پاکستان کی ویسٹ انڈیز سے شکست پر میں کیوں اُداس ہوں

جس نے اچھا کھیل وہی فتحیات ہوا کیونکہ جب کھیل ہوتا ہے کہ یقینی طور پر ایک کو فتح نصیب ہوتی ہے

جس نے اچھا کھیل وہی فتحیات ہوا کیونکہ جب کھیل ہوتا ہے کہ یقینی طور پر ایک کو فتح نصیب ہوتی ہے۔ فوٹو: رائٹرز

میں روزانہ ایسے لوگوں میں اُٹھتا بیٹھتا ہوں جو غیر ملکی فلمیں دیکھنے کے لیے مسلسل فرسٹ شو کے حصول کی تگ ودو میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ جو دن بھر پاکستان کے حالات پر کڑتے ہیں اور دنیاکے باقی حصوں میں رائج جمہوریت کے نظام کو مثال بنا کر پیش کررہے ہوتے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ مسلسل اس کوشش اورانتظار میں بھی ہوتے ہیں کہ کب بیرون ملک ملازمت کا موقع ہاتھ لگ جائے اور کب انہیں اس گھٹن کے ماحول سے نکل کر سکون اور راحت کے لمحات نصیب ہوں۔



یہ ایک مثبت رویہ ہے کہ جب بھی پاکستان ٹیم کھیل کے میدان میں قدم رکھتی ہے سب پاکستانی بن جاتے ہیں لیکن دنیا بھر میں جمہوریت کی تعریف کرنے والے کسی شخص کو بھی اپنی رائے کے اظہار کا حق نہیں دیتے۔ یعنی اگر کسی سے یہ غلطی ہوجائے کہ وہ پاکستان کے مقابل کھیلنے والی ٹیم کی حمایت کرے تو لوگ اُس کو غدار کہنے سے بھی نہیں کتراتے ۔

چلیں میں اپنی ہی مثال دیے دیتا ہوں۔ اگر میں سیاسی، نظریاتی اور جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کا حامی ہوں اور محض کرکٹ کے میدان میں مخالف ٹیم کا ساتھ دوں تو میری حب الوطنی پر سوالیہ نشان کیسے لگ جائے گا؟ مخالف ٹیم کی حمایت کی کوئی اور وجہ نہیں سوائے اس کے کہ میں کھیل کو کھیل سمجھتا ہوں اور اس سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ میرے لیے کھیل کبھی بھی زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں بنا اور نہ ہی میں بنانا چاہتا ہوں۔ میری ذاتی رائے یہی ہے کہ پاکستان ٹیم جب میدان میں فتح سے ہمکنار ہوتی ہے توچند لمحات میسر آنے والی خوشی کے سوا پاکستان کو کچھ نصیب نہیں ہوتا، ہاں 10، 12 اموات کا تحفہ ضرور ساتھ ہی ساتھ مل جاتا ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے مگر ہم اب بھی خوشی کے موقع پر جشن کے طریقے کو نہیں سیکھ سکے۔




آج صبح سے خبریں موصول ہورہی تھی کہ لوگ پاکستان کی فتح کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر دعائیں کررہے تھے ۔ لوگ اس بات کے خواہش مند تھے کہ ویسٹ انڈیز کو شکست دیکرپاکستان سیمی فائنل میں جگہ بنالے۔میں سوچ رہا تھا کہ اس ملک میں تو ایسے مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں جن پر قوم کی دعاؤں کی اشد ضرورت ہے لیکن ظاہر ہے ایک ضروری مصروفیت کے سبب لوگ اُن مسائل کو بھول چکے تھے۔ لیکن اب ایک اچھی بات یہ ہوگئی کہ پاکستان شکست سے دوچار ہوگئی ہے کہ اور لوگوں کو فراغت میسر آگئی ہے جس کے بعد اب مجھے اُمید ہوچلی ہے کہ لوگوں کو اُن مسائل کے حل کے لیے بھی دعا کرنے کے مواقع نصیب ہوسکیں گے۔

اس لیے میں بالکل بھی اُداس نہیں ہوں کہ پاکستان سیمی فائنل میں نہیں پہنچ سکا۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ میں اپنا اور قو م کا مزید وقت ضائع کرنے کا ہرگز خواہشمند نہیں ہوں اور دوسری وجہ ہے کہ یہ تو محض کھیل ہے۔ جس نے اچھا کھیل وہی فتحیات ہوا کیونکہ جب کھیل ہوتا ہے کہ یقینی طور پر ایک کو فتح نصیب ہوتی ہے اور ایک کو شکست۔اس لیے آپ سے بھی گزارش ہے کہ جتنا وقت ضائع ہوگیااُسی پر اکتفا کیجیے خدارا افسوس کے نام پراور میچ میں ہونے والی خامیوں کو زیر بحث لاکر مزید وقت ضائع نہ کیجیے۔ آپ اس ملک کے معمار اور مستقبل ہیں ۔اپنا وقت ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے صرف کریں کیونکہ اس ملک کو آپ کے قیمتی وقت کی اشد ضرورت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[poll id="214"]

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story