استادالاساتذہ رفیع الدین ہاشمی

ان کے عقیدت مندوں کی تحریریں پڑھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہو

nasim.anjum27@gmail.com

محقق، نقاد اور ادیب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی علم و ادب اور تحقیق و تنقید کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کی تدریسی خدمات کا عرصہ 35 سالوں پر محیط ہے۔

پنجاب یونیورسٹی شعبہ اردو کے صدر رہ چکے ہیں، مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض نہایت دیانت داری سے انجام دیے۔ ان کے علوم سے فیض یاب ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جو ان سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔ طالب علموں نے ان کی علمیت اور شخصیت پر متعدد کتابیں قلم بند کیں۔

''ارمغانِ رفیع الدین ہاشمی ، ڈاکٹر خالد ندیم نے مرتب کی۔ اس کتاب میں مختلف موضوعات پر مضامین درج ہیں۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی پر ایک گوشہ بھی شامل ہے جسے انھوں نے ''ایک تعارف'' کا نام دیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی نظم ڈاکٹر خالد ندیم اور پروفیسر سلیم منصور خالد کے مفصل مضامین رفیع الدین ہاشمی کی تعلیم و تربیت اور حالات زندگی کے بارے میں بہت سی معلومات فراہم کرتے ہیں۔

ان کے عقیدت مندوں کی تحریریں پڑھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہو اور رفیع الدین ہاشمی کی زندگی کے بہت سے ماہ و سال ادبی سرگرمیاں، درس و تدریس، علمی کارنامے چند صفحات میں قید ہوگئے ہیں۔

ڈاکٹر خالد ندیم اپنے مضمون ''عرض مرتب'' میں اس طرح رقم طراز ہیں ''اردو میں ارمغان علمی کی روایت کا آغاز ڈاکٹر سید عبداللہ نے کیا تھا، جب 1955 میں انھوں نے اپنے استاد پروفیسر ڈاکٹر مولوی عبدالشفیع کی خدمت میں ایک مجموعہ مقالات پیش کیا اس سلسلے کی آخری کڑی ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا مرتبہ ارمغان افتخار احمد صدیقی ہے جو انھوں نے اپنے استاد کی یاد میں 2009 میں شایع کیا۔ نیز یہ کہ زیر نظر مجموعہ ایک ناچیز شاگرد کی جانب سے استادالاساتذہ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کی علمی ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کی نذر کیا جا رہا ہے۔''

پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری لکھتے ہیں کہ'' ان کی بنیادی شناخت ایک معلم کی ہے۔ اس اعتبار سے وہ اساتذہ کی اس روایت سے تعلق رکھتے ہیں جس میں حافظ محمود شیرانی، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی، سید وقار عظیم، ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی جیسی نابغہ روزگار ہستیاں شامل ہیں۔ ایک ادیب اور قلم کار کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب کا میدان تگ و تاز بہت وسیع اور ہمہ جہت رہا ہے۔ افسانہ، انشائیہ، خاکہ، تجزیہ، تنقید غرض اردو ادب کے کئی شعبوں میں انھوں نے قابل لحاظ اضافے کیے ہیں۔''

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی جنم بھومی مصریال اور تاریخ پیدائش 9 فروری 1940 ہے جب کہ سرکاری کاغذات میں 1942 درج ہے، وہ اپنے لڑکپن میں اپنی والدہ کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے، بچپن مصریال اور لڈے والا میں گزرا۔ انھوں نے عمر کے ابتدائی دنوں میں قرآن حفظ کرلیا تھا۔ ان کے چچا عبدالرحمن نے ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ ان کا ایک دینی گھرانے سے تعلق تھا۔


1957 میں انھوں نے گورنمنٹ کالج سرگودھا میں انٹرمیڈیٹ کے لیے داخلہ لیا۔ 1960 میں ایف اے کے امتحان میں درجہ اول وظیفے کے ساتھ حاصل کیا۔ یہ وہی دور تھا جب انھوں نے ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریر و تقاریر سے استفادہ کیا۔ ڈاکٹر ہاشمی کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوتا ہے انھوں نے طالب علمی کے زمانے میں اخبار و رسائل کے لیے مضامین لکھے اور جو رقم قلم کاری کے نتیجے میں وصول ہوتی اس سے وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتے۔

انھوں نے اہم شخصیات جن میں مولانا مودودی، نواب زادہ نصر اللہ خان اور اے کے بروہی وغیرہ کی سیاسی و معاشرتی تقاریر کی رپورٹنگ بھی کی۔ انھیں روزنامہ ''مشرق'' میں معاون مدیر کی حیثیت سے ملازمت کا ایک موقعہ بھی میسر آیا لیکن ہاشمی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے پیشہ پیغمبری کے لیے چن لیا تھا، لہٰذا انھوں نے معلمی کو صحافت پر ترجیح دی۔ انھوں نے کئی علمی اداروں میں تعلیم کے فروغ اور اپنے شاگردوں کو اسلامی شعار سے آگاہ کیا کہ انسان اسی وقت دین و دنیا میں عزت و فلاح پاتا ہے جب اوصاف حمیدہ اور اعلیٰ کردار کا مالک ہو۔

ہر اس شخص کو علامہ اقبال سے دلی عقیدت ہوتی ہے جو نبی آخرالزماں حضرت محمدؐ سے محبت اور آپؐ کی سنت اور اسوہ حسنہ پر عمل کرنا اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہے، یہی اس کی منزل مراد ہوتی ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کا سارا کلام عشق رسولؐ سے مرصع ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بھی اقبال اور اقبال کی شاعری کے مدح ہیں۔ ان کے پیغام خودی نے انھیں بھی بے خود کردیا ہے۔

انھوں نے اقبال کی عقیدت و محبت سے سرشار ہو کر علامہ اقبال کی نظم نگاری پر ایک نہیں کئی کتابیں لکھیں۔ ان کی پہلی تقرری گورنمنٹ کالج مری میں ہوئی۔ اسی دوران انھوں نے اپنی پہلی کتاب ''اقبال کی طویل نظمیں'' اسی دور میں تصنیف کی۔ اقبالیات پر 27 کتابیں اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر 24 کتابوں کے مصنف و مولف ہیں۔

بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوئے ان میں ترکی، اسپین، بھارت، جاپان، بیلجیم، جرمنی، برطانیہ، سعودی عرب اور فرانس شامل ہیں۔ 1989 ان کے لیے لازوال خوشیاں لایا گویا انھیں وہ منزل مل گئی جس کے وہ متلاشی اور تمنائی تھے۔ اس سال انھیں فریضہ حج کی ادائیگی کا موقعہ میسر آیا اور مبارک ساعتیں نصیب ہوئی جب انھوں نے روضہ رسولؐ کی زیارت کی۔

2002 میں دائتوبنکا یونیورسٹی جاپان کی دعوت پر جاپان کا مطالعاتی دورہ کیا۔ ان کی علمیت، قابلیت، کام اور کام کے نتیجے میں طلبا مستفید ہوئے۔ اورینٹل کالج میں ہاشمی صاحب کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کے گیارہ اور ایم اے اردو کے سینتالیس مقالات مکمل ہوئے۔ ان کی تحقیقی اور تدریسی کارکردگی کے حوالے سے انھیں ہائر ایجوکیشن کی طرف سے بیسٹ یونیورسٹی ٹیچر کا ایوارڈ دیا گیا۔

ان کے شاگرد بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور علم کی روشنی کو دور دور تک پھیلانے میں صبح و شام مصروف عمل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہاشمی صاحب نے انھیں یہی درس دیا ہے۔ ایک موقع پر انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے۔ ''ایک اچھے استاد کو شعوری طور پر احساس ہو کہ اس کا پیشہ دوسروں سے مختلف ہے لہٰذا اس کی زندگی حقیقی معنوں میں معلم کی زندگی ہو۔ وہ اصولوں، ضابطوں اور اقدار کا پابند ہو، باطل، شر، نمود و نمائش، شہرت، جاہ طلبی اور زر پرستی سے اسے کوئی علاقہ نہ ہو، اپنے تلامذہ کے حق میں ہمدرد، مخلص اور شفقت و محبت کا پیکر ہو اور اسے ہر دم فکر لاحق ہو کہ وہ اپنے شاگردوں کو اچھا انسان کیسے بنا سکتا ہے۔''

ڈاکٹر صاحب بہت سادہ مزاج، کم گو، صابر و شاکر اور بے حد مخلص انسان ہیں۔ میری یہ خوش بختی تھی کہ دو بار مجھے ان سے ملاقات کا شرف حاصل رہا۔ ایک بار ان کی صاحبزادی کے گھر واقع ملیر کینٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ دوسری بار ڈاکٹر معین الدین عقیل کے دولت کدے پر جہاں ہر ہفتے علم کی شمعیں روشن کی جاتی ہیں اور تشنگان علم مانند پروانوں کے جمع ہوتے ہیں اور روح کی پیاس بجھاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کئی کتابیں تحفتاً دیں جو مجھے ہمیشہ یاد دلائیں گی کہ ایک متقی، عالم اور صوفی بزرگ سے ملاقات ہوئی تھی۔ اللہ انھیں اور ان کے چاہنے والوں کو سلامت رکھے۔ (آمین)
Load Next Story