پاکستان کے مسائل اور ان کا حل
رشوت ستانی اورکرپشن پرقابو پانے کے لیے جوادارے بنائے گئے ہیں اور جو قوانین تشکیل دیے گئے ہیں وہ سب بے اثرثابت ہوئے ہیں
وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈی نیشن سینٹر کے افسران کے اعزاز میں تقریب سے خطاب کے دوران نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈی نیشن سینٹر کے چیئرمین اور دیگر عملے کی تحسین کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کی کاوشیں قابل تعریف ہیں، آپ سب نے دن رات محنت کی اور دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے، تباہ کن سیلاب سے لاکھوں گھر تباہ ہوئے، 1700جانیں ضایع ہوئیں، کھڑی فصلیں برباد ہوئیں، سڑکوں اور ریلوے کا انفرااسٹرکچر تباہ ہوا، قصبوں کے قصبے ڈوب گئے، بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا لیکن آپ نے بڑی محنت سے کام کیا۔ آیندہ بھی ہمیں ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ جو ماڈل یہاں پیش کیا گیا ہے اس پر بغیر وقت ضایع کیے کام شروع کیا جائے، سندھ کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اندرون سندھ کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر اور سیوریج لائنیں بچھانے کی تجویز معقول ہے، اس حوالے سے وزیر خزانہ سے بات کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے، صرف ریکوڈک کے ذخائر سے اربوں ڈالر حاصل کیے جا سکتے ہیں تاہم کئی سال گزرنے کے باوجود ہم یہاں سے گولڈ اور کاپر کے ذخائر دریافت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، اس طرح قومیں نہیں بنتیں۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہیں۔ اگر کمی ہے تو عزم اور محنت کی ہے۔ پاکستان کی حکومتوں نے ملک کے گراس روٹ لیول پر ترقیاتی کام کرنے میں کوتاہی برتی ہے۔ سب سے اہم کام گراس روٹ لیول پر عوامی نمایندگی کے اداروں کو پروان چڑھانا تھا جو نہیں کیا جا سکا۔ اس کے ساتھ ساتھ گراس روٹ لیول پر پرائمری اور ہائی اسکولز کے بچوں کی تربیت پر سرکار کی توجہ نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔
اگر صوبائی اور وفاقی حکومتیں پرائمری اور ہائی اسکولز سسٹم پر بھرپور توجہ دیتیں اورا سکولز ٹیچرز کی بہترین تربیت کی جاتی اور انھیں اچھی تنخواہیں دی جاتیں، نصاب تعلیم جدید تقاضوں کے مطابق ہوتا تو پاکستان کی بنیادیں مضبوط ہو سکتی تھیں۔ اسی طرح کالج اور یونیورسٹی کی سطح کے اداروں پر بھی سرکار کی توجہ کم ہو گئی۔ سرکاری شعبے میں نئے کالجز اور یونیورسٹیز کی تعمیر نہ ہونے کے برابر رہی۔
سرکاری شعبے میں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں بھی زیادہ تعداد میں نہ بن سکیں اور اسی طرح انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے کالجز اور یونیورسٹیز بھی بڑی تعداد میں قائم نہ ہو سکیں۔ عوامی بہبود کے ذمے دار اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کچھ نہ کیا گیا جس کا نتیجہ ان اداروں کے زوال کی صورت میں نکلا۔ اگر یہ ادارے فعال ہوتے تو قدرتی آفات کا بآسانی مقابلہ کیا جاسکتا تھا۔ اس وقت فائر بریگیڈ کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس محکمے پر حکومت نے کوئی سرمایہ کاری ہی نہیں کی۔
اگر حکومت اس محکمے پر سرمایہ کاری کرتی تو آتش زدگی سے ہونے والے جانی ومالی نقصان میں بہت زیادہ کمی ہو سکتی تھی۔ اسی طرح شعبہ ہیلتھ پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ سرکاری شعبے میں نئے اسپتال بنانے کی شرح انتہائی کم ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کوئی قابل عمل میکنزم نہیں بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نجی اسپتالوں اور لیبارٹریز کا کام عروج پر ہے۔ حالیہ سیلاب اور گاہے گاہے ہونے والے آتش زدگی کے واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں اور اس کے لیے ہمیں جدوجہد کرنی چاہیے۔
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے جمعے کو اپنے ٹویٹ میں مینزیز ایوی ایشن گروپ اور سپارز گروپ کی طرف سے ٹانک میں متاثرین کے لیے 100گھروں کے عطیے پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسم سرما میں سیلاب متاثرہ بے گھر افرادکو چھت فراہم کرنا بہت بڑا چیلنج ہے، مخیر حضرات بڑھ چڑھ کر اس کام میں حکومت کا ساتھ دیں۔ہمیں اس مشکل وقت میں اپنے بہن بھائیوں ، بچوں اور بزرگوں کو قطعاً اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
دریں اثناء انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہاہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے آج سے 74 سال قبل انسانی حقوق کے عالمی منشور کو منظور کیا تھا،اس اعلامیے میں بیان کردہ نظریات ہر جگہ اور ہر ایک کے لیے شہری، اقتصادی، ثقافتی، سماجی اور سیاسی خوشحالی کے حصول کے لیے ضروری ہیں۔ہمیں پائیدار ترقی کے ایجنڈا 2030کے اہم اصولوں سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے عدم مساوات اور ناانصافی سے پاک معاشرے کے حصول کے لیے یکجہتی کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔
جمعہ کو انسدادِ کرپشن کے عالمی دن کے موقع پر بھی وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کرپشن کے ناسور کے خاتمے کے عزم کی تجدید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترقی و خوشحالی کی راہ میں کرپشن ایک بڑی رکاوٹ ہے،معاشرتی اقدار کا زوال کرپشن کی شرح بڑھاتا ہے،کرپشن سے ادارے کمزور،لوگوں کا گورننس سے اعتبار اٹھ جاتا ہے ، آج کا دن اس عہد کی تجدید کا بھی دن ہے کہ ہم سب پاکستانی مل کر کرپشن سے جنگ میں سرخرو ہوں۔
کرپشن ایک ایسا ایشو ہے جس پر برسوں سے بحث ومباحثے ہو رہے ہیں لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ رشوت ستانی اور کرپشن پر قابو پانے کے لیے جو ادارے بنائے گئے ہیں اور جو قوانین تشکیل دیے گئے ہیں وہ سب بے اثر ثابت ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک میں کرپشن کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ گڈ گورننس کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں حالانکہ کرپشن کو روکنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ سب سے پہلے قوانین اور ضوابط کو بروئے کار لا کر جو مالی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں، انھیں ختم کیا جانا چاہیے۔
صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنرز صاحبان اور دیگر ریاستی عہدیداروں کے ایسے صوابدیدی اختیارات جن سے وہ خود یا کسی دوسرے کو کسی بھی قسم کا مالی فائدہ پہنچایا جا سکے، انھیں مکمل طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔ صرف یہ ایک اختیار ختم کرنے سے زمینوں کی الاٹمنٹ سمیت دیگر مراعات میں کمی ہونے سے گورننس بہت بہتر ہو جائے گی۔ اسی طرح توشہ خانہ کا بھی معاملہ ہے۔
ریاست کے کسی عہدیدار کو دوسرے ملکوں سے ملنے والے تحائف خریدنے اور بیچنے پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی جائے۔ اگر ایسے قوانین بنا دیے جاتے تو آج توشہ خانہ کے تحائف بیچنے جیسے معاملات سامنے نہ آتے۔ جب قوانین کے اندر ہی ایسے اختیارات اور صوابدیدی اختیارات کسی اعلیٰ عہدیدار کو حاصل ہوں گے تو لازمی بات ہے کہ وہ انھیں استعمال بھی کرے گا۔
آج پاکستان قرضوں کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6.7 ارب ڈالر کی انتہائی کم ترین سطح پر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ اس صورت حال کے باوجود ڈالر کی افغانستان کی طرف اسمگلنگ جاری ہے اور ذمے داران اس اسمگلنگ کو روکنے میں ناکام ہیں، یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ ڈالر پھلوں کے کریٹس میں چھپا کر افغانستان جاتے رہے جب کہ پاک افغان سرحد پر تعینات سرکاری اہلکاروں نے سامان کی مناسب چیکنگ نہیں کی اور نہ ہی سرحد پار تعینات طالبان اہلکاروں نے کوئی کارروائی کی۔
یہ انکشاف ایک اجلاس میں سامنے آیا،جس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کسٹمز ایکٹ سرحد پار کرنسی کا بہاؤ روکنے کے لیے نئی پابندیوں سے مطابقت نہیں رکھتا، جس سے اسمگلروں کے خلاف فوجداری مقدمات کے اندراج میں رکاوٹ پیدا ہو ئی،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ بلایا، ریاست اپنی سرحدوں اور بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی حفاظت میں ناکام رہی جو اسمگلنگ کے اڈوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
وزیر خزانہ نے ایک بین وزارتی اجلاس کی صدارت کی جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈالر، گندم اور کھاد کی افغانستان اسمگلنگ روکنے میں ناکام کیوں رہے،وزارت خزانہ کی پریس ریلیز کے مطابق اجلاس میں بریفنگ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کنوؤں کے کریٹس کے ذریعے ڈالر افغانستان اسمگل کیے جا رہے ہیں۔
حکومتی عہدیداروں نے انکشاف کیا کہ معذور افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی افغانستان کرنسی اسمگلنگ میں ملوث ہیں،تاہم زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس بحرانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح روڈ میپ بھی موجود نہیں۔
اصل مسئلہ پھر وہی ہے کہ جب تک ریاست اور سرکار اپنے بے جا اختیارات اور مراعات کو محدود نہیں کرتی اور ایسے قوانین تیار نہیں کرتی جس سے سرکاری اہلکاروں اور سیاسی حکومتی عہدیداروں کو حاصل نوآبادیاتی دور کی طرز کے اختیارات ختم کیے جا سکیں، اس وقت تک پاکستان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
انھوں نے کہا کہ جو ماڈل یہاں پیش کیا گیا ہے اس پر بغیر وقت ضایع کیے کام شروع کیا جائے، سندھ کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اندرون سندھ کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر اور سیوریج لائنیں بچھانے کی تجویز معقول ہے، اس حوالے سے وزیر خزانہ سے بات کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے، صرف ریکوڈک کے ذخائر سے اربوں ڈالر حاصل کیے جا سکتے ہیں تاہم کئی سال گزرنے کے باوجود ہم یہاں سے گولڈ اور کاپر کے ذخائر دریافت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، اس طرح قومیں نہیں بنتیں۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہیں۔ اگر کمی ہے تو عزم اور محنت کی ہے۔ پاکستان کی حکومتوں نے ملک کے گراس روٹ لیول پر ترقیاتی کام کرنے میں کوتاہی برتی ہے۔ سب سے اہم کام گراس روٹ لیول پر عوامی نمایندگی کے اداروں کو پروان چڑھانا تھا جو نہیں کیا جا سکا۔ اس کے ساتھ ساتھ گراس روٹ لیول پر پرائمری اور ہائی اسکولز کے بچوں کی تربیت پر سرکار کی توجہ نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔
اگر صوبائی اور وفاقی حکومتیں پرائمری اور ہائی اسکولز سسٹم پر بھرپور توجہ دیتیں اورا سکولز ٹیچرز کی بہترین تربیت کی جاتی اور انھیں اچھی تنخواہیں دی جاتیں، نصاب تعلیم جدید تقاضوں کے مطابق ہوتا تو پاکستان کی بنیادیں مضبوط ہو سکتی تھیں۔ اسی طرح کالج اور یونیورسٹی کی سطح کے اداروں پر بھی سرکار کی توجہ کم ہو گئی۔ سرکاری شعبے میں نئے کالجز اور یونیورسٹیز کی تعمیر نہ ہونے کے برابر رہی۔
سرکاری شعبے میں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں بھی زیادہ تعداد میں نہ بن سکیں اور اسی طرح انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے کالجز اور یونیورسٹیز بھی بڑی تعداد میں قائم نہ ہو سکیں۔ عوامی بہبود کے ذمے دار اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کچھ نہ کیا گیا جس کا نتیجہ ان اداروں کے زوال کی صورت میں نکلا۔ اگر یہ ادارے فعال ہوتے تو قدرتی آفات کا بآسانی مقابلہ کیا جاسکتا تھا۔ اس وقت فائر بریگیڈ کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس محکمے پر حکومت نے کوئی سرمایہ کاری ہی نہیں کی۔
اگر حکومت اس محکمے پر سرمایہ کاری کرتی تو آتش زدگی سے ہونے والے جانی ومالی نقصان میں بہت زیادہ کمی ہو سکتی تھی۔ اسی طرح شعبہ ہیلتھ پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ سرکاری شعبے میں نئے اسپتال بنانے کی شرح انتہائی کم ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کوئی قابل عمل میکنزم نہیں بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نجی اسپتالوں اور لیبارٹریز کا کام عروج پر ہے۔ حالیہ سیلاب اور گاہے گاہے ہونے والے آتش زدگی کے واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں اور اس کے لیے ہمیں جدوجہد کرنی چاہیے۔
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے جمعے کو اپنے ٹویٹ میں مینزیز ایوی ایشن گروپ اور سپارز گروپ کی طرف سے ٹانک میں متاثرین کے لیے 100گھروں کے عطیے پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسم سرما میں سیلاب متاثرہ بے گھر افرادکو چھت فراہم کرنا بہت بڑا چیلنج ہے، مخیر حضرات بڑھ چڑھ کر اس کام میں حکومت کا ساتھ دیں۔ہمیں اس مشکل وقت میں اپنے بہن بھائیوں ، بچوں اور بزرگوں کو قطعاً اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
دریں اثناء انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہاہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے آج سے 74 سال قبل انسانی حقوق کے عالمی منشور کو منظور کیا تھا،اس اعلامیے میں بیان کردہ نظریات ہر جگہ اور ہر ایک کے لیے شہری، اقتصادی، ثقافتی، سماجی اور سیاسی خوشحالی کے حصول کے لیے ضروری ہیں۔ہمیں پائیدار ترقی کے ایجنڈا 2030کے اہم اصولوں سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے عدم مساوات اور ناانصافی سے پاک معاشرے کے حصول کے لیے یکجہتی کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔
جمعہ کو انسدادِ کرپشن کے عالمی دن کے موقع پر بھی وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کرپشن کے ناسور کے خاتمے کے عزم کی تجدید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترقی و خوشحالی کی راہ میں کرپشن ایک بڑی رکاوٹ ہے،معاشرتی اقدار کا زوال کرپشن کی شرح بڑھاتا ہے،کرپشن سے ادارے کمزور،لوگوں کا گورننس سے اعتبار اٹھ جاتا ہے ، آج کا دن اس عہد کی تجدید کا بھی دن ہے کہ ہم سب پاکستانی مل کر کرپشن سے جنگ میں سرخرو ہوں۔
کرپشن ایک ایسا ایشو ہے جس پر برسوں سے بحث ومباحثے ہو رہے ہیں لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ رشوت ستانی اور کرپشن پر قابو پانے کے لیے جو ادارے بنائے گئے ہیں اور جو قوانین تشکیل دیے گئے ہیں وہ سب بے اثر ثابت ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک میں کرپشن کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ گڈ گورننس کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں حالانکہ کرپشن کو روکنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ سب سے پہلے قوانین اور ضوابط کو بروئے کار لا کر جو مالی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں، انھیں ختم کیا جانا چاہیے۔
صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنرز صاحبان اور دیگر ریاستی عہدیداروں کے ایسے صوابدیدی اختیارات جن سے وہ خود یا کسی دوسرے کو کسی بھی قسم کا مالی فائدہ پہنچایا جا سکے، انھیں مکمل طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔ صرف یہ ایک اختیار ختم کرنے سے زمینوں کی الاٹمنٹ سمیت دیگر مراعات میں کمی ہونے سے گورننس بہت بہتر ہو جائے گی۔ اسی طرح توشہ خانہ کا بھی معاملہ ہے۔
ریاست کے کسی عہدیدار کو دوسرے ملکوں سے ملنے والے تحائف خریدنے اور بیچنے پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی جائے۔ اگر ایسے قوانین بنا دیے جاتے تو آج توشہ خانہ کے تحائف بیچنے جیسے معاملات سامنے نہ آتے۔ جب قوانین کے اندر ہی ایسے اختیارات اور صوابدیدی اختیارات کسی اعلیٰ عہدیدار کو حاصل ہوں گے تو لازمی بات ہے کہ وہ انھیں استعمال بھی کرے گا۔
آج پاکستان قرضوں کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6.7 ارب ڈالر کی انتہائی کم ترین سطح پر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ اس صورت حال کے باوجود ڈالر کی افغانستان کی طرف اسمگلنگ جاری ہے اور ذمے داران اس اسمگلنگ کو روکنے میں ناکام ہیں، یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ ڈالر پھلوں کے کریٹس میں چھپا کر افغانستان جاتے رہے جب کہ پاک افغان سرحد پر تعینات سرکاری اہلکاروں نے سامان کی مناسب چیکنگ نہیں کی اور نہ ہی سرحد پار تعینات طالبان اہلکاروں نے کوئی کارروائی کی۔
یہ انکشاف ایک اجلاس میں سامنے آیا،جس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کسٹمز ایکٹ سرحد پار کرنسی کا بہاؤ روکنے کے لیے نئی پابندیوں سے مطابقت نہیں رکھتا، جس سے اسمگلروں کے خلاف فوجداری مقدمات کے اندراج میں رکاوٹ پیدا ہو ئی،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ بلایا، ریاست اپنی سرحدوں اور بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی حفاظت میں ناکام رہی جو اسمگلنگ کے اڈوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
وزیر خزانہ نے ایک بین وزارتی اجلاس کی صدارت کی جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈالر، گندم اور کھاد کی افغانستان اسمگلنگ روکنے میں ناکام کیوں رہے،وزارت خزانہ کی پریس ریلیز کے مطابق اجلاس میں بریفنگ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کنوؤں کے کریٹس کے ذریعے ڈالر افغانستان اسمگل کیے جا رہے ہیں۔
حکومتی عہدیداروں نے انکشاف کیا کہ معذور افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی افغانستان کرنسی اسمگلنگ میں ملوث ہیں،تاہم زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس بحرانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح روڈ میپ بھی موجود نہیں۔
اصل مسئلہ پھر وہی ہے کہ جب تک ریاست اور سرکار اپنے بے جا اختیارات اور مراعات کو محدود نہیں کرتی اور ایسے قوانین تیار نہیں کرتی جس سے سرکاری اہلکاروں اور سیاسی حکومتی عہدیداروں کو حاصل نوآبادیاتی دور کی طرز کے اختیارات ختم کیے جا سکیں، اس وقت تک پاکستان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔