افغانستان ذمے دار ریاست ہونے کا ثبوت دے
افغان حکومت کے بینر تلے مقامی طالبان کمانڈر بھی من مانی کرتے نظر آتے ہیں
گزشتہ روز چمن بارڈر پر کلی شیخ لعل محمد سیکٹر میں واقع چنگیز بارڈر پوسٹ پر اچانک افغان فورسز نے حملہ کر دیا اور بھاری ہتھیاروں سے فائر کیے۔
مارٹر اور آرٹلری کے گولے گرنے سے 1پاکستانی شہری شہید اور خواتین و بچوں سمیت 20 کے قریب شہری زخمی ہو گئے جن میں سے 8 شدید زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کیا گیا، کشیدگی کے باعث علاقے میں ٹریفک جام ہو گیا۔تازہ اطلاعات کے مطابق پاک افغان بارڈر پر موجود سرحدی فورسز کے مابین جنگ بندی ہو گئی ہے، تاہم صورتِ حال بدستور کشیدہ ہے۔
ایک ہفتے میں دوسری بار افغان فورسز نے چمن بارڈر کے آس پاس کے علاقوں پر فائرنگ کی ہے، حالانکہ پچھلے واقعے پر افغان حکومت نے معافی طلب کی تھی۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سرحد پر بلااشتعال فائرنگ کے واقعات روکے جائیں۔ دراصل باربار سرحد کی بندش سے مقامی باشندوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک بڑی تعداد سرحدی شہر چمن کے رہائشی پاکستانیوں کی بھی ہوتی ہے جو روزانہ کاروبار اور مزدوری کے لیے افغانستان کے سرحدی شہر اسپین بولدک جاتے اور شام کو واپس آتے ہیں۔
سرحد پر تجارتی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہونے سے دونوں جانب سامان سے لدی سیکڑوں گاڑیاں پھنس جاتی ہیں جس سے دونوں ممالک کے تاجر پریشان ہیں، چمن،ا سپین بولدک سرحد سے روزانہ 500 سے زائد ٹرکوں اور کنٹینروں کی آمدورفت ہوتی ہے، ان میں انار اور دیگر پھلوں اور سبزیوں سے لدی گاڑیاں بھی شامل ہوتی ہیں جن میں پڑا مال خراب ہو جاتا ہے۔
ایک کنٹینر کے صرف ایک دن کے چارجز ڈیڑھ سو ڈالر یعنی تیس ہزار روپے سے زائد بنتے ہیں، اس طرح سے تاجروں کو روزانہ کروڑوں روپے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت قائم ہو جانے کے بعدپاکستان میں ایک مخصوص لابی عوام کو یہ تاثر دے رہی تھی کہ اب افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی صورت حال بہتر ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
پاکستان کے لیے پہلے سے بھی زیادہ مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ طالبان سیکیورٹی اہلکار کئی بار پاک افغان سرحد پر لگی باڑ کو کاٹنے کی کوشش کر چکے ہیں۔
افغانستان سے دہشت گردوں کے حملے بھی بدستور جاری ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت اس حوالے سے کوئی عملی اور ٹھوس حکمت عملی تیار نہیں کر سکی ہے، یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان کی عبوری حکومت ابھی تک نہ تو اقوام عالم کی حمایت حاصل کر سکی ہے اور نہ ہی افغانستان میں پوری طرح امن قائم کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔
پاکستان نے افغانستان کی جانب سے شدت پسندوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے غیر قانونی طریقوں سے داخلے پر پابندی کی خاطر سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ چند سال پہلے کیا تھا۔
پاکستان میں آرمی پبلک اسکول پر حملے اور دیگر تشدد کے واقعات کے بعد حکام کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ بیشتر حملہ آور افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں کارروائیاں کر کے واپس فرار ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح بھتے کے حوالے سے بھی اکثر پولیس حکام یہی کہتے رہے ہیں کہ بیشتر بھتہ خور افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں سے آ کر یہ کارروائیاں کرتے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد مشکل اور طویل ہے اور حکام کے مطابق اس کی مسلسل نگرانی کرنا ایک مشکل کام ہے ،اس لیے اس سرحد پر باڑ لگانے سے غیر قانونی طور پر لوگ سرحد عبور نہیں کر سکیں گے۔
اس باڑ کی تنصیب کے لیے سرکاری ذرایع کے مطابق اربوں روپے مختص کیے گئے تھے اور اس منصوبے کے تحت سرحد پر نگرانی کے لیے سیکڑوں چھوٹے چھوٹے قلعے اور چوکیاں تعمیرکی گئی ہیںاور اس کا مقصد اپنے ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔
پاک افغان تعلقات اپنی تاریخی حیثیت میں سیاسی سے زیادہ دینی، تہذیبی اور ثقافتی نوعیت کے رہے ہیں جو اگرچہ ایک لمبے تاریخی دور کا حصہ ہیں مگر ان میں اسٹرٹیجک نوعیت کی تبدیلی اس وقت آئی جب سوویت روس نے افغانستان پر حملہ کیا۔پاکستان سرد جنگ کے دور میں امریکی بلاک کا حصہ اور افغانستان کا ایسا پڑوسی ملک تھا جس کی طویل سرحد افغانستان سے ملتی تھی۔
دنیا میں طاقت کے دو قطبی دور میں سوویت روس اور امریکا کے درمیان جاری کشمکش کے زمانے میں پاکستان عالمی سیاست کا محور بنا۔اس کی دو اہم وجوہات تھیں، ایک یہ کہ سوویت روس کے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ افغانستان میں داخل ہو جانے کے بعد پاکستان کی خود مختاری کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا تھااور اس بات کا قوی اندیشہ محسوس کیا گیا کہ سوویت روس کی مداخلت افغانستان تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ دیریا سویر پاکستان بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے چنانچہ یہ احساس مضبوط بنیادوں کے ساتھ پاکستانی عوام اور اس وقت کے پاکستانی حکمرانوں کے اندر جا گزیں ہوگیا اور وہ افغانستان اور وہاں کی حکومت کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور نہ صرف امریکا کی مدد سے بلکہ عالم اسلام کے تعاون سے بھی اس نے افغانستان کے لیے وہ سب کچھ کیا جو ممکن ہوسکتا تھا۔ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے افغانستان کی اس پورے عرصہ میں کس کس طرح مدد کی۔
اس پورے دور میں پاکستانی حکومت اور عوام،دونوں سطحوں پر گہری دوستی اور تعاون کی فضا قائم ہوئی جس نے نئے دور میں دونوں ملکوں کی عوام اور حکومتوں کو باہم شیر و شکر کردیا۔ جنگ سے متاثر افراد اور خاندانوں نے زیادہ تر پاکستان اور ہندوستان ہی میں پناہ لی اور قریبی دور تک دونوں ملکوں کی سرحدیں عوامی آمد و رفت کی خاطر ایک طرح سے کھلی ہوئی تھیں۔
پاک افغان تعلقات میں کئی موڑ آئے، اب جب کہ افغانستان میں طالبان حکومت ایک بار پھر سے قائم ہوگئی ہے، پاک افغان تعلقات نئے موڑ پر کھڑے معلوم ہوتے ہیں۔
یہ سوال بہر حال باقی رہتا ہے کہ موجودہ پاک افغان تعلقات میں در آئی اس کڑواہٹ کے اسباب و عوامل کیا ہیں؟ جواب آسان ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت پورے افغانستان پراپنی رٹ قائم نہیں کر سکی۔ بظاہر افغان طالبان کاپورے افغانستان پر کنٹرول نظر آتا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف کوئی فیصلہ کن آپریشن کرنے میں بھی تاحال ناکام نظر آتی ہے۔
افغان حکومت کے بینر تلے مقامی طالبان کمانڈر بھی من مانی کرتے نظر آتے ہیں۔ افغانستان میں باقاعدہ جیوڈیشل سسٹم کی تشکیل نہیں ہو سکی ہے اور نہ ہی جدید طرز کا انتظامی ڈھانچہ تیار ہو سکا ہے۔
ملک کا مالیاتی نظام بھی غیرفعال ہے اس لیے وہاں سرمایہ کاری بھی نہ ہونے کے برابر ہے ایسے حالات کا تقاضا تو یہی ہے کہ افغانستان حکومت سب سے پہلے افغانستان پر اپنا اقتدار اعلیٰ قائم کرنے کا عملی ثبوت فراہم کرے۔ وہاں موجود دہشت گرد گروپوں اور تنظیموں کا خاتمہ کرنے کے لیے فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کرے، اس معاملے میں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے تو باقاعدہ طور پر افغان حکومت پاکستان حکومت کو درخواست کرے۔
افغانستان کے تمام نسلی اور ثقافتی گروہوں کو حکومت میں بھرپور نمایندگی دے تاکہ افغانستان میں عام انتخابات کی راہ ہموار ہو سکے۔افغان حکومت کے جو بھی مسائل ہیں اس کے بارے میں تو حکومت کے اعلیٰ عہدیداران ہی وضاحت کر سکتے ہیں تاہم بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ طالبان کے اپنے اندر بھی مختلف ایشوز کے حوالے سے یکسوئی یا نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہے۔ اس وجہ سے حکومتی ڈھانچہ پوری طرح فعال نظر نہیں آتا خصوصاً انٹرنل سیکیورٹی کے حوالے سے صورت حال زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔
افغانستان کو ایک ذمے دار ریاست اور افغان حکومت کو ایک ذمے دار حکومت کا ثبوت دینا ہو گا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ساری دنیا غلط ہو اور صرف آپ درست ہوں۔ صدیوں سے یہ اصول چلا آ رہا ہے کہ اقوام عالم میں اپنی جگہ بنانے کے لیے دوسروں کی سرحدوں کا احترام کیا جاتا ہے کوئی ریاست اقوام عالم کا اعتماد حاصل کیے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی ہر ملک کا اپنا نظام حکومت ہوتا ہے اپنا آئین و قانون ہوتا ہے اور اپنا کلچر ہوتا ہے۔
اگر کوئی ملک دوسرے ملکوں کے نظام حکومت آئین و قوانین اور کلچر کو غلط قرار دے اور بین الاقوامی تعلقات میں اپنے ضابطوں اور کلچر کو سامنے رکھ کر فیصلے کرے گا تو اسے سوائے مخالفت اور ناکامی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔افغانستان کی حکومت کے کرتا دھرتاؤ ں کو ڈسپلنڈ ریاستوں کے معیارات کا پابند بننا ہو گا۔
اس بات کے امکانات سے بھی انکار مناسب نہیں کہ افغانستان اور پاکستان کو آپس میں لڑانے کی بساط بچھائی جا رہی ہو۔پاک افغان تعلقات میں آیا یہ نیاموڑ جہاں حیرت ناک اور افسوس ناک ہے، وہیں دونوں ملکوں کے عوامی اور حکومتی دونوں سطح کے تعلقات کے مستقبل کے لیے اچھی علامت تصورنہیں کیا جا سکتا ہے۔
مارٹر اور آرٹلری کے گولے گرنے سے 1پاکستانی شہری شہید اور خواتین و بچوں سمیت 20 کے قریب شہری زخمی ہو گئے جن میں سے 8 شدید زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کیا گیا، کشیدگی کے باعث علاقے میں ٹریفک جام ہو گیا۔تازہ اطلاعات کے مطابق پاک افغان بارڈر پر موجود سرحدی فورسز کے مابین جنگ بندی ہو گئی ہے، تاہم صورتِ حال بدستور کشیدہ ہے۔
ایک ہفتے میں دوسری بار افغان فورسز نے چمن بارڈر کے آس پاس کے علاقوں پر فائرنگ کی ہے، حالانکہ پچھلے واقعے پر افغان حکومت نے معافی طلب کی تھی۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سرحد پر بلااشتعال فائرنگ کے واقعات روکے جائیں۔ دراصل باربار سرحد کی بندش سے مقامی باشندوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک بڑی تعداد سرحدی شہر چمن کے رہائشی پاکستانیوں کی بھی ہوتی ہے جو روزانہ کاروبار اور مزدوری کے لیے افغانستان کے سرحدی شہر اسپین بولدک جاتے اور شام کو واپس آتے ہیں۔
سرحد پر تجارتی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہونے سے دونوں جانب سامان سے لدی سیکڑوں گاڑیاں پھنس جاتی ہیں جس سے دونوں ممالک کے تاجر پریشان ہیں، چمن،ا سپین بولدک سرحد سے روزانہ 500 سے زائد ٹرکوں اور کنٹینروں کی آمدورفت ہوتی ہے، ان میں انار اور دیگر پھلوں اور سبزیوں سے لدی گاڑیاں بھی شامل ہوتی ہیں جن میں پڑا مال خراب ہو جاتا ہے۔
ایک کنٹینر کے صرف ایک دن کے چارجز ڈیڑھ سو ڈالر یعنی تیس ہزار روپے سے زائد بنتے ہیں، اس طرح سے تاجروں کو روزانہ کروڑوں روپے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت قائم ہو جانے کے بعدپاکستان میں ایک مخصوص لابی عوام کو یہ تاثر دے رہی تھی کہ اب افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی صورت حال بہتر ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
پاکستان کے لیے پہلے سے بھی زیادہ مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ طالبان سیکیورٹی اہلکار کئی بار پاک افغان سرحد پر لگی باڑ کو کاٹنے کی کوشش کر چکے ہیں۔
افغانستان سے دہشت گردوں کے حملے بھی بدستور جاری ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت اس حوالے سے کوئی عملی اور ٹھوس حکمت عملی تیار نہیں کر سکی ہے، یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان کی عبوری حکومت ابھی تک نہ تو اقوام عالم کی حمایت حاصل کر سکی ہے اور نہ ہی افغانستان میں پوری طرح امن قائم کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔
پاکستان نے افغانستان کی جانب سے شدت پسندوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے غیر قانونی طریقوں سے داخلے پر پابندی کی خاطر سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ چند سال پہلے کیا تھا۔
پاکستان میں آرمی پبلک اسکول پر حملے اور دیگر تشدد کے واقعات کے بعد حکام کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ بیشتر حملہ آور افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں کارروائیاں کر کے واپس فرار ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح بھتے کے حوالے سے بھی اکثر پولیس حکام یہی کہتے رہے ہیں کہ بیشتر بھتہ خور افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں سے آ کر یہ کارروائیاں کرتے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد مشکل اور طویل ہے اور حکام کے مطابق اس کی مسلسل نگرانی کرنا ایک مشکل کام ہے ،اس لیے اس سرحد پر باڑ لگانے سے غیر قانونی طور پر لوگ سرحد عبور نہیں کر سکیں گے۔
اس باڑ کی تنصیب کے لیے سرکاری ذرایع کے مطابق اربوں روپے مختص کیے گئے تھے اور اس منصوبے کے تحت سرحد پر نگرانی کے لیے سیکڑوں چھوٹے چھوٹے قلعے اور چوکیاں تعمیرکی گئی ہیںاور اس کا مقصد اپنے ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔
پاک افغان تعلقات اپنی تاریخی حیثیت میں سیاسی سے زیادہ دینی، تہذیبی اور ثقافتی نوعیت کے رہے ہیں جو اگرچہ ایک لمبے تاریخی دور کا حصہ ہیں مگر ان میں اسٹرٹیجک نوعیت کی تبدیلی اس وقت آئی جب سوویت روس نے افغانستان پر حملہ کیا۔پاکستان سرد جنگ کے دور میں امریکی بلاک کا حصہ اور افغانستان کا ایسا پڑوسی ملک تھا جس کی طویل سرحد افغانستان سے ملتی تھی۔
دنیا میں طاقت کے دو قطبی دور میں سوویت روس اور امریکا کے درمیان جاری کشمکش کے زمانے میں پاکستان عالمی سیاست کا محور بنا۔اس کی دو اہم وجوہات تھیں، ایک یہ کہ سوویت روس کے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ افغانستان میں داخل ہو جانے کے بعد پاکستان کی خود مختاری کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا تھااور اس بات کا قوی اندیشہ محسوس کیا گیا کہ سوویت روس کی مداخلت افغانستان تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ دیریا سویر پاکستان بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے چنانچہ یہ احساس مضبوط بنیادوں کے ساتھ پاکستانی عوام اور اس وقت کے پاکستانی حکمرانوں کے اندر جا گزیں ہوگیا اور وہ افغانستان اور وہاں کی حکومت کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور نہ صرف امریکا کی مدد سے بلکہ عالم اسلام کے تعاون سے بھی اس نے افغانستان کے لیے وہ سب کچھ کیا جو ممکن ہوسکتا تھا۔ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے افغانستان کی اس پورے عرصہ میں کس کس طرح مدد کی۔
اس پورے دور میں پاکستانی حکومت اور عوام،دونوں سطحوں پر گہری دوستی اور تعاون کی فضا قائم ہوئی جس نے نئے دور میں دونوں ملکوں کی عوام اور حکومتوں کو باہم شیر و شکر کردیا۔ جنگ سے متاثر افراد اور خاندانوں نے زیادہ تر پاکستان اور ہندوستان ہی میں پناہ لی اور قریبی دور تک دونوں ملکوں کی سرحدیں عوامی آمد و رفت کی خاطر ایک طرح سے کھلی ہوئی تھیں۔
پاک افغان تعلقات میں کئی موڑ آئے، اب جب کہ افغانستان میں طالبان حکومت ایک بار پھر سے قائم ہوگئی ہے، پاک افغان تعلقات نئے موڑ پر کھڑے معلوم ہوتے ہیں۔
یہ سوال بہر حال باقی رہتا ہے کہ موجودہ پاک افغان تعلقات میں در آئی اس کڑواہٹ کے اسباب و عوامل کیا ہیں؟ جواب آسان ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت پورے افغانستان پراپنی رٹ قائم نہیں کر سکی۔ بظاہر افغان طالبان کاپورے افغانستان پر کنٹرول نظر آتا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف کوئی فیصلہ کن آپریشن کرنے میں بھی تاحال ناکام نظر آتی ہے۔
افغان حکومت کے بینر تلے مقامی طالبان کمانڈر بھی من مانی کرتے نظر آتے ہیں۔ افغانستان میں باقاعدہ جیوڈیشل سسٹم کی تشکیل نہیں ہو سکی ہے اور نہ ہی جدید طرز کا انتظامی ڈھانچہ تیار ہو سکا ہے۔
ملک کا مالیاتی نظام بھی غیرفعال ہے اس لیے وہاں سرمایہ کاری بھی نہ ہونے کے برابر ہے ایسے حالات کا تقاضا تو یہی ہے کہ افغانستان حکومت سب سے پہلے افغانستان پر اپنا اقتدار اعلیٰ قائم کرنے کا عملی ثبوت فراہم کرے۔ وہاں موجود دہشت گرد گروپوں اور تنظیموں کا خاتمہ کرنے کے لیے فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کرے، اس معاملے میں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے تو باقاعدہ طور پر افغان حکومت پاکستان حکومت کو درخواست کرے۔
افغانستان کے تمام نسلی اور ثقافتی گروہوں کو حکومت میں بھرپور نمایندگی دے تاکہ افغانستان میں عام انتخابات کی راہ ہموار ہو سکے۔افغان حکومت کے جو بھی مسائل ہیں اس کے بارے میں تو حکومت کے اعلیٰ عہدیداران ہی وضاحت کر سکتے ہیں تاہم بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ طالبان کے اپنے اندر بھی مختلف ایشوز کے حوالے سے یکسوئی یا نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہے۔ اس وجہ سے حکومتی ڈھانچہ پوری طرح فعال نظر نہیں آتا خصوصاً انٹرنل سیکیورٹی کے حوالے سے صورت حال زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔
افغانستان کو ایک ذمے دار ریاست اور افغان حکومت کو ایک ذمے دار حکومت کا ثبوت دینا ہو گا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ساری دنیا غلط ہو اور صرف آپ درست ہوں۔ صدیوں سے یہ اصول چلا آ رہا ہے کہ اقوام عالم میں اپنی جگہ بنانے کے لیے دوسروں کی سرحدوں کا احترام کیا جاتا ہے کوئی ریاست اقوام عالم کا اعتماد حاصل کیے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی ہر ملک کا اپنا نظام حکومت ہوتا ہے اپنا آئین و قانون ہوتا ہے اور اپنا کلچر ہوتا ہے۔
اگر کوئی ملک دوسرے ملکوں کے نظام حکومت آئین و قوانین اور کلچر کو غلط قرار دے اور بین الاقوامی تعلقات میں اپنے ضابطوں اور کلچر کو سامنے رکھ کر فیصلے کرے گا تو اسے سوائے مخالفت اور ناکامی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔افغانستان کی حکومت کے کرتا دھرتاؤ ں کو ڈسپلنڈ ریاستوں کے معیارات کا پابند بننا ہو گا۔
اس بات کے امکانات سے بھی انکار مناسب نہیں کہ افغانستان اور پاکستان کو آپس میں لڑانے کی بساط بچھائی جا رہی ہو۔پاک افغان تعلقات میں آیا یہ نیاموڑ جہاں حیرت ناک اور افسوس ناک ہے، وہیں دونوں ملکوں کے عوامی اور حکومتی دونوں سطح کے تعلقات کے مستقبل کے لیے اچھی علامت تصورنہیں کیا جا سکتا ہے۔