کے پی کے کابینہ میں توسیعمیرٹ یا سیاسی مجبوریاں
کابینہ کی تکمیل جس طریقہ سے ہوئی، لگتا ہے یہ تکمیل میرٹ سے زیادہ سیاسی انداز سے کی گئی
KARACHI:
خیبرپختونخوا کی ادھوری کابینہ کو مکمل کرنے کا طویل عرصہ سے انتظا رکیا جا رہاتھا اور اس بات کا امکان تھا کہ اتنا عرصہ اس حوالے سے انتظار کیا گیا ہے تو کابینہ کی تکمیل مکمل مشاورت کے بعد ہی کی جائے گی ۔
جس میں ناراض ارکان کو بھی ایڈجیسٹ کیاجائے گا اور اہلیت اور نااہلیت کی بنیاد پر بھی ردوبدل ہوگا۔ تاہم کابینہ کی تکمیل جس طریقہ سے ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ تکمیل میرٹ سے زیادہ سیاسی انداز سے کی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف جس نے حکومت سازی کے وقت واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ تعلیم اور صحت کے محکمے ہر صورت تحریک انصاف اپنے پاس رکھے گی کیونکہ یہ دونو ں وہ بنیادی وزارتیں ہیں کہ جن کے حوالے سے پی ٹی آئی اپنے منشور کے مطابق اپنا پروگرام لانا چاہتی ہے اسی لیے حکومت سازی کے وقت جماعت اسلامی کے مطالبہ اور دباؤ کے باوجود انھیں تعلیم کی وزارت نہیں دی گئی اور اس کے بدلے انھیں بلدیات کی وزارت پر راضی کیا گیا ۔
تاہم آج صرف نو ماہ کے بعد تحریک انصاف ازخود صحت کی وزارت سے دستبردار ہو گئی ہے اور یہ وزارت اتحادی جماعت عوامی جمہوری اتحاد کے پارلیمانی لیڈر شہرام ترکئی کے حوالے کردی گئی ہے جنھیں ساتھ ہی ترقی دیتے ہوئے سینئر وزیر بھی بنادیا گیا ہے جبکہ اس پانچ رکنی پارلیمانی جماعت کے ایک اور ممبر کو معاون خصوصی کا عہدہ بھی دیا گیا ہے جس کے ساتھ دوسری جانب جماعت اسلامی کے وزراء کی کارکردگی کو بھی سو فیصد قراردیا جا رہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اپنی دونوں اتحادی جماعتوں کو ہر صورت خوش رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس کی حکومت کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو ۔
صوبائی کابینہ میں ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے دو ارکان کو شامل کیا گیا ہے جن میں سے قلندر لودھی کو مشیر اور مشتاق غنی کو معاون خصوصی کے عہدوں سے ترقی دیتے ہوئے وزیر کا درجہ دیا گیا ہے جبکہ ساتھ ہی ہری پور سے اکبر ایوب خان کو بھی بطور معاون خصوصی حکومتی ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا ہے، ہزارہ ڈویژن جس کی اب تک کابینہ میں نمائندگی نہیں تھی اسے اچانک دو وزراء کے ذریعے بھرپور نمائندگی دینے اور ساتھ ہی اکبر ایوب کو بطور معاون خصوصی حکومتی بناتے ہوئے صوبائی حکومت نے اپنے تئیں کوشش کی ہے کہ ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کے حوالے سے جو تحریک جاری ہے اس کو وقتی طور پر دبادیا جائے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ حکومت اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جائے کیونکہ مشتاق غنی اور قلندر لودھی دونوں آزاد حیثیت میں منتخب ہونے کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور اب تحریک انصاف کے فرنٹ مین کے طور پر اس کام کو سر انجام دیں گے جبکہ ان کوششوں میں انھیں جنرل ایوب خان فیملی کے سپوت اکبر ایوب خان کی بھی بھرپور معاونت حاصل رہے گی ، صوبائی کابینہ جس میں پانچ وزراء کی کمی تھی ، اس کے حوالے سے یہ پیشن گوئی تو کافی عرصہ سے کی جا رہی تھی کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے اکرام اللہ گنڈا پور اور ہری پور سے اکبر ایوب کو ضرور اس کا حصہ بنایا جائے گا ۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی کوشش ہوگی کہ جہاں وہ اپنی اتحادی جماعتوں کو خوش رکھے ہوئے ہیں وہیں پر وہ صوبہ کے بڑے سیاسی خاندانوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں تاکہ انھیں حکومت چلانے کے حوالے سے سپورٹ حاصل رہے اور اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے اکرام اللہ گنڈا پور کو بطور وزیر کابینہ میں شامل کیا ہے جبکہ اکبر ایوب خان کو معاون خصوصی مقرر کرتے ہوئے حکومتی ٹیم کا حصہ بنا لیا ہے۔
تحریک انصاف کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات اشتیاق ارمڑ اور پارلیمانی سیکرٹری عارف یوسف کی کارکردگی اور وزیراعلیٰ و پارٹی قیادت کے ساتھ ان کی قربتوں کو دیکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ ان دونوں کو بھی ضرور ترقی ملے گی اورایسا ہی ہوا ہے کہ ان دونوں کو حکومتی ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا ہے تاہم دوسری جانب وزیراعلیٰ نے اپنے ہی ضلع کے جمشید الدین کو بھی ترقی دے کر کابینہ میں شامل کر لیا ہے۔ جس انداز میں کابینہ میں نئے چہرو ں کو لایا گیا ہے اور معاملات کو سیاسی انداز میں ڈیل کیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان میں سے کئی ایک پھر ناراض کے ناراض ہی رہ گئے ہیں جن میں مردان والے بھی شامل ہیں اور پشاور والے بھی جبکہ سوات والوں کے بھی گلے شکوے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے بنوں ڈویژن کو کابینہ میں نمائندگی نہ دیئے جانے کے فیصلہ کو بھی مناسب انداز سے نہیں دیکھاجارہا البتہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ چھ ماہ یا ایک سال کے بعد اگر تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر حکومتی ٹیم میں ردوبدل کرتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس وقت ان ناراض ارکان کو آگے لاتے ہوئے موقع دے دیاجائے جو اب نظروں میں آنے سے رہ گئے ہیں ۔
تاہم کابینہ کو جہاں مکمل کیا گیاہے وہیں پر ایک مرتبہ پھر کابینہ میں ردوبدل یقینی ہوگیا ہے کیونکہ جماعت اسلامی کی جانب سے کابینہ میں بطور سینئروزیر نمائندگی کرنے والے سراج الحق چونکہ غیر متوقع طور پر جماعت اسلامی کے مرکزی امیر منتخب ہوگئے ہیں اس لیے اب وہ یقینی طور پر وزارت سے مستعفی ہو جائیں گے جس کے بعد ان کی جماعت کے عنایت اللہ خان کو سینئر وزیر کے طور پر ترقی دیئے جانے کا امکان ہے جو موجودہ حکومت کے دوران صوبہ کے چوتھے سینئر وزیر ہوں گے جبکہ مظفر سید جو وزارتوں اور پارلیمانی سیکرٹریوں کے عہدوں کی تقسیم کے وقت نظر انداز ہوئے ہیں ان کے حوالے سے امکان ہے کہ انھیں اب جماعت اسلامی کے کوٹے میں صوبائی کابینہ میں شامل کرلیا جائے گا ۔ سراج الحق کے ساتھ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ،2006 ء میں بھی جب وہ ایم ایم اے کی حکومت میں صوبہ کے سینئر وزیر تھے ، جماعت اسلامی کا صوبائی امیر منتخب ہونے پر انھیں جماعتی فیصلہ کے تحت وزارت چھوڑنی پڑی تھی اور اب بھی ایسا ہی ہونے والا ہے کیونکہ بہرکیف جماعتی ذمہ داریاں حکومتی ذمہ داریوں سے زیادہ اہم ہیں اور اب وہ بطور مرکزی امیر صوبائی اسمبلی میں بیٹھ کر اپنی پارٹی کے وزراء پر زیادہ گہری نظر رکھ سکتے ہیں جبکہ تحریک انصاف بھی ان کی نئی پوزیشن کا فائدہ بہتر طریقہ سے لے سکتی ہے کیونکہ اب فیصلوں کے لیے منصورہ کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا بلکہ منصورہ ، سراج الحق کی صورت میں ان کے پاس ہی موجود رہے گا۔
جماعت اسلامی کی روایات بھی یہی ہیں اور توقع بھی اسی بات کی تھی کہ جس طرح جماعت اسلامی کے پہلے تین امراء ایک سے زائد مرتبہ امارت کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں اسی طرح سید منور حسن کو بھی جماعت اسلامی کے ارکان دوسری مرتبہ مرکزی امیر منتخب کر لیں گے لیکن توقعات کے برعکس ایسا نہیں ہو سکا جس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ گزشتہ عرصہ کے دوران فوج کے علاوہ مختلف ایشوز پر سید منور حسن کے جو بیانات منظر عام پر آئے ہیں وہ نہ صرف متنازعہ تھے بلکہ ان بیانات نے جماعت اسلامی کو بھی متنازعہ بنادیا تھا جس کو جہاں باہر محسوس کیا گیا وہیں پر جماعت اسلامی کی صفوں میں بھی اس احساس کے اثرات پہنچے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ سید منور حسن کے حق میں اراکین جماعت نے اپنی رائے نہیں دی بلکہ ساتھ ہی لیاقت بلوچ جو منور حسن کے ساتھ جنرل سیکرٹری کے طور پرکام کر رہے ہیں انھیں بھی مسترد کر دیا گیا اور سراج الحق کو موقع دیاگیا جس کی وجہ سے اکیس سال تک جماعت اسلامی کی قیادت خیبرپختونخوا کے پاس رہنے کے بعد صرف پانچ سال کے عرصہ ہی میں دوبارہ واپس خیبرپختونخوا آگئی ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ قاضی حسین احمد کے سیاسی ویژن اور ٹی ٹوئنٹی کے انداز میں کھیلی جانے والی سیاسی اننگز کے بعد جس طریقہ سے سید منور حسن نے ٹیسٹ کرکٹ انداز میں بیٹنگ شروع کردی تھی وہ جماعت اسلامی والوں کو نہیں بھائی اور انہوں نے قاضی حسین احمد سے زیادہ جوشیلے اور تیز وطرار سراج الحق کو جماعت اسلامی کی قیادت سونپ دی ہے جو یقینی طور پر اسی برق رفتاری سے سیاسی انداز میں جماعت اسلامی کے ذریعے سٹریٹ سیاست کریں گے جو قاضی حسین احمد کا خاصہ تھا جبکہ دوسری جانب ایسے وقت میں کہ جب امریکہ اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہونے والا ہے جماعت اسلامی کی قیادت کا اسی طریقہ سے خیبرپختونخوا کے پاس آنا جس طرح سوویت یونین کی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے وقت خیبرپختونخوا کے پاس آئی تھی، جماعت اسلامی کے نئے امیر سراج الحق کی ذمہ داریوں میں یقینی طور پر کافی اضافہ کرتی ہے ۔
خیبرپختونخوا کی ادھوری کابینہ کو مکمل کرنے کا طویل عرصہ سے انتظا رکیا جا رہاتھا اور اس بات کا امکان تھا کہ اتنا عرصہ اس حوالے سے انتظار کیا گیا ہے تو کابینہ کی تکمیل مکمل مشاورت کے بعد ہی کی جائے گی ۔
جس میں ناراض ارکان کو بھی ایڈجیسٹ کیاجائے گا اور اہلیت اور نااہلیت کی بنیاد پر بھی ردوبدل ہوگا۔ تاہم کابینہ کی تکمیل جس طریقہ سے ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ تکمیل میرٹ سے زیادہ سیاسی انداز سے کی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف جس نے حکومت سازی کے وقت واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ تعلیم اور صحت کے محکمے ہر صورت تحریک انصاف اپنے پاس رکھے گی کیونکہ یہ دونو ں وہ بنیادی وزارتیں ہیں کہ جن کے حوالے سے پی ٹی آئی اپنے منشور کے مطابق اپنا پروگرام لانا چاہتی ہے اسی لیے حکومت سازی کے وقت جماعت اسلامی کے مطالبہ اور دباؤ کے باوجود انھیں تعلیم کی وزارت نہیں دی گئی اور اس کے بدلے انھیں بلدیات کی وزارت پر راضی کیا گیا ۔
تاہم آج صرف نو ماہ کے بعد تحریک انصاف ازخود صحت کی وزارت سے دستبردار ہو گئی ہے اور یہ وزارت اتحادی جماعت عوامی جمہوری اتحاد کے پارلیمانی لیڈر شہرام ترکئی کے حوالے کردی گئی ہے جنھیں ساتھ ہی ترقی دیتے ہوئے سینئر وزیر بھی بنادیا گیا ہے جبکہ اس پانچ رکنی پارلیمانی جماعت کے ایک اور ممبر کو معاون خصوصی کا عہدہ بھی دیا گیا ہے جس کے ساتھ دوسری جانب جماعت اسلامی کے وزراء کی کارکردگی کو بھی سو فیصد قراردیا جا رہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اپنی دونوں اتحادی جماعتوں کو ہر صورت خوش رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس کی حکومت کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو ۔
صوبائی کابینہ میں ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے دو ارکان کو شامل کیا گیا ہے جن میں سے قلندر لودھی کو مشیر اور مشتاق غنی کو معاون خصوصی کے عہدوں سے ترقی دیتے ہوئے وزیر کا درجہ دیا گیا ہے جبکہ ساتھ ہی ہری پور سے اکبر ایوب خان کو بھی بطور معاون خصوصی حکومتی ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا ہے، ہزارہ ڈویژن جس کی اب تک کابینہ میں نمائندگی نہیں تھی اسے اچانک دو وزراء کے ذریعے بھرپور نمائندگی دینے اور ساتھ ہی اکبر ایوب کو بطور معاون خصوصی حکومتی بناتے ہوئے صوبائی حکومت نے اپنے تئیں کوشش کی ہے کہ ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کے حوالے سے جو تحریک جاری ہے اس کو وقتی طور پر دبادیا جائے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ حکومت اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جائے کیونکہ مشتاق غنی اور قلندر لودھی دونوں آزاد حیثیت میں منتخب ہونے کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور اب تحریک انصاف کے فرنٹ مین کے طور پر اس کام کو سر انجام دیں گے جبکہ ان کوششوں میں انھیں جنرل ایوب خان فیملی کے سپوت اکبر ایوب خان کی بھی بھرپور معاونت حاصل رہے گی ، صوبائی کابینہ جس میں پانچ وزراء کی کمی تھی ، اس کے حوالے سے یہ پیشن گوئی تو کافی عرصہ سے کی جا رہی تھی کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے اکرام اللہ گنڈا پور اور ہری پور سے اکبر ایوب کو ضرور اس کا حصہ بنایا جائے گا ۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی کوشش ہوگی کہ جہاں وہ اپنی اتحادی جماعتوں کو خوش رکھے ہوئے ہیں وہیں پر وہ صوبہ کے بڑے سیاسی خاندانوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں تاکہ انھیں حکومت چلانے کے حوالے سے سپورٹ حاصل رہے اور اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے اکرام اللہ گنڈا پور کو بطور وزیر کابینہ میں شامل کیا ہے جبکہ اکبر ایوب خان کو معاون خصوصی مقرر کرتے ہوئے حکومتی ٹیم کا حصہ بنا لیا ہے۔
تحریک انصاف کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات اشتیاق ارمڑ اور پارلیمانی سیکرٹری عارف یوسف کی کارکردگی اور وزیراعلیٰ و پارٹی قیادت کے ساتھ ان کی قربتوں کو دیکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ ان دونوں کو بھی ضرور ترقی ملے گی اورایسا ہی ہوا ہے کہ ان دونوں کو حکومتی ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا ہے تاہم دوسری جانب وزیراعلیٰ نے اپنے ہی ضلع کے جمشید الدین کو بھی ترقی دے کر کابینہ میں شامل کر لیا ہے۔ جس انداز میں کابینہ میں نئے چہرو ں کو لایا گیا ہے اور معاملات کو سیاسی انداز میں ڈیل کیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان میں سے کئی ایک پھر ناراض کے ناراض ہی رہ گئے ہیں جن میں مردان والے بھی شامل ہیں اور پشاور والے بھی جبکہ سوات والوں کے بھی گلے شکوے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے بنوں ڈویژن کو کابینہ میں نمائندگی نہ دیئے جانے کے فیصلہ کو بھی مناسب انداز سے نہیں دیکھاجارہا البتہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ چھ ماہ یا ایک سال کے بعد اگر تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر حکومتی ٹیم میں ردوبدل کرتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس وقت ان ناراض ارکان کو آگے لاتے ہوئے موقع دے دیاجائے جو اب نظروں میں آنے سے رہ گئے ہیں ۔
تاہم کابینہ کو جہاں مکمل کیا گیاہے وہیں پر ایک مرتبہ پھر کابینہ میں ردوبدل یقینی ہوگیا ہے کیونکہ جماعت اسلامی کی جانب سے کابینہ میں بطور سینئروزیر نمائندگی کرنے والے سراج الحق چونکہ غیر متوقع طور پر جماعت اسلامی کے مرکزی امیر منتخب ہوگئے ہیں اس لیے اب وہ یقینی طور پر وزارت سے مستعفی ہو جائیں گے جس کے بعد ان کی جماعت کے عنایت اللہ خان کو سینئر وزیر کے طور پر ترقی دیئے جانے کا امکان ہے جو موجودہ حکومت کے دوران صوبہ کے چوتھے سینئر وزیر ہوں گے جبکہ مظفر سید جو وزارتوں اور پارلیمانی سیکرٹریوں کے عہدوں کی تقسیم کے وقت نظر انداز ہوئے ہیں ان کے حوالے سے امکان ہے کہ انھیں اب جماعت اسلامی کے کوٹے میں صوبائی کابینہ میں شامل کرلیا جائے گا ۔ سراج الحق کے ساتھ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ،2006 ء میں بھی جب وہ ایم ایم اے کی حکومت میں صوبہ کے سینئر وزیر تھے ، جماعت اسلامی کا صوبائی امیر منتخب ہونے پر انھیں جماعتی فیصلہ کے تحت وزارت چھوڑنی پڑی تھی اور اب بھی ایسا ہی ہونے والا ہے کیونکہ بہرکیف جماعتی ذمہ داریاں حکومتی ذمہ داریوں سے زیادہ اہم ہیں اور اب وہ بطور مرکزی امیر صوبائی اسمبلی میں بیٹھ کر اپنی پارٹی کے وزراء پر زیادہ گہری نظر رکھ سکتے ہیں جبکہ تحریک انصاف بھی ان کی نئی پوزیشن کا فائدہ بہتر طریقہ سے لے سکتی ہے کیونکہ اب فیصلوں کے لیے منصورہ کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا بلکہ منصورہ ، سراج الحق کی صورت میں ان کے پاس ہی موجود رہے گا۔
جماعت اسلامی کی روایات بھی یہی ہیں اور توقع بھی اسی بات کی تھی کہ جس طرح جماعت اسلامی کے پہلے تین امراء ایک سے زائد مرتبہ امارت کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں اسی طرح سید منور حسن کو بھی جماعت اسلامی کے ارکان دوسری مرتبہ مرکزی امیر منتخب کر لیں گے لیکن توقعات کے برعکس ایسا نہیں ہو سکا جس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ گزشتہ عرصہ کے دوران فوج کے علاوہ مختلف ایشوز پر سید منور حسن کے جو بیانات منظر عام پر آئے ہیں وہ نہ صرف متنازعہ تھے بلکہ ان بیانات نے جماعت اسلامی کو بھی متنازعہ بنادیا تھا جس کو جہاں باہر محسوس کیا گیا وہیں پر جماعت اسلامی کی صفوں میں بھی اس احساس کے اثرات پہنچے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ سید منور حسن کے حق میں اراکین جماعت نے اپنی رائے نہیں دی بلکہ ساتھ ہی لیاقت بلوچ جو منور حسن کے ساتھ جنرل سیکرٹری کے طور پرکام کر رہے ہیں انھیں بھی مسترد کر دیا گیا اور سراج الحق کو موقع دیاگیا جس کی وجہ سے اکیس سال تک جماعت اسلامی کی قیادت خیبرپختونخوا کے پاس رہنے کے بعد صرف پانچ سال کے عرصہ ہی میں دوبارہ واپس خیبرپختونخوا آگئی ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ قاضی حسین احمد کے سیاسی ویژن اور ٹی ٹوئنٹی کے انداز میں کھیلی جانے والی سیاسی اننگز کے بعد جس طریقہ سے سید منور حسن نے ٹیسٹ کرکٹ انداز میں بیٹنگ شروع کردی تھی وہ جماعت اسلامی والوں کو نہیں بھائی اور انہوں نے قاضی حسین احمد سے زیادہ جوشیلے اور تیز وطرار سراج الحق کو جماعت اسلامی کی قیادت سونپ دی ہے جو یقینی طور پر اسی برق رفتاری سے سیاسی انداز میں جماعت اسلامی کے ذریعے سٹریٹ سیاست کریں گے جو قاضی حسین احمد کا خاصہ تھا جبکہ دوسری جانب ایسے وقت میں کہ جب امریکہ اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہونے والا ہے جماعت اسلامی کی قیادت کا اسی طریقہ سے خیبرپختونخوا کے پاس آنا جس طرح سوویت یونین کی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے وقت خیبرپختونخوا کے پاس آئی تھی، جماعت اسلامی کے نئے امیر سراج الحق کی ذمہ داریوں میں یقینی طور پر کافی اضافہ کرتی ہے ۔