حکومت اور صحتِ عامہ کے مسائل
مرے پر سو دْرّے کے مترادف یہ بیچارے قسمت کے مارے طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہیں
ہمارے ملک کے سیاستدانوں کا سب سے بڑا مسئلہ اقتدار حاصل کرنا ہے خواہ وہ کسی بھی طریقہ سے حاصل کیا جائے۔ اِس کے علاوہ ہمارا ایک طبقہ ایسا ہے جس کا مسئلہ ہے زیادہ سے زیادہ دولت کمانا، چاہے وہ کسی بھی ذریعہ سے کمائی جاسکتی ہو۔ راتوں رات امیر بننا ہر ایک کی خواہش ہے۔ اس لیے ہماری عقل یہ سوال کرنے پر مجبور ہے۔
کہاں سے آتی ہے دولت شکیل راتوں رات
سوال اہلِ ہنر سے یہ کر کے دیکھتے ہیں
مراعات یافتہ طبقہ کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا کھایا جائے اور کہاں کھایا جائے اور کتنا کھایا جائے؟ بسیار خوری اور طرح طرح کے ذائقہ دارکھانوں کی وجہ سے نہ صرف اْن کا پیٹ چل رہا ہے بلکہ دماغ بھی چل رہا ہے۔
اِن بیچاروں کو خوش خوراکی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہیں جن کے علاج معالجہ پر نہ صرف اِنہیں روپیہ پانی کی طرح بہانا پڑتا ہے بلکہ اِن کا سکون اور چین بھی غارت ہوتا ہے۔
اِس کے بالکل برعکس دوسرا طبقہ وہ ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے اِسے روٹیوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور جس کی زندگی قیدِ بامشقت سے بھی زیادہ ہے۔ اِس تناظر میں دلاور فِگار کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔
کھا کے خالص گھی اگر غالب جیے تو کیا جیے
ہم کو دیکھو جی رہے ہیں سونگھ کر سرسوں کا تیل
اگرچہ وطنِ عزیز میں حالیہ سیلاب کا پانی اْتر رہا ہے لیکن اِس کی تباہ کاریاں اتنی زیادہ ہیں کہ اِن کی تلافی اور تعمیرِ نوکے لیے خطیر رقم اور بہت زیادہ وقت درکار ہے گو اِس سلسلہ میں دنیا بھر سے ملنے والی امداد کا سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے لیکن یہ تباہی اِس قدر ہولناک ہے کہ اِس کا ازالہ ناممکن نہ سہی لیکن انتہائی مشکل ہے۔
موسمِ سرما شروع ہوچکا ہے اور سردی کی شدت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور بے سرو سامانی کا عالم یہ ہے کہ مختلف فلاحی اور امدادی اداروں کے تعاون کے باوجود کھْلے آسمان کے تلے سردی میں ٹھِٹھَرتے ہوئے بچوں اور بوڑھوں کا برا حال ہے جن کے تن پرکپڑے ہیں اور نہ پیٹ میں روٹی۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مر چلے
قسمت کے مارے زندہ درگور ہو رہے ہیں۔ مرے پر سو دْرّے کے مترادف یہ بیچارے قسمت کے مارے طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہیں اور جن کا علاج ناممکن تو نہیں لیکن دشوار ضرور ہے کیونکہ جب جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہ ہو تو علاج کیسے کیا جائے کیونکہ دوائیں اِس قدر مہنگی ہوچکی ہیں کہ غریب تو غریب متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والا عام مریض اِنہیں خریدنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
بھٹو صاحب کا وہ دور یاد آرہا ہے جب وفاقی وزیرِ صحت شیخ رشید (موجودہ شیخ رشید نہیں) نے برانڈِڈ دواؤں کا خاتمہ کرکے جینرِک ادویات کو لازمی قرار دے دیا تھا جس کے نتیجہ میں فارماسوٹیکل کمپنیوں کی لوٹ مار کا خاتمہ ہوگیا تھا اور عام آدمی کی دواؤں تک رسائی نہایت آسان ہوگئی تھی۔ اْس سنہری دور کے بعد لوٹ مار کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا تھا اور اب یہ سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹروں اور دوا فروخت کرنے والی کمپنیوں کی ملی بھگت سے نہ صرف عام دوائیں عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہیں اور ظلم یہ ہے کہ جان بچانے والی ادویات بھی اِس قدر مہنگی ہوگئی ہیں کہ عام آدمی تو عام آدمی متوسط طبقہ تک اِنہیں افورڈ نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹروں کی فیسیں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں اور لیبارٹریز کے چارجز نا قابلِ برداشت ہوگئے ہیں۔
وزارتِ صحت یا تو اِس صورتحال سے لاعلم ہے یا پھر اِس ظلم و ستم سے لاتعلق ہے۔ بہرحال ہماری استدعا ہے کہ اس عوام دشمن رَوِش کا جلد از جلد خاتمہ کیا جائے اور جِینرک سسٹم دوبارہ رائج کیا جائے۔
عوام سے ہماری پرزور اپیل ہے کہ وہ اِس ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ یاد رہے کہ جب تک بچہ روئے گا نہیں ماں بھی تب تک دودھ نہیں پلائے گی۔ عوام سے ہماری یہ بھی خواہش ہے کہ اپنا احتجاج حکومتِ وقت تک پہنچانے کے لیے ہر ذریعہ کام میں لائیں۔ صحت کے فلاحی اداروں سے بھی التماس ہے کہ وہ اِس سلسلہ میں جو بھی قدم اٹھا سکتے ہیں اْس میں ذرا سی بھی تاخیر نہ کریں۔
خوراک کی فراہمی کا مسئلہ سیلاب کے بعد مزید سنگین ہوگیا ہے۔ یہ مسئلہ مدتِ دراز سے درپیش ہے جس کی جانب کسی بھی حکومت نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے برسرِ اقتدار آنے سے بہت پہلے اپنی تقریروں میں خوراک کی فراہمی کے مسئلہ کی جانب توجہ مبذول کرائی تھی اور معیاری خوراک کی عدم فراہمی اور صحت مند غذا کی ناپیدگی کے سبب عوام کی صحت کی خرابی کا تذکرہ کیا تھا جس سے یہ تاثر ملا تھا کہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی پہلا قدم وہ اِس گمبھیر صورتحال کی درستگی کے لیے اٹھائیں گے۔
اگرچہ حسبِ وعدہ ایسا نہیں ہوسکا اور اِس میں تاخیر ہوگئی تاہم اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن شوکت خانم جیسے اسپتال کے قیام کرنے والے عوام کی صحت کے درد مند نے ہیلتھ کارڈ اسکیم متعارف کرا کر اِس جانب قدم بڑھانے کی کوشش ضرور کی۔
سیاسی اختلاف سے قطع نظر عوام کی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے کسی بھی اقدام کو جاری رہنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا کسی بھی حکومت کا اخلاقی فرض نہیں بلکہ خدا ترسی بھی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ موجودہ حکومت صحتِ عامہ کی جانب مزید اقدامات اٹھائے گی۔
کہاں سے آتی ہے دولت شکیل راتوں رات
سوال اہلِ ہنر سے یہ کر کے دیکھتے ہیں
مراعات یافتہ طبقہ کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا کھایا جائے اور کہاں کھایا جائے اور کتنا کھایا جائے؟ بسیار خوری اور طرح طرح کے ذائقہ دارکھانوں کی وجہ سے نہ صرف اْن کا پیٹ چل رہا ہے بلکہ دماغ بھی چل رہا ہے۔
اِن بیچاروں کو خوش خوراکی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہیں جن کے علاج معالجہ پر نہ صرف اِنہیں روپیہ پانی کی طرح بہانا پڑتا ہے بلکہ اِن کا سکون اور چین بھی غارت ہوتا ہے۔
اِس کے بالکل برعکس دوسرا طبقہ وہ ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے اِسے روٹیوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور جس کی زندگی قیدِ بامشقت سے بھی زیادہ ہے۔ اِس تناظر میں دلاور فِگار کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔
کھا کے خالص گھی اگر غالب جیے تو کیا جیے
ہم کو دیکھو جی رہے ہیں سونگھ کر سرسوں کا تیل
اگرچہ وطنِ عزیز میں حالیہ سیلاب کا پانی اْتر رہا ہے لیکن اِس کی تباہ کاریاں اتنی زیادہ ہیں کہ اِن کی تلافی اور تعمیرِ نوکے لیے خطیر رقم اور بہت زیادہ وقت درکار ہے گو اِس سلسلہ میں دنیا بھر سے ملنے والی امداد کا سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے لیکن یہ تباہی اِس قدر ہولناک ہے کہ اِس کا ازالہ ناممکن نہ سہی لیکن انتہائی مشکل ہے۔
موسمِ سرما شروع ہوچکا ہے اور سردی کی شدت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور بے سرو سامانی کا عالم یہ ہے کہ مختلف فلاحی اور امدادی اداروں کے تعاون کے باوجود کھْلے آسمان کے تلے سردی میں ٹھِٹھَرتے ہوئے بچوں اور بوڑھوں کا برا حال ہے جن کے تن پرکپڑے ہیں اور نہ پیٹ میں روٹی۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مر چلے
قسمت کے مارے زندہ درگور ہو رہے ہیں۔ مرے پر سو دْرّے کے مترادف یہ بیچارے قسمت کے مارے طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہیں اور جن کا علاج ناممکن تو نہیں لیکن دشوار ضرور ہے کیونکہ جب جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہ ہو تو علاج کیسے کیا جائے کیونکہ دوائیں اِس قدر مہنگی ہوچکی ہیں کہ غریب تو غریب متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والا عام مریض اِنہیں خریدنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
بھٹو صاحب کا وہ دور یاد آرہا ہے جب وفاقی وزیرِ صحت شیخ رشید (موجودہ شیخ رشید نہیں) نے برانڈِڈ دواؤں کا خاتمہ کرکے جینرِک ادویات کو لازمی قرار دے دیا تھا جس کے نتیجہ میں فارماسوٹیکل کمپنیوں کی لوٹ مار کا خاتمہ ہوگیا تھا اور عام آدمی کی دواؤں تک رسائی نہایت آسان ہوگئی تھی۔ اْس سنہری دور کے بعد لوٹ مار کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا تھا اور اب یہ سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹروں اور دوا فروخت کرنے والی کمپنیوں کی ملی بھگت سے نہ صرف عام دوائیں عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہیں اور ظلم یہ ہے کہ جان بچانے والی ادویات بھی اِس قدر مہنگی ہوگئی ہیں کہ عام آدمی تو عام آدمی متوسط طبقہ تک اِنہیں افورڈ نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹروں کی فیسیں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں اور لیبارٹریز کے چارجز نا قابلِ برداشت ہوگئے ہیں۔
وزارتِ صحت یا تو اِس صورتحال سے لاعلم ہے یا پھر اِس ظلم و ستم سے لاتعلق ہے۔ بہرحال ہماری استدعا ہے کہ اس عوام دشمن رَوِش کا جلد از جلد خاتمہ کیا جائے اور جِینرک سسٹم دوبارہ رائج کیا جائے۔
عوام سے ہماری پرزور اپیل ہے کہ وہ اِس ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ یاد رہے کہ جب تک بچہ روئے گا نہیں ماں بھی تب تک دودھ نہیں پلائے گی۔ عوام سے ہماری یہ بھی خواہش ہے کہ اپنا احتجاج حکومتِ وقت تک پہنچانے کے لیے ہر ذریعہ کام میں لائیں۔ صحت کے فلاحی اداروں سے بھی التماس ہے کہ وہ اِس سلسلہ میں جو بھی قدم اٹھا سکتے ہیں اْس میں ذرا سی بھی تاخیر نہ کریں۔
خوراک کی فراہمی کا مسئلہ سیلاب کے بعد مزید سنگین ہوگیا ہے۔ یہ مسئلہ مدتِ دراز سے درپیش ہے جس کی جانب کسی بھی حکومت نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے برسرِ اقتدار آنے سے بہت پہلے اپنی تقریروں میں خوراک کی فراہمی کے مسئلہ کی جانب توجہ مبذول کرائی تھی اور معیاری خوراک کی عدم فراہمی اور صحت مند غذا کی ناپیدگی کے سبب عوام کی صحت کی خرابی کا تذکرہ کیا تھا جس سے یہ تاثر ملا تھا کہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی پہلا قدم وہ اِس گمبھیر صورتحال کی درستگی کے لیے اٹھائیں گے۔
اگرچہ حسبِ وعدہ ایسا نہیں ہوسکا اور اِس میں تاخیر ہوگئی تاہم اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن شوکت خانم جیسے اسپتال کے قیام کرنے والے عوام کی صحت کے درد مند نے ہیلتھ کارڈ اسکیم متعارف کرا کر اِس جانب قدم بڑھانے کی کوشش ضرور کی۔
سیاسی اختلاف سے قطع نظر عوام کی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے کسی بھی اقدام کو جاری رہنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا کسی بھی حکومت کا اخلاقی فرض نہیں بلکہ خدا ترسی بھی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ موجودہ حکومت صحتِ عامہ کی جانب مزید اقدامات اٹھائے گی۔