آٹھ برس بعد بھی معاملات جوں کے توں
آج آٹھ برس بعد صورتِ احوال کچھ یوں ہے کہ کوئی مائی کا لال نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات زبانی نہیں گنوا سکتا
گزشتہ روز (سولہ دسمبر) سانحہِ آرمی پبلک اسکول پشاور کو آٹھ برس مکمل ہو گئے۔خود کش دھماکوں کو چھوڑ کے آج تک دہشت گردی کی اتنی خونریز منظم کارروائی کبھی نہیں ہوئی جس میں ایک ہی جھٹکے میں ایک سو بتیس بچوں سمیت ڈیڑھ سو انسان بلاقصور موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ہوں۔
تب بھی وفاق میں مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی اور تب بھی عمران خان غصے میں تھے اور ڈی چوک میں دھرنا جاری تھا۔
مگر اے پی ایس سانحے کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی قیادت نے اپنے سیاسی فاصلوں کو عارضی طور پر بالاِ طاق رکھتے ہوئے ایک میز پر آمنے سامنے بیٹھ کے محسوس کیا کہ بس بہت ہو گیا۔ایسا دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔
چنانچہ باہم مشاورت کے نتیجے میں ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان وجود میں آیا۔اس پر عمل درآمد کے میکنزم پر بھی اتفاقِ رائے ہو گیا۔بلیک اور جیٹ بلیک دہشت گردوں کے مقدمات تیز رفتاری سے نپٹانے کے لیے خصوصی فوجی عدالتیں قائم ہوئیں۔
سانحے کے اسباب ، سیکیورٹی میں غفلت ، زمہ داروں کی نشان دہی کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا گیا۔
ریاست نے بظاہر دہشت گرد تنظیموں کے قلع قمع کے لیے کوئی لچک نہ دکھانے کا فیصلہ کیا ۔یکے بعد دیگرے مالاکنڈ اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی و جنوبی وزیرستان میں عسکری آپریشنز میں تیزی لائی گئی۔دہشت گرد تتر بتر ہو گئے یا پھر سرحد پار منتقل ہو گئے۔یوں لگا گویا خوف و ہراس والے دن پھر سے نہ لوٹیں گے۔
یہ بھی طے پایا کہ ان کامیابیوں کو پائیدار بنانے کے لیے نہ صرف قابلِ عمل قانون سازی کی جائے بلکہ پورے دیمک زدہ نظامِ انصاف کو اگلے دو برس میں جدید اصلاحات کی سان پر سے گذارا جائے تاکہ موثر اور تیز رفتار انصاف کو بطور بنیادی حق عام آدمی کی دہلیز پر پہنچا کے ریاست اور اداروں پر اس کا متزلزل اعتماد بحال ہو سکے اور اکتائے ہوئے نوجوانوں کو دہشت گردی کے ایجنٹ بطور خام مال استعمال نہ کر سکیں۔
یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ تعلیمی نصاب کا بھی ازسرِنو جائزہ لیا جائے تاکہ کچے ذہنوں کو انتہاپسندی کی جانب راغب ہونے سے روکا جا سکے اور مستقبل کے شہریوں کو اعتدال پسندی اور انسان دوستی کی جانب موڑا جا سکے۔
یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید سوچ اور ساز و سامان سے مسلح کیا جائے۔ ان کے ملازمتی قواعد کو بہتر بنایا جائے اور انھیں مکمل احساس دلایا جائے کہ ریاست اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ ان کے پیچھے کھڑی ہے تاکہ وہ بلا خوف و خطر دہشت کی بیخ کنی کے لیے اپنے فرائضِ منصبی ایمان داری اور تندہی سے انجام دے سکیں۔
یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ تمام انٹیلی جینس ایجنسیوں اور انسدادِ دہشت گردی پر مامور اداروں کے مابین پیشہ ورانہ روابط اور حقیقی تعاون کو یقینی بنانے اور اطلاعات کے بروقت تبادلے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے قومی ادارے ( نیکٹا ) کو نہ صرف ضروری وسائل مہیا کیے جائیں بلکہ اسے امریکا کے ہوم لینڈ سیکیورٹی اور برطانیہ کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی طرز پر فعال کیا جائے تاکہ ایک مربوط حکمتِ عملی کو اجتماعی انداز میں عملی جامہ پہنا کے اس سرطان کا موثر قلع قمع ممکن ہو سکے۔
آج آٹھ برس بعد صورتِ احوال کچھ یوں ہے کہ کوئی مائی کا لال نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات زبانی نہیں گنوا سکتا۔دہشت گردوں کو سزائیں سنائی گئیں،مگر ان سزاؤں میں سے کتنوں پر عمل ہوا۔کتنی سزائیں معطل ہوئیں۔
کتنوں کے مقدمات اب تک کس کس مرحلے میں بوجوہ اٹکے ہوئے ہیں ، کتنے ملزم کالعدم ٹی ٹی پی سے بات چیت کی فضا بہتر بنانے کی شرط پر خاموشی سے رہا کر دیے گئے اور کتنے فرار ہو گئے۔ان میں سے کتنے دوبارہ پکڑے گئے۔اس بابت جتنے منہ اتنی باتیں۔
سانحہ اے پی ایس میں سیکیورٹی کی غفلتوں کی نشاندھی ہونے کے بعد تحقیقات کے نتیجے میں اگر کوئی ٹھوس سفارشات مرتب ہوئیں تو ان میں سے کتنوں پر عمل ہوا ؟ رپورٹ میں کن کن افراد کو غفلت کا مرتکب قرار دیا گیا۔اس بابت پوری رپورٹ سامنے نہ آ سکی۔
نظامِ انصاف میں اصلاحات کا کام ایکشن پلان کے مطابق دو برس میں مکمل ہونا تھا تاکہ جب فوجی عدالتوں کی میعاد ختم ہو تو اصلاح شدہ عدالتی ڈھانچہ بااعتماد اور موثر انداز میں انصاف کی بلاسرعت ترسیل ممکن بنا سکے۔
آج آٹھ برس بعد بھی یہ حقیر لکھاری تلاش رہا ہے کہ نظامِ انصاف میں آخر کون کون سی اصلاحات اس عرصے میں ہو چکی ہیں۔آج بھی مقدمات کا انبار پہلے کی طرح موجود ہے۔آج بھی ناکافی عدالتوں کا رونا برقرار ہے اور آج بھی انصاف اندھا نہیں بھینگا ہے۔
نیکٹا میں اگرچہ تمام متعلقہ اہم اداروں کی نمایندگی موجود ہے مگر نیکٹا آج بھی ان اداروں کی جانب سے مکمل تعاون کا محتاج ہے اور عملاً دان میں ملی معلومات کے لیے محض پوسٹ آفس کا کام کر رہا ہے۔ ہر ادارہ پہلے کی طرح اپنے اپنے دائرے میں اپنے تئیں دوسرے کسی بھی ادارے سے زیادہ '' اہم کام '' کر رہا ہے۔
چنانچہ اداروں کے درمیان باہم ضروری پیشہ ورانہ ہم آہنگی بھی مشروط اور نامکمل انداز میں ایک دوسرے کو میسر ہے۔اس کا فائدہ ان اداروں سے ڈیڑھ قدم آگے چلنے والے دہشت گرد اٹھا رہے ہیں۔ وہ کوویڈ وائرس کی طرح اپنی شکل بدلنے کے ماہر ہیں جب کہ متعلقہ ادارے اپنی حکمتِ عملی دہشت گردوں کی برق رفتاری کے برابر لانے یا خود کو سچویشن کے مطابق تیزی سے ڈھالنے سے قاصر ہیں۔
نصاب میں ضرور تبدیلی لانے کی خاطر سابق حکومت نے پورے پاکستان کو ایک ہی طرز کے نصاب میں پرونے کی کوشش کی،مگر تعلیم چونکہ وفاقی معاملہ بھی ہے اور صوبائی معاملہ بھی۔چنانچہ دیگر صفحات کی طرح وفاق اور صوبے یک نصابی پیج پر بھی متفق نہیں ہو پائے۔نیا نصاب بھی معصوم دماغوں کو اعتدال پسندی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ناکافی ثابت ہو رہا ہے۔جب کہ دینی مدارس آج بھی ہمیشہ کی طرح اپنی نصابی خود مختاری پر کسی بھی طرح کا سمجھوتہ کرنے یا لچک دکھانے پر آمادہ نہیں۔
ان آٹھ برس کے دوران ملک سیاسی طور پر دو واضح بلاکوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔جنھیں ملک کو آگے لے جانا ہے وہ خود آگے بڑھ کے ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہونے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے سرحد پار مداخلت کم ہونے کا خواب کب کا بکھر چکا۔ دہشت گرد گروہوں نے بات چیت کے جھانسے سے میسر ہونے والی مہلت کو دوبارہ منظم ہونے کے لیے بہت ہنرمندی سے استعمال کیا اور اب وہ پھر سے متشدد پیش قدمی کے لیے پوری طرح تیار ہیں،جب کہ سیاسی قیادت کا پورا دھیان آج بھی اس معمے کو حل کرنے میں مصروف ہے کہ آخر سوئی کے ناکے سے بیک وقت کتنے اونٹ گذر سکتے ہیں۔
عوام ہرگز ہرگز خوف و دہشت کے پرانے دور میں لوٹنے کو تیار نہیں۔مگر سرکار کی ترجیحاتی درجہ بندی میں دہشت گردی کو منہ دینے کا سوال آج بھی کہیں نچلے پائیدان پر ہے۔
دو ہزار تئیس آیا چاہتا ہے مگر حالات جایا نہیں چاہتے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
تب بھی وفاق میں مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی اور تب بھی عمران خان غصے میں تھے اور ڈی چوک میں دھرنا جاری تھا۔
مگر اے پی ایس سانحے کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی قیادت نے اپنے سیاسی فاصلوں کو عارضی طور پر بالاِ طاق رکھتے ہوئے ایک میز پر آمنے سامنے بیٹھ کے محسوس کیا کہ بس بہت ہو گیا۔ایسا دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔
چنانچہ باہم مشاورت کے نتیجے میں ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان وجود میں آیا۔اس پر عمل درآمد کے میکنزم پر بھی اتفاقِ رائے ہو گیا۔بلیک اور جیٹ بلیک دہشت گردوں کے مقدمات تیز رفتاری سے نپٹانے کے لیے خصوصی فوجی عدالتیں قائم ہوئیں۔
سانحے کے اسباب ، سیکیورٹی میں غفلت ، زمہ داروں کی نشان دہی کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا گیا۔
ریاست نے بظاہر دہشت گرد تنظیموں کے قلع قمع کے لیے کوئی لچک نہ دکھانے کا فیصلہ کیا ۔یکے بعد دیگرے مالاکنڈ اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی و جنوبی وزیرستان میں عسکری آپریشنز میں تیزی لائی گئی۔دہشت گرد تتر بتر ہو گئے یا پھر سرحد پار منتقل ہو گئے۔یوں لگا گویا خوف و ہراس والے دن پھر سے نہ لوٹیں گے۔
یہ بھی طے پایا کہ ان کامیابیوں کو پائیدار بنانے کے لیے نہ صرف قابلِ عمل قانون سازی کی جائے بلکہ پورے دیمک زدہ نظامِ انصاف کو اگلے دو برس میں جدید اصلاحات کی سان پر سے گذارا جائے تاکہ موثر اور تیز رفتار انصاف کو بطور بنیادی حق عام آدمی کی دہلیز پر پہنچا کے ریاست اور اداروں پر اس کا متزلزل اعتماد بحال ہو سکے اور اکتائے ہوئے نوجوانوں کو دہشت گردی کے ایجنٹ بطور خام مال استعمال نہ کر سکیں۔
یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ تعلیمی نصاب کا بھی ازسرِنو جائزہ لیا جائے تاکہ کچے ذہنوں کو انتہاپسندی کی جانب راغب ہونے سے روکا جا سکے اور مستقبل کے شہریوں کو اعتدال پسندی اور انسان دوستی کی جانب موڑا جا سکے۔
یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید سوچ اور ساز و سامان سے مسلح کیا جائے۔ ان کے ملازمتی قواعد کو بہتر بنایا جائے اور انھیں مکمل احساس دلایا جائے کہ ریاست اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ ان کے پیچھے کھڑی ہے تاکہ وہ بلا خوف و خطر دہشت کی بیخ کنی کے لیے اپنے فرائضِ منصبی ایمان داری اور تندہی سے انجام دے سکیں۔
یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ تمام انٹیلی جینس ایجنسیوں اور انسدادِ دہشت گردی پر مامور اداروں کے مابین پیشہ ورانہ روابط اور حقیقی تعاون کو یقینی بنانے اور اطلاعات کے بروقت تبادلے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے قومی ادارے ( نیکٹا ) کو نہ صرف ضروری وسائل مہیا کیے جائیں بلکہ اسے امریکا کے ہوم لینڈ سیکیورٹی اور برطانیہ کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی طرز پر فعال کیا جائے تاکہ ایک مربوط حکمتِ عملی کو اجتماعی انداز میں عملی جامہ پہنا کے اس سرطان کا موثر قلع قمع ممکن ہو سکے۔
آج آٹھ برس بعد صورتِ احوال کچھ یوں ہے کہ کوئی مائی کا لال نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات زبانی نہیں گنوا سکتا۔دہشت گردوں کو سزائیں سنائی گئیں،مگر ان سزاؤں میں سے کتنوں پر عمل ہوا۔کتنی سزائیں معطل ہوئیں۔
کتنوں کے مقدمات اب تک کس کس مرحلے میں بوجوہ اٹکے ہوئے ہیں ، کتنے ملزم کالعدم ٹی ٹی پی سے بات چیت کی فضا بہتر بنانے کی شرط پر خاموشی سے رہا کر دیے گئے اور کتنے فرار ہو گئے۔ان میں سے کتنے دوبارہ پکڑے گئے۔اس بابت جتنے منہ اتنی باتیں۔
سانحہ اے پی ایس میں سیکیورٹی کی غفلتوں کی نشاندھی ہونے کے بعد تحقیقات کے نتیجے میں اگر کوئی ٹھوس سفارشات مرتب ہوئیں تو ان میں سے کتنوں پر عمل ہوا ؟ رپورٹ میں کن کن افراد کو غفلت کا مرتکب قرار دیا گیا۔اس بابت پوری رپورٹ سامنے نہ آ سکی۔
نظامِ انصاف میں اصلاحات کا کام ایکشن پلان کے مطابق دو برس میں مکمل ہونا تھا تاکہ جب فوجی عدالتوں کی میعاد ختم ہو تو اصلاح شدہ عدالتی ڈھانچہ بااعتماد اور موثر انداز میں انصاف کی بلاسرعت ترسیل ممکن بنا سکے۔
آج آٹھ برس بعد بھی یہ حقیر لکھاری تلاش رہا ہے کہ نظامِ انصاف میں آخر کون کون سی اصلاحات اس عرصے میں ہو چکی ہیں۔آج بھی مقدمات کا انبار پہلے کی طرح موجود ہے۔آج بھی ناکافی عدالتوں کا رونا برقرار ہے اور آج بھی انصاف اندھا نہیں بھینگا ہے۔
نیکٹا میں اگرچہ تمام متعلقہ اہم اداروں کی نمایندگی موجود ہے مگر نیکٹا آج بھی ان اداروں کی جانب سے مکمل تعاون کا محتاج ہے اور عملاً دان میں ملی معلومات کے لیے محض پوسٹ آفس کا کام کر رہا ہے۔ ہر ادارہ پہلے کی طرح اپنے اپنے دائرے میں اپنے تئیں دوسرے کسی بھی ادارے سے زیادہ '' اہم کام '' کر رہا ہے۔
چنانچہ اداروں کے درمیان باہم ضروری پیشہ ورانہ ہم آہنگی بھی مشروط اور نامکمل انداز میں ایک دوسرے کو میسر ہے۔اس کا فائدہ ان اداروں سے ڈیڑھ قدم آگے چلنے والے دہشت گرد اٹھا رہے ہیں۔ وہ کوویڈ وائرس کی طرح اپنی شکل بدلنے کے ماہر ہیں جب کہ متعلقہ ادارے اپنی حکمتِ عملی دہشت گردوں کی برق رفتاری کے برابر لانے یا خود کو سچویشن کے مطابق تیزی سے ڈھالنے سے قاصر ہیں۔
نصاب میں ضرور تبدیلی لانے کی خاطر سابق حکومت نے پورے پاکستان کو ایک ہی طرز کے نصاب میں پرونے کی کوشش کی،مگر تعلیم چونکہ وفاقی معاملہ بھی ہے اور صوبائی معاملہ بھی۔چنانچہ دیگر صفحات کی طرح وفاق اور صوبے یک نصابی پیج پر بھی متفق نہیں ہو پائے۔نیا نصاب بھی معصوم دماغوں کو اعتدال پسندی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ناکافی ثابت ہو رہا ہے۔جب کہ دینی مدارس آج بھی ہمیشہ کی طرح اپنی نصابی خود مختاری پر کسی بھی طرح کا سمجھوتہ کرنے یا لچک دکھانے پر آمادہ نہیں۔
ان آٹھ برس کے دوران ملک سیاسی طور پر دو واضح بلاکوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔جنھیں ملک کو آگے لے جانا ہے وہ خود آگے بڑھ کے ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہونے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے سرحد پار مداخلت کم ہونے کا خواب کب کا بکھر چکا۔ دہشت گرد گروہوں نے بات چیت کے جھانسے سے میسر ہونے والی مہلت کو دوبارہ منظم ہونے کے لیے بہت ہنرمندی سے استعمال کیا اور اب وہ پھر سے متشدد پیش قدمی کے لیے پوری طرح تیار ہیں،جب کہ سیاسی قیادت کا پورا دھیان آج بھی اس معمے کو حل کرنے میں مصروف ہے کہ آخر سوئی کے ناکے سے بیک وقت کتنے اونٹ گذر سکتے ہیں۔
عوام ہرگز ہرگز خوف و دہشت کے پرانے دور میں لوٹنے کو تیار نہیں۔مگر سرکار کی ترجیحاتی درجہ بندی میں دہشت گردی کو منہ دینے کا سوال آج بھی کہیں نچلے پائیدان پر ہے۔
دو ہزار تئیس آیا چاہتا ہے مگر حالات جایا نہیں چاہتے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)