ملک کا آخری غریب کون ہوگا
شکاگو کے ایک عجائب گھر میں ایک کچی آبادی کا ماڈل رکھا گیا
برازیل کے ڈاکٹر اورنامور ادیب Moucyr Scliarجن کی تخلیقات میں بیس ناول، گیارہ افسانوی مجموعے، بچوں کے لیے پچیس کتب، تاریخی واقعات کے کرانیکلز کے چھ مجموعے اور مضامین کے چار مجموعے شامل ہیں۔
ان کی تحریروں پر ٹی وی، تھیڑ، ریڈیو اور ڈراموں کے ساتھ ساتھ فلمیں بھی بن چکی ہیں کا افسانہ 'آخری غریب ' بہت یاد آتا ہے۔ 1990 میں دنیا میں امن ، صحت اور خوشحالی کی کو ششیں رنگ لے آئیں۔ دنیا میں امن ہوگیا، ہر شہری اپنی کارکا مالک ہے دنیا سے حشرات معدوم ہوچکے تھے ۔
بڑھتی آبادی پر قابو پالیا گیا تھا بیماریاں ختم ہوچکی تھیں بیکٹیریا اور وائرس پر قابوپالیا گیا تھا ۔ پوری دنیا میں صرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ۔ سوبرس کی خوشحال زندگی گزارنے کے بعد بنی نوع انسان کو خاص سرد خانوں میں سلا دیا گیا، انھیں دس سال بعد وہاں سے نکال کر ایک گھنٹے کے لیے جگایا جاتا ہے۔ غربت بالکل ختم ہوچکی تھی ۔
شکاگو کے ایک عجائب گھر میں ایک کچی آبادی کا ماڈل رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے وہاں بے حد رش رہتا ہے، ہزاروں لوگ اسے بے یقینی سے دیکھتے تھے اور کہتے کہ انسان یہاں کیسے رہ سکتے ہیں ۔
ریوڈی جنیرومیں ایک ایسی آبادی کا ماڈل محفوظ ہے جس میں حبشی عورتوں کو پہاڑی پر سے پانی لاتے دکھایا گیا ہے ،اس ماڈل کے گھر بھی بھیڑ لگی رہتی تھی، اکثر سائنسی پیش گوئیاں حقیقت کا روپ دھار چکی تھی ۔
ریو میں ماہر بشریات پروفیسر آگستو نے ایک سنسنی خیز دریافت کا اعلان کیا ہے ۔ انھیں آمیزن جنگل کے ایک دور دراز گوشے میں انسانوں کی ایک نئی نسل مل چکی ہے ۔پروفیسر آگستو نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اس کے خیال میں یہ نسل پچاس برس پہلے معدوم ہوچکی ہے ،تاہم اب وہ بوڑھے پریرا کو لندن لے جائے گا ،تاکہ وہاں اس کا تفصیلی مشاہدہ کیاجاسکے ۔
برازیلی حکومت نے اس پر سخت احتجاج کیا ۔ صدرالبئر تو نے اعلان کیا کہ ہم پر پرا کامشاہدہ اپنے وسائل سے کریں گے۔
عوام نے ان کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ پریرا کے حق میںایک بڑا عوامی جلسہ منعقد ہوا جس میں ہر طرف ایک ہی نعرہ تھا ''آئیں مل کر اپنے غریب کو بچائیں'' سینٹ نے پروفیسر آگستو کے خلاف قرار داد منظور کر لی اور پرایر کو قومی فقیر /غریب کادرجہ دیا گیا ۔
قومی فقیر /غریب کے لیے بجٹ مختص کر دیاگیا ،شنگودریا کے کنارے ایک وسیع علاقے کو قومی پارک کا درجہ دے دیا گیا جس کانام ''پریرا قومی پارک '' رکھا گیا۔ اس کی حفاظت اور اس پر تحقیق کے لیے ایک خاص ادارہ تشکیل دیا گیا ۔
ایک صاحب نے ایک کتاب تصنیف کی ''غربت کی کتھا ''برازیل کی جامعہ میں ایک فقیر / غریب پر تحقیق کے لیے ایک نشست مخصوص کردی گئی ۔ چند خواتین نے کونسل برائے پریرا کی داغ بیل ڈالی ۔ انھوں نے رضاکارانہ طورپر پریرا کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا وہ اسے کھانا کھلاتیں ، اس کے زخم پر مرہم لگاتیں اسے وقت پر دوائیں اور اسے سوتے وقت لوریاںسناتیں۔ اتنی خدمت کے بعد، آرام دہ بستر پر درازپریرا یہ ہی سوچتا رہتا کہ زندگی تو یہ ہے۔
وہ پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ۔ اس کی رنگت نکھر چکی تھی اور اسکی سیاہ آنکھوں میں چمک نمودار ہورہی تھی ۔ اچانک پروفیسر آگستو نے اعلان کر دیا کہ اس نے پریرا کی جائے پناہ پر بھرپورتحقیق کی اور اسے وہاں سے انتہائی قیمتی سکے،ڈالر ، روبل،یوآن، پاؤنڈز، دینار اوردنیاکے کئی ملکوں کی کرنسی نوٹ ملے ہیں۔
اس کی اس دریافت نے تہلکہ مچا دیا ۔ آگستو نے برملا کہہ دیا کہ پریرا کو قومی فقیر/غریب کا خطاب نہیں دیا جاسکتا عوام میں اشتعال پھیل گیا ،پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہونے لگے، صدر نے استعفیٰ دے دیا، پریرا کی حفاظت اور تحقیق کے ادارے بند کر دیے۔ خواتین کونسل بھی ختم کر دی گئی اور انھوں نے پریرا کو پھانسی کی سزا دینے کامطالبہ کردیا۔
پریرا کے خلاف تمام ثبوت اور حقائق جمع کرکے دارالحکومت میں مشینی دماغ کو بھیج دیے گئے ۔ مقدمہ بڑامختصر ثابت ہوا اور مشینی دماغ نے اسے موت کی سزا سنادی ۔ مشینی دماغ نے موت کا طریقہ بھی وضح کر دیا۔ پریرا کو پلاٹینم کی صلیب پر باندھ دیا گیا ۔ سدھائے ہوئے عقابوں نے اس کی آنکھیں نوچ لیںاور سپاہیوں کے ایک دستے نے اسے گولیوں سے چھلنی کردیا۔
ابھی یہ تقریب جاری تھی کہ عدالت عظمیٰ کے سب سے بڑے منصف کو آگستو کا پیغام ملاکہ سکے اور نوٹ سب جعلی ہیںپریرا واقعی ایک غریب ہے ۔ عوام پھر شدید جذباتی ہوگئے ۔ سب نے کھل کر حکومت اور آگستو کو گالیاں دیں ۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج طلب کر لی گئی ۔ پورے ملک میں بلوے ہونے لگے ۔
پریرا کو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ آگستو کو ملک بدر کردیاگیا مقدمہ دوبارہ مشینی دماغ کو بھیجا گیا اس نے یہ حکم دیا کہ ہر سال ایک دن پریرا کی یاد میں منایا جائے ۔ اس نے یہ تاریخ بھی مقرر کردی ۔
بتیس جنوری یہ تاریخ پچھلی صدی میں کلینڈر کا حصہ نہیںتھی مگر اس صد ی میں اسے پریرا کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی تلافی کے عیوض شامل کر لیا گیا ہے ۔ پریرا آخری غریب ...'' نجانے ہم میں سے ہمارے ملک کا کون آخری غریب ہوگا اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے ،وہ شخص کتنا خوش نصیب ہوگا جسے عجائب گھر میں رکھاجائے گا جسے دیکھنے کے لیے باقاعدہ ٹکٹ لگا یا جائے گا ۔
امیر مرد ، عورتیں اور بچے اس کے جسم پر ہاتھ لگا کر خوشی کے مارے چیخیں اور چلائیں گے پورے ملک کے امیر اور رئیس اس کو دیکھنے کے لیے لائنیں لگا ئے ہوں گے ، کیونکہ اس وقت جو ملک کے حالات ہیں اور جس طرح سے ملک سے غریبوں کا خاتمہ ہورہا ہے یا کیا جارہاہے اس لیے کچھ ہی عرصے بعد ملک میں صرف اور صرف خوشحال اور امیر لوگ ہی رہ جائیں گے اور غریب ڈھونڈنے کے بعد بھی ناپیدہوںگے۔
وہ آخری غریب انتہائی خوش نصیب انسان ثابت ہوگا جن جن چیزوں کے لیے وہ ساری عمر ترستا اور تڑپتا رہا امیر اور رئیس اس کو بغیر مانگے بغیر طلب کیے، اس کے پاس انبار لگا دیں گے اس لیے کہ وہ ملک کا آخری غریب ہوگا۔
اس کی زندگی بھرکی اذیتیں ، تکلیفیں ، دکھ و درد یک دم خوشیوں تبدیل ہوجائیںگی ، اسے پیٹ بھر کے روٹی ملا کرے گی ۔ پہننے کے لیے نئے کپڑے اور نئے جوتے ملا کریں گے ۔ زندگی بھر اٹھانے والے کوئی بھی غم اس کے پاس پھٹکیں گے بھی نہیں ۔
نوجوانی میں جان لینن سے اسکول میں ان کے استاد نے پوچھا ''آپ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں ؟'' لینن نے جواب دیا ''خوش رہنا چاہتا ہوں'' استاد بولا ''آپ شاید سوال نہیں سمجھے۔'' لینن نے کہا ''اور آ پ شاید زندگی کو نہیں سمجھے ۔''
ملک سے ختم کیے گئے غریبوں کی جب آپس میں ملاقات جنت میں ہوگی تو وہ ضرور مل کر خدا کو اپنے ایک ایک دکھ ایک ایک غم ایک ایک تکلیف جو انھوں نے دنیا میں اٹھائی رو رو کر بتائیں گے۔ وہ دن رات کی اذیتیں ، ذلتیں بتاتے ہوئے ضرور سوال کریں گے کہ آخر ہم سے کونسا ایسا گناہ یا جرم سرزد ہوگیا کہ ساری تکلیفیں ،ساری بھوکیں ، سارے غم ، ساری مصیبتیں ہمارے ہی نصیب میںلکھ دی گئی تھیں ۔ آخر کیوں ہم نے تڑپ تڑپ کر سسک سسک کر اپنی زند گیاں گذاریں ۔ ہمارا مقدر کیوں ایسا بنایاگیا۔ بھوک سے مرنیوالے بچوں کا کیا قصور تھا۔ امیرو کبیر کیوں ہمیںذلت بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے ۔ کیوں ہماری عزتیں روز پامال کی جاتی تھیں ۔ کیوں ہمیں ایک ایک روٹی کے لیے تڑپایا جایاکرتا تھا ۔ کیوں ہم بڑے بڑے ہوٹلوں کے باہر بھوک سے تلملاتے بیٹھے امیروں کو ہرقسم کے کھانے کھاتے دیکھا کرتے تھے ۔ آخر کیوںساری بیماریاں ہماری ہی نصیب میں لکھ دی گئی تھیں ۔ جن گھروں اوربستیوں میں ہم رہا کرتے تھے ان میں تو جانور تک نہیں رہ سکتے ۔ کیوں امیرو کبیر کی زندگیوں میں ساری خوشیاں لکھ دی گئی ہیں ۔ کیوں انھیں ہم سے افضل بنایاگیا ۔ کیوں انھیں ہمیں ذلیل و خوار کرنے کاحق دیا گیا ۔ کیوں آخر کیوں ؟
ان کی تحریروں پر ٹی وی، تھیڑ، ریڈیو اور ڈراموں کے ساتھ ساتھ فلمیں بھی بن چکی ہیں کا افسانہ 'آخری غریب ' بہت یاد آتا ہے۔ 1990 میں دنیا میں امن ، صحت اور خوشحالی کی کو ششیں رنگ لے آئیں۔ دنیا میں امن ہوگیا، ہر شہری اپنی کارکا مالک ہے دنیا سے حشرات معدوم ہوچکے تھے ۔
بڑھتی آبادی پر قابو پالیا گیا تھا بیماریاں ختم ہوچکی تھیں بیکٹیریا اور وائرس پر قابوپالیا گیا تھا ۔ پوری دنیا میں صرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ۔ سوبرس کی خوشحال زندگی گزارنے کے بعد بنی نوع انسان کو خاص سرد خانوں میں سلا دیا گیا، انھیں دس سال بعد وہاں سے نکال کر ایک گھنٹے کے لیے جگایا جاتا ہے۔ غربت بالکل ختم ہوچکی تھی ۔
شکاگو کے ایک عجائب گھر میں ایک کچی آبادی کا ماڈل رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے وہاں بے حد رش رہتا ہے، ہزاروں لوگ اسے بے یقینی سے دیکھتے تھے اور کہتے کہ انسان یہاں کیسے رہ سکتے ہیں ۔
ریوڈی جنیرومیں ایک ایسی آبادی کا ماڈل محفوظ ہے جس میں حبشی عورتوں کو پہاڑی پر سے پانی لاتے دکھایا گیا ہے ،اس ماڈل کے گھر بھی بھیڑ لگی رہتی تھی، اکثر سائنسی پیش گوئیاں حقیقت کا روپ دھار چکی تھی ۔
ریو میں ماہر بشریات پروفیسر آگستو نے ایک سنسنی خیز دریافت کا اعلان کیا ہے ۔ انھیں آمیزن جنگل کے ایک دور دراز گوشے میں انسانوں کی ایک نئی نسل مل چکی ہے ۔پروفیسر آگستو نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اس کے خیال میں یہ نسل پچاس برس پہلے معدوم ہوچکی ہے ،تاہم اب وہ بوڑھے پریرا کو لندن لے جائے گا ،تاکہ وہاں اس کا تفصیلی مشاہدہ کیاجاسکے ۔
برازیلی حکومت نے اس پر سخت احتجاج کیا ۔ صدرالبئر تو نے اعلان کیا کہ ہم پر پرا کامشاہدہ اپنے وسائل سے کریں گے۔
عوام نے ان کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ پریرا کے حق میںایک بڑا عوامی جلسہ منعقد ہوا جس میں ہر طرف ایک ہی نعرہ تھا ''آئیں مل کر اپنے غریب کو بچائیں'' سینٹ نے پروفیسر آگستو کے خلاف قرار داد منظور کر لی اور پرایر کو قومی فقیر /غریب کادرجہ دیا گیا ۔
قومی فقیر /غریب کے لیے بجٹ مختص کر دیاگیا ،شنگودریا کے کنارے ایک وسیع علاقے کو قومی پارک کا درجہ دے دیا گیا جس کانام ''پریرا قومی پارک '' رکھا گیا۔ اس کی حفاظت اور اس پر تحقیق کے لیے ایک خاص ادارہ تشکیل دیا گیا ۔
ایک صاحب نے ایک کتاب تصنیف کی ''غربت کی کتھا ''برازیل کی جامعہ میں ایک فقیر / غریب پر تحقیق کے لیے ایک نشست مخصوص کردی گئی ۔ چند خواتین نے کونسل برائے پریرا کی داغ بیل ڈالی ۔ انھوں نے رضاکارانہ طورپر پریرا کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا وہ اسے کھانا کھلاتیں ، اس کے زخم پر مرہم لگاتیں اسے وقت پر دوائیں اور اسے سوتے وقت لوریاںسناتیں۔ اتنی خدمت کے بعد، آرام دہ بستر پر درازپریرا یہ ہی سوچتا رہتا کہ زندگی تو یہ ہے۔
وہ پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ۔ اس کی رنگت نکھر چکی تھی اور اسکی سیاہ آنکھوں میں چمک نمودار ہورہی تھی ۔ اچانک پروفیسر آگستو نے اعلان کر دیا کہ اس نے پریرا کی جائے پناہ پر بھرپورتحقیق کی اور اسے وہاں سے انتہائی قیمتی سکے،ڈالر ، روبل،یوآن، پاؤنڈز، دینار اوردنیاکے کئی ملکوں کی کرنسی نوٹ ملے ہیں۔
اس کی اس دریافت نے تہلکہ مچا دیا ۔ آگستو نے برملا کہہ دیا کہ پریرا کو قومی فقیر/غریب کا خطاب نہیں دیا جاسکتا عوام میں اشتعال پھیل گیا ،پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہونے لگے، صدر نے استعفیٰ دے دیا، پریرا کی حفاظت اور تحقیق کے ادارے بند کر دیے۔ خواتین کونسل بھی ختم کر دی گئی اور انھوں نے پریرا کو پھانسی کی سزا دینے کامطالبہ کردیا۔
پریرا کے خلاف تمام ثبوت اور حقائق جمع کرکے دارالحکومت میں مشینی دماغ کو بھیج دیے گئے ۔ مقدمہ بڑامختصر ثابت ہوا اور مشینی دماغ نے اسے موت کی سزا سنادی ۔ مشینی دماغ نے موت کا طریقہ بھی وضح کر دیا۔ پریرا کو پلاٹینم کی صلیب پر باندھ دیا گیا ۔ سدھائے ہوئے عقابوں نے اس کی آنکھیں نوچ لیںاور سپاہیوں کے ایک دستے نے اسے گولیوں سے چھلنی کردیا۔
ابھی یہ تقریب جاری تھی کہ عدالت عظمیٰ کے سب سے بڑے منصف کو آگستو کا پیغام ملاکہ سکے اور نوٹ سب جعلی ہیںپریرا واقعی ایک غریب ہے ۔ عوام پھر شدید جذباتی ہوگئے ۔ سب نے کھل کر حکومت اور آگستو کو گالیاں دیں ۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج طلب کر لی گئی ۔ پورے ملک میں بلوے ہونے لگے ۔
پریرا کو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ آگستو کو ملک بدر کردیاگیا مقدمہ دوبارہ مشینی دماغ کو بھیجا گیا اس نے یہ حکم دیا کہ ہر سال ایک دن پریرا کی یاد میں منایا جائے ۔ اس نے یہ تاریخ بھی مقرر کردی ۔
بتیس جنوری یہ تاریخ پچھلی صدی میں کلینڈر کا حصہ نہیںتھی مگر اس صد ی میں اسے پریرا کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی تلافی کے عیوض شامل کر لیا گیا ہے ۔ پریرا آخری غریب ...'' نجانے ہم میں سے ہمارے ملک کا کون آخری غریب ہوگا اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے ،وہ شخص کتنا خوش نصیب ہوگا جسے عجائب گھر میں رکھاجائے گا جسے دیکھنے کے لیے باقاعدہ ٹکٹ لگا یا جائے گا ۔
امیر مرد ، عورتیں اور بچے اس کے جسم پر ہاتھ لگا کر خوشی کے مارے چیخیں اور چلائیں گے پورے ملک کے امیر اور رئیس اس کو دیکھنے کے لیے لائنیں لگا ئے ہوں گے ، کیونکہ اس وقت جو ملک کے حالات ہیں اور جس طرح سے ملک سے غریبوں کا خاتمہ ہورہا ہے یا کیا جارہاہے اس لیے کچھ ہی عرصے بعد ملک میں صرف اور صرف خوشحال اور امیر لوگ ہی رہ جائیں گے اور غریب ڈھونڈنے کے بعد بھی ناپیدہوںگے۔
وہ آخری غریب انتہائی خوش نصیب انسان ثابت ہوگا جن جن چیزوں کے لیے وہ ساری عمر ترستا اور تڑپتا رہا امیر اور رئیس اس کو بغیر مانگے بغیر طلب کیے، اس کے پاس انبار لگا دیں گے اس لیے کہ وہ ملک کا آخری غریب ہوگا۔
اس کی زندگی بھرکی اذیتیں ، تکلیفیں ، دکھ و درد یک دم خوشیوں تبدیل ہوجائیںگی ، اسے پیٹ بھر کے روٹی ملا کرے گی ۔ پہننے کے لیے نئے کپڑے اور نئے جوتے ملا کریں گے ۔ زندگی بھر اٹھانے والے کوئی بھی غم اس کے پاس پھٹکیں گے بھی نہیں ۔
نوجوانی میں جان لینن سے اسکول میں ان کے استاد نے پوچھا ''آپ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں ؟'' لینن نے جواب دیا ''خوش رہنا چاہتا ہوں'' استاد بولا ''آپ شاید سوال نہیں سمجھے۔'' لینن نے کہا ''اور آ پ شاید زندگی کو نہیں سمجھے ۔''
ملک سے ختم کیے گئے غریبوں کی جب آپس میں ملاقات جنت میں ہوگی تو وہ ضرور مل کر خدا کو اپنے ایک ایک دکھ ایک ایک غم ایک ایک تکلیف جو انھوں نے دنیا میں اٹھائی رو رو کر بتائیں گے۔ وہ دن رات کی اذیتیں ، ذلتیں بتاتے ہوئے ضرور سوال کریں گے کہ آخر ہم سے کونسا ایسا گناہ یا جرم سرزد ہوگیا کہ ساری تکلیفیں ،ساری بھوکیں ، سارے غم ، ساری مصیبتیں ہمارے ہی نصیب میںلکھ دی گئی تھیں ۔ آخر کیوں ہم نے تڑپ تڑپ کر سسک سسک کر اپنی زند گیاں گذاریں ۔ ہمارا مقدر کیوں ایسا بنایاگیا۔ بھوک سے مرنیوالے بچوں کا کیا قصور تھا۔ امیرو کبیر کیوں ہمیںذلت بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے ۔ کیوں ہماری عزتیں روز پامال کی جاتی تھیں ۔ کیوں ہمیں ایک ایک روٹی کے لیے تڑپایا جایاکرتا تھا ۔ کیوں ہم بڑے بڑے ہوٹلوں کے باہر بھوک سے تلملاتے بیٹھے امیروں کو ہرقسم کے کھانے کھاتے دیکھا کرتے تھے ۔ آخر کیوںساری بیماریاں ہماری ہی نصیب میں لکھ دی گئی تھیں ۔ جن گھروں اوربستیوں میں ہم رہا کرتے تھے ان میں تو جانور تک نہیں رہ سکتے ۔ کیوں امیرو کبیر کی زندگیوں میں ساری خوشیاں لکھ دی گئی ہیں ۔ کیوں انھیں ہم سے افضل بنایاگیا ۔ کیوں انھیں ہمیں ذلیل و خوار کرنے کاحق دیا گیا ۔ کیوں آخر کیوں ؟