کراچی جلتا رہا ایس ایچ اوز نیرو بنے رہے
لاوارث کراچی میں لاقانونیت کا راج ہے لیکن قانون کے رکھوالے ’’چین کی بانسری‘‘ بجا رہے ہیں
ایک مشہور واقعہ ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو رومی بادشاہ نیرو اپنے محل میں بیٹھا بانسری بجا رہا تھا اور یوں ہر طرف تباہی پھیل گئی جس میں اس کا اپنا تخت و تاج بھی جل کر راکھ ہوگیا۔
پاکستان بھر کے تھانوں میں تعینات ہونے والے ایس ایچ اوز بھی اپنے علاقوں کے بادشاہ کہلاتے ہیں۔ قانونی طور پر اُس کے پاس اتنے اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ ملک کے آئینی طور پر سب سے طاقتور آدمی صدر، وزیراعظم اور سپہ سالار کو بھی قانون کی خلاف ورزی پر پھنسا سکتا ہے۔ مگر قانون تو بڑے لوگوں کے گھر کی لونڈی ہے، جس کی تضحیک یا اُسے توڑنا کوئی مسئلے کی بات نہیں۔ اس منظر کو شاعر نے خوبصورت بند میں پرو کر دریا کو کوزے میں بند کردیا:
اب آئیے ذرا کراچی کی طرف، جہاں صرف نومبر کی بات کی جائے تو جرائم کے اعداد و شمار کے مطابق 9 ہزار سے زائد موٹر سائیکلیں اور دو ہزار سے زائد گاڑیاں اسلحے کے زور پر چھن چکی ہیں جبکہ اتنے ہی موبائل فونز اور مزاحمت پر 20 سے زائد نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اور اس سے زیادہ کو زخمی کیا جاچکا ہے۔
واضح رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو پولیس میں صرف نومبر کے ماہ میں رپورٹ ہوئے، باقی نصف فیصد سے زائد شہری پولیس کے رویے اور 'خاموش دھمکیوں' کی وجہ سے اپنا مال و اسباب لٹنے کی شکایت تک درج نہیں کراتے۔
کراچی کا شاید ہی کوئی ایسا خوش قسمت شہری ہو جسے اب تک ڈکیتوں نے اپنی زیارت نہ کروائی ہو، بلکہ اب تو مسلح افراد کی تعلقات کی بنیاد پر دیدہ دلیری یہ ہے کہ وہ سرراہ چلتے خواتین کو بھی لوٹ لیتے ہیں۔ لاوارث کراچی میں اب صرف ڈکیتیاں ہی نہیں بلکہ موٹر سائیکل، گاڑیوں اور گھروں میں ہونے والی چوریاں بھی شہریوں کےلیے دردِ سر بنی ہوئی ہیں جبکہ 'علاقے کے بادشاہ' کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا اور وہ بانسری بجانے میں مگن ہے۔
گزشتہ ہفتے ہمارے ایک دوست کی موٹر سائیکل نیو کراچی کے بدھ بازار سے غائب ہوئی، جو انہوں نے پندرہ سال کی بچت کے بعد بمشکل خریدی تھی۔ جب وہ تھانے پہنچے تو انہیں پہلے بادشاہ کے درباریوں نے ٹالنے کی کوشش کی اور پھر اصرار پر ایک کچی پرچی خانہ پُری کےلیے تاریخ، انٹری نمبر اور تھانہ نام درج کرکے دے دی۔ معاملہ جب ہم تک پہنچا تو کرائم رپورٹرز کو فون کرکے صورت حال سے آگاہ کیا، مگر سوائے ایک دو کے باقی سب کی بات سے اندازہ ہوا کہ اُن کی تو گہری دوستیاں ہیں اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ایک سینئر صحافی اور بڑے بھائیوں کی طرح محبت دینے والے ساتھی فہیم صدیقی سے رابطہ کیا تو وہ معاملے پر متحرک ہوئے اور براہ راست ایس ایچ او سے بات کرکے دوست کو تھانے بھیجنے کا کہا۔
جب ہمارے متاثرہ دوست تھانے پہنچے تو وہاں موجود اہلکار انھیں ٹرخاتا رہا کہ صاحب تھانے میں موجود نہیں، وہ ابھی آئے نہیں، وغیرہ۔ بعد ازاں جب دوبارہ تھوڑی ہل جل کی تو صاحب نے اندر سے ایک درباری کو بھیج کر متاثرہ شخص کو کمرے میں طلب کیا جہاں وہ اے سی چلا کر بستر پر لیٹے بانسری بجا رہے تھے۔
ہمارے دوست کے پہنچنے پر نیرو کو اچانک یاد آیا کہ شہر تو جل رہا ہے یوں اس نے متاثرہ دوست کو ایک اہلکار کے ساتھ ایف آئی آر اندراج کےلیے بھیج دیا۔ اس طرح اتنے تعلقات کے باوجود تقریباً 6 روز بعد کئی چکر لگانے پر ایف آئی آر درج ہوئی۔ مگر مسئلہ ایک ایف آئی آر کا نہیں بلکہ اُن دس سے زائد موٹر سائیکلوں کا بھی ہے جو صرف اُس روز غائب ہوئیں، جہاں دن بہ دن بڑھتی مہنگائی اور مسائل غریب کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے، وہاں وہ کیسے دوبارہ موٹر سائیکل خرید سکے گا؟
ان چھیناجھپٹی اور چوری چکاری پر تھانوں میں بیٹھے عملے کا رویہ صرف اُن کا ذاتی نہیں بلکہ ناقص سسٹم کی ناکامی ہے، جو تعلقات والوں کےلیے متحرک ہوجاتا ہے مگر ایک غریب جو اپنا پیٹ کاٹ کر تمام ٹیکسز بھی ادا کررہا ہوتا ہے، اُس کی کوئی دادرسی نہیں ہوتی۔
کراچی والوں کے شکوے شکایات اور مسائل کوئی نئی بات نہیں، لیکن بڑھتے جرائم پر شہریوں کی تشویش بھی بڑھ رہی ہے جس کے ادراک کےلیے ''ڈکیتی پر مزاحمت نہ کریں اور جرائم کا ریٹ دیگر شہروں سے کم ہے'' جیسے مضحکہ خیز بیانات نہیں بلکہ ایک عملی جامع منصوبہ بندی ضروری ہے۔
کراچی میں اگر جرائم کو ختم کرنا ہے تو اس کےلیے کمیونٹی کی سطح پر چوکیداری سسٹم، گلیوں شاہراہوں پر بیریئرز کو دوبارہ نصب کرکے جرائم کی کسی حد تک روک تھام کی جاسکتی ہے۔ یوں شاید کراچی نہ جلے اور پھر کسی کو ایس ایچ او کے نیرو بننے پر بھی کوئی اعتراض نہ ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان بھر کے تھانوں میں تعینات ہونے والے ایس ایچ اوز بھی اپنے علاقوں کے بادشاہ کہلاتے ہیں۔ قانونی طور پر اُس کے پاس اتنے اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ ملک کے آئینی طور پر سب سے طاقتور آدمی صدر، وزیراعظم اور سپہ سالار کو بھی قانون کی خلاف ورزی پر پھنسا سکتا ہے۔ مگر قانون تو بڑے لوگوں کے گھر کی لونڈی ہے، جس کی تضحیک یا اُسے توڑنا کوئی مسئلے کی بات نہیں۔ اس منظر کو شاعر نے خوبصورت بند میں پرو کر دریا کو کوزے میں بند کردیا:
لگا کے آگ شہر کو یہ بادشاہ نے کہا
اٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
جھکا کہ سر کو سبھی شاہ پرست بول اٹھے
حضور کا شوق سلامت رہے شہر اور بہت
اب آئیے ذرا کراچی کی طرف، جہاں صرف نومبر کی بات کی جائے تو جرائم کے اعداد و شمار کے مطابق 9 ہزار سے زائد موٹر سائیکلیں اور دو ہزار سے زائد گاڑیاں اسلحے کے زور پر چھن چکی ہیں جبکہ اتنے ہی موبائل فونز اور مزاحمت پر 20 سے زائد نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اور اس سے زیادہ کو زخمی کیا جاچکا ہے۔
واضح رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو پولیس میں صرف نومبر کے ماہ میں رپورٹ ہوئے، باقی نصف فیصد سے زائد شہری پولیس کے رویے اور 'خاموش دھمکیوں' کی وجہ سے اپنا مال و اسباب لٹنے کی شکایت تک درج نہیں کراتے۔
کراچی کا شاید ہی کوئی ایسا خوش قسمت شہری ہو جسے اب تک ڈکیتوں نے اپنی زیارت نہ کروائی ہو، بلکہ اب تو مسلح افراد کی تعلقات کی بنیاد پر دیدہ دلیری یہ ہے کہ وہ سرراہ چلتے خواتین کو بھی لوٹ لیتے ہیں۔ لاوارث کراچی میں اب صرف ڈکیتیاں ہی نہیں بلکہ موٹر سائیکل، گاڑیوں اور گھروں میں ہونے والی چوریاں بھی شہریوں کےلیے دردِ سر بنی ہوئی ہیں جبکہ 'علاقے کے بادشاہ' کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا اور وہ بانسری بجانے میں مگن ہے۔
گزشتہ ہفتے ہمارے ایک دوست کی موٹر سائیکل نیو کراچی کے بدھ بازار سے غائب ہوئی، جو انہوں نے پندرہ سال کی بچت کے بعد بمشکل خریدی تھی۔ جب وہ تھانے پہنچے تو انہیں پہلے بادشاہ کے درباریوں نے ٹالنے کی کوشش کی اور پھر اصرار پر ایک کچی پرچی خانہ پُری کےلیے تاریخ، انٹری نمبر اور تھانہ نام درج کرکے دے دی۔ معاملہ جب ہم تک پہنچا تو کرائم رپورٹرز کو فون کرکے صورت حال سے آگاہ کیا، مگر سوائے ایک دو کے باقی سب کی بات سے اندازہ ہوا کہ اُن کی تو گہری دوستیاں ہیں اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ایک سینئر صحافی اور بڑے بھائیوں کی طرح محبت دینے والے ساتھی فہیم صدیقی سے رابطہ کیا تو وہ معاملے پر متحرک ہوئے اور براہ راست ایس ایچ او سے بات کرکے دوست کو تھانے بھیجنے کا کہا۔
جب ہمارے متاثرہ دوست تھانے پہنچے تو وہاں موجود اہلکار انھیں ٹرخاتا رہا کہ صاحب تھانے میں موجود نہیں، وہ ابھی آئے نہیں، وغیرہ۔ بعد ازاں جب دوبارہ تھوڑی ہل جل کی تو صاحب نے اندر سے ایک درباری کو بھیج کر متاثرہ شخص کو کمرے میں طلب کیا جہاں وہ اے سی چلا کر بستر پر لیٹے بانسری بجا رہے تھے۔
ہمارے دوست کے پہنچنے پر نیرو کو اچانک یاد آیا کہ شہر تو جل رہا ہے یوں اس نے متاثرہ دوست کو ایک اہلکار کے ساتھ ایف آئی آر اندراج کےلیے بھیج دیا۔ اس طرح اتنے تعلقات کے باوجود تقریباً 6 روز بعد کئی چکر لگانے پر ایف آئی آر درج ہوئی۔ مگر مسئلہ ایک ایف آئی آر کا نہیں بلکہ اُن دس سے زائد موٹر سائیکلوں کا بھی ہے جو صرف اُس روز غائب ہوئیں، جہاں دن بہ دن بڑھتی مہنگائی اور مسائل غریب کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے، وہاں وہ کیسے دوبارہ موٹر سائیکل خرید سکے گا؟
ان چھیناجھپٹی اور چوری چکاری پر تھانوں میں بیٹھے عملے کا رویہ صرف اُن کا ذاتی نہیں بلکہ ناقص سسٹم کی ناکامی ہے، جو تعلقات والوں کےلیے متحرک ہوجاتا ہے مگر ایک غریب جو اپنا پیٹ کاٹ کر تمام ٹیکسز بھی ادا کررہا ہوتا ہے، اُس کی کوئی دادرسی نہیں ہوتی۔
کراچی والوں کے شکوے شکایات اور مسائل کوئی نئی بات نہیں، لیکن بڑھتے جرائم پر شہریوں کی تشویش بھی بڑھ رہی ہے جس کے ادراک کےلیے ''ڈکیتی پر مزاحمت نہ کریں اور جرائم کا ریٹ دیگر شہروں سے کم ہے'' جیسے مضحکہ خیز بیانات نہیں بلکہ ایک عملی جامع منصوبہ بندی ضروری ہے۔
کراچی میں اگر جرائم کو ختم کرنا ہے تو اس کےلیے کمیونٹی کی سطح پر چوکیداری سسٹم، گلیوں شاہراہوں پر بیریئرز کو دوبارہ نصب کرکے جرائم کی کسی حد تک روک تھام کی جاسکتی ہے۔ یوں شاید کراچی نہ جلے اور پھر کسی کو ایس ایچ او کے نیرو بننے پر بھی کوئی اعتراض نہ ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔