ملکی داخلی سلامتی کے لیے خطرات
عوام کو محسوس ہوتا ہے کہ یا تو ان کے لیڈر طالبان کی حمایت کر رہے ہیں یا پھر وہ ان سے خوفزدہ ہیں
نیشنل کاؤنٹرٹیررازم اتھارٹی(نیکٹا) نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے امن مذاکرات کے دوران پاکستان میں اپنی تعداد اور سرگرمیوں میں بڑی حد تک توسیع دے دی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں نیکٹا کی جانب سے ٹی ٹی پی کے حوالے سے دستاویزات پیش کی گئیں۔ نیکٹا نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ برس افغانستان سے امریکی انخلا سے ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو پڑوسی ملک میں اپنے مرکزسے جوڑنے میں مدد ملی۔
علاوہ ازیں نیکٹا کے بورڈ آف گونرز کے اجلاس میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پوری قوم کے مستحکم عزم کی بنیاد پر ہی دہشت گردی کو شکست دی جاسکتی ہے۔
دوسری جانب امریکا نے کہا ہے کہ وہ خطے میں دہشت گردی خاص طور پر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا کے لیے پرعزم ہے۔
درحقیقت افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد گزرے برس سے ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہوں نے پاکستان کی داخلی سلامتی کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔
قبائلی اضلاع سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتے جا رہے ہیں اور سیاسی کارکنوں سمیت امن کمیٹیوں کے رضا کاروں، سیکیورٹی فورسز کے جوانوں اور دیگر افراد کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
سوات میں ایک اسکول وین پر ہوئے حالیہ جان لیوا حملے نے اس علاقے میں طالبان کے دوبارہ فعال ہونے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
سوات میں طالبان کی ممکنہ واپسی کے خلاف ہزاروں افراد نے مظاہرہ بھی کیا ، جس میں علاقے کی تمام سیاسی ودینی جماعتوں کے قائدین نے خطاب بھی کیا۔ ان میں سے ایک احتجاج تو چالیس گھنٹے سے بھی زائد تک جاری رہا تھا۔ یہ حملہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب ملالہ یوسف زئی نے پاکستانی سیلاب زدگان سے ہمدردی کے لیے صوبہ سندھ کا دورہ کیا تھا۔
ایک وقت تھا کہ جب پاکستان کے حسین ترین مقامات میں سے ایک سوات کی وادی طالبان کے زیر قبضہ تھی، جنھوں نے وہاں جابرانہ اقدامات کے نفاذ کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم پر بھی مکمل پابندی لگا دی تھی۔ سوات کا علاقہ جس کی سرحد پڑوسی ملک افغانستان سے بھی ملتی ہے، اب شاید بہتر طور پر نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
ایک دہائی قبل جب ملالہ پندرہ برس کی تھیں، تو طالبان نے انھیں گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔ سوات میں خواتین کے تعلیم کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والی ملالہ یوسف زئی طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف ایک توانا آواز بنیں۔
پاکستانی فوج نے وہاں سن دو ہزار نو میں ایک بڑا فوجی آپریشن بھی کیا تھا۔سوات میں پشتون قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتیں حکومت پر طالبان کے ساتھ خفیہ مذاکرات کرنے کا الزام لگا رہی ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ یہ صورت حال سوات کو دوبارہ دہشت گردی کا شکار بنا سکتی ہے۔
پاکستان میں عوام کی اکثریت حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مخالف ہے۔ ٹی ٹی پی نے سن دو ہزار چودہ میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کر کے ایک سو بتیس کم سن طلبا کو شہید کر دیا تھا۔حکومت طالبان کی سوات میں قابل ذکر تعداد میں موجودگی کے حالیہ خدشات کو مسترد کرتی ہے۔
تاہم گزشتہ برس مشتبہ عسکریت پسندوں کی طرف سے پولیس پر حملے کے بعد ان قیاس آرائیوں میں تیزی آ گئی تھی کہ سوات میں ایک اپنی ریاست قائم کرنے کی خواہش مند ٹی ٹی پی کی اس علاقے میں واپسی ہو گئی ہے۔ اس وادی میں ایک اسکول وین پر حالیہ حملے نے ماضی کی بھیانک یادیں تازہ کر دیں اور عام شہری ایک بار پھر شدید خوف کا شکار ہو گئے۔
بلاشبہ سوات کے لوگوں نے اس لیے احتجاج کیا کہ وہ اپنے بچوں، خاندانوں، کاروبار اور اپنی سلامتی کے بارے میں پریشان ہیں۔سوات کے بگڑتے ہوئے حالات دیکھ کر سن دو ہزار نو میں فوجی آپریشن کرنا پڑا۔اگرچہ یہ ایک بہت بڑا آپریشن تھا جس میں فوج کے جوانوں نے بھرپور قربانیاں دیں اور پورے علاقے میں امن و امان قائم کر دیا 'دہشت گرد یا تو ادھر ادھر چھپ گئے یا افغانستان بھاگ گئے ' اس آپریشن کے بعد سے سوات میں کاروبار پھل پھول رہا ہے۔
ساتھ ہی مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں نے بھی اس خوبصورت وادی کی سیر کے لیے آنا شروع کر دیا ہے۔ اس صورتحال سے لوگوں کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ لوگوں نے سوات میں اپنے اپنے کاروبار، مکانات، مارکیٹوں اور دیگر جگہوں کی تعمیر میں کروڑوں بلکہ ممکنہ طور پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
ان کے بقول اب یہ سب کچھ خطرے میں ہے۔ بظاہر حکومت ان عسکریت پسندوں کو پکڑنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی، جو موبائل فون پر دھمکیاں دے کر لوگوں سے بھتہ طلب کر رہے ہیں۔
مگر حکومت نے تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا ہے۔اگر یہی صورت حال قائم رہی توعلاقے میں امن و امان قائم کرنے کے لیے آپریشن ضرب عضب کی طرح ایک بار پھر بڑے پیمانے پر آپریشن کرنا پڑے گا۔
لیکن اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی آپریشن کی کامیابی کے بعد یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ دشمن ختم ہو چکا ہے بلکہ وہ کچھ عرصے بعد پھر منظم ہو کر اپنی کارروائیاں شروع کر دیتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے تربیتی اڈوں ' پناہ گاہوں کے خاتمے کے علاوہ ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی منظم کارروائی کی جائے تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے۔
ایک طبقہ یہ رائے دیتا ہے کہ پاکستانی طالبان کا افغان طالبان سے براہ راست کوئی تعلق نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایک ہی جیسے نظریات رکھتے ہیںاور ایک دوسرے کے سپورٹر ہیں۔
بظاہر افغانستان حکومت موقف دیتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، لیکن عملی طور پر وہ افغانستان کی جیلوں میں قید پاکستانی طالبان کو رہا کردیتے ہیں جب کہ پاکستانی طالبان کے ذہن میں خناس سمایا ہوا ہے کہ جس طرح افغان طالبان نے امریکا کو انخلا پر مجبور کردیا، کچھ اسی طرح وہ پاکستان کی حکومت کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکرکے اپنی عملی داری قائم کرسکتے ہیں۔
کیونکہ ماضی قریب میں خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں پر ان کا مکمل کنٹرول ہوگیا تھا ، جس کو پاکستانی فوج نے متعدد آپریشنز کرکے خالی کروایا تھا۔افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں 52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جس کا واضح مطلب ہے کہ صورتحال کافی سنگین ہے ، ہمارے حکام صرف زبانی کلامی تسلیاں دینے میں مصروف ہیں ۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ٹی ٹی پی کے چار پانچ ہزار لوگ پہلے سے افغانستان میں تھے۔
چار پانچ ہزار افغان حکومت کی جیلوں میں تھے اور جب طالبان نے جیلیں تڑوادیں تو ان سے کم و بیش اتنی ہی تعداد میں ٹی ٹی پی کے لوگ بھی رہا ہوئے جن میں مولوی فقیر محمد جیسے اہم لوگ بھی شامل تھے۔ پاکستان کے
اندر سلیپر سیلز کی صورت میں انفرادی یا گروپوں کی شکل میں ٹی ٹی پی کے جو لوگ خاموش بیٹھے تھے وہ بھی افغانستان جاکر ٹی ٹی پی سے جا ملے ۔کے پی کے،کے متعدد علاقوں میں پرامن لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے مگر ریاست نام کی کوئی چیزکسی طرف نظر نہیں آ رہی، جب کہ اس وقت تمام انتظامی امور ضلع انتظامیہ اور پولیس کے پاس ہیں۔
ابھی تک ٹی ٹی پی کے زیادہ تر حملے سابق فاٹا کے علاقوں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان تک ہی محدود تھے لیکن اگر یہ سلسلہ پاکستان بھر میں پھیلا تو بہت سے مسائل پیدا ہو جائیں گے لہٰذا ناگزیر ہے کہ حکومت ابھی سے حکمت عملی طے کرے۔
افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی نے پاکستانی عسکریت پسند گروپوں، خاص طور پر ٹی ٹی پی پر نئے اثرات مرتب کیے ہیں۔پچھلے ایک سال میں ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کی دو امن کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
پہلی جنگ بندی گزشتہ سال نومبر میں ہوئی تھی جو ایک ماہ تک جاری رہی۔ حالیہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے درمیان جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس میں لازمی ہو گیا ہے کہ حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات یا متحرک کارروائیوں کے بارے میں پاکستان کے موقف کو واضح کرے۔مذاکرات دو بار ناکام ہوچکے ہیں۔
متحرک کارروائیوں کی حکمت عملی کی بدولت ممکن ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان فرار ہو جائے اور آپریشن کے سست یا رک جانے پر دوبارہ حملے شروع کر دے ۔
عوام کو محسوس ہوتا ہے کہ یا تو ان کے لیڈر طالبان کی حمایت کر رہے ہیں یا پھر وہ ان سے خوفزدہ ہیں اور شاید اسی وجہ سے حکومت ان عسکریت پسندوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی۔ صوبائی حکومت کی عدم فعالیت نے خاص طور پر خواتین میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔
عوام کا طالبان کی واپسی کے خلاف ایک مضبوط موقف اور شدیدردعمل سامنے آیا جس پر پالیسی ساز اداروںکو غور کرنا چاہیے ۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں نیکٹا کی جانب سے ٹی ٹی پی کے حوالے سے دستاویزات پیش کی گئیں۔ نیکٹا نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ برس افغانستان سے امریکی انخلا سے ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو پڑوسی ملک میں اپنے مرکزسے جوڑنے میں مدد ملی۔
علاوہ ازیں نیکٹا کے بورڈ آف گونرز کے اجلاس میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پوری قوم کے مستحکم عزم کی بنیاد پر ہی دہشت گردی کو شکست دی جاسکتی ہے۔
دوسری جانب امریکا نے کہا ہے کہ وہ خطے میں دہشت گردی خاص طور پر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا کے لیے پرعزم ہے۔
درحقیقت افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد گزرے برس سے ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہوں نے پاکستان کی داخلی سلامتی کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔
قبائلی اضلاع سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتے جا رہے ہیں اور سیاسی کارکنوں سمیت امن کمیٹیوں کے رضا کاروں، سیکیورٹی فورسز کے جوانوں اور دیگر افراد کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
سوات میں ایک اسکول وین پر ہوئے حالیہ جان لیوا حملے نے اس علاقے میں طالبان کے دوبارہ فعال ہونے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
سوات میں طالبان کی ممکنہ واپسی کے خلاف ہزاروں افراد نے مظاہرہ بھی کیا ، جس میں علاقے کی تمام سیاسی ودینی جماعتوں کے قائدین نے خطاب بھی کیا۔ ان میں سے ایک احتجاج تو چالیس گھنٹے سے بھی زائد تک جاری رہا تھا۔ یہ حملہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب ملالہ یوسف زئی نے پاکستانی سیلاب زدگان سے ہمدردی کے لیے صوبہ سندھ کا دورہ کیا تھا۔
ایک وقت تھا کہ جب پاکستان کے حسین ترین مقامات میں سے ایک سوات کی وادی طالبان کے زیر قبضہ تھی، جنھوں نے وہاں جابرانہ اقدامات کے نفاذ کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم پر بھی مکمل پابندی لگا دی تھی۔ سوات کا علاقہ جس کی سرحد پڑوسی ملک افغانستان سے بھی ملتی ہے، اب شاید بہتر طور پر نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
ایک دہائی قبل جب ملالہ پندرہ برس کی تھیں، تو طالبان نے انھیں گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔ سوات میں خواتین کے تعلیم کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والی ملالہ یوسف زئی طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف ایک توانا آواز بنیں۔
پاکستانی فوج نے وہاں سن دو ہزار نو میں ایک بڑا فوجی آپریشن بھی کیا تھا۔سوات میں پشتون قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتیں حکومت پر طالبان کے ساتھ خفیہ مذاکرات کرنے کا الزام لگا رہی ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ یہ صورت حال سوات کو دوبارہ دہشت گردی کا شکار بنا سکتی ہے۔
پاکستان میں عوام کی اکثریت حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مخالف ہے۔ ٹی ٹی پی نے سن دو ہزار چودہ میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کر کے ایک سو بتیس کم سن طلبا کو شہید کر دیا تھا۔حکومت طالبان کی سوات میں قابل ذکر تعداد میں موجودگی کے حالیہ خدشات کو مسترد کرتی ہے۔
تاہم گزشتہ برس مشتبہ عسکریت پسندوں کی طرف سے پولیس پر حملے کے بعد ان قیاس آرائیوں میں تیزی آ گئی تھی کہ سوات میں ایک اپنی ریاست قائم کرنے کی خواہش مند ٹی ٹی پی کی اس علاقے میں واپسی ہو گئی ہے۔ اس وادی میں ایک اسکول وین پر حالیہ حملے نے ماضی کی بھیانک یادیں تازہ کر دیں اور عام شہری ایک بار پھر شدید خوف کا شکار ہو گئے۔
بلاشبہ سوات کے لوگوں نے اس لیے احتجاج کیا کہ وہ اپنے بچوں، خاندانوں، کاروبار اور اپنی سلامتی کے بارے میں پریشان ہیں۔سوات کے بگڑتے ہوئے حالات دیکھ کر سن دو ہزار نو میں فوجی آپریشن کرنا پڑا۔اگرچہ یہ ایک بہت بڑا آپریشن تھا جس میں فوج کے جوانوں نے بھرپور قربانیاں دیں اور پورے علاقے میں امن و امان قائم کر دیا 'دہشت گرد یا تو ادھر ادھر چھپ گئے یا افغانستان بھاگ گئے ' اس آپریشن کے بعد سے سوات میں کاروبار پھل پھول رہا ہے۔
ساتھ ہی مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں نے بھی اس خوبصورت وادی کی سیر کے لیے آنا شروع کر دیا ہے۔ اس صورتحال سے لوگوں کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ لوگوں نے سوات میں اپنے اپنے کاروبار، مکانات، مارکیٹوں اور دیگر جگہوں کی تعمیر میں کروڑوں بلکہ ممکنہ طور پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
ان کے بقول اب یہ سب کچھ خطرے میں ہے۔ بظاہر حکومت ان عسکریت پسندوں کو پکڑنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی، جو موبائل فون پر دھمکیاں دے کر لوگوں سے بھتہ طلب کر رہے ہیں۔
مگر حکومت نے تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا ہے۔اگر یہی صورت حال قائم رہی توعلاقے میں امن و امان قائم کرنے کے لیے آپریشن ضرب عضب کی طرح ایک بار پھر بڑے پیمانے پر آپریشن کرنا پڑے گا۔
لیکن اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی آپریشن کی کامیابی کے بعد یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ دشمن ختم ہو چکا ہے بلکہ وہ کچھ عرصے بعد پھر منظم ہو کر اپنی کارروائیاں شروع کر دیتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے تربیتی اڈوں ' پناہ گاہوں کے خاتمے کے علاوہ ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی منظم کارروائی کی جائے تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے۔
ایک طبقہ یہ رائے دیتا ہے کہ پاکستانی طالبان کا افغان طالبان سے براہ راست کوئی تعلق نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایک ہی جیسے نظریات رکھتے ہیںاور ایک دوسرے کے سپورٹر ہیں۔
بظاہر افغانستان حکومت موقف دیتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، لیکن عملی طور پر وہ افغانستان کی جیلوں میں قید پاکستانی طالبان کو رہا کردیتے ہیں جب کہ پاکستانی طالبان کے ذہن میں خناس سمایا ہوا ہے کہ جس طرح افغان طالبان نے امریکا کو انخلا پر مجبور کردیا، کچھ اسی طرح وہ پاکستان کی حکومت کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکرکے اپنی عملی داری قائم کرسکتے ہیں۔
کیونکہ ماضی قریب میں خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں پر ان کا مکمل کنٹرول ہوگیا تھا ، جس کو پاکستانی فوج نے متعدد آپریشنز کرکے خالی کروایا تھا۔افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں 52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جس کا واضح مطلب ہے کہ صورتحال کافی سنگین ہے ، ہمارے حکام صرف زبانی کلامی تسلیاں دینے میں مصروف ہیں ۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ٹی ٹی پی کے چار پانچ ہزار لوگ پہلے سے افغانستان میں تھے۔
چار پانچ ہزار افغان حکومت کی جیلوں میں تھے اور جب طالبان نے جیلیں تڑوادیں تو ان سے کم و بیش اتنی ہی تعداد میں ٹی ٹی پی کے لوگ بھی رہا ہوئے جن میں مولوی فقیر محمد جیسے اہم لوگ بھی شامل تھے۔ پاکستان کے
اندر سلیپر سیلز کی صورت میں انفرادی یا گروپوں کی شکل میں ٹی ٹی پی کے جو لوگ خاموش بیٹھے تھے وہ بھی افغانستان جاکر ٹی ٹی پی سے جا ملے ۔کے پی کے،کے متعدد علاقوں میں پرامن لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے مگر ریاست نام کی کوئی چیزکسی طرف نظر نہیں آ رہی، جب کہ اس وقت تمام انتظامی امور ضلع انتظامیہ اور پولیس کے پاس ہیں۔
ابھی تک ٹی ٹی پی کے زیادہ تر حملے سابق فاٹا کے علاقوں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان تک ہی محدود تھے لیکن اگر یہ سلسلہ پاکستان بھر میں پھیلا تو بہت سے مسائل پیدا ہو جائیں گے لہٰذا ناگزیر ہے کہ حکومت ابھی سے حکمت عملی طے کرے۔
افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی نے پاکستانی عسکریت پسند گروپوں، خاص طور پر ٹی ٹی پی پر نئے اثرات مرتب کیے ہیں۔پچھلے ایک سال میں ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کی دو امن کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
پہلی جنگ بندی گزشتہ سال نومبر میں ہوئی تھی جو ایک ماہ تک جاری رہی۔ حالیہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے درمیان جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس میں لازمی ہو گیا ہے کہ حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات یا متحرک کارروائیوں کے بارے میں پاکستان کے موقف کو واضح کرے۔مذاکرات دو بار ناکام ہوچکے ہیں۔
متحرک کارروائیوں کی حکمت عملی کی بدولت ممکن ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان فرار ہو جائے اور آپریشن کے سست یا رک جانے پر دوبارہ حملے شروع کر دے ۔
عوام کو محسوس ہوتا ہے کہ یا تو ان کے لیڈر طالبان کی حمایت کر رہے ہیں یا پھر وہ ان سے خوفزدہ ہیں اور شاید اسی وجہ سے حکومت ان عسکریت پسندوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی۔ صوبائی حکومت کی عدم فعالیت نے خاص طور پر خواتین میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔
عوام کا طالبان کی واپسی کے خلاف ایک مضبوط موقف اور شدیدردعمل سامنے آیا جس پر پالیسی ساز اداروںکو غور کرنا چاہیے ۔