انسانی حقوق کے چارٹر کے 74 سال

پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا بنیادی فریضہ انسانی حقوق کے تمام شعبوں کی صورتحال پر بحث و مباحثہ کرنا ہے

tauceeph@gmail.com

اقوام متحدہ میں شامل ممالک نے 74سال قبل انسانی حقوق کے چارٹر کی توثیق کی تھی۔ پاکستان نے بھی اس چارٹر پر مہر لگائی تھی۔

گزشتہ ہفتہ 10دسمبر کو انسانی حقوق کا دن اقوام متحدہ کے چارٹر کے 74سال مکمل ہونے پر منایا گیا ،مگر گزشتہ 75برسوں میں انسانی حقوق کے حوالے سے ہمارے ملک کی عالمی ساکھ اچھی نہیں سمجھی جاتی۔ اسی دن لندن سے یہ خبر آئی کہ برطانوی حکومت نے اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے حوالے سے پاکستان کو 11ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا اور برطانوی حکومت پاکستان پر بعض پابندیاں بھی عائد کرسکتی ہے۔

ملک میں آج بھی لاکھوں بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولتیں موجود نہیں ہیں، اگرچہ سرکاری طور پر پاکستان میں خواندگی کی شرح 60 فیصد کے قریب بتائی جاتی ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ حقیقی شرح کم ہے۔

اگرچہ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم میں شق 25-A شامل کی گئی ہے جس کے تحت ریاست ہر شہری کو تعلیم کی سہولتیں مہیا کرنے کی پابند ہے مگر پاکستان کا تعلیمی بجٹ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور مالدیپ سے بھی کم ہے۔

ابھی تک کسی بھی حکومت نے اسکول نہ جانے والے بچوں کو جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے اسکول بھیجنے کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے جیسے اقدامات بھارت اور بنگلہ دیش وغیرہ نے کیے تھے۔ غربت کی سطح بڑھنے سے چائلڈ لیبر کی شرح بڑھ گئی ہے۔ایسی ہی صورتحال صحت کے شعبہ کی ہے۔

پاکستان میں اب بھی زچہ بچہ کے مرنے کی شرح علاقہ کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق 60 فیصد کے قرب آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے جس سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

سرکاری اسپتالوں میں محدود سہولتیں اور ناقص انتظامات ہو تے ہیں۔ لوگ مجبوراً پرائیوٹ اسپتالوں میں لوٹ کھسوٹ کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سال بارشوں کے نتیجہ میں آنے والی تباہی سے لوگ کم ہلاک ہوئے اور اور بارشوں کے نتیجہ میں پھیلنے والی بیماریوں سے ہلاکتیں زیادہ ہوئیں۔

حکومتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں مگر آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت کے ایشو پر سب کا رویہ ایک جیسا ہی رہا ہے۔

گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کو اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں قابل اعتراض باتوں پر گرفتار کیا ہے، وہ پہلے اسلام آباد میں گرفتار ہوئے اور پھر انھیں بلوچستان کے مختلف تھانوں میں درج ایف آئی آر پر گرفتار کیا گیا۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے صوبے میں درج تمام مقدمات میں ان درخواست ضمانت منظور کی تو انھیں سندھ میں منتقل کردیا گیا ہے۔ ایک ایم این اے علی دو برس سے پابند سلاسل ہے۔

پاکستان میں جمہوری حکومتوں میں سے عمران خان حکومت کا دور میڈیا کی آزادی کے اعتبار سے سیاہ دور تھا۔ میڈیا انڈسٹری کو ایک منصوبے کے تحت تارپیڈو کیا گیا۔

ہزاروں میڈیا کارکن اور صحافیوں کو روزگار سے محروم ہونا پڑا۔ کئی صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بننا پڑا مگر عمران حکومت کی تبدیلی کے باوجود صورتحال زیادہ بہتر نہیں ہوئی۔ معروف ٹی وی اینکر ارشد شریف کا کینیا میں قتل بھی معمہ بنا ہواہے، حکومت نے اعلیٰ افسروں پر مشتمل ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم قائم کی ہے جس نے عرق ریزی سے محنت کر کے حقائق جمع کیے ہیں۔

سپریم کورٹ نے ارشد شریف کے قتل کا ازخود نوٹس لیا ہے اور تمام خفیہ ایجنسیوں پر مشتمل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی ہے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ صرف ایک دو صحافیوں کے قاتلوں کو سزا ہوئی، باقی 150 سے زائد مقتول صحافیوں کے قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا ، اس بناء پر بیشتر صحافیوں کو ارشد شریف کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دینے کے مطالبہ پر عمل ہونے کا یقین نہیں ہے۔

وفاق اور سندھ میں جرنلسٹس پروٹیکشن کا قانون بنا ہے مگر ان قوانین پر عملدرآمد کے لیے قائم ہونے والا کمیشن فعال نہیں ہے مگر باقی صوبوں میں تو اس بارے میں قانون سازی کا مرحلہ ہی نہیں آیا ہے۔


روایتی میڈیا اور صحافیوں کو تو چھوڑیں پاکستان میں تو فلم اور سوشل میڈیا پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں، گزشتہ دنوں ٹرانس جینڈرز کے موضوع پر بننے والی فلم کو جب تمام صوبوں کے سنسر بورڈز نے نمائش کی اجازت دے دی تھی تو وفاقی حکومت نے اس پر پابندی لگادی تھی۔ سول سوسائٹی کے دباؤ پر یہ پابندی ختم ہوئی، مگر پنجاب کی حکومت نے اس فلم پر پھر پابندی لگادی ہے۔ ماضی میں بھی کئی فلموں پر پابندی عائد ہوچکی ہے۔

پی ڈی ایم کی جماعتیں جب اقتدار میں نہیں آئی تھیں تو لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کا عزم کرتی تھیں۔ موجودہ حکومت نے شہری کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کا قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا ہے مگر اس قانون پر عملدرآمد ابھی تک نہیں ہوا۔

معروف محقق مریم ضیاء بلوچ نے انگریزی اخبار میں لکھا ہے کہ بلوچستان کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کی ہے اور انھوں کہا ہے کہ ان کا دل لاپتہ افرادکے اہل خانہ کے ساتھ دھڑک رہا ہے۔ عسکری ادارہ کے ایک اہم افسر کا یہ بیان انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بڑا اہم ہے اور اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار عطاء اﷲ مینگل کی قیادت میں اسلام آباد میں مقیم بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے کے مسئلہ کے حل کے لیے کمیشن قائم کیا تھا۔ اختر مینگل کا کہنا ہے کہ وہ صرف طلبہ کو ہراساں کرنے کے مسئلہ کے تناظر میں لاپتہ افراد کے بارے میں ایک جامع رپورٹ تیار کریں گے ۔

چند سال قبل ایم کیو ایم کی قیادت اپنے لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کا مطالبہ کررہی تھی، اب اندرون سندھ میں بھی یہ مسئلہ اٹھ رہا ہے۔

ایک محقق سارنگ جویو جو لاپتہ ہوئے تھے اور پھر بازیاب ہوگئے ، انھوں نے ایچ آر سی پی کے سیمینار میں بتایا کہ سندھ میں یہ مسئلہ 2017ء سے زیادہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ کئی افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملتی رہی ہیں مگر یہ بھی ہے کہ کچھ لاپتہ افراد کو نامعلوم افراد رہا بھی کردیتے ہیں۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال صرف بلوچستان سے ڈیڑھ ہزار کے قریب افراد کے بارے میں شکایات ملیں کہ وہ لاپتہ ہیں۔

اس وقت خیبر پختون خوا میں ایسے افراد کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ سندھ میں قوم پرست تنظیمیں دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے چالیس افراد اب تک لاپتہ ہیں جب کہ ایم کیو ایم کے 80 اور ایک مسلک کے 20افراد بھی لاپتہ افراد میں شامل ہیں۔ یہ افراد کسی سرکاری ادارے نے پکڑے ہیں یا یہ کسی کو بتائے بغیرخود روپوش ہوگئے ہیں، اس ایشو میں یہ بھی ایک الجھن موجود ہے۔

سندھ میں ہندو اپنی کمسن بچیوں کے زبردستی مذہب تبدیل کرانے کے رجحان پر سخت پریشانی کا شکار ہیں، ایسے معاملے میں مقامی بااثر افراد اور مذہبی طبقے کے دباؤ کی وجہ سے انتظامیہ اور ماتحت عدلیہ بھی مصلحت کا مظاہرہ کرتی ہے ، سندھ میں چونکہ ہندوکی تعداد زیادہ ہے۔

اس لیے یہاں یہ مسلہ زیادہ سنگین ہے۔برطانیہ کی حکومت کے ہائی کمیشن کے ترجمان کا موقف ہے کہ برطانوی حکومت مذہبی آزادی کی بناء پر امتیاز کو انتہائی سنجیدگی سے لے گی۔

برطانوی حکومت نے پابندیوں کا فیصلہ سندھ کے ایک پیر کی ہندو لڑکیوں کو زبرستی مذہب کی تبدیلی کی رپورٹوں کی تصدیق کے بعد کیا ہے۔

لاہور میں ایک غیر سرکاری درسگاہ میں انسانی حقوق کے بارے میں ہونے والے ایک سیمینار میں ایک مقرر کو مذہبی امتیاز کی وجہ سے تقریر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا بنیادی فریضہ انسانی حقوق کے تمام شعبوں کی صورتحال پر بحث و مباحثہ کرنا ہے تاکہ منتخب حکومتوں کے لیے گائیڈ لائن تیار کی جائے، مگر المیہ یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمایندے انسانی حقوق کی صورتحال پر بحث پر وقت صرف نہیں کرتے۔ مختلف قسم کے امتیازات کی وجہ سے ملک کی آبادی کا ایک حصہ ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہوپاتا۔ عوام کا ریاست پر اعتماد مجروح ہوتا ہے، اس بنا پر پارلیمنٹ کو ملک میں بگڑتی ہوئی انسانی حقوق کی صورتحال پر غور کرنا چاہیے۔
Load Next Story