پاکستان میں سکھ مسلم بھائی چارے کو نقصان پہنچانے کی بھارتی میڈیا کی کوشش ناکام

آر ایس ایس نظریہ کے حامی بھارتی میڈیا نے لاہور کے نولکھا بازار میں موجود سمادھی سے متعلق چھوٹی خبریں چلائی تھیں

—فوٹو

پاکستان میں سکھ مسلم بھائی چارے کے دشمن بھارت کے آر ایس ایس اور مودی میڈیا کی جانب سے دونوں مذاہب کی دوستی میں رخنہ ڈالنے کی ایک اور سازش پکڑی گئی۔

مغلیہ دور میں حکومتی مظالم کے ہاتھوں اپنی جان قربان کرنیوالے 'بھائی تارو سنگھ' کی لاہور کے نولکھا بازار میں موجود سمادھی سے متعلق بھارتی میڈیا نے کسی تصدیق اور شواہد کے بغیر یہ خبریں نشر کیں کہ بھائی تارو سنگھ شہید کی سمادھی کی جگہ مسلمانوں کی مسجد کی تعمیر شروع کردی گئی ہے۔

اس منفی اور بے بنیاد پروپیگنڈا کی وجہ سے بھارت سمیت دنیا بھر میں بسنے والے سکھوں میں تشویش کی لہر دوڑی اور ان میں غم وغصہ پایا جارہا تھا۔ تاہم پاکستان سکھ گورودوارہ پربندھک کمیٹی نے ان خبروں کو من گھڑت اور حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔

پاکستان گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے سربراہ سردار امیر سنگھ نے سازش کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ بھائی چند انتظامی معاملات کی وجہ سے بند کی گئی تھی جسے جلد ہی کھول دیا جائیگا۔ دیگر سکھ رہنماؤں کے ساتھ جاری ویڈیو پیغام میں سردار امیر سنگھ نے کہا ہے پاکستان ہمارے گورو صاحبان کی سرزمین ہے اور ہم یہاں مکمل مذہبی و سماجی آزادی کے ساتھ رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان اقلیت دوست ہے ہماری عبادت گاہیں، گوردوارے سب آزاد اور محفوظ ہیں، کرتار پور کوریڈور سے پریشان بھارت کی اقلیت دشمن سرکار، پاکستان کیخلاف پروپیگنڈہ بند کرے۔


واضع رہے کہ یہ جگہ مسلمانوں اورسکھوں کے مابین قیام پاکستان سے بھی پہلے سے متنازع چلی آرہی ہے۔ یہاں موجود سمادھی کے ایک طرف مسجد اور ایک حصے میں مزار ہے۔ مقامی مذہبی گروپ نے گزشتہ برس بھی یہاں تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے نقص امن عامہ کے باعث اس جگہ کو بند کردیا گیا تھا۔
حکام نے بتایا کہ 18ویں صدی کے آغاز میں مغل دور کے دوران یہاں مسجد واقع تھی لیکن سکھوں نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اسی جگہ سکھ مذہب کے جنگجو بھائی تارو سنگھ کی یاد میں ایک گرودوارہ تعمیر کیا تھا جنھیں مغل گورنر نے قتل کیا تھا۔

جب انگریزوں نے پنجاب کا اقتدار سنبھالا تو یہ معاملہ کئی سطحوں پر عدالت میں گیا لیکن یہ ایک گرودوارہ ہی رہا۔ 1935 میں یہاں مسجد کا ڈھانچہ مسمار کر دیا گیا جس کی وجہ سے لاہور میں کچھ ماہ تک بدامنی پھیل گئی تھی۔

1940 میں برطانوی ہند کی اعلیٰ اپیل عدالت 'پریوی کونسل نے سکھ برادری کے حق میں فیصلہ دیا اور اس جگہ کا قبضہ ان کے پاس رہا۔ برطانوی پریوی کونسل نے فیصلے میں کہا کہ اس جگہ پر برسوں سے گرودوارہ موجود ہے اور اسے ہٹانے کا دعویٰ مقررہ مدت میں دائر نہیں کیا گیا۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد بھی یہ معاملہ متنازع رہا اور 1988 میں لاہور ہائی کورٹ نے شواہد کی عدم موجودگی میں فیصلہ کیا کہ یہ زمین گرودوارے کی ہے۔ فی الحال اس جگہ کی دیکھ بھال اور انتظام متروکہ وقف املاک بورڈ کے پاس ہے۔
Load Next Story