کرپشن سے انکار ممکن تو بنائیں

اب عمران خان بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں اور پھر کرپشن کی باتیں کر رہے ہیں

m_saeedarain@hotmail.com

بدعنوانی کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر حکومت کے جاری کردہ اشتہار میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ یہ عہد کرتے ہیں کہ کرپشن کے ناسور سے دور رہیں گے اور اپنے معاشرے میں شفافیت اور احتساب کو فروغ دیں گے۔

یہ ہماری قومی ذمے داری ہے کہ اپنے سارے کاموں میں ایمانداری کو اپنی عادت بنائیں گے، اس لیے کرپشن سے انکار کرو، یہ پیغام اس نیب کی طرف سے دیا گیا ہے جس سے بہت سے سیاستدان،کاروباری حضرات اور موجودہ حکومت کے اتحادی رہنما سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے اس لیے انھوں نے آتے ہی نیب کے پر کتر دیے جس کے خلاف وہی عمران خان سپریم کورٹ گئے۔

جنھوں نے نیب کو بے دردی سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال تو کرایا مگر عدالتوں میں کسی سیاسی رہنما پر کرپشن ثابت نہ ہو سکی اور تمام اسیر رہنما طویل قید کے بعد عدالتوں سے ضمانتوں پر رہا ہوگئے اور موجودہ حکومت کی نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اسی سلسلے میں سپریم کورٹ نے نیب سے جواب طلب کرلیا ہے اور کرپشن مقدمات کی مالیت کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں۔

نعرہ اب بھی کرپشن فری پاکستان ہے جو خواب تو ہو سکتا ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ایک حکومتی ادارے کے کہنے پر نہ عوام کرپشن سے انکار کرسکتے ہیں۔

کرپشن ختم کرنے والے تمام سرکاری اداروں کے بدعنوان افسروں کی کمائی کا ذریعہ ہی کرپشن ہے اور انھیں پتا ہے کہ ان کے آئے دن یہ کہنے سے نہ کرپشن ختم ہوگی نہ عوام کرپشن سے نفرت کریں گے کیونکہ ہر حکومت اور تمام سرکاری اداروں کو کرپشن سے محبت ہے اور یہی سرکاری محبت عوام کی مجبوری بلکہ اشد ضرورت ہے کیونکہ حکومت کے تمام اداروں میں کرپشن کا راج ہے۔

عمران خان سے قبل ہی تمام حکومتوں میں نیب یا دیگر احتسابی اداروں کو صرف انتقامی کارروائیوں، سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے اور اپنی مرضی کی حکومتیں بنوانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنوائے تھے اور دونوں ہی کی حکومتیں سویلین صدور نے کرپشن کے الزامات میں برطرف کی تھیں۔

جنرل پرویز مشرف نے دونوں سابق وزرائے اعظم پر نیب کے ذریعے کرپشن کے مقدمات بنوائے اور پھر وہی پرویز مشرف بے نظیر کے پاس یو اے ای جانے اور این آر او دینے پر مجبور ہوئے تھے اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے دونوں سابقہ وزرائے اعظم لندن میں میثاق جمہوریت پر مجبور ہوئے دونوں پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے مگر عوام نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو تین تین بار اقتدار کے لیے منتخب کیا اور ان پر کرپشن کے الزامات کو اہمیت نہیں دی جو اس بات کا ایک واضح ثبوت ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ رہنماؤں پر حکومت کی طرف سے لگائے گئے کرپشن کے الزامات کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ الزامات مسترد کرکے انھیں ایک بار نہیں بلکہ بار بار منتخب کرتے ہیں مگر سو فیصد لوگ ایسے نہیں ہیں بلکہ کرپشن کو برا بھی سمجھتے ہیں۔


عمران خان کھیل سے مشہور ہوئے اور اسی شہرت کے باعث دنیا بھر سے عطیات جمع کرکے لاہور میں کینسر اسپتال بنانے میں کامیاب ہوئے۔

انھوں نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات کو جواز بنا کر 26 سال قبل اپنی پارٹی بنائی جو 2011 تک عوام میں مقبولیت حاصل نہ کرسکی۔

ان کی شہرت اچھی تھی اس لیے انھوں نے کرپشن کے خاتمے اور ہر ایک کے لیے قانون اور انصاف کی فراہمی کا منشور بنایا مگر عوام نے ان پر توجہ دی نہ انھیں پی ٹی آئی پر اعتماد ہوا مگر عمران خان ایک طرف عوام کو یہ باور کرانے میں لگے رہے کہ ان کی پارٹی سابق حکمران جماعتوں سے بہتر ثابت ہوگی۔

دوسری طرف وہ جنرل پرویز مشرف کے ذریعے اقتدار کے حصول کی کوشش کرتے رہے مگر جنرل پرویز مشرف نے ان پر اعتماد نہ کیا اور 2002 میں عمران خان کو میانوالی سے قومی اسمبلی کے لیے منتخب کرایا گیا مگر وزیر اعظم نہ بنائے جانے پر انھوں نے ظفراللہ جمالی کے بجائے مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم کا ووٹ دیا تھا۔

عمران خان کبھی اقتدار میں نہیں رہے تھے جس کی وجہ سے ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا اس لیے انھوں نے کرپشن کو بنیاد بنایا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں بے انتہا کرپشن ہوئی اور دونوں پارٹیوں نے ملکی دولت چوری کرکے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں اور ملک کو لوٹا جس سے وہ امیر ترین اور عوام غریب تر ہوتے گئے اور عوام کے ایک طبقہ نے ان کی باتوں پر یقین کیا کہ یہ شخص ملک کو کرپشن سے نجات دلا کر ترقی دلا سکتا ہے۔

سابقہ حکمرانوں نے کرپشن کی ہو گی مگر اس کے کوئی ثبوت نہیں تھے اس لیے کرپشن کے خلاف عمران خان کا بیانیہ مقبول ضرور ہوا مگر یہ بیانیہ انھیں بالاتروں کے قریب لے گیا اور 2018 میں انھیں بڑی توقعات کے ساتھ اقتدار میں لایا گیا اور عمران حکومت میں کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے مگر وہ مبینہ لوٹی ہوئی دولت ساڑھے تین سالوں میں واپس لا سکے نہ کسی مبینہ کرپٹ کو کرپشن ثابت کرکے سزا دلا سکے۔

اب عمران خان بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں اور پھر کرپشن کی باتیں کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی والے پھر اقتدار میں آچکے ہیں مگر اب بھی وہ ایسے اقدامات نہیں کر رہے کہ عوام کرپشن سے انکار کر سکیں کیونکہ حکومتیں ضرور بدلتی رہیں اور کرپشن بڑھتی رہی مگر کوئی حکمران عوام کے لیے کرپشن سے انکار ممکن نہ بنا سکا۔
Load Next Story