبقے کو تو عوام پہ لگے ٹیکسوں سے حاصل کردہ رقوم پر عیش کرنے کی لت پڑ چکی۔
اسے عوام کے مسائل حل کرنے کی کم ہی پروا ہے۔وہ بار بار آئی ایم ایف کے در پہ بھکاری بن کر پہنچ جاتا ہے تاکہ نیا قرض لے سکے۔مدعا یہی کہ مذید ڈالر پا کر اپنا آسائشوں بھرا طرز زندگی برقرار رکھے۔اسی انداز ِحکمرانی کی وجہ سے قیمتی قدرتی وسائل ہوتے ہوئے بھی ارجنٹائن ترقی یافتہ وخوشحال ملک نہیں بن پایا۔اس جنوبی امریکن مملکت میں بھی عمدہ نظام حکومت اس لیے تشکیل نہ پا سکا کہ سیاست داں عموماً آپس میں دست وگریبان رہتے ہیں۔
مثلاً موجودہ صدر اور نائب صدر دو طاقتور ترین عہدے ہیں مگر ان کے درمیان ہم آہنگی موجود نہیں۔لہذا حکومت عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دے پاتی۔یوں اقتدار یا ان کی سیاسی جنگ سے عوام ہی کو نقصان ہوتا ہے۔حکمران طبقے کا کچھ نہیں بگڑتا کہ مہنگائی، بیروزگاری، غربت وغیرہ کے عفریت اسے کچھ نہیں کہہ پاتے۔
ترک صدر کا انوکھا اقدام
دنیائے اسلام کی بڑی معاشی وعسکری قوت، ترکی میں بھی مہنگائی کی لہر جاری ہے۔وہاں سرکاری شرح 65فیصد ہے۔مگر پروفیسر ہینکے اسے 102 فیصد بتاتے ہیں۔ماہرین معاشیات ترکی میں مہنگائی کا سبب صدر طیب اردغان کی پالیسیوں کو قرار دیتے ہیں۔
دراصل صدر طیب کا خیال ہے، شرح سود بڑھنے سے مہنگائی بڑھتی ہے۔اسی لیے مہنگائی کی حالیہ لہر چلی تو انھوں نے شرح سود کم کر دی۔یہ دنیا بھر کی حکومتوں سے بالکل معکوس فعل تھا۔شرح سود کم کرنے سے ترکی کو منفی اور مثبت، دونوں قسم کے نتائج ملے۔منفی نتیجہ یہ تھا کہ ڈالر کے مقابلے میں ترک کرنسی، لیرے کی قدر 45 فیصد سے زیادہ گر گئی جو بہت زیادہ کمی تھی۔مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ شرح سود کم ہونے سے ترکی میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔
سرمایہ کار سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنے لگے۔ ترک سٹاک ایکسچینج میں حصص کی مالیت اس سال 150 فیصد بڑھ گئی۔یوں ترکی کی سٹاک مارکیٹ دنیا میں سب سے زیادہ منافع بخش اور بہترین قرار پائی۔
تاہم نچلے اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں ترک بڑھتی مہنگائی سے پریشان رہے۔انھوں نے گوشت کھانا چھوڑ دیا۔بہت سی اشیا سستے اسٹوروں سے لینے لگے جو حکومت نے کھول رکھے ہیں۔وہاں روزمرہ اشیا سستے داموں ملتی ہیں۔
غرض غریب ممالک ہوں یا امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے امیر ملک ، ہر جگہ نچلے و متوسط طبقوں کے باشندے ،مہنگائی سے شدید تنگ ہیں۔سبھی ملکوں کی حکومتوں کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ کیا وہ آنے والے وقت میں مہنگائی کا جن قابو میں کر سکیں گی تاکہ عام آدمی سکھ چین کی زندگی گذار سکے اور اس کے مسائل میں کمی آئے۔
اس لہر نے کئی باتوں کے علاوہ دنیا والوں پہ یہ اہم سچائی بھی آشکارا کی کہ کن ممالک کا حکمران طبقہ باشعور، قابل،مستعد اور گڈگورنس (اچھے انتظام حکومت)میں آگے ہے جبکہ کون سے ملکوں میں نالائق، غبی، کام چور اور بدانتظامی کی حامل حکومتیں عوام پہ مسلط ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جہاں حکمران طبقہ عوام کی خدمت اور اس کے مفادات پورے کرنے میں ناکام رہا۔
عمدہ انتظام حکومت کی اہمیت
1947ء میں پاکستان اور بھارت ایک ساتھ آزاد ہوئے۔1971ء میں مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا۔ درست کہ بھارتی حکمران طبقے کو ہم سے بہتر معاشی سیٹ اپ ملا مگر 1990ء تک دونوں معاصر ملکوں کی معیشت متوازی انداز میں ترقی کر رہی تھی۔
اس کے بعد پاکستان زوال کا شکار ہو گیا۔جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش ہر شعبہ حیات میں، چاہے وہ معیشت ہو، سیاست یا معاشرت، پاکستان سے آگے نکل چکے۔خاص طور پہ ہمارے دونوں پڑوسیوں کی معیشت اب ہم سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ بنیادی تبدیلی جنم لینے کی بڑی اہم وجہ یہ کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں حکمران طبقہ گڈ گورنس اپنانے میں کامیاب رہا۔
عوام کے مسائل حل کرنے اور ملک وقوم کو ترقی وخوشحالی کی راہ پہ گامزن کرنے کی خاطر اس نے عمدہ انتظام حکومت وضع کر لیا۔جبکہ پاکستانی حکمران طبقے کی شاید سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ پچھتر سال گذر جانے کے باوجود وہ موزوں انتظام ونظام مملکت تشکیل نہیں دے پایا۔ بدانتظامی اور غفلت کی ایک حالیہ مثال ملاحظہ فرمائیے۔
بدانتظامی کی تازہ مثال
سویابین ہماری پولٹری صنعت میں پلتی مرغیوں کی خوراک کا اہم جزو ہے۔یہ انھیں مطلوبہ غذائیات فراہم کرتا ہے۔بطور مویشیوں کے چارے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔پاکستان میں سویابین کی پیداوار بہت کم ہے، لہذا یہ غذا بیرون ملک سے منگوائی جاتی ہے۔اس کی دستیابی ممکن بناتی ہے کہ عام پاکستانی کو مرغی کا گوشت، انڈے اور دودھ سستا اور وافر مل سکے۔مگر پچھلے دنوں حکومت کی سست روی اور غفلت کی وجہ سے پاکستان میں سویابین کی قلت پیدا ہو گئی۔
اس قلت نے چکن، انڈے اور دودھ کی قیمتیں خاطر خواہ بڑھا دیں کیونکہ مطلوبہ خوراک نہ ہونے سے یہ غذائیں نایاب ہو گئیں۔ہمارے حکمران طبقے کی روایتی بدانتظامی کی اس مثال کا قصّہ یہ ہے کہ چار سال قبل حکومت نے فیصلہ کیا تھا، پاکستان میں سویابین، پالم آئل، کنولا وغیرہ کے جو غیرملکی بیج درآمد ہوتے ہیں، وزارت موسمیاتی تبدیلی (Ministry of Climate Change) کے ماہرین ان کا معائنہ کرنے کے بعد یہ سرٹیفیکٹ دیں گے کہ وہ پاک صاف اور کھانے کے لائق ہیں۔لیکن چار سال گذر گئے، متعلقہ وزارت میں سرٹیفیکٹ بنانے کا میکنزم ہی نہیں بن پایا۔
اس دوران غیرملکی بیجوں کی درآمد جاری رہی۔وہ سرٹیفیکٹ کے بغیر کراچی بندرگاہ پر اتار کر مختلف پاکستانی شہروں میں جاتے رہے۔
اس سال ماہ اکتوبر میں اچانک وزارت موسمیاتی تبدیلی نے فیصلہ کیا کہ درآمد شدہ بیج اسی وقت اندرون ملک جائیں گے جب وہ انھیں سرٹیفیکٹ عطا کر دے۔چناں چہ کراچی بندرگاہ پہ غیرملکی بیج لانے والے بحری جہازوں سے انھیں اتارنے کا کام روک دیا گیا۔
18 نومبر 22ء کو راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر، ثاقب رفیق نے پریس کانفرنس میں یہ افسوس ناک انکشاف کیا کہ 20 اکتوبر سے ایک لاکھ ٹن تیس ہزار ٹن سویابین کراچی بندرگاہ پہ رکی پڑی ہے۔وجہ یہ کہ تقریباً ایک ماہ گذر چکا، اب تک وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین نے اسے ریلیز کرنے کے لیے مطلوبہ سرٹیفیکٹ جاری نہیں کیا۔اس باعث پاکستان میں مرغیوں اور موشیوں کی خوراک(فیڈ)بنانے والی ملوں میں سویابین نایاب ہو گئی۔غذا کی عدم دستیابی سے مرغیاں اور انڈے بھی کم تعداد میں بننے لگے۔
اس امر نے چکن کی قیمت سوا چار سو روپے فی کلو سے بھی زیادہ کر دی،جبکہ انڈوں و دودھ کی قیمت کو بھی پر لگ گئے۔اس سارے قضیے سے عیاں ہے کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی نے سرٹیفیکٹ کا میکنزم بنائے بغیر بندرگاہ پہ بیج روک لیے۔
اس دوران یہ دعوی سامنے آیا کہ درآمد شادی سیویابین کے بیج ''ایم یو'' (Genetically modified organism) ہیں۔
اور یہ پاکستان میں کینسر پیدا کر ہے ہیں۔حالانکہ دنیا کے نامی گرامی کینسر ریسرچ سینٹروں کی تحقیق کے مطابق جی ایم یو بیج انسانی صحت کے لیے مضر نہیں۔بعض لوگوں کا دعوی ہے کہ ممکن ہے، اس کھیل کے پیچھے سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے مالی مفاد پوشیدہ ہوں۔اس باعث سست روی کا روایتی کھیل کھیلا گیا۔مگر اس کھیل سے نقصان کس کا ہوا؟ عام پاکستانی کاکہ اسے مہنگا چکن ، انڈے اور دودھ خریدنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس قسم کے مفاداتی چکر اکثر سرکاری محکموں میں چلتے رہتے اور عوام کو دق کرتے ہیں۔
تکلیف تو عام آدمی کو!
درج بالا مثال سے عیاں ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں حکمران طبقے کی بدانتظامی اور کرپشن مسئلہ بن چکی، خراب حکومت عوام کی تکالیف ومشکلات دور کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔رکن پارلیمنٹ ہوں یا سرکاری افسر اور دیگر ارکان ِحکومت، انھیں تو عوام کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ ''آمدن ''سے بھاری بھرکم تنخواہیں مل جاتی ہیں۔
لہذا چکن پانچ سو روپے مہنگا بھی ہو جائے تو انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔تکلیف تو عام آدمی کو ہوتی ہے جو اب خواب میں بھی مرغی اور انڈا کھانے کا نہیں سوچ سکتا کہ حکومتی بدانتظامی کے باعث یہ غذائیں بہت مہنگی ہو گئیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں مہنگائی کی حالیہ لہر ایندھن اور خوراک مہنگے ہونے سے پیدا ہوئی۔ دونوں کی قیمتوں میں اضافہ روس یوکرین جنگ نے کیا۔یہ ملک کثیر مقدار میں ایندھن وغذائیں دنیا والوں کو سپلائی کرتے ہیں۔آبادی میں تیزی سے اضافہ بھی ان اشیائے ضرورت کی قلت جنم دے رہا ہے۔دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے بڑھ چکی۔
1900ء میں عالمی آبادی تقریباً ڈیرھ ارب تھی۔محض سوا سو سال کے مختصر عرصے میں یہ عدد ساڑھے چھ ارب سے زیادہ بڑھ گیا۔برق رفتاری سے انسانی نفوس بڑھنے کے باعث ہی کرہ ارض کے تمام قدرتی وسائل اب شکست وریخت کا شکار ہیں۔موسموں اور آب وہوا سے لے کر چرند پرند اور ننھے منے کیڑے تک ،سبھی انسانی آبادی کے تیزرفتار پھیلاؤ سے متاثر ہو چکے۔
امریکی حکومت کی کامیابی
دنیا بھر میں حکومتوں نے مختلف حکمت عملیاں اپنا کر مہنگائی کا مقابلہ کیا۔امریکا کرہ ارض کی سب سے بڑی معیشت ہے۔وہاں حکومت کی زیرسرپرستی چلتے سٹیٹ بینک(فیڈرل ریزرو)نے ڈالر کی شرح سود میں اضافہ کر دیا۔مارچ 22ء میں یہ شرح تقریباً صفر تھی جو اب چار فیصد کے قریب پہنچ چکی۔
(اس میں مذید اضافہ متوقع ہے)شرح سود بڑھنے سے ڈالر تقریباً ہر کرنسی کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہو گیا۔چناں چہ امریکیوں کو بیرون ممالک سے مہناگئی پیدا کرنے والی دونوں اشیا،ایندھن اور غذائیں سستی ملنے لگیں۔اس عمل سے امریکا میں مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملی۔امریکی حکومت نے نچلے و متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے لاکھوں امریکی شہریوں کو نقد 1400 ڈالر بھی ادا کیے۔
مقصد یہ تھا کہ انھیں مہنگی خوراک خریدنے اور ایندھن کے بل ادا کرنے میں آسانی رہے۔مزید براں سبھی امریکی ریاستوں میں حکومت نے نجی شعبے کے تعاون سے ''فوڈ بینک''قائم کیے جہاں سے عام آدمی کو سستی خوراک مل سکتی ہے۔انتہائی غریب لوگوں میں پکے کھانے تقسیم کرنے کے منصوبے بھی شروع کیے گئے۔
غرض امریکی حکمران طبقے نے عوام کی تکالیف و مسائل دیکھتے ہوئے بروقت و اہم اقدامات کیے تاکہ مہنگائی کی لہر انھیں زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکے۔
مہنگائی پہ قابو پانے کے سلسلے میں امریکی حکومت اپنی کوششوں میں کامیاب رہی۔جون 22ء میں امریکا میں مہنگائی کی شرح 9.1 فیصد ہو گئی تھی۔یہ گذشتہ چالیس برس میں بلند ترین سطح تھی۔تاہم امریکی حکومت کے مہنگائی شکن بہترین اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ شرح نومبر 22ء میں کم ہو کر 7.7فیصد پر آ گئی۔اس کمی سے امریکا میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا۔
لالچ وہوس بری بلا
پاکستان میں بھی وفاقی حکومت کے حکم پر سٹیٹ بینک نے شرح سود بڑھا دی تاکہ عوام کو مالیاتی اداروں سے زیادہ منافع مل سکے(گو کاروباریوں کے لیے قرض لینا مہنگا ہو گیا) ۔ صوبائی حکومتوں نے سستا آٹا دینے کے منصوبے شروع کیے۔نیز حکومت پنجاب نے ضرورت مندوں میں نقد رقوم کی تقسیم کا آغاز کیا۔مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پہ بدانتظامی ہونے سے عوامی فلاح وبہبود کے تمام سرکاری منصوبے تنازعات کا شکار رہتے ہیں۔
مثلاً عوام شکایت کرتے ہیں کہ دکان داروں نے سستا آٹا خرید کر ذخیرہ کر لیا۔اسی طرح ماضی میں اچھے خاصے سرکاری افسر اور سیاست داں ''غربا ''کی فہرست میں اپنے نام شامل کرا کر سرکاری رقم بٹور چکے۔بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ لالچ وہوس اچھے خاصے انسان کو حیوان سے بھی بدتر بنا دیتا ہے۔
2018ء میں پاکستان میں مہنگائی کی سالانہ شرح 5.8 فیصد تھی جب پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی۔نئی حکومت نے نئے ٹیکس لگائے اور مروج ٹیکسوں کی شرح بھی بڑھا دی۔چناں چہ ملک میں مہنگائی بڑھنے لگی۔2021ء میں وہ 9.5 فیصد تک پہنچ گئی۔
جب روس یوکرین جنگ چھڑی تو مہنگائی آسمان پہ جا پہنچی۔آج وطن عزیز میں سرکاری طور پہ شرح مہنگائی 30 فیصد تک پہنچ چکی۔ملکی و غیر ملکی معاشیات دانوں کے مطابق مگر حقیقی شرح کافی زیادہ ہے۔مثلاً امریکی یونیورسٹی ، جان ہوپکنز سے وابستہ مشہور ماہر معاشیات، پروفیسر سٹیو ہین کے (Steve H. Hanke)وقتاً فوقتاً ان ممالک کی فہرست اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے جاری کرتے ہیں۔
جہاں ماہانہ شرح مہنگائی بہت زیادہ ہو۔ان کی تازہ ترین فہرست کی رو سے ماہ اکتوبر 22ء میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 44 فیصد تھی۔یہ دنیا میں انیسویں (19)بلند شرح رہی۔
پانامہ کی سوشلسٹ حکومت
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہ سطور قلمبند کرتے وقت افریقی ملک زمبابوے میں شرح مہنگائی عالمی سطح پہ سب سے زیادہ ہے یعنی 280فیصد۔جبکہ پروفیسر ہینکے کی تحقیق کی رو سے زمبابوے میں حقیقی شرح'' 377''فیصد ہے۔
سرکاری طور پہ دنیا میں سب سے کم شرح مہنگائی جنوبی امریکن ملک، پانامہ میں ہے یعنی 1.76فیصد۔مگر وہاں بھی حقیقی شرح چار فیصد ہو سکتی ہے۔پانامہ میں جولائی 22ء میں عوام بڑھتی مہنگائی کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئے تھے۔
انھوں نے پھر حکومت کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے کیے۔پُرزور عوامی مظاہروں کے بعد حکومت نے ایندھن کی قیمت 24 فیصد کم کر دی جس سے مہنگائی میں بھی کمی واقع ہوئی۔اس کے علاوہ روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں بھی منجمند کر دی گئیں۔
نیزکم از کم تنخواہ میں بھی اضافہ کر دیا گیا تاکہ غریب مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں۔یوں پانامہ کی سوشلسٹ حکومت نے عوام دوست اقدامات سے مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب رہی۔پانامہ کی آبادی کم ہے،چوالیس لاکھ کے قریب۔گویا ہمارے راولپنڈی اسلام آباد کی آبادی سے کچھ زیادہ۔آبادی کم ہونے سے بھی پانامہ کے حکمران طبقے کو عمدہ نظام حکومت وضع کرنے اور مہنگائی پہ قابو پانے میں مدد ملی۔مملکت کی شرح پیدائش بھی خاصی کم ہے۔ہر سال آبادی میں چالیس پینتالیس ہزار نفوس کا اضافہ ہوتا ہے۔جبکہ پاکستان میں ہر برس تقریباً چالیس لاکھ انسان آبادی میں شامل ہو جاتے ہیں جس سے مقامی وسائل پہ خاصا دباؤ پڑ چکا۔
زمبابوے کا بُرا حال
دنیا میں سب سے زیادہ مہنگائی زمبابوے میں ہے جہاں کی کرکٹ ٹیم نے پچھلے دنوں پاکستانی ٹیم کو شکست دے کر اسے ورلڈ کپ سے تقریباً باہر کر دیا تھا۔وہاں بھی ذاتی مفادات کے اسیر حکمران طبقے نے اپنی بدانتظامی اور نالائقی کی وجہ سے زبردست معاشی بحران پیدا کر رکھا ہے۔
ایک دو فیصد لوگ قومی وسائل پہ قبضہ جما کر دولت مند ہو چکے۔جبکہ بقیہ فیصد عوام میں سے بیشتر ہر ماہ محض اتنی کمائی کر پاتے ہیں کہ ضروریات زندگی پوری ہو جائیں۔زمبابوے کی آبادی ڈیرھ کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔
اس افریقی ملک کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہاں قدرتی وسائل کم ہیں۔چناں چہ برآمدات بھی کم ہوتی ہیں۔اکثر لوگ کھیتی باڑی کر کے اپنی غذا خود اگاتے ہیں۔اُدھر پاکستان کی طرح زمبابوین حکمران طبقے نے بھی قرضے لے کر شاہانہ طرز زندگی اختیار کر لیا۔جب سود دینے اور قرضے اتارنے کا وقت آیا تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
اس نے پھر عوام پہ ٹیکسوں کی بھرمار کر دی تاکہ رقم پا کر سود وقرضوں کی ادائیگی کر سکے۔زیادہ ٹیکس لگنے سے ملک میں ہر شے بہت مہنگی ہو گئی ۔اب صرف امرا ہی وافر مقدار میں غذائیں اور ایندھن خرید سکتے ہیں۔مثلاً زمبابوے میں ایک لیٹر دودھ ہماری کرنسی میں 379 روپے میں ملتا ہے۔ایک کلو آٹے کی قیمت ساڑھے پانچ سو روپے ہو چکی۔
درجن انڈے 441 روپے میں ملتے ہیں۔ایک کلو سیب 660 روپے میں دستیاب ہے۔انسان گائے کا ایک کلو گوشت 1200 روپے میں ہی خرید پاتا ہے۔عام سبزی، آلو 350 روپے اور ٹماٹر 341 روپے میں ملتی ہے۔
ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 320 روپے تک پہنچ چکی۔شہروں میں ایک کمرے کا فلیٹ ساٹھ ہزار روپے کرائے پر ملتا ہے۔ایک طرف ضروری اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں تو دوسری سمت ساٹھ یا ستر فیصد زمبابوین لوگوں کی ماہانہ آمدن بیس ہزار روپے یا اس سے کم ہے۔
اس آمدن کا کثیر حصہ خوراک و ایندھن خریدنے پر لگ جاتا ہے۔مملکت میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں صرف بڑھتی ہیں...ان میں کمی شاذ ونادر ہی آتی ہے۔اس باعث عام آدمی کے لیے زمبابوے ارضی جہنم کا روپ دھار چکا۔
چین اور بھارت میں کیا ہوا؟
کرہ ارض پر جی ڈی پی (پی پی پی) کے حساب سے چین سب سے بڑی معاشی قوت ہے۔وہاں سرکاری طور پہ مہنگائی 2.8فیصد ہے۔غیر سرکاری لحاظ سے مہنگائی کچھ زیادہ ہو گی۔چین کی حکومت ڈالر کے سب سے بڑے ذخائر رکھتی ہے۔
اس نے اسی ذخیرے سے بڑھتی مہنگائی کا مقابلہ کیا کہ مارکیٹ میں ڈالر وافر مقدار میں پھینک دئیے۔اس طرح چینی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قدر زیادہ نہیں بڑھنے پائی۔یوں چین سستے داموں بیرون ممالک سے ضرورت کی اشیا منگواتا رہا۔ منڈیوں میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں زیادہ نہیں بڑھ پائیں۔بھارت کے پاس بھی ڈالر کا کثیر ذخیرہ جمع تھا۔مہنگائی کی لہر شروع ہوئی تو بھارتی حکمران طبقے نے بھی چین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وافر ڈالر مارکیٹ میں ڈال دئیے۔یوں بھارتی روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رہی۔
بھارت میں بھی خوراک و ایندھن کی قیمتیں آپے سے باہر نہیں ہوئیں۔یہ واضح رہے کہ چین اور بھارت، دونوں روس سے سستے داموں ایندھن خریدتے رہے۔اس روش کی وجہ سے بھی دونوں ملکوں میں مہنگائی بڑھ نہ پائی۔مزید براں یہ پڑوسی خوراک وافر مقدار میں پیدا کرتے ہیں۔
اس لیے غذائیں وہاں زیادہ مہنگی نہیں ہوئیں۔بھارت میں مہنگائی کی شرح سرکاری طور پہ 7.41 فیصد ہے۔غیر سرکاری شرح آٹھ فیصد یا زیادہ بھی ہو سکتی ہے کہ مودی حکومت منفی اعدادوشمار پوشیدہ رکھنے میں مشہور ہے۔
شرح مہنگائی ممالک میں
پروفیسر سٹیو ہینکے کے مطابق زمبابوے کے بعد ان ملکوں میں مہنگائی کی شرح زیادہ ہے:کیوبا(166 فیصد)، گھانا(158 فیصد)، وینزویلا(135 فیصد)، سری لنکا 115 فیصد)، ترکی (102 فیصد)، لبنان (88 فیصد)، لاؤس(79 فیصد)، سیر الیون(76 فیصد)، یوکرین (68 فیصد)، مصر(67 فیصد)، برما(66 فیصد)، جنوبی سوڈان (60 فیصد)، نائیجیریا(60 فیصد)، شام (60 فیصد)،ارجنٹائن (54 فیصد)، ملاوی (47 فیصد)، سوڈان (43 فیصد) پاکستان (41 فیصد)، کولمبیا (39فیصد)، ایران (33 فیصد) اور الجزائر (25 فیصد)درج بالا فہرست میں بعض ممالک عالمی یا مقامی سطح پر معاشی پابندیوں کا نشانہ بنے ہیں جیسے کیوبا، وینزویلا اور ایران۔اس باعث وہاں مہنگائی زیادہ ہے۔
کچھ ملک خانہ جنگی یا جنگ کا شکار ہیں ،مثلاً یوکرین، برما، شام، جنوبی سوڈان، لبنان وغیرہ۔اس کی وجہ سے ان کی معیشت بگڑ چکی۔تاہم بیشتر ممالک میں حکمران طبقے کی بدانتظامی اور کرپشن کے باعث مہنگائی نے جنم لیا۔وہاں حکومت کے اخراجات زیادہ ہیں اور آمدن کم، لہذا حکمران زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگا کر اپنی کمائی بڑھاتے ہیں۔
نیز قرضے بھی لیے جاتے ہیں۔مگر یہ انداز ِحکمرانی مملکت میں مہنگائی پیدا کر کے سب سے زیادہ عام آدمی کو نقصان پہنچاتا اور اس کی زندگی کو عذاب بنا دیتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی ملک قدرتی وسائل سے مالامال ہے مگر وہاں کرپٹ حکمران طبقہ عوام پہ مسلط ہو جائے تو وہ کبھی ترقی یافتہ اور خوشحال ریاست نہیں بن سکتا۔
کرپٹ حکمران طبقے کا عذاب
مثال کے طور پر افریقی مملکت گھانا کو لیجیے جو فی الوقت شرح مہنگائی میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔اس دیس میں سوا تین کروڑ انسان آباد ہیں۔یہ براعظم افریقہ میں سونے کی پیداوار میں سرفہرست ہے۔اور کوکا جیسی قیمتی غذا کی پیداوار میں آئیوری کوسٹ کے بعد دوسرا بڑا ملک جس سے کافی و چاکلیٹ بنتی ہے۔تیل، ہیرے، مینگنیز اور باکسائیٹ بھی ریاست کے اہم قدرتی وسائل ہیں۔
مگر گھانا کو بدقستمی سے کرپٹ و نااہل حکمران طبقہ چمٹ گیا۔یہ طبقہ رشوت خوری کے ذریعے قدرتی وسائل کی فروخت سے ہونے والی سرکاری آمدن کا بیشتر حصہ چٹ کر جاتا ہے۔لہذا بیش قیمت قدر تی وسائل ہونے کے باوجود گھانا میں عوام غربت، جہالت، بیماری، مہنگائی اور بیروزگاری جیسے عفریتوں کا نشانہ بنے اجیرن زندگی گذار رہے ہیں۔بس ایک فیصد طبقے کو آسائشیں اور عیش و آرام میسر ہے۔
گھانا کا حکمران طبقہ تو اتنا زیادہ کرپٹ ہے کہ سرکاری آمدن ہڑپ کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی وغیرملکی مالیاتی اداروں سے قرض بھی لیتا ہے ۔یہ قرضے بھی اس کا شاہانہ طرز ِزندگی برقرار رکھتے ہیں۔ قرضوں کا سود عوام کے خون پسینے کی کمائی پہ بھاری ٹیکس لگا کر ادا کیا جاتا ہے۔
غرض گھانا میں حکمران طبقے نے عام آدمی کو قربانی کا بکرا بنا لیا ۔وہ اس کا لہو نچوڑنے میں مصروف ہے۔حکمران تو عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔جبکہ عوام ان کی خدمت کرنے پر مجبور۔کوئی خونی انقلاب ہی عوام کو خون چوسنے والے حکمران طبقے سے نجات دلائے گا۔
خوشحال ملک بھی زوال پذیر
عمدہ نظام حکومت اور قابل لیڈرشپ نہ ہونے سے اچھے خاصے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک بھی بتدریج زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔اس عجوبے کی ایک مثال جنوبی امریکن ملک ارجنٹائن ہے۔ ساڑھے چار کروڑسے زائد آبادی رکھنے والا یہ دیس بیسویں صدی کے اوائل میں دنیا کے دس امیرترین اور ترقی یافتہ ممالک میں شامل تھا۔
وجہ یہی کہ قدرت الہی نے اسے قدرتی وسائل کی دولت وافر عطا فرمائی ۔چناں چہ تب کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرح ارجنٹائن میں بھی عوام خوشحال اور مطمئن زندگی گذار رہے تھے۔پھر جرنیلوں، سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کے درمیان کبھی اقتدار اور کبھی انا کی جنگ ہونے لگی۔گویا ارکان حکومت کے درمیان اتحاد نہیں رہا اور ملک ان کی سازشوں اور لڑائیوں کی آماج گاہ بن گیا۔یوں ہر شعبہ حیات میں تنزلی آنے لگی اور آخرکار نظام حکومت بھی بدانتظامی و ابتری کا شکار ہو گیا۔یہ معاملہ جنم لینے پر سب سے زیادہ متاثر معیشت ہوئی اور معاشی بحران عام آدمی کو ہی بدترین زک پہنچاتا ہے۔
پچھلے پچاس برس سے ارجنٹائنی حکمران طبقہ ریاست میں نظام حکومت درست نہیں کر پایا بلکہ کرپشن نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حکومت کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اور سرکاری آمدن کم۔لہذا اس نے عوام پہ ٹیکسوں کی بھرمار کی تو اس روش نے مملکت میں مہنگائی بڑھا دی۔حکومت زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپ کر اور ملکی وغیرملکی مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر اخراجات پورے کرتی ہے۔
اس لیے حکومت پہ بھاری قرض چڑھ چکا۔جبکہ بے انتہا نوٹ چھاپنے سے ملک میں افراط زر نے جنم لیا جو مہنگائی میں اضافہ کرتا ہے۔ان عوامل کی بنا پر ارجنٹائن میں مہنگائی کی حقیقی شرح تقریباً 100 فیصد ہو چکی۔
بیشتر ارجنٹائنی اب دو ملازمتیں کر رہے ہیں تاکہ گھریلو اخراجات پورے کر سکیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایک ملازمت کی تنخواہ تو فوراً ختم ہو جاتی ہے۔ارجنٹائنی حکومت نے بہرحال مہنگائی پہ قابو پانے کے لیے اقدامات کیے۔مثلاً روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں منجمند کر دیں۔
بجلی وپٹرول کی قیمتیں گھٹا دیں۔کم سے کم تنخواہ میں اضافہ کر دیا۔حتی کہ گائے کے گوشت کی برآمد پر پابندی لگا دی تاکہ ملک میں وہ سستا ہو سکے۔مگر مہنگائی بہت زیادہ ہونے سے اس نے بدستور نچلے و متوسط طبقوں کے عوام کو تنگ کر رکھا ہے۔وہ بہ مشکل ضروریات زندگی پوری کررہے ہیں۔کسی آسائش کی آرزو کرنا تو جیسے خواب بن چکا۔
پاکستان اور کئی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح ارجنٹائن کا بھی بڑا مسئلہ عمدہ نظام حکومت اور اہل قیادت کی عدم موجودگی ہے۔موجودہ حکمران طبقے کو تو عوام پہ لگے ٹیکسوں سے حاصل کردہ رقوم پر عیش کرنے کی لت پڑ چکی۔
اسے عوام کے مسائل حل کرنے کی کم ہی پروا ہے۔وہ بار بار آئی ایم ایف کے در پہ بھکاری بن کر پہنچ جاتا ہے تاکہ نیا قرض لے سکے۔مدعا یہی کہ مذید ڈالر پا کر اپنا آسائشوں بھرا طرز زندگی برقرار رکھے۔اسی انداز ِحکمرانی کی وجہ سے قیمتی قدرتی وسائل ہوتے ہوئے بھی ارجنٹائن ترقی یافتہ وخوشحال ملک نہیں بن پایا۔اس جنوبی امریکن مملکت میں بھی عمدہ نظام حکومت اس لیے تشکیل نہ پا سکا کہ سیاست داں عموماً آپس میں دست وگریبان رہتے ہیں۔
مثلاً موجودہ صدر اور نائب صدر دو طاقتور ترین عہدے ہیں مگر ان کے درمیان ہم آہنگی موجود نہیں۔لہذا حکومت عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دے پاتی۔یوں اقتدار یا ان کی سیاسی جنگ سے عوام ہی کو نقصان ہوتا ہے۔حکمران طبقے کا کچھ نہیں بگڑتا کہ مہنگائی، بیروزگاری، غربت وغیرہ کے عفریت اسے کچھ نہیں کہہ پاتے۔
ترک صدر کا انوکھا اقدام
دنیائے اسلام کی بڑی معاشی وعسکری قوت، ترکی میں بھی مہنگائی کی لہر جاری ہے۔وہاں سرکاری شرح 65فیصد ہے۔مگر پروفیسر ہینکے اسے 102 فیصد بتاتے ہیں۔ماہرین معاشیات ترکی میں مہنگائی کا سبب صدر طیب اردغان کی پالیسیوں کو قرار دیتے ہیں۔
دراصل صدر طیب کا خیال ہے، شرح سود بڑھنے سے مہنگائی بڑھتی ہے۔اسی لیے مہنگائی کی حالیہ لہر چلی تو انھوں نے شرح سود کم کر دی۔یہ دنیا بھر کی حکومتوں سے بالکل معکوس فعل تھا۔شرح سود کم کرنے سے ترکی کو منفی اور مثبت، دونوں قسم کے نتائج ملے۔منفی نتیجہ یہ تھا کہ ڈالر کے مقابلے میں ترک کرنسی، لیرے کی قدر 45 فیصد سے زیادہ گر گئی جو بہت زیادہ کمی تھی۔مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ شرح سود کم ہونے سے ترکی میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔
سرمایہ کار سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنے لگے۔ ترک سٹاک ایکسچینج میں حصص کی مالیت اس سال 150 فیصد بڑھ گئی۔یوں ترکی کی سٹاک مارکیٹ دنیا میں سب سے زیادہ منافع بخش اور بہترین قرار پائی۔
تاہم نچلے اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں ترک بڑھتی مہنگائی سے پریشان رہے۔انھوں نے گوشت کھانا چھوڑ دیا۔بہت سی اشیا سستے اسٹوروں سے لینے لگے جو حکومت نے کھول رکھے ہیں۔وہاں روزمرہ اشیا سستے داموں ملتی ہیں۔
غرض غریب ممالک ہوں یا امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے امیر ملک ، ہر جگہ نچلے و متوسط طبقوں کے باشندے ،مہنگائی سے شدید تنگ ہیں۔سبھی ملکوں کی حکومتوں کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ کیا وہ آنے والے وقت میں مہنگائی کا جن قابو میں کر سکیں گی تاکہ عام آدمی سکھ چین کی زندگی گذار سکے اور اس کے مسائل میں کمی آئے۔