روس میں 40 سالہ پابندی ہٹنے کے بعد ناول کا ترجمہ تیزی سے مقبول

مطلق العنان حکومت کے پس منظر میں جارج اورویل کا 1984 ناول ایک عرصے تک روس میں پابندی کے شکار رہا

روس میں ایک شخص جارج آرویل کے مشہور ناول 1984 کا روسی ترجمہ پڑھ رہا ہے۔ فوٹو: سی این این

روس سے ایک دلچسپ خبر آئی ہے کہ وہاں 40 سال سے پابندی کے شکار ایک مشہور ناول کا ترجمہ منظرِ عام پر آنے کے بعد تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اور چند ہفتوں سے سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں شامل ہے۔

یہ جارج اورویل کا مشہور ترین ناول 1984 ہے جس میں وہ مستقبل میں ایک ایسا ملک دکھاتے ہیں جہاں جبر اور مطلق العنانیت کا راج ہے اور لوگوں کو شہریت سے محروم رکھنے کے خوف بڑھا کر ان سے بے رحم اور طویل جنگوں کی حمایت کا کہا جاتا ہے۔ اب اجازت کے بعد یہ ناول روس میں ترجمہ ہوا ہے اور پڑھی جانے والی برقی کتب میں سرِ فہرست (بیسٹ سیلر) ہے۔

روسی آن لائن کتب فروشی کی ویب سائٹ لِٹ ریس کے مطابق یہ ناول 2022 میں سب سے زیادہ پڑھا گیا ہے اور ساتھ ہی اس کی کتابی شکل بھی نوجوانوں کے ہاتھوں میں دیکھی گئی ہے۔ واضح رہے کہ 1949 میں یہ شاہکار لکھا گیا تھا جو اب بھی عالمی شہرت رکھتا ہے۔ ناول میں عالمی جنگ کے خاتمے اور نازی ازم کی شکست کے بعد کا منظرنامہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس میں روس کا بھی ذکر ہے اور یہی وجہ ہے کہ 1998 سے اس ناول پر مکمل پابندی عائد تھی۔


جارج اورویل نے خود کہا تھا کہ اس نے جوز اسٹالن کی آمریت دیکھ کر یہ ناول لکھا ہے جس میں وہ پولیس، ایجنسیوں اور دیگر اداروں سے شہریوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھتا ہے اور انہیں لاشعوری طور پر باور کراتا ہے کہ جنگ ہی امن ہے اور غلامی ہی ایک قسم کی آزادی ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق حالیہ روسی صدر ولادمیر پیوٹن بھی انہی خطوط پر کام کررہے اور وہ چن چن کر اپنے مخالفین کو راہ سے ہٹارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ روسی عوام اسے پڑھ کر اپنے سیاق و سباق سے جوڑ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیوٹن نے لفظ جنگ کی بجائے اب خصوصی فوجی آپریشن کا لفظ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔

یہ ناول اس سال مئی میں ترجمہ ہوکر روس میں منظرِ عام پر آیا تھا۔
Load Next Story