ایک گمبھیر مسئلہ اور اس کا بے مثال حل
عورتوں کی سرپرستی اور فلاح و بہبود کے لیے ایسی خوش تدبیری قبل مسیح کے ادوار میں بھی کسی نے نہیں کی تھی
یوں تو مملکت ناپرسان میں کوئی بھی باون گز سے کم نہیں ہے لیکن وہاں کے علمائے کرام اور مشائخ عظام کی دانائی، معاملہ شناسی اور ذہانت کے بڑے چرچے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہاں کے علمائے کرام اور مشائخ عظام اتنے ذہین اور ساتھ ہی ''فتین'' بھی ہیں کہ جن پرندوں کے سر پر پیر ہوتے ہیں ان کے سر پر اور پیر اڑتے اڑتے نہ صرف گن لیتے ہیں بلکہ اپنے اکاؤنٹ میں جمع بھی کر لیتے ہیں چنانچہ پچھلے دنوں اس مسئلے کو سلجھانے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ اگر مریخ پر انسان بس جائیں تو وہ کتنے روزے رکھیں گے اور کتنی نمازیں پڑھیں گے کہ اوپر سے ایک اور گمبھیر مسئلے نے سر اٹھا لیا، مسئلہ یہ تھا کہ مملکت ناپرسان کی حکومت چونکہ انسانوں کو خرچ کرنے کے سلسلے میں بہت زیادہ شاہ خرچ ہے اور پچھلے کچھ عرصے سے وہ دونوں ہاتھوں سے انسانوں کو خرچنے میں لگی ہوئی تھی اس لیے اچانک وہاں مردوں کی کمی اور عورتوں کی بہتات ہوگئی۔
حکمرانوں نے یہ مسئلہ علماء کرام اور مشائخ عظام کے آگے رکھا تو انھوں نے کمال خوش تدبیری سے اس کا ایسا زبردست حل نکالا کہ سارے ملک کے جاندار تو کیا نباتات و جمادات بھی عش عش کر اٹھے، عورتوں کی سرپرستی اور فلاح و بہبود کے لیے ایسی خوش تدبیری قبل مسیح کے ادوار میں بھی کسی نے نہیں کی تھی، ساری مملکت ابھی تک حیرت کے مارے سکتے میں مبتلا ہے کہ اتنا مشکل مسئلہ اور اتنا آسان حل ؟ ایسی چنگاریاں بھی یارب اپنے خاکستر میں تھیں، حل یہ تھا کہ مردوں کی کمی اور خواتین کی کثرت کے پیش نظر ہر مرد کو ایک سے زیادہ عورتوں کا سہارا بننا چاہیے اور چونکہ سہارا بننے کے لیے بہترین طریقہ صبالہ عقد ہے، اس لیے
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اس عظیم مسئلے اور اس عظیم حل پر چرچا کرنے کے لیے ہم نے مملکت ناپرسان سے ایک خصوصی دانشور جناب ''عقل دانہ'' کو زرکثیر صرف کر کے بلوایا ہے۔ ان کو سنگت دینے کے لیے ہمارے دو ماہرین اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ لیے ہوئے براجمان ہیں۔ یہ تو آپ کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یہ آپ کا اپنا چینل ہیاں سے ہواں تک اور پروگرام وہی چونچ بہ چونچ... تو شروع کرتے ہیں جناب عقل دانہ سے۔
اینکر : ہاں تو جناب عقل دانہ صاحب مملکت ناپرسان سے یہاں تک کا سفر خوش گوار تو رہا نا...
عقل : بیحد... آپ تو جانتے ہیں کہ مملکت ناپرسان کی قومی ایئر لائن ٹی آئی اے دنیا کی بہترین ائر لائن ہے۔
اینکر : ٹی آئی اے... سے کیا بنتا ہے؟
عقل : ٹرٹل انٹرنیشنل ایئر لائن۔
اینکر : یہ وہی تو نہیں جس میں باکمائی لوگ اور لاجونتی سروس ہوتی ہے۔
عقل : وہی وہی ہے میں اسی سروس کے ایک جدید ترین طیارے بمبو بٹ سے یہاں پہنچا ہوں۔
اینکر : اچھا یہ مملکت ناپرسان میں جو مسئلہ پیدا ہوا تھا اور اس کا جو لاجواب حل نکالا گیا ہے اس کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتائیں۔
عقل : تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مملکت میں مردوں کی شدید قلت ہو گئی تھی کیونکہ پیداوار کم اور کھپت یعنی خرچ بہت زیادہ تھا۔
چشم : یہ آپ آدمیوں کے بارے میں ''خرچنے اور چنے'' کے الفاظ کیوں استعمال کرتے ہیں۔
عقل : کیونکہ مملکت ناپرسان میں آدمی پیدا نہیں ہوتے بلکہ اگتے ہیں یا کمائے جاتے ہیں، اس لیے مرنے کو بھی خرچنا کہتے ہیں۔
علامہ : ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آدمی مرتے خود ہیں لیکن خرچتا کوئی اور ہے۔
عقل : ٹھیک سمجھے... تھوڑی سی وضاحت اور بھی کر دوں کہ مملکت ناپرسان میں انسان اور ہندسوں کی ویلیو ایک ہی ہے، اس لیے اس کا استعمال یعنی ضرب جمع منفی تقسیم و تفریق بھی ہندسوں کی طرح کی جاتی ہے۔
اینکر : یہ چھوڑیئے اصل مسئلے پر آیئے۔
عقل : اصل مسئلہ... وہی ہے نا کہ زیادہ اور جگہ جگہ بے پناہ خرچنے سے آدمیوں کی قلت ہو گئی۔
چشم : ایک تو ہم جانتے ہیں کہ انسان امراض جنگ و جدل اور دھماکوں وغیرہ میں خرچ ہوتے ہیں لیکن یہ وغیرہ وغیرہ کیا ہے۔
عقل : دراصل جنگوں کے علاوہ ناپرسان کے لوگوں کو کنٹینروں، سرحدوں اور جہازوں لانچوں میں مرنے کا بہت شوق ہے، خرچنے کا۔
چشم : جاری رکھیے۔
عقل : مردوں کی قلت کا نتیجہ عورتوں کی کثرت کی صورت میں نکلا اور بہت بڑی تعداد میں عورتیں بے سہارا ہو گئیں۔
علامہ : اچھا پھر۔
چشم : بے سہارا عورتوں کی سن کر آپ کے چہرے کی رونق کچھ اور زیادہ بڑھ رہی ہے۔
علامہ : چپ کرو ملعون... میں درد دل رکھنے والا آدمی ہوں عورتوں کی کسمپرسی کا سن کر دل بھر آیا ہے۔
چشم : بھر نہیں آیا بلکہ خالی ہو گیا ہے، دو تین نکاحوں کے لیے۔
علامہ : تو کیا برا ہے، کسی بے سہارے کو سہارا دینا تو کار ثواب ہے۔
چشم : خاص طور پر بے سہارا خواتین کا سہارا بننا تو کوئی آپ سے سیکھے۔
اینکر : آپ لوگ پلیز... چپ ہو جایئے ہاں تو جناب عقل دانہ صاحب۔
عقل : پھر کیا تھا اہل درد کی ناپرسان میں بھی کوئی کمی نہیں ہے چنانچہ حکومت نے کمال رعایا پروری سے کام لے کر ماہرین کو بٹھایا اور مسئلے کا حل چٹکیوں میں نکال لیا۔
اینکر : اس حل کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتایئے۔
عقل : تفصیل یہ ہے کہ حکومت نے عوام سے درخواست کی ہے کہ ان بے سہارا عورتوں کو سہارا دیا جائے جو لوگ لیٹے ہیں، وہ بیٹھ جائیں جو بیٹھے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں جو کھڑے ہیں وہ چل پڑیں اور جو چلے ہیں وہ دوڑ پڑیں۔
چشم : جو غیر شادی شدہ ہیں جن کی ایک بیوی ہے وہ دو کر لیں جن کی دو ہیں وہ تین اور جن کی تین ہیں وہ چار کو سہارا دیں ۔
علامہ : ہر اچھے شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنی حکومت سے تعاون کرے۔
چشم : اور پھر جب تعاون نکاح کی صورت میں ہو۔
اینکر : تو لوگوں نے حکومت سے تعاون کیا۔
عقل : بڑے وسیع پیمانے پر۔
چشم : میرے ذہن میں ایک اور آئیڈیا آیا ہے۔
علامہ : جیسا تمہارا سڑا ہوا ذہن ہے ویسا ہی سڑا ہوا آئیڈیا بھی ہو گا۔
عقل : سن تو لیں۔
چشم : آئیڈیا یہ ہے کہ ناپرسان کے پڑوس میں جو ''ناگمان'' نام کا ملک ہے، سنا ہے وہاں عورتوں کی کمی ہو رہی ہے۔
عقل : سچ سنا ہے... دراصل وہاں کے لوگ ایک تو بنیے ہیں، لڑائی بھڑائی سے دور رہتے ہیں اس لیے مردوں کے خرچنے سے بچے ہوئے ہیں۔
چشم : لیکن میں نے تو کچھ اور سنا ہے۔
عقل : وہی بتا رہا ہوں وہاں پیدائش سے پہلے بچے کی جنس معلوم کرنے کی ٹیکنالوجی بہت زیادہ استعمال کی جارہی ہے اور لڑکی ہونے کی صورت میں بچیاں ضایع کر دی جاتی ہیں۔
علامہ : یہ تو بڑے ظالم لوگ ہیں بچیاں بھی کوئی ضایع کرنے کی چیز ہیں۔
چشم : میرا مطلب یہ ہے کہ آپ فالتو عورتوں کو وہاں کیوں نہیں برآمد کرتے۔
عقل : ایک تو ناپرسان سے ہمارے تعلقات ایسے نہیں ہیں لیکن پھر بھی ہم کوشش کر رہے ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں ''برآمد'' کی جارہی ہے۔
اینکر : کیا یہ ایک سے زیادہ بیویاں لوگوں پر بوجھ نہیں بنیں گی۔
علامہ : بیوی کبھی بوجھ نہیں ہوتی... اس کے بارے میں غالب کی طرح میرا قول زریں ہے کہ زیادہ ہوں اور جوان ہوں۔
چشم : تو پھر چلیے نا... ہم بھی ناپرسان چلتے ہیں۔
علامہ : تم وہاں جا کر کیا کرو گے تمہاری تو آنکھ بھی ایک ہے۔
اینکر : یہ تو اور بھی اچھا ہے ساری بیویوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے گا۔
علامہ : ایک نہیں بل کہ آدھی نظر کہیے اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس آدھی نظر والے کو بیوی بھی آدھی ہی ملے گی گونگی اور بہری۔
عقل : وہ تو پھر کچھ بھی نہیں ہوئی بھلا گونگی اور بہری بھی ہو تو اسے عورت کون کہے گا کیوں کہ عورت تو ''زبان'' کا نام ہے۔
حکمرانوں نے یہ مسئلہ علماء کرام اور مشائخ عظام کے آگے رکھا تو انھوں نے کمال خوش تدبیری سے اس کا ایسا زبردست حل نکالا کہ سارے ملک کے جاندار تو کیا نباتات و جمادات بھی عش عش کر اٹھے، عورتوں کی سرپرستی اور فلاح و بہبود کے لیے ایسی خوش تدبیری قبل مسیح کے ادوار میں بھی کسی نے نہیں کی تھی، ساری مملکت ابھی تک حیرت کے مارے سکتے میں مبتلا ہے کہ اتنا مشکل مسئلہ اور اتنا آسان حل ؟ ایسی چنگاریاں بھی یارب اپنے خاکستر میں تھیں، حل یہ تھا کہ مردوں کی کمی اور خواتین کی کثرت کے پیش نظر ہر مرد کو ایک سے زیادہ عورتوں کا سہارا بننا چاہیے اور چونکہ سہارا بننے کے لیے بہترین طریقہ صبالہ عقد ہے، اس لیے
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اس عظیم مسئلے اور اس عظیم حل پر چرچا کرنے کے لیے ہم نے مملکت ناپرسان سے ایک خصوصی دانشور جناب ''عقل دانہ'' کو زرکثیر صرف کر کے بلوایا ہے۔ ان کو سنگت دینے کے لیے ہمارے دو ماہرین اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ لیے ہوئے براجمان ہیں۔ یہ تو آپ کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یہ آپ کا اپنا چینل ہیاں سے ہواں تک اور پروگرام وہی چونچ بہ چونچ... تو شروع کرتے ہیں جناب عقل دانہ سے۔
اینکر : ہاں تو جناب عقل دانہ صاحب مملکت ناپرسان سے یہاں تک کا سفر خوش گوار تو رہا نا...
عقل : بیحد... آپ تو جانتے ہیں کہ مملکت ناپرسان کی قومی ایئر لائن ٹی آئی اے دنیا کی بہترین ائر لائن ہے۔
اینکر : ٹی آئی اے... سے کیا بنتا ہے؟
عقل : ٹرٹل انٹرنیشنل ایئر لائن۔
اینکر : یہ وہی تو نہیں جس میں باکمائی لوگ اور لاجونتی سروس ہوتی ہے۔
عقل : وہی وہی ہے میں اسی سروس کے ایک جدید ترین طیارے بمبو بٹ سے یہاں پہنچا ہوں۔
اینکر : اچھا یہ مملکت ناپرسان میں جو مسئلہ پیدا ہوا تھا اور اس کا جو لاجواب حل نکالا گیا ہے اس کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتائیں۔
عقل : تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مملکت میں مردوں کی شدید قلت ہو گئی تھی کیونکہ پیداوار کم اور کھپت یعنی خرچ بہت زیادہ تھا۔
چشم : یہ آپ آدمیوں کے بارے میں ''خرچنے اور چنے'' کے الفاظ کیوں استعمال کرتے ہیں۔
عقل : کیونکہ مملکت ناپرسان میں آدمی پیدا نہیں ہوتے بلکہ اگتے ہیں یا کمائے جاتے ہیں، اس لیے مرنے کو بھی خرچنا کہتے ہیں۔
علامہ : ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آدمی مرتے خود ہیں لیکن خرچتا کوئی اور ہے۔
عقل : ٹھیک سمجھے... تھوڑی سی وضاحت اور بھی کر دوں کہ مملکت ناپرسان میں انسان اور ہندسوں کی ویلیو ایک ہی ہے، اس لیے اس کا استعمال یعنی ضرب جمع منفی تقسیم و تفریق بھی ہندسوں کی طرح کی جاتی ہے۔
اینکر : یہ چھوڑیئے اصل مسئلے پر آیئے۔
عقل : اصل مسئلہ... وہی ہے نا کہ زیادہ اور جگہ جگہ بے پناہ خرچنے سے آدمیوں کی قلت ہو گئی۔
چشم : ایک تو ہم جانتے ہیں کہ انسان امراض جنگ و جدل اور دھماکوں وغیرہ میں خرچ ہوتے ہیں لیکن یہ وغیرہ وغیرہ کیا ہے۔
عقل : دراصل جنگوں کے علاوہ ناپرسان کے لوگوں کو کنٹینروں، سرحدوں اور جہازوں لانچوں میں مرنے کا بہت شوق ہے، خرچنے کا۔
چشم : جاری رکھیے۔
عقل : مردوں کی قلت کا نتیجہ عورتوں کی کثرت کی صورت میں نکلا اور بہت بڑی تعداد میں عورتیں بے سہارا ہو گئیں۔
علامہ : اچھا پھر۔
چشم : بے سہارا عورتوں کی سن کر آپ کے چہرے کی رونق کچھ اور زیادہ بڑھ رہی ہے۔
علامہ : چپ کرو ملعون... میں درد دل رکھنے والا آدمی ہوں عورتوں کی کسمپرسی کا سن کر دل بھر آیا ہے۔
چشم : بھر نہیں آیا بلکہ خالی ہو گیا ہے، دو تین نکاحوں کے لیے۔
علامہ : تو کیا برا ہے، کسی بے سہارے کو سہارا دینا تو کار ثواب ہے۔
چشم : خاص طور پر بے سہارا خواتین کا سہارا بننا تو کوئی آپ سے سیکھے۔
اینکر : آپ لوگ پلیز... چپ ہو جایئے ہاں تو جناب عقل دانہ صاحب۔
عقل : پھر کیا تھا اہل درد کی ناپرسان میں بھی کوئی کمی نہیں ہے چنانچہ حکومت نے کمال رعایا پروری سے کام لے کر ماہرین کو بٹھایا اور مسئلے کا حل چٹکیوں میں نکال لیا۔
اینکر : اس حل کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتایئے۔
عقل : تفصیل یہ ہے کہ حکومت نے عوام سے درخواست کی ہے کہ ان بے سہارا عورتوں کو سہارا دیا جائے جو لوگ لیٹے ہیں، وہ بیٹھ جائیں جو بیٹھے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں جو کھڑے ہیں وہ چل پڑیں اور جو چلے ہیں وہ دوڑ پڑیں۔
چشم : جو غیر شادی شدہ ہیں جن کی ایک بیوی ہے وہ دو کر لیں جن کی دو ہیں وہ تین اور جن کی تین ہیں وہ چار کو سہارا دیں ۔
علامہ : ہر اچھے شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنی حکومت سے تعاون کرے۔
چشم : اور پھر جب تعاون نکاح کی صورت میں ہو۔
اینکر : تو لوگوں نے حکومت سے تعاون کیا۔
عقل : بڑے وسیع پیمانے پر۔
چشم : میرے ذہن میں ایک اور آئیڈیا آیا ہے۔
علامہ : جیسا تمہارا سڑا ہوا ذہن ہے ویسا ہی سڑا ہوا آئیڈیا بھی ہو گا۔
عقل : سن تو لیں۔
چشم : آئیڈیا یہ ہے کہ ناپرسان کے پڑوس میں جو ''ناگمان'' نام کا ملک ہے، سنا ہے وہاں عورتوں کی کمی ہو رہی ہے۔
عقل : سچ سنا ہے... دراصل وہاں کے لوگ ایک تو بنیے ہیں، لڑائی بھڑائی سے دور رہتے ہیں اس لیے مردوں کے خرچنے سے بچے ہوئے ہیں۔
چشم : لیکن میں نے تو کچھ اور سنا ہے۔
عقل : وہی بتا رہا ہوں وہاں پیدائش سے پہلے بچے کی جنس معلوم کرنے کی ٹیکنالوجی بہت زیادہ استعمال کی جارہی ہے اور لڑکی ہونے کی صورت میں بچیاں ضایع کر دی جاتی ہیں۔
علامہ : یہ تو بڑے ظالم لوگ ہیں بچیاں بھی کوئی ضایع کرنے کی چیز ہیں۔
چشم : میرا مطلب یہ ہے کہ آپ فالتو عورتوں کو وہاں کیوں نہیں برآمد کرتے۔
عقل : ایک تو ناپرسان سے ہمارے تعلقات ایسے نہیں ہیں لیکن پھر بھی ہم کوشش کر رہے ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں ''برآمد'' کی جارہی ہے۔
اینکر : کیا یہ ایک سے زیادہ بیویاں لوگوں پر بوجھ نہیں بنیں گی۔
علامہ : بیوی کبھی بوجھ نہیں ہوتی... اس کے بارے میں غالب کی طرح میرا قول زریں ہے کہ زیادہ ہوں اور جوان ہوں۔
چشم : تو پھر چلیے نا... ہم بھی ناپرسان چلتے ہیں۔
علامہ : تم وہاں جا کر کیا کرو گے تمہاری تو آنکھ بھی ایک ہے۔
اینکر : یہ تو اور بھی اچھا ہے ساری بیویوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے گا۔
علامہ : ایک نہیں بل کہ آدھی نظر کہیے اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس آدھی نظر والے کو بیوی بھی آدھی ہی ملے گی گونگی اور بہری۔
عقل : وہ تو پھر کچھ بھی نہیں ہوئی بھلا گونگی اور بہری بھی ہو تو اسے عورت کون کہے گا کیوں کہ عورت تو ''زبان'' کا نام ہے۔