یا حضرت مولانا پہلا حصہ
قونیا کے دربار کا فیض ہر کس و ناکس کے لیے عام ہے لیکن کبھی کبھی باران رحمت جوش میں بھی آ جاتی ہے
اچھی کتاب تو وہی ہے جو آپ کے من کو ٹٹولے اوراس میں چھپا کچا چھٹا نکال کر باہر رکھ دے۔ ایسی ہی ایک کتاب عزیزم وسیم تارڑنے گزشتہ دنوں لکھ دی ہے۔
یہ اسی کتاب کا فیض ہے جس نے میری یادداشت کے کسی نہاں خانے میں چھپے ہوئے ''دوست'' کو ڈھونڈ نکالا۔ یہ دوست کون تھا، اسے جاننے کے لیے چھوٹی سی ایک داستان سے گزرنا لازم ہے۔
اس کی دکان تک پہنچنے کے لیے چند سیڑھیاں چڑھ کر بائیں طرف پلٹنا پڑتا تھا۔ اس دکان کے اندر سے مزید سیڑھیاں پھوٹتی تھیں یا نہیں، میں یقین سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن لگتا یہی تھا۔
کسی مینار کی طرح منزل بہ منزل اوپر چڑھتے جاؤ، بیچ میں سستاؤ پھر اوپر۔ وہ اس مینار کی پہلی منزل پر تھا۔ اس کے سر پر طلائی کام والی ٹوپی تھی، اس کے علاوہ تہہ در تہہ نقش بناتی واسکٹ تھی جیسی گلی کی نکڑ پر چھرے والی بندوق سے غباروں پر نشانے بازی کرانے والا پٹھان بھائی پہنا کرتا تھا ۔
وہ چھوٹے قد کے ایک ایسے بینچ پر بیٹھا تھا جس پر بیٹھ کر گھٹنے ذرا سا اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ اس کے دونوں گھٹنے اوپر تھے جو ایک چھوٹی سی میز کا کام دے رہے تھے۔ اس میز پر ایک منقش کپڑا تھا جس کا ایک کونا اس کے دست ہنر سے نکھر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ کی سوئی تیزی سے حرکت میں آتی اور رنگین دھاگے سے ٹانکا لگا کر ایک نیا نقش اجاگر کر دیتی۔
ہمیں دیکھ کر اس نے کسی ہرے بھرے گلشن کی طرح خوشبو دیتا ہوا کپڑا ایک طرف رکھا اور پھرتی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی دکان میں جھالریں لٹکی تھی، فرغل اور چوغے تھے، ٹوپیاں تھیں، نیز تسبیحیں ۔ یہ سب کچھ ہماری قبائلی روایت کے عین مطابق تھا ، ہماری بیٹیاں جسے شوق سے پہن کر اسکول کی تقریبات میں جاتی ہیں۔ اس نے جان لیا کہ ہم پاکستانی ہیں۔
یہ جان لینا کہ ہم پاکستانی ہیں، دیار غیر میں زیادہ مشکل نہیں ہوتا لیکن یہ پہچان اتار کر ہم نے گاڑی میں رکھ دی تھی اور اجنبی سیاحوں کی طرح دکانوں میں جھانکتے پھر رہے تھے۔ یہی تانکا جھانکی ہمیں ان سیڑھیوں تک لائی جہان ''دوست''سے ہماری ملاقات ہوئی۔
آئین میں ترمیم کے بعد ترکی میں انتخابات ہو چکے تھے اور رجب طیب ایردوآن بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہو چکے تھے۔ ہماری یہاں آمد ان کی حلف برداری میں شرکت کی تقریب سے ہوئی تھی۔ تقریب میں شرکت کے لیے جب وہ مقررہ مقام پر پہنچے تو ان کے قافلے کی شان دیکھنے والی تھی۔ جاہ و جلال اور وہ تمام لوازمات جو دیکھنے والے کی نگاہیں خیرہ کر دیں۔
یہ مناظر ٹیلی ویژن اسکرین پر بار بار چلے جنھیں پوری دنیا نے دیکھا اور ابھرتی ہوئی حقیقت کو دیکھ کر اپنے اپنے تعصبات کے مطابق رائے قائم کی۔ قافلے میں سرد و گرم چشیدہ ایک خاتون بھی تھی، غیر سرکاری حیثیت میں وہ ہماری بہن تھیں اور تجربے وسعت اور مرتبے کی بزرگی کے وصف سے قافلہ سالار۔ انھوں نے اِن مناظرسے شادکام ہوتے ہوئے کہا کہ شاہانہ اور باوقار۔
جن دنوں سفر کی تیاریاں جاری تھیں، ایک نشست میں برسوں سے حالات کے جبر تلے کہیں دبی ہوئی یہ خواہش انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہوئی کہ ترکیہ گئے اور قونیہ نہ گئے، حضرت اقبال ؒ کو منہ کیسے دکھائیں گے؟ ممنون صاحب سربراہ ریاست ضرور تھے لیکن تھے تو فی الاصل صوفی۔ شب بیداری اور نفلی صوم و صلوٰۃکے اہتمام نے جہاں ان میں سوز و گداز کی کیفیات پیدا کر دی تھیں، وہیں وجدان کی نعمت بھی قدرت سے انھیں ارزاں ہوئی تھی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میرے دل میں اٹھنے والے مد و جزر کی کیفیات ان پر عیاں ہو جائیں گی۔
یہ خیال جانے کس کے ذہن رسا کی پیداوار تھا کہ صدر مملکت کی ملاقات کی میز پر ڈرائی فروٹ بھی ہونے چاہئیں۔ میں نے کئی بار اس ایوان کے پرانے افسروں اور خدمت گاروں کو کریدا۔ ہر ایک کا کہنا یہی تھا کہ ہم تو ہمیشہ سے یہی دیکھتے آئے ہیں۔
کسی نشست کے بعد بھی کبھی بیٹھنے کا موقع میسر آ جاتا تو ہم دیکھتے کہ صدر صاحب کبھی کبھار کوئی دانہ کشمش کا یا کاجو چبا لیتے، ایسا کرتے ہوئے وہ حاضرین محفل کو بھی ترغیب دیتے۔ کوئی بیوروکریٹ صدر مملکت کے سامنے ان مغزیات سے لطف اندوز ہوں، ایسا کبھی دیکھا نہیں گیا لیکن کی ترغیب کے بعد انکار حکم عدولی سمجھی جاتی۔
مجھے بالکل سامنے کی طرح یاد ہے کہ کاجو کا ایک مختصر سا ٹکڑا چبانے کے بعد انھوں نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ کیا سوچ رہے ہیں، فاروق صاحب؟ لحظہ توقف کے بعد میں نے دل کی بات کہہ دی تو خیال آمیز لہجے میں کہنے لگے کہ اچھا یاد دلایا۔ میری بھی یہ دیرینہ خواہش تھی۔ ہم سب چلیں گے۔
قونیا کے دربار کا فیض ہر کس و ناکس کے لیے عام ہے لیکن کبھی کبھی باران رحمت جوش میں بھی آ جاتی ہے۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ ہمارے اس سفر کے دوران میں مرقد معمول کی مرمت اور تزئین و آرائش کے لیے بند تھا۔ ترکیہ میں سال میں ایک بار ایسے تمام مقامات کو بند کر کے انھیں بحال کرنے کے لیے بڑی سے کام کیا جاتا ہے۔ اس انتظام سے زائرین کو کوفت تو ہوتی ہے لیکن یہ ضروری ہے۔ مجھے اس کی سمجھ اپنے بچوں کو لاہور کی بادشاہی مسجد دکھاتے ہوئے آئی۔
مسجد کے حسن اور اس کی زیب و آرائش کا اپنی تمام تر سادگی کے باوجود دنیا میں کوئی ثانی نہیں لیکن میں یہ دیکھ کر دکھی ہو گیا کہ اس کی چمکتی ہوئی دیواروں پر زائرین کے چھونے سے لگنے والی میل کی تہیں جمی ہوئی ہیں۔
حضرت مولاناؒ کے مزار کی جزوی بندش کا معلوم ہواتو میرے ذہن میں بادشاہی مسجد کے حسن کو پامال کرنے والے تکلیف دہ مناظرابھر آئے، اس کے ساتھ ہی ترکوں کے حسن انتظام پر پیار آیا اور اپنے ورثے سے تعلق پر رشک بھی۔
(جاری ہے)
یہ اسی کتاب کا فیض ہے جس نے میری یادداشت کے کسی نہاں خانے میں چھپے ہوئے ''دوست'' کو ڈھونڈ نکالا۔ یہ دوست کون تھا، اسے جاننے کے لیے چھوٹی سی ایک داستان سے گزرنا لازم ہے۔
اس کی دکان تک پہنچنے کے لیے چند سیڑھیاں چڑھ کر بائیں طرف پلٹنا پڑتا تھا۔ اس دکان کے اندر سے مزید سیڑھیاں پھوٹتی تھیں یا نہیں، میں یقین سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن لگتا یہی تھا۔
کسی مینار کی طرح منزل بہ منزل اوپر چڑھتے جاؤ، بیچ میں سستاؤ پھر اوپر۔ وہ اس مینار کی پہلی منزل پر تھا۔ اس کے سر پر طلائی کام والی ٹوپی تھی، اس کے علاوہ تہہ در تہہ نقش بناتی واسکٹ تھی جیسی گلی کی نکڑ پر چھرے والی بندوق سے غباروں پر نشانے بازی کرانے والا پٹھان بھائی پہنا کرتا تھا ۔
وہ چھوٹے قد کے ایک ایسے بینچ پر بیٹھا تھا جس پر بیٹھ کر گھٹنے ذرا سا اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ اس کے دونوں گھٹنے اوپر تھے جو ایک چھوٹی سی میز کا کام دے رہے تھے۔ اس میز پر ایک منقش کپڑا تھا جس کا ایک کونا اس کے دست ہنر سے نکھر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ کی سوئی تیزی سے حرکت میں آتی اور رنگین دھاگے سے ٹانکا لگا کر ایک نیا نقش اجاگر کر دیتی۔
ہمیں دیکھ کر اس نے کسی ہرے بھرے گلشن کی طرح خوشبو دیتا ہوا کپڑا ایک طرف رکھا اور پھرتی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی دکان میں جھالریں لٹکی تھی، فرغل اور چوغے تھے، ٹوپیاں تھیں، نیز تسبیحیں ۔ یہ سب کچھ ہماری قبائلی روایت کے عین مطابق تھا ، ہماری بیٹیاں جسے شوق سے پہن کر اسکول کی تقریبات میں جاتی ہیں۔ اس نے جان لیا کہ ہم پاکستانی ہیں۔
یہ جان لینا کہ ہم پاکستانی ہیں، دیار غیر میں زیادہ مشکل نہیں ہوتا لیکن یہ پہچان اتار کر ہم نے گاڑی میں رکھ دی تھی اور اجنبی سیاحوں کی طرح دکانوں میں جھانکتے پھر رہے تھے۔ یہی تانکا جھانکی ہمیں ان سیڑھیوں تک لائی جہان ''دوست''سے ہماری ملاقات ہوئی۔
آئین میں ترمیم کے بعد ترکی میں انتخابات ہو چکے تھے اور رجب طیب ایردوآن بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہو چکے تھے۔ ہماری یہاں آمد ان کی حلف برداری میں شرکت کی تقریب سے ہوئی تھی۔ تقریب میں شرکت کے لیے جب وہ مقررہ مقام پر پہنچے تو ان کے قافلے کی شان دیکھنے والی تھی۔ جاہ و جلال اور وہ تمام لوازمات جو دیکھنے والے کی نگاہیں خیرہ کر دیں۔
یہ مناظر ٹیلی ویژن اسکرین پر بار بار چلے جنھیں پوری دنیا نے دیکھا اور ابھرتی ہوئی حقیقت کو دیکھ کر اپنے اپنے تعصبات کے مطابق رائے قائم کی۔ قافلے میں سرد و گرم چشیدہ ایک خاتون بھی تھی، غیر سرکاری حیثیت میں وہ ہماری بہن تھیں اور تجربے وسعت اور مرتبے کی بزرگی کے وصف سے قافلہ سالار۔ انھوں نے اِن مناظرسے شادکام ہوتے ہوئے کہا کہ شاہانہ اور باوقار۔
جن دنوں سفر کی تیاریاں جاری تھیں، ایک نشست میں برسوں سے حالات کے جبر تلے کہیں دبی ہوئی یہ خواہش انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہوئی کہ ترکیہ گئے اور قونیہ نہ گئے، حضرت اقبال ؒ کو منہ کیسے دکھائیں گے؟ ممنون صاحب سربراہ ریاست ضرور تھے لیکن تھے تو فی الاصل صوفی۔ شب بیداری اور نفلی صوم و صلوٰۃکے اہتمام نے جہاں ان میں سوز و گداز کی کیفیات پیدا کر دی تھیں، وہیں وجدان کی نعمت بھی قدرت سے انھیں ارزاں ہوئی تھی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میرے دل میں اٹھنے والے مد و جزر کی کیفیات ان پر عیاں ہو جائیں گی۔
یہ خیال جانے کس کے ذہن رسا کی پیداوار تھا کہ صدر مملکت کی ملاقات کی میز پر ڈرائی فروٹ بھی ہونے چاہئیں۔ میں نے کئی بار اس ایوان کے پرانے افسروں اور خدمت گاروں کو کریدا۔ ہر ایک کا کہنا یہی تھا کہ ہم تو ہمیشہ سے یہی دیکھتے آئے ہیں۔
کسی نشست کے بعد بھی کبھی بیٹھنے کا موقع میسر آ جاتا تو ہم دیکھتے کہ صدر صاحب کبھی کبھار کوئی دانہ کشمش کا یا کاجو چبا لیتے، ایسا کرتے ہوئے وہ حاضرین محفل کو بھی ترغیب دیتے۔ کوئی بیوروکریٹ صدر مملکت کے سامنے ان مغزیات سے لطف اندوز ہوں، ایسا کبھی دیکھا نہیں گیا لیکن کی ترغیب کے بعد انکار حکم عدولی سمجھی جاتی۔
مجھے بالکل سامنے کی طرح یاد ہے کہ کاجو کا ایک مختصر سا ٹکڑا چبانے کے بعد انھوں نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ کیا سوچ رہے ہیں، فاروق صاحب؟ لحظہ توقف کے بعد میں نے دل کی بات کہہ دی تو خیال آمیز لہجے میں کہنے لگے کہ اچھا یاد دلایا۔ میری بھی یہ دیرینہ خواہش تھی۔ ہم سب چلیں گے۔
قونیا کے دربار کا فیض ہر کس و ناکس کے لیے عام ہے لیکن کبھی کبھی باران رحمت جوش میں بھی آ جاتی ہے۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ ہمارے اس سفر کے دوران میں مرقد معمول کی مرمت اور تزئین و آرائش کے لیے بند تھا۔ ترکیہ میں سال میں ایک بار ایسے تمام مقامات کو بند کر کے انھیں بحال کرنے کے لیے بڑی سے کام کیا جاتا ہے۔ اس انتظام سے زائرین کو کوفت تو ہوتی ہے لیکن یہ ضروری ہے۔ مجھے اس کی سمجھ اپنے بچوں کو لاہور کی بادشاہی مسجد دکھاتے ہوئے آئی۔
مسجد کے حسن اور اس کی زیب و آرائش کا اپنی تمام تر سادگی کے باوجود دنیا میں کوئی ثانی نہیں لیکن میں یہ دیکھ کر دکھی ہو گیا کہ اس کی چمکتی ہوئی دیواروں پر زائرین کے چھونے سے لگنے والی میل کی تہیں جمی ہوئی ہیں۔
حضرت مولاناؒ کے مزار کی جزوی بندش کا معلوم ہواتو میرے ذہن میں بادشاہی مسجد کے حسن کو پامال کرنے والے تکلیف دہ مناظرابھر آئے، اس کے ساتھ ہی ترکوں کے حسن انتظام پر پیار آیا اور اپنے ورثے سے تعلق پر رشک بھی۔
(جاری ہے)