افغانستان اور تجارتی مفادات
افغان طالبان حکمرانوں اور افغانستان کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اپنی ذمے داری سے آگاہ ہونا چاہیے
وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ افغانستان کی سرحد سے چمن بارڈر پر ہونے والا بلا اشتعال فائرنگ کا واقعہ طے شدہ منصوبے کے تحت نہیں تھا ، اس پر افغانستان نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگ ملی ہے، لہٰذا چمن بارڈر کھول دیا گیا ہے۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان ماضی میں اور اس وقت بھی افغانستان کا خیرخواہ ہے، وہاں پر عدم استحکام کے اثرات ہماری طرف بھی آتے ہیں، اگر افغانستان میں امن ہوگا تو اس کے ذریعے وسط ایشیا تک رسائی ممکن ہوسکے گی۔
افغانستان کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ ہورہی ہے کہ ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جارہا حالانکہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا جانا چاہیے،دنیا نے ان کی مدد کے بجائے ان کے چھ سات ارب ڈالر منجمد کردیے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا ہے، لیکن اس وقت افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعال ہو رہی ہے، حالیہ حملہ بھی گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پیش آنے والے دیگر واقعات کا ایک تسلسل ہے۔
کابل ، افغان طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے دونوں ممالک کی سرحدوں پر دہشت گردی کے مختلف واقعات اور دونوں ممالک کی بارڈر سیکیورٹی فورس کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ افغانستان میں داعش، القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کے لوگ موجود ہیں۔
پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جس سے پاکستان ہی نہیں افغانستان کے دیگر اہم پڑوسیوں کے مفادات بھی متاثر ہورہے ہیں۔ افغان طالبان کی موجودگی میں یہ حملے کئی سوالات کو جنم دے رہے ہیں، سرحد کی سیکیورٹی کے لیے افغان حکام کو بھی ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے،بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی طور دونوں ممالک کے مفادمیں نہیں ہے۔
اگر ہم صرف چمن بارڈ کی مثال لیں، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سرحد کی بار بار بندش سے کارگو سے لدے سامان کی نقل وحرکت پرتعطل آجاتا ہے، سیکڑوں ٹرک پھنس جاتے ہیں ، پاکستان سے افغانستان بڑے پیمانے پر آٹا، گھی چینی اور دیگر بنیادی ضرورت کاسامان بھی درآمد کیا جاتا ہے۔
ٹرکوں میں لدے تازہ پھل اور سبزیاں خراب ہوجاتی ہیں،دوسری جانب افغان شہری علاج معالجے کے لیے بھی بڑے پیمانے پر پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔
باب دوستی گیٹ چمن کی بندش سے ایسے افغان شہری بھی شدید مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں ،توکیا اس ساری صورتحال کے تناظر میں افغانستان کی حکومت کو تجارتی راہداری کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے پر توجہ نہیں دینی چاہیے ؟
دراصل سی پیک کی افغانستان تک توسیع براعظم ایشیا کے انفرا اسٹرکچر کو آپس میں منسلک کر سکتی ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت سڑک اور ریل کے منصوبوں کو افغانستان تک بڑھایا جائے گا۔ایک بار جب موٹروے بن جائے گی، تو ٹرکوں سے افغانستان کو سا ما ن کی سپلائی کافی تیز ہو جائے گی۔
مزید سی پیک کے تحت پشاور اور کابل کے درمیان ایک موٹر وے تعمیر کی جائے گی جو ازبکستان تک جائے گی۔یہ دونوںممالک کے کاروبار کے لیے اچھا ہو گا ، اس طرح تجارتی مال کی ترسیل ازبکستان تک ہوسکے گی،یوں علاقائی رابطوں سے تقریباً تین ارب افرادکی اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا۔
سی پیک کا آغاز 2013 میں چین اور پاکستان کے درمیان ایک سو سینتالیس ارب امریکی ڈالر کے دو طرفہ معاہدے کے طور پر ہوا تھا، جس میں چین کی طرف سے فراہم کی گئی مالی امداد کے تحت پورے ملک میں بچھائے گئے نقل و حمل کے جال، توانائی کے منصوبے اور خصوصی اقتصادی زونز تعمیر کیے گئے۔
ایک اندازے کے مطابق یہ منصوبہ اب باسٹھ ارب امریکی ڈالر تک بڑھ گیا ہے اور اب چین چاہتا ہے کہ سی پیک کو افغانستان تک بڑھایا جائے۔ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال کہہ چکے ہیں کہ چین چاہتا ہے کہ سی پیک کو افغانستان تک بڑھایا جائے۔
انھوں نے کہا کہ یہ قدم پاکستان کو علاقائی رابطے کے لیے اپنے جغرافیائی محل وقوع سے فائدہ اٹھانے کا ایک منفرد موقع فراہم کرے گا، ایک اندازے کے مطابق پینتیس سو ہیوی ڈیوٹی ٹرک پاکستان کے ہائی وے اور موٹروے پر سفر کرتے ہیں اور یہ ٹرک کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں سے مختلف اشیاء جیسے برتن، کپڑا اور پیک شدہ جوس کے ڈبے لے کر، جلال آباد جو افغانستان کا پاکستان کی سرحد کے قریب بڑا شہر ہے، چار دِن میں پہنچا دیتے ہیں۔
سڑک میں ہونے والی توسیع ممکنہ طور پر واخان راہداری سے گزرتے ہوئے چین کو شمال مشرق، پاکستان کو جنوب اور تاجکستان کو شمال سے چھوتے ہوئے گزرے گی اور اس طرح سڑک کی توسیع کا یہ منصوبہ پاکستان کوبذریعہ افغانستان وسطی ایشیا کا مختصر ترین راستہ فراہم کرے گا اور جب ایک بار جب تجارتی سامان پاکستان پہنچ جائے گا تو اس سامان کو پاکستان کے ریل سسٹم سے منسلک کرنے کے لیے اتار دیا جائے گا اور وہاں سے بالآخر یہ سامان پاکستان کی تینوں بندرگاہوں کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم اور گوادر تک پہنچا دیا جائے گا۔
دوسری جانب پاکستان افغان حکام کے ساتھ کوئلے کی ایسی افورڈ ایبل اور قابل عمل ڈیل چاہتا ہے جو پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے مفید ہو کیونکہ عالمی مارکیٹ میں کوئلے کی قیمت 400 ڈالر فی ٹن کے لگ بھگ ہے۔دستاویز میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ افغانستان سے کوئلے کی درآمد پاکستانی کرنسی میں کی جائے اور اس سے نہ صرف پاکستان کو سستی بجلی پیدا کرنے میں مدد ملے گی بلکہ قیمتی زرمبادلہ کی بھی بچت ہوسکے گی۔
افغانستان سے پاکستان کوئلے کی ترسیل بھی آسان ہے اور آسان ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ نزدیک ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹینش لاگت بھی کم ہوگی جس کے باعث پاکستان کو افغانستان سے درآمد کیا جانے والا کوئلہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ سستا پڑے گا۔
افغانستان سے درآمدی سستے کوئلے سے سستی بجلی پیدا ہوگی جس سے بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے گھریلو صارفین اور صنعتی صارفین کو ریلیف ملے گی اور اگر افغانستان سے درآمد کیے جانے والے کوئلے کے لیے قیمت کی ادائیگی پاکستانی کرنسی میں ہوگی تو اس سے ملک کے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوگی، ممکنہ معاہدے کی صورت میں پاکستان کو اقتصادی طور پر بڑا فائدہ حاصل ہوگا۔ مزیدایسے بہت سارے منصوبے ہیں جو دونوںممالک کی ترقی اور خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اگرچہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد گزشتہ برس کے موسم گرما کے واقعات کے بعد پاکستانی حکومت نے افغانستان کی عبوری حکومت کے حوالے سے نرم رویہ کا مظاہرہ کیا لیکن مشترکہ سرحدوں پر بدامنی کا تسلسل اور مفادات کے خلاف حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ان واقعات نے دنیا پر یہ بھی ثابت کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی فضاء کے سائے اب بھی موجود ہیں اورماضی کی طرح دوطرفہ تعلقات پر اس کا وزن بہت زیادہ ہے۔ تحریک طالبان اور حکومت کے درمیان جنگ بندی کے خاتمے نے ایک طرف تو دوسری طرف افغانستان کی سرزمین کے اندر دہشت گرد گروہوں کی نقل و حرکت نے پاکستان کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل اور افغانستان کے سیکیورٹی، اقتصادی، سماجی وغیرہ کو منظم کرنے کے لیے طالبان حکومت کی صلاحیتوں کے بارے میں فیصلے سے قطع نظر، ان مسائل اور بدامنی کی اصل جڑ افغانستان کے اندر تلاش کی جانی چاہیے۔
افغان طالبان حکمرانوں اور افغانستان کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اپنی ذمے داری سے آگاہ ہونا چاہیے اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی تشویش کو بلاتاخیر دور کرنا چاہیے اور دوسری طرف افغانستان میں حالات کی خرابی علاقائی ممالک کو دہشت گردی کے خلاف مزید متحد ہونے اور استحکام و سلامتی کو فروغ دینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تناؤ بالخصوص دونوں ممالک کے درمیان جغرافیائی اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں ہمسایوں کو ابہام دور کرنے اور باہمی اعتماد کو بہتر کرنے کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔یہ بات پاکستان کی سیاسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کے لیے اہم چیلنج ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پاکستان ان چیلنجز کے حل کے لیے کیا اقدامات کرے گی۔
سچ تو یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اگر سرحدی کشیدگی کا خاتمہ ہوجائے اور افغانستان کی موجودہ حکومت مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے باہمی تجارتی اور اقتصادی منصوبوں کی تکمیل پر توجہ دے تو نہ صرف خطے کی صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے بلکہ افغانستان کے عوام کی پسماندگی بھی ہمیشہ کے لیے دور ہوجائے گی ۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان ماضی میں اور اس وقت بھی افغانستان کا خیرخواہ ہے، وہاں پر عدم استحکام کے اثرات ہماری طرف بھی آتے ہیں، اگر افغانستان میں امن ہوگا تو اس کے ذریعے وسط ایشیا تک رسائی ممکن ہوسکے گی۔
افغانستان کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ ہورہی ہے کہ ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جارہا حالانکہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا جانا چاہیے،دنیا نے ان کی مدد کے بجائے ان کے چھ سات ارب ڈالر منجمد کردیے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا ہے، لیکن اس وقت افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعال ہو رہی ہے، حالیہ حملہ بھی گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پیش آنے والے دیگر واقعات کا ایک تسلسل ہے۔
کابل ، افغان طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے دونوں ممالک کی سرحدوں پر دہشت گردی کے مختلف واقعات اور دونوں ممالک کی بارڈر سیکیورٹی فورس کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ افغانستان میں داعش، القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کے لوگ موجود ہیں۔
پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جس سے پاکستان ہی نہیں افغانستان کے دیگر اہم پڑوسیوں کے مفادات بھی متاثر ہورہے ہیں۔ افغان طالبان کی موجودگی میں یہ حملے کئی سوالات کو جنم دے رہے ہیں، سرحد کی سیکیورٹی کے لیے افغان حکام کو بھی ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے،بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی طور دونوں ممالک کے مفادمیں نہیں ہے۔
اگر ہم صرف چمن بارڈ کی مثال لیں، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سرحد کی بار بار بندش سے کارگو سے لدے سامان کی نقل وحرکت پرتعطل آجاتا ہے، سیکڑوں ٹرک پھنس جاتے ہیں ، پاکستان سے افغانستان بڑے پیمانے پر آٹا، گھی چینی اور دیگر بنیادی ضرورت کاسامان بھی درآمد کیا جاتا ہے۔
ٹرکوں میں لدے تازہ پھل اور سبزیاں خراب ہوجاتی ہیں،دوسری جانب افغان شہری علاج معالجے کے لیے بھی بڑے پیمانے پر پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔
باب دوستی گیٹ چمن کی بندش سے ایسے افغان شہری بھی شدید مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں ،توکیا اس ساری صورتحال کے تناظر میں افغانستان کی حکومت کو تجارتی راہداری کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے پر توجہ نہیں دینی چاہیے ؟
دراصل سی پیک کی افغانستان تک توسیع براعظم ایشیا کے انفرا اسٹرکچر کو آپس میں منسلک کر سکتی ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت سڑک اور ریل کے منصوبوں کو افغانستان تک بڑھایا جائے گا۔ایک بار جب موٹروے بن جائے گی، تو ٹرکوں سے افغانستان کو سا ما ن کی سپلائی کافی تیز ہو جائے گی۔
مزید سی پیک کے تحت پشاور اور کابل کے درمیان ایک موٹر وے تعمیر کی جائے گی جو ازبکستان تک جائے گی۔یہ دونوںممالک کے کاروبار کے لیے اچھا ہو گا ، اس طرح تجارتی مال کی ترسیل ازبکستان تک ہوسکے گی،یوں علاقائی رابطوں سے تقریباً تین ارب افرادکی اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا۔
سی پیک کا آغاز 2013 میں چین اور پاکستان کے درمیان ایک سو سینتالیس ارب امریکی ڈالر کے دو طرفہ معاہدے کے طور پر ہوا تھا، جس میں چین کی طرف سے فراہم کی گئی مالی امداد کے تحت پورے ملک میں بچھائے گئے نقل و حمل کے جال، توانائی کے منصوبے اور خصوصی اقتصادی زونز تعمیر کیے گئے۔
ایک اندازے کے مطابق یہ منصوبہ اب باسٹھ ارب امریکی ڈالر تک بڑھ گیا ہے اور اب چین چاہتا ہے کہ سی پیک کو افغانستان تک بڑھایا جائے۔ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال کہہ چکے ہیں کہ چین چاہتا ہے کہ سی پیک کو افغانستان تک بڑھایا جائے۔
انھوں نے کہا کہ یہ قدم پاکستان کو علاقائی رابطے کے لیے اپنے جغرافیائی محل وقوع سے فائدہ اٹھانے کا ایک منفرد موقع فراہم کرے گا، ایک اندازے کے مطابق پینتیس سو ہیوی ڈیوٹی ٹرک پاکستان کے ہائی وے اور موٹروے پر سفر کرتے ہیں اور یہ ٹرک کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں سے مختلف اشیاء جیسے برتن، کپڑا اور پیک شدہ جوس کے ڈبے لے کر، جلال آباد جو افغانستان کا پاکستان کی سرحد کے قریب بڑا شہر ہے، چار دِن میں پہنچا دیتے ہیں۔
سڑک میں ہونے والی توسیع ممکنہ طور پر واخان راہداری سے گزرتے ہوئے چین کو شمال مشرق، پاکستان کو جنوب اور تاجکستان کو شمال سے چھوتے ہوئے گزرے گی اور اس طرح سڑک کی توسیع کا یہ منصوبہ پاکستان کوبذریعہ افغانستان وسطی ایشیا کا مختصر ترین راستہ فراہم کرے گا اور جب ایک بار جب تجارتی سامان پاکستان پہنچ جائے گا تو اس سامان کو پاکستان کے ریل سسٹم سے منسلک کرنے کے لیے اتار دیا جائے گا اور وہاں سے بالآخر یہ سامان پاکستان کی تینوں بندرگاہوں کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم اور گوادر تک پہنچا دیا جائے گا۔
دوسری جانب پاکستان افغان حکام کے ساتھ کوئلے کی ایسی افورڈ ایبل اور قابل عمل ڈیل چاہتا ہے جو پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے مفید ہو کیونکہ عالمی مارکیٹ میں کوئلے کی قیمت 400 ڈالر فی ٹن کے لگ بھگ ہے۔دستاویز میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ افغانستان سے کوئلے کی درآمد پاکستانی کرنسی میں کی جائے اور اس سے نہ صرف پاکستان کو سستی بجلی پیدا کرنے میں مدد ملے گی بلکہ قیمتی زرمبادلہ کی بھی بچت ہوسکے گی۔
افغانستان سے پاکستان کوئلے کی ترسیل بھی آسان ہے اور آسان ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ نزدیک ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹینش لاگت بھی کم ہوگی جس کے باعث پاکستان کو افغانستان سے درآمد کیا جانے والا کوئلہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ سستا پڑے گا۔
افغانستان سے درآمدی سستے کوئلے سے سستی بجلی پیدا ہوگی جس سے بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے گھریلو صارفین اور صنعتی صارفین کو ریلیف ملے گی اور اگر افغانستان سے درآمد کیے جانے والے کوئلے کے لیے قیمت کی ادائیگی پاکستانی کرنسی میں ہوگی تو اس سے ملک کے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوگی، ممکنہ معاہدے کی صورت میں پاکستان کو اقتصادی طور پر بڑا فائدہ حاصل ہوگا۔ مزیدایسے بہت سارے منصوبے ہیں جو دونوںممالک کی ترقی اور خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اگرچہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد گزشتہ برس کے موسم گرما کے واقعات کے بعد پاکستانی حکومت نے افغانستان کی عبوری حکومت کے حوالے سے نرم رویہ کا مظاہرہ کیا لیکن مشترکہ سرحدوں پر بدامنی کا تسلسل اور مفادات کے خلاف حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ان واقعات نے دنیا پر یہ بھی ثابت کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی فضاء کے سائے اب بھی موجود ہیں اورماضی کی طرح دوطرفہ تعلقات پر اس کا وزن بہت زیادہ ہے۔ تحریک طالبان اور حکومت کے درمیان جنگ بندی کے خاتمے نے ایک طرف تو دوسری طرف افغانستان کی سرزمین کے اندر دہشت گرد گروہوں کی نقل و حرکت نے پاکستان کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل اور افغانستان کے سیکیورٹی، اقتصادی، سماجی وغیرہ کو منظم کرنے کے لیے طالبان حکومت کی صلاحیتوں کے بارے میں فیصلے سے قطع نظر، ان مسائل اور بدامنی کی اصل جڑ افغانستان کے اندر تلاش کی جانی چاہیے۔
افغان طالبان حکمرانوں اور افغانستان کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اپنی ذمے داری سے آگاہ ہونا چاہیے اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی تشویش کو بلاتاخیر دور کرنا چاہیے اور دوسری طرف افغانستان میں حالات کی خرابی علاقائی ممالک کو دہشت گردی کے خلاف مزید متحد ہونے اور استحکام و سلامتی کو فروغ دینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تناؤ بالخصوص دونوں ممالک کے درمیان جغرافیائی اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں ہمسایوں کو ابہام دور کرنے اور باہمی اعتماد کو بہتر کرنے کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔یہ بات پاکستان کی سیاسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کے لیے اہم چیلنج ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پاکستان ان چیلنجز کے حل کے لیے کیا اقدامات کرے گی۔
سچ تو یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اگر سرحدی کشیدگی کا خاتمہ ہوجائے اور افغانستان کی موجودہ حکومت مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے باہمی تجارتی اور اقتصادی منصوبوں کی تکمیل پر توجہ دے تو نہ صرف خطے کی صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے بلکہ افغانستان کے عوام کی پسماندگی بھی ہمیشہ کے لیے دور ہوجائے گی ۔