بڑے گھر کی کہانی

آج کل کتاب لکھنا ایک فضول کام رہ گیا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کتاب کیوں لکھنا چاہتے ہو، کون پڑھے گا؟

msuherwardy@gmail.com

کالم نویسی ایک مشکل کام ہے۔ بولنا آسان ہے، لکھنا مشکل ہے۔ پھر مختصر الفاظ میں اپنی بات مکمل لکھنا اور بھی مشکل کام ہے، اس لیے اب نوجوان صحا فی لکھنے کے بجائے بولنے کے پیشے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ عاصمہ شیرا زی ان چند خاتون صحافیوں میں شامل ہیں جنھیں لکھنے اور بولنے دونوں میں کمال مہارت حاصل ہے۔

ان کی بات میں جتنی کاٹ ہے، اتنی ہی کاٹ ان کے لکھے ہوئے فقرے میں بھی موجود ہے۔ اس وجہ سے وہ جہاں اپنے ٹی وی شوز کی وجہ سے زیر عتاب رہی ہیں، وہیں اپنے کالموں کی وجہ سے بھی زیر عتاب رہی ہیں۔

یہ طے کرنا مشکل ہے کہ ان کی زندگی میں ٹی وی شوز کی وجہ سے زیادہ مشکل وقت آیا ہے یا ان کے کالموں کی وجہ سے۔ مقابلہ سخت ہے۔ انھوں نے دونوںمحاذوں پر آزادی صحافت کی خوب جنگ لڑی ہے۔

عاصمہ شیرازی کے کالموں کی کتاب'' کہانی بڑے گھر کی '' مجھے مطالعہ کے لیے ملی ہے۔ ''کہانی بڑے گھر کی'' اس کالم کا عنوان ہے جس کی وجہ سے عاصمہ شیرازی شدید مشکل میں آئیں۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنائے گئے اور انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن وقت نے انھیں درست ثابت کیا۔

سچ لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے اوریہ مشکلات عاصمہ شیرازی کے حصہ میں بھی آئیں۔ بڑے گھروں کی کہانیاں لکھنا کبھی آسان نہیں رہا ہے۔ ہمارے ملک میں ''بڑے گھروں'' کو ایک خاص تقدس دیا گیا ہے، جس نے بھی اس مقدس حیثیت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے، اسے نشانہ بنایا گیا ہے۔

بہرحال ستمبر 2018میں اپنے کالم گدھ، عقاب یا مردار۔۔۔ ہم کیا ہیں، میں عاصمہ نے کیا خوبصورت بات لکھی ہے،گدھ عجیب پرندہ ہے، جس میں کئی خوبیاں ہیں ۔ سیاہ چمکدار بڑے بڑے پر ۔ اس کی چونچ بھی عقاب جیسی اور اڑان بھی اونچی ہے۔ مضبوط قوت مدافعت، نگاہ اس قدر تیز کے دور تک ۔۔۔ بہت دور تک دیکھ سکتا ہے۔

زبردست ہاضمہ کہ بڑے سے بڑے جانور کے گلے سڑے گوشت کو نگلنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ کہ لاکھوں سال پہلے عقاب اور گدھ ایک ہی نسل سے تھے۔

مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ گدھ اور عقاب الگ الگ ہو گئے۔ دونوں پرندوں میں ایک بہت نمایاں فرق ہے اور شاید یہی فرق عقاب کو گدھ سے ممتاز کر دیتا ہے اور وہ ہے خود شکار کر کے کھانا جب کہ گدھ کسی اور کے شکار کے مردار پر پر گزارہ کرتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں یہ ہی ہماری کہانی ہے۔ ہم آہستہ آہستہ عقاب سے گدھ ہو گئے ہیں۔ عاصمہ شیرازی نے یہ کالم عالمی سامراج اور پاکستان کے تناظر میں لکھا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بحیثیت قوم یہ ہم پر پورا اترتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم عقاب سے گدھ ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنا شکار خود کرنے پر یقین کرنے کے بجائے ہم کسی کے مردار شکار کو کھانا پسند کرنے لگے ہیں۔

آج ہم جس مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں، اس سے نکلنے کے لیے بھی ہم اپنا شکار خود کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم اپنی مشکلات کا حل خود تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مدد کا انتظار دراصل مردار کی تلاش ہے۔

آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے مدد کا انتطار بھی مردار کا انتظار ہی ہے۔و یسے تو ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ہمیں اپنی قوم کو گدھ سے واپس عقاب بنانا ہو گا۔ ہم اپنی قوم کو گدھ بننے سے روکنا ہوگا۔

آجکل ویسے تو جان کی امان ملنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ زندگی مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں جان کی امان بھی مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ عاصمہ شیرازی نے اپنے کالم'' جان کی امان'' میں احمد فراز کی ایک نظم لکھی ہے۔

سو شرط یہ ہے کہ جان کی امان چاہتے ہو

تو اپنے لوح وقلم قتل گاہ میں رکھ دو

وگرنہ اب کہ نشانہ کمانداروں کا


بس ایک تم ہو سو غیرت کو راہ میں رکھ دو

یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا

اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے

تو صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے

ہماری آج کی نسل نہ تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی کوئی نیا سورج تراشنے کے لیے تیار ہے۔

انٹر نیٹ اور واٹس ایپ سے مسخ شدہ تاریخ جاننے والی یہ نوجوان نسل سولڈ تاریخ اور لٹریچر پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ کتاب سے اس کا رشتہ ختم ہوگیا ہے۔

پراپیگنڈے سے تیار کی جانے ہماری یہ نسل حقائق سے دور ہے، اس کی ایسی برین واشنگ کر دی گئی ہے کہ یہ نہ تو کسی کو جان کی ا مان دینے کے لیے تیارہے اور نہ ہی اسے خبر ہے کہ تاریخ کیا سبق سکھاتی ہے۔

آج کل کتاب لکھنا ایک فضول کام رہ گیا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کتاب کیوں لکھنا چاہتے ہو، کون پڑھے گا؟ اسی طرح کالموں کے مجموعہ چھاپنے کا رحجان بھی ختم ہو گیا ہے، کوئی پڑھتا ہی نہیں ہے۔

لوگ گھروں میں کتابوں کی ایک شیلف محض فیشن کے لیے بناتے ہیں، عملاً انھوں نے شیلف میں سے ایک کتاب بھی نہیں پڑھی ہوتی۔ لوگ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ بہت پڑھتے ہیں لیکن پڑھتے نہیں ہیں۔

کتابوں کے میلے میں کتابوں کے اسٹال پر کم اور کھانے پینے کے اسٹال پر زیادہ رش نظر آتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں شہری ٹرین اور بسوں میں دوران سفر بھی کتابیں پڑھتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ کلچر ختم ہو گیا ہے۔ کتاب پڑھنا ایک بورنگ کام رہ گیا ہے۔

لوگ فارغ وقت میں بھی کتاب نہیں پڑھتے بلکہ وٹس ایپ اور فیس بک پر وقت گزارنا پسند کرتے ہیں، اس لیے ہم نے ایک ایسی قوم تیار کر لی ہے جس کے پاس علم ہے نہ شعور ۔وہ ایک مخصوص پراپیگنڈے کا شکار ہے اور اسے ہی سچ مانتی ہے جو حقائق کی تلاش میں یقین ہی نہیں رکھتی۔

عاصمہ شیرازی نے کتاب کی اشاعت پر یقینی طور پر کافی پیسے لگا دیے ہیں۔ اچھا سر ورق ہے، وہ دوستوں کو یہ کتاب پڑھنے کے لیے مفت بھیج بھی رہی ہیں، مجھے بھی مفت ہی ملی ہے۔ لیکن مجھے خوف یہ ہے کہ دوست مفت ملنے والی کتاب پڑھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوںگے۔

ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر کتاب کے ساتھ تصویر تو لگائی جا رہی ہے لیکن کسی نے کتاب کے مندرجات پر کچھ لکھا ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹ کیا ہے۔

شہبا زگل آجکل اسپتال میں داخل ہیں، اﷲ انھیں صحت دے۔ سنا ہے ،انھیں سانس لینے میں دشواری پیش آرہی ہے، اوپر سے نئے مقدمات بن رہے ہیں، ایسے میں طبیعت خراب ہو ہی جاتی ہے ورنہ جٹاں دے منڈے کے زوربیان سے کون واقف نہیں ہے، رپورٹرز اور اینکرز کی وہ درگت بناتے ہیںکہ خدا کی پناہ۔ اب ان کا مشہور و معروف '' رندا'' بھی خاموش ہو گیا ہے۔

عاصمہ شیرازی بھی اپنی صحافت کی وجہ اس'' رندے ''کا شکار رہی ہیں۔ بہرحال یہ تو سچ ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا لیکن تحریر زندہ رہتی ہے۔ وقت گزر گیا ہے لیکن عاصمہ شیرازی کے تحریریں زندہ ہیں اور آج بھی سوال کر رہی ہیں۔
Load Next Story