حقیقی آزادی اور غلامی
’’لوگ کیاکہیں گے‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے بہت سارے کام کرنا پڑتے ہیں جو غلامی کے زمرے میں آتے ہیں
اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر طرف ''حقیقی آزادی'' کا غلغلہ ہو اور ہم اس پر اپنا تحقیق کا ٹٹو نہ دوڑائیں ،آخر لوگ کیاکہیں گے، کہ اتنی بڑی اکیڈمیوں کے ڈگری یافتہ ،قانوں نافذ کرنے والوں کے تربیت یافتہ اور تفتیشی اداروں کے سند یافتہ محقق سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ '' حقیقی آزادی'' کے مالہ وما علبہ یعنی ویئرآباوٹ کا پتہ معلوم نہ کر سکا، نہ کچھ کھود سکا اور نہ کھوج سکا۔
جہاں تک اس لفظ ''حقیقی آزادی '' کے لغوی اور ''لغو'' مفہوم کا تعلق ہے تو معاونین خصوصی برائے عوام نے اسے اتنا مشہور بلکہ رسوا کیا ہوا ہے کہ کسی دیوار سے بھی پوچھو تو وہ اس کے معنی ایسے فرفر بتا دے گا کہ اتنے فرفر سے لیڈر لوگ جھوٹ بھی نہیں بول سکیں گے ۔
پہلے تو ہم نے اس ''حقیقی آزادی'' کا زیادہ نوٹس اس لیے نہیں لیا تھا کہ ہم اس کو بھی کوئی دکاندارانہ آئٹم سمجھے تھے جیسے مٹھائی کی دکانیں یا چپلی کباب وغیرہ کے سلسلے میں ہوتاہے، مثلاً ہمارے ہاں رجڑکی مٹھائی مشہورہوئی تو پورے ہشت نگر میں کوئی سو کے قریب دکانیں کھل گئیں اور سب پر ''اصلی رجڑ کی مٹھائی '' کے بورڈ لگ گئے تھے۔
افغانی مہاجر اپنے ساتھ ایک ''باباعلی'' ریستوران لائے تھے اور تقریباً ہرقابل ذکر بستی، بازار یا بس اڈے میں باباعلی ریستوران کے بورڈ لگ گئے تھے اور سب کے ساتھ اصلی کا لفظ لگا تھا حالاںکہ ''بابا علی'' قندھار میں ایک بزرگ کا مزار ہے اور سب سے پہلے قندھار میں ایک باباعلی ریستوران مشہور ہوا تھا ۔
ہم نے بھی پہلے شارٹ کٹ لگانا چاہا اورایک خاص بندے سے کہا کہ ذرا کسی معاون خصوصی سے ''حقیقی آزادی'' کا پتہ معلوم کرے ۔ یہ کہاں ملتی ہے، کہاں چلتی ہے، کہاں رہتی ہے، کہاںبیٹھتی ہے، کہاں سوتی ہے اورکس کے ساتھ سوتی ہے لیکن اس نے آکر بتایا کہ معاونین خصوصی کو خود بھی پتہ نہیں کہ ''حقیقی آزادی '' کیا ہے کیونکہ ان کو لکھے لکھائے ، بنے بنائے بلکہ چھپے چھپائے ''بیان'' اور''بیانیے'' دیے جاتے ہیں جن کے ساتھ ہمیں صرف اپنا نام اور تصویر چپکانا ہوتی ہے ۔
تب ہم نے وہی طریقہ اختیار کیا جو ہم اکثر تحقیق کے لیے استعمال کرتے ہیں یعنی معلوم سے نا معلوم ''کا'' پتہ لگانا اور یہ بڑا تیر بہدف طریقہ ہے، مثلاً ''سیاہ'' کو دیکھ کر ''سفید''کا پتہ لگاتے ہیں کہ سفید وہی ہے جو سیاہ نہیں ہے،خبر وہی ہے جوخیر نہیں ہے ،اچھا وہ ہے جو برا نہیں ہے، جھوٹ وہ ہے جو سچ نہیں ، انسان وہ ہے جو لیڈر نہیں اور معاون خصوصی برائے وہ ہے جو سب کچھ ہے لیکن برائے نہیں چنانچہ اس اصول پر اپنا ٹٹوئے تحقیق دوڑاتے ہوئے پہلے ''غلامی '' کا پیچھا کیا اور جب غلامی کا پتہ چل جائے گا تو اس کے برعکس جو کچھ ہوگا وہ آزادی ہی ہوگی۔
پھر نقلی اور اصلی کا موازانہ کرکے ہم نقلی یا جعلی آزادی کے ذریعے حقیقی آزادی کا پتہ آسانی سے لگالیں گے ۔اس اصول کے مطابق موجودہ مارکیٹ میں جو آزادی بیچی اورخریدی جارہی ہے، وہ حقیقی نہیں بلکہ نقلی اور جعلی آزادی ہے ۔
پڑوسی ملک میں ٹی وی چینلز پر جتنی بھی پراڈکٹس کے اشتہار آتے ہیں، وہ ایک لفظ ''سادھارن''استعمال کرتے ہیں یعنی اپنی پراڈکٹ کے سوا باقی سارے ''سادھارن'' پراڈکٹس بنائے جاتے ہیں ۔
ہمارے ہاں اسے ''دونمبر'' کہتے ہیں بلکہ اب تو دونمبرکے ساتھ ''اصلی دونمبر''کاسلسلہ شروع ہوچکا ہے،اپنے اصول تحقیق کے مطابق ہم نے جب ''غلامی'' کو کھودا اورکھوجا تو اقوام متحدہ اور ہمارے درمیان سخت اختلاف نکلا ،اقوام متحدہ کے چارٹر میں لکھا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہواہے اورآزاد رہے گا،جب کہ ہمارا نظریہ اس کے قطعی برعکس ہے۔
ہم ثابت کرسکتے ہیں کہ انسان غلام پیدا ہوا ہے، غلام رہے گا اور غلام ہی مرے گا بلکہ پیدائش سے پہلے بھی غلام تھا اور مرنے کے بعد بھی غلام رہے گا۔
یہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتاہے تو سانس کا غلام بن جاتاہے اور مرتے دم تک رہتاہے، پھر جب پیدا ہوتاہے تو والدین کا غلام بن جاتا ہے جو اسے کپڑوں وغیرہ کا غلام بنا دیتے ہیں، کچھ بڑا ہوتا ہے تو پیٹ کا غلام ،خواہشات کاغلام اور خاص طورپر ''لوگ کیاکہیں گے'' نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے بہت سارے کام کرنا پڑتے ہیں جو غلامی کے زمرے میں آتے ہیں۔
بیوی ، شوہرکی غلام اور شوہر بیوی کا غلام، مختصرطورپر کہیے تو انسان آدھی زندگی والدین کی غلامی میں بسر کرتاہے اورباقی آدھی بیوی بچوں کی غلامی میں، ویسے انسان کوشش کرتاہے کہ ان غلامیوں سے آزادی حاصل کرے لیکن کامیاب نہیں ہو پاتا، مثلاً دنیا کے کئی ملکوں میں لباس اورکپڑوں سے آزادی کی تحریک چل رہی ہے اور بڑی حد تک کامیاب بھی ثابت ہورہی ہے، تقریباً تین چوتھائی آزادی تو حاصل کی جاچکی ہے۔
باقی ایک چوتھائی بھی بہت جلد ختم ہوجائے گی اور ثابت ہوجائے گا کہ انسان ننگا پیداہواہے اور ننگا ہی دنیا سے چلاجائے گا، یقیناً آپ بھی ان ''غلامیوں'' سے معلوم کرچکے ہوں گے کہ ''حقیقی آزادی '' کیا ہوگی ،تمام غلامیوں سے آزاد ہوکر جیسا آیا ہے ویسے ہی رخصت ہونا۔
جہاں تک اس لفظ ''حقیقی آزادی '' کے لغوی اور ''لغو'' مفہوم کا تعلق ہے تو معاونین خصوصی برائے عوام نے اسے اتنا مشہور بلکہ رسوا کیا ہوا ہے کہ کسی دیوار سے بھی پوچھو تو وہ اس کے معنی ایسے فرفر بتا دے گا کہ اتنے فرفر سے لیڈر لوگ جھوٹ بھی نہیں بول سکیں گے ۔
پہلے تو ہم نے اس ''حقیقی آزادی'' کا زیادہ نوٹس اس لیے نہیں لیا تھا کہ ہم اس کو بھی کوئی دکاندارانہ آئٹم سمجھے تھے جیسے مٹھائی کی دکانیں یا چپلی کباب وغیرہ کے سلسلے میں ہوتاہے، مثلاً ہمارے ہاں رجڑکی مٹھائی مشہورہوئی تو پورے ہشت نگر میں کوئی سو کے قریب دکانیں کھل گئیں اور سب پر ''اصلی رجڑ کی مٹھائی '' کے بورڈ لگ گئے تھے۔
افغانی مہاجر اپنے ساتھ ایک ''باباعلی'' ریستوران لائے تھے اور تقریباً ہرقابل ذکر بستی، بازار یا بس اڈے میں باباعلی ریستوران کے بورڈ لگ گئے تھے اور سب کے ساتھ اصلی کا لفظ لگا تھا حالاںکہ ''بابا علی'' قندھار میں ایک بزرگ کا مزار ہے اور سب سے پہلے قندھار میں ایک باباعلی ریستوران مشہور ہوا تھا ۔
ہم نے بھی پہلے شارٹ کٹ لگانا چاہا اورایک خاص بندے سے کہا کہ ذرا کسی معاون خصوصی سے ''حقیقی آزادی'' کا پتہ معلوم کرے ۔ یہ کہاں ملتی ہے، کہاں چلتی ہے، کہاں رہتی ہے، کہاںبیٹھتی ہے، کہاں سوتی ہے اورکس کے ساتھ سوتی ہے لیکن اس نے آکر بتایا کہ معاونین خصوصی کو خود بھی پتہ نہیں کہ ''حقیقی آزادی '' کیا ہے کیونکہ ان کو لکھے لکھائے ، بنے بنائے بلکہ چھپے چھپائے ''بیان'' اور''بیانیے'' دیے جاتے ہیں جن کے ساتھ ہمیں صرف اپنا نام اور تصویر چپکانا ہوتی ہے ۔
تب ہم نے وہی طریقہ اختیار کیا جو ہم اکثر تحقیق کے لیے استعمال کرتے ہیں یعنی معلوم سے نا معلوم ''کا'' پتہ لگانا اور یہ بڑا تیر بہدف طریقہ ہے، مثلاً ''سیاہ'' کو دیکھ کر ''سفید''کا پتہ لگاتے ہیں کہ سفید وہی ہے جو سیاہ نہیں ہے،خبر وہی ہے جوخیر نہیں ہے ،اچھا وہ ہے جو برا نہیں ہے، جھوٹ وہ ہے جو سچ نہیں ، انسان وہ ہے جو لیڈر نہیں اور معاون خصوصی برائے وہ ہے جو سب کچھ ہے لیکن برائے نہیں چنانچہ اس اصول پر اپنا ٹٹوئے تحقیق دوڑاتے ہوئے پہلے ''غلامی '' کا پیچھا کیا اور جب غلامی کا پتہ چل جائے گا تو اس کے برعکس جو کچھ ہوگا وہ آزادی ہی ہوگی۔
پھر نقلی اور اصلی کا موازانہ کرکے ہم نقلی یا جعلی آزادی کے ذریعے حقیقی آزادی کا پتہ آسانی سے لگالیں گے ۔اس اصول کے مطابق موجودہ مارکیٹ میں جو آزادی بیچی اورخریدی جارہی ہے، وہ حقیقی نہیں بلکہ نقلی اور جعلی آزادی ہے ۔
پڑوسی ملک میں ٹی وی چینلز پر جتنی بھی پراڈکٹس کے اشتہار آتے ہیں، وہ ایک لفظ ''سادھارن''استعمال کرتے ہیں یعنی اپنی پراڈکٹ کے سوا باقی سارے ''سادھارن'' پراڈکٹس بنائے جاتے ہیں ۔
ہمارے ہاں اسے ''دونمبر'' کہتے ہیں بلکہ اب تو دونمبرکے ساتھ ''اصلی دونمبر''کاسلسلہ شروع ہوچکا ہے،اپنے اصول تحقیق کے مطابق ہم نے جب ''غلامی'' کو کھودا اورکھوجا تو اقوام متحدہ اور ہمارے درمیان سخت اختلاف نکلا ،اقوام متحدہ کے چارٹر میں لکھا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہواہے اورآزاد رہے گا،جب کہ ہمارا نظریہ اس کے قطعی برعکس ہے۔
ہم ثابت کرسکتے ہیں کہ انسان غلام پیدا ہوا ہے، غلام رہے گا اور غلام ہی مرے گا بلکہ پیدائش سے پہلے بھی غلام تھا اور مرنے کے بعد بھی غلام رہے گا۔
یہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتاہے تو سانس کا غلام بن جاتاہے اور مرتے دم تک رہتاہے، پھر جب پیدا ہوتاہے تو والدین کا غلام بن جاتا ہے جو اسے کپڑوں وغیرہ کا غلام بنا دیتے ہیں، کچھ بڑا ہوتا ہے تو پیٹ کا غلام ،خواہشات کاغلام اور خاص طورپر ''لوگ کیاکہیں گے'' نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے بہت سارے کام کرنا پڑتے ہیں جو غلامی کے زمرے میں آتے ہیں۔
بیوی ، شوہرکی غلام اور شوہر بیوی کا غلام، مختصرطورپر کہیے تو انسان آدھی زندگی والدین کی غلامی میں بسر کرتاہے اورباقی آدھی بیوی بچوں کی غلامی میں، ویسے انسان کوشش کرتاہے کہ ان غلامیوں سے آزادی حاصل کرے لیکن کامیاب نہیں ہو پاتا، مثلاً دنیا کے کئی ملکوں میں لباس اورکپڑوں سے آزادی کی تحریک چل رہی ہے اور بڑی حد تک کامیاب بھی ثابت ہورہی ہے، تقریباً تین چوتھائی آزادی تو حاصل کی جاچکی ہے۔
باقی ایک چوتھائی بھی بہت جلد ختم ہوجائے گی اور ثابت ہوجائے گا کہ انسان ننگا پیداہواہے اور ننگا ہی دنیا سے چلاجائے گا، یقیناً آپ بھی ان ''غلامیوں'' سے معلوم کرچکے ہوں گے کہ ''حقیقی آزادی '' کیا ہوگی ،تمام غلامیوں سے آزاد ہوکر جیسا آیا ہے ویسے ہی رخصت ہونا۔