معیشت سے کھیلنا درست نہیں

بیرون ممالک کے لوگ عمران خان کے باعث اور اپنے مالی مفاد کے لیے ڈالر نہیں بھیج رہے اور معاشی بہتری نہیں آ رہی

m_saeedarain@hotmail.com

وزارت خزانہ نے ملک میں معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کی خبروں کو مسترد کر دیا ہے اور سختی سے ان افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جھوٹے پیغامات گھڑنا قومی مفاد کے خلاف ہے جب کہ حقیقت میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہونے اور ریونیو وصولی کے مالی اہداف حاصل ہونے سے ملکی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور موجودہ حکومت کی کاوشوں سے آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ پٹری پر آ گیا ہے جس کی وجہ سے معاشی ایمرجنسی عائد کیے جانے کا حکومت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

پاکستان کا سری لنکا سے موازنہ کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے البتہ عوام کو بھی مزید معاشی بہتری اور استحکام کے لیے کام کرنا ہو گا کیونکہ بد قسمتی سے بعض سیاسی حلقے اور عناصر اس سلسلے میں گمراہ کن پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔

اس لیے عوام ایسی گمراہ کن اور بے بنیاد افواہوں پر کان نہ دھریں۔ وزیر مملکت برائے خزانہ کا بھی کہنا ہے کہ معاشی طور پر سب ٹھیک نہیں ہے، پریشانی ضرور ہے مگر ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں ہے۔

حکومت یہ تو مان رہی ہے کہ اس سلسلے میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے جس کے لیے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پی ٹی آئی کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے تیسری ملاقات کی ہے۔

میرا خیال ہے کہ اسحاق ڈار نے صدر صاحب کے توسط سے پی ٹی آئی کی قیادت کو ملک میں معاشی صورتحال کی بہتری میں تعاون کے لیے کہا ہوگا اور یہ بھی پیغام دیا ہوگا کہ وہ پاکستان کی حالت کو سری لنکا سے تشبیہ نہ دیں کیونکہ پاکستان کی معاشی حالت سری لنکا سے بہتر اور مختلف ہے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین بھی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حکومت میں پاکستان سری لنکا بنتا جا رہا ہے اور معیشت تباہ ہو رہی ہے جس کی بہتری کا واحد حل ملک میں عام انتخابات کا جلد انعقاد ہے۔

مجھے وفاقی وزیر خزانہ کی طرف سے صدر مملکت کے ذریعے جو گزارشات عمران خان تک پہنچانے کیکی خوش گمانی ہے، وہ ملک کے مفاد میں تو ہے مگر عمران خان کے سیاسی مفاد میں نہیں ہے۔

صدر مملکت نے وزیر خزانہ سے ملاقات کی تفصیلات پی ٹی آئی قیادت تک پہنچانے کا وعدہ تو کیا ہے مگر عمران خان سے امید نہیں ہے کہ وہ اپنے صدر کی گزارشات پر غور کرکے ملکی معاشی معاملات کی بہتری کے لیے حکومت کو کوئی موقعہ دیں گے اور پی ٹی آئی کی طرف سے معاشی ابتری کے بے بنیاد پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے کہیں گے کیونکہ موجودہ حکومت کے وہ سخت خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا جلد خاتمہ ہو اور نئے انتخابات میں وہ جلد سے جلد دوبارہ وزیر اعظم بنا دیے جائیں۔

وزیر خزانہ نے صدر مملکت کے ذریعے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ پنجاب و کے پی کی حکومتیں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے سلسلے میں وفاق سے تعاون کریں اور اپنے صوبوں میں توانائی کے بحران سے نکلنے کے لیے کاروبار شام چھے بجے تک کی پابندی لگوائیں تاکہ بجلی کی بچت ممکن ہو سکے۔


پنجاب میں حمزہ شہباز حکومت نے یہ پابندی لگائی تھی جسے پرویز الٰہی نے بظاہر تاجروں کی خوشنودی مگر عمران خان کی ہدایت پر اس لیے ختم کی کہ وفاقی حکومت کے لیے توانائی کے مسائل برقرار رہیں اور پنجاب میں پابندی ختم ہو جانے سے سردیوں میں بھی حکومت بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر مجبور رہے اور عوام میں وفاقی حکومت کے لیے نفرت بڑھے، بہرحال یہ امر خوش آیند ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے رات دس تک شاپنگ مالز، مارکیٹیں اور رستوران بند کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔

وزیر خزانہ کے بار بار صدر مملکت سے ملنے سے تو ظاہر ہے ہی مگر مسلم لیگ (ن) کی اندرونی حالت یہ ہے کہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل بھی وزارت خزانہ کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں اور اپنی ہی پارٹی کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر تنقید کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

وہ جانتے ہیں کہ اکتوبر میں ان کی وزارت کے 6 ماہ مکمل ہونے کے بعد وہ وزیر خزانہ نہیں رہ سکتے تھے اور ان کی مدت کے خاتمے سے چند روز قبل ہی حکومت نے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا تھا جو آئے تھے تو بڑے دعوے کر رہے تھے کہ ڈالر پر قابو پا کر روپے کی ویلیو بڑھائیں گے مگر ڈالر چند روز نیچے جا کر ایسا اوپر اٹھا کہ نیچے آنے کے لیے تیار نہیں اور اسحاق ڈار کی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی اور مفتاح اسمٰعیل ان پر تنقید میں مصروف ہیں حالانکہ سابق وزیر خزانہ کے اپنے دور میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا اور پٹرول بھی مہنگا ہوا۔

پٹرول پر ٹیکس بڑھاتے رہے جس کی وجہ سے حکومت عوام میں غیر مقبول ہوئی اور حکومتی امیدواروں کی مسلسل شکست مہنگائی کے باعث ہوئی۔

ملک میں آج ڈالر کی گرفت مضبوطی کے باعث مہنگا ہو رہا ہے جس سے اسٹاک مارکیٹ میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور ملک میں ڈالر کی قلت کے باعث کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔

بیرون ممالک کے لوگ عمران خان کے باعث اور اپنے مالی مفاد کے لیے ڈالر نہیں بھیج رہے اور معاشی بہتری نہیں آ رہی۔ قوم کو نئے وزیر خزانہ سے بڑی توقعات تھیں جو پوری نہیں ہو رہیں اور وزارت خزانہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث بے بس نظر آ رہی ہے اور وزیر خزانہ یہ سمجھ کر مطمئن ہیں کہ مالیاتی ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے حکومت کے پاس جامع پروگرام ہے۔

ملک کی موجودہ معاشی صورت حال کسی طرح بھی اطمینان بخش نہیں جس سے ملک متاثر ہو رہا ہے مگر بعض سیاسی عناصر حکومت کی دشمنی میں معاشی صورتحال سے متعلق بے بنیاد پروپیگنڈے میں مصروف ہیں جس سے ملک بھر میں غیر یقینی کی صورت حال ہے اور سب فکر مند ہیں کہ وہ حکومتی دعوؤں پر یقین کریں یا اپوزیشن کے منفی پروپیگنڈے پر۔

بے بس وزارت خزانہ اب تک ڈالروں پر مال کمانے والے بینکوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کرسکی ہے اور وہ بے بسی سے بے بنیاد منفی افواہیں پھیلانے والوں کے پروپیگنڈے کی تردیدیں ہی کرتی آ رہی ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے اپنے معاہدے کی ہی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ ان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے پنجاب و کے پی کے وزرائے خزانہ سے مل کر آئی ایم ایف سے معاہدہ ناکام کرانے کی بھرپور کوشش کی تھی جسے حکومت نے پھر پٹری پر تو چڑھا دیا ہے مگر اپوزیشن پھر ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے۔
Load Next Story