غیر مسلموں کے قدیم شہر خموشاں
پشاور کے یہ قبرستان انگریز دور کی یادگار ہیں
موت ایک اٹل حقیقت ہے، جس کا ذائقہ ہر ذی رْوح کو چکھنا ہے۔ مختلف مذاہب میں مْردوں کی آخری رسومات کے مختلف طریقے رائج ہیں، البتہ زیادہ تر مذاہب میں مْردے دفن کیے جاتے ہیں جس کے لیے باقاعدہ قبرستان بنائے جاتے ہیں۔
خیبرپختون خوا کے دارالحکومت پشاور میں بھی بہت سے شہرِ خموشاں ہیں، جن میں سے کئی ایک اپنی قدامت کے سبب تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ پشاور شہر میں درجنوں قبرستان ہیں جن میں غیرمسلموں کے قبرستان بھی شامل ہیں۔
گورا قبرستان تاریخی اہمیت کا حامل ہے لیکن بد قسمتی سے برطانوی دور کا یہ تاریخی قبرستان اس وقت تجاوزات کی زد میں ہے، جہاں تاریخ آہستہ آہستہ مٹی کی تہہ در تہہ پرتوں میں دفن ہوتی جا رہی ہے کیوں کہ یہاں پرانی تاریخی قبریں مسمار ہوتی جا رہی ہیں یا ان پر نئی قبریں بننے سے پرانی قبریں منوں مٹی تلے دفن ہوتی جا رہی ہیں۔
تجاوزات اور نئی قبروں کی وجہ سے پرانی قبریں ختم ہوتی جا رہی ہیں، قبرستان کا کچھ حصہ سڑک کی توسیع کی زد میں بھی آ چکا ہے۔ مقامی مسیحی برادری کی اس قبرستان میں تدفین کا سلسلہ دو عشرے پہلے شروع ہوا تھا، ماہرین کے مطابق نئی قبروں کی کھدائی میں خالی جگہیں تلاش نہیں کی جاتیں بلکہ پرانی منہدم قبروں پر ہی نئی قبریں بنا دی جاتی ہیں۔
پشاور کے گورا قبرستان کو اس حوالے سے انفرادیت حاصل ہے کہ اس قبرستان میں برطانوی دور کی ایسی شخصیات کی بھی قبریں ہیں جو افغانستان کے ساتھ جنگ، مختلف قبائل کے ساتھ جھڑپوں یا تشدد کے دیگر واقعات میں ہلاک ہوئے۔
یوں تو ہر قبرستان میں ہر قبر کی اپنی الگ کہانی ہوتی ہے لیکن گورا قبرستان ایک ایسی تاریخی کتاب کی طرح ہے جس کی ہر قبر تاریخ کا ایک باب ہے۔ ہر کتبے پر تفصیل درج ہے کہ اس قبر میں کون دفن ہے، کب فوت ہوا، کیسے فوت ہوا، کس نے قبر بنوائی اور اس نے کیا کارنامے سر انجام دیئے۔
پشاور میں غیر مسلم افراد کے لیے تین مزید قبرستان ہیں جن میں سے ایک قبرستان تہکال کے علاقے میں ایئر پورٹ کے رن وے کے ساتھ ہے۔
گورا قبرستان 1853ء میں قائم ہوا، اس قبرستان کا ذکر تاریخی کتب اور ٹریول گائیڈز میں بھی ملتا ہے۔ برطانیہ میں اس قبرستان کے بارے میں کتابچے چھپ چکے ہیں جن میں قبرستان کا مکمل نقشہ اور اس قبرستان میں دفن برطانوی فوجیوں اور دیگر افراد کا ذکر ہے۔
ایک قبر کے کتبے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں دفن شخص لیفٹیننٹ جارج رچمنڈ ہیں جو 1863ء میں سوات میں یوسفزئی قبیلے کے ساتھ ہونے والی ایک جھڑپ میں مارے گئے۔
اس مقام پر مقامی قبائل کے ساتھ جھڑپ میں برطانوی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور ایک اندازے کے مطابق اس میں ایک ہزار برطانوی فوجی مارے گئے۔
ایک قبر پر پشتو اور فارسی زبان میں مدفون شخص کا تعارف کندہ کیاگیا ہے، یہ قبر ازیڈور لیونتھال کی ہے جنہوں نے اپنا یہودی مذہب ترک کرکے عیسائی مذہب اختیار کیا اور پشاور میں عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی۔ انہوں نے انجیل کی ایک جلد کا پشتو میں ترجمہ کیا اور پشتو کی لغت بھی ترتیب دی۔ انہیں ان کے چوکیدار نے 27 اپریل 1864ء کو قتل کیا۔
اس قبرستان میں لیفٹیننٹ سر رچرڈ واربرٹن کی قبر بھی ہے جنہوں نے پہلی اینگلو افغان جنگ میں حصہ لیا، رچرڈ وار برٹن نے افغانستان کے بادشاہ امیر دوست محمد کی بھانجی سے شادی کی، ان کے صاحبزادے رابرٹ باردرٹن نے اس علاقے میں مقامی فورس خیبر رائفل کی بنیاد رکھی ۔
رچرڈ واربرٹن 1863ء میں مر گئے، سینٹ جارج میڈوو شبقدر میں قبائل کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوئے جب کہ رابرٹ رائے ایڈم جو ڈپٹی کمشنر پنجاب تعینات ہوئے تھے، پشاور میں زخمی ہوئے اور پھر اسی زخم سے ہلاک ہو ئے۔ ان کی قبریں بھی اسی قبرستان میں ہیں۔ قبرستان میں مختلف مقامات پر ہلاک ہونے والے افراد یا اہم واقعات کی یادگاریں بھی قائم کی گئی ہیں۔ یہاں وہ گورے بھی مدفون ہیں جنہیں اعزازات یا اعلی عہدے دیئے گئے۔
قبرستان کے ایک حصے میں دو درجن کے قریب ایسی قبریں ہیں، جو دو سے تین دنوں میں بنائی گئیں اور ان کے ہلاک ہونے کی وجہ انفلوئنزا نامی ایک بیماری کندہ کی گئی ہے۔
اسی قبرستان میں گوڈین فیملی کی قبریں بھی ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں قائم مشنری ہسپتال میں ایک عرصے تک گوڈین فیملی کے افراد مقامی لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرتے رہے۔ آئیے مزید جانتے ہیں کہ گورا قبرستان کی بنیادکب اور کیسے پڑی۔
گورا قبرستان
انگریز دنیا میں جہاں بھی گئے اور کالونیاں بنائیں، وہاں اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی کی۔ وہ زمانہ ایسا تھاکہ مرنے والے کسی انگریز کو دفن کرنے اور آخری رسومات کے لیے برطانیہ نہیں لے جایا جا سکتا تھا اس لیے انہوں نے برصغیر میں ہر چھاؤنی، کنٹونمنٹ اور فوجی کیمپ میں جو کہ زیادہ تر قبائل اور سرحدی علاقوں میں تھے، اپنے لیے چھوٹے اور بڑے قبرستان بنائے، جہاں پر صرف انگریزوں کو دفن کرنے کی اجازت تھی۔
برصغیر میں چوں کہ عام لوگ انگریزوں کو گورے کہا کرتے تھے، اس لیے ان قبرستانوں کا نام بھی گورا قبرستان پڑ گیا۔
یہ قبرستان اس وقت پاکستان کے بہت سے شہروں میں موجود ہیں جن میں پشاور، مری، راولپنڈی، لاہور اور کوئٹہ قابل ذکر ہیں۔ آج کل ان قبرستانوں کو کرسچن قبرستان کہا جاتا ہے مگرعوام کی زبانوں پر گورا قبرستان ہی ہے۔
پشاور چوںکہ برصغیرکی شمال مغربی سرحد پر سب سے بڑا شہر تھا اور اس کے آس پاس قبائلی علاقوں میں فوجی فتوحات کے دوران انگریزوں کی کافی اموات ہوئیں، اس لیے گوروں نے پشاور میں چار قبرستان بنائے، جن میں سب سے پرانا قبرستان شہرکی چاردیواری سے باہر وزیر باغ کے قریب تھا جو 1842ء میں پشاور چھاؤنی کے وجود میں آنے سے پہلے سرکولن کیمبیل نے بنایا۔
اس وقت پشاورگریژن صرف قلعہ بالاحصار اور تحصیل گورگھٹڑی تک محدود تھا، یہ 1848-49ء میں جارج لارنس کے دور تک زیر استعمال رہا۔ بعد ازاں چھاؤنی کا اپنا قبرستان بن جانے کے بعد پشاور مشن نے اس کو کبھی کبھار استعمال کیا۔ پشاور میں دوسرا اور چھاؤنی کا سب سے پہلا قبرستان 1849ء میں بغیر منصوبہ بندی کے وجود میں آنا شروع ہوا، یہ قبرستان صدر بازار کے باہر واقع تھا اور اس کا رقبہ ڈیڑھ ایکڑ پر محیط تھا، اب اس جگہ پر اسٹیٹ بینک کی عمارت تعمیر ہو چکی ہے۔
یہاں قبرستان کے وجود میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ انگریز فوج کے ہسپتال (رائل آرٹلری ہسپتال بعد میں سی ایم ایچ) کے عقب میں تھا۔ جب ہسپتال میں کوئی ایسا فوجی مر جاتا جس کے وارث دور ہوتے تو اسے ہسپتال کے پیچھے واقع خالی اراضی میں دفنا دیا جاتا، اس طرح یہ گورا قبرستان وجود میں آتاگیا۔
1857ء میں مدراس کے بشپ نے اس کا باقاعدہ طور پر آغازکیا۔ انگریزگورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی نے اپنے عہدے اور اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1851ء میں ہی ایک نیا قبرستان قائم کیا جو اولڈ جمرود روڈ پر تعمیرکیا گیا۔
یہ1861ء میں سیلاب سے شدید متاثر ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران پشاور ائیر بیس کی توسیع کی وجہ سے یہ ہوائی اڈے کے احاطے میں آگیا اور منظرعام سے غائب ہوگیا، یہ قبرستان اب بھی پشاور ایئرپورٹ کے بڑے رن وے کے ساتھ موجود ہے، پشاور میں یہ تیسرا گورا قبرستان تھا۔
پشاورکا چوتھا اور پشاورگریژن کا سب سے اہم گورا قبرستان 1853ء میں بنایا گیا، جو تہکال گیٹ کے قریب تھا اور انگریز اسے تہکال کا قبرستان کہتے تھے۔ یہ قبرستان آج کل موجود ہے اور پشاورچھاؤنی کا واحد گورا قبرستان ہے جو افغانستان اور سنٹرل ایشیاء جانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع ہے۔ عوام وخواص سب اس سے واقف ہیں۔
تہکال کے گورا قبرستان کے متعلق اس وقت کے مشہور بشپ میتھو کہتے ہیں، ''یہ پنجاب کے میدانوں میں انتہائی خوبصورت اور کلیساکے دلچسپ قبرستانوں میں سے ایک تھا۔'' اس قبرستان کے رقبے میں تین مرتبہ توسیع کی گئی، تہکال کا یہ گورا قبرستان اردگرد چاردیواری سے ڈھکا ہوا ہے جو قیام پاکستان سے قبل کی ہے، اس کے اندر جانے والا راستہ اور واحد گیٹ بھی پرانے طرزکا بنا ہوا ہے۔
قبرستان کے اندر چاروں طرف اونچے اونچے درخت موجود ہیں جو اس کے قیام کے بعد اگائے گئے، یہ اب تناور درختوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ پرانی قبریں اب بھی قبرستان کے شمال مغربی کونے میں موجود ہیں جن کی نشانی یہ ہے کہ ان میں اینٹوں اور پتھرکے کالے سلیٹ کا استعمال ہوا ہے اور اس پر لکھائی بھی کی گئی ہے۔
قبرستان میں قبائلی علاقوں میں ڈیوٹیاں دینے والے انگریز جو مختلف قبائل کے ہاتھوں مارے گئے، دوسری افغان جنگ اور دیگر مختلف چھوٹے موٹے معرکوں میں کام آنے والے انگریزوں کی قبریں بھی شامل ہیں جو شلمان ریلوے لائن بچھانے کے دوران مر گئے۔
بعد ازاں شلمان کی طرف ریلوے لائن بچھانے کے کام میں انتہائی مشکلات کی وجہ سے یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا اور طورخم کی طرف ریلوے لائن بچھائی گئی۔ پشاور چھاؤنی کے اس قبرستان میں اپنے وقت کے مشہور لوگ آسودہ خاک ہیں جس میں سول و ملٹری آفیسرز اور انگریز تاجر شامل ہیں۔ پرانی قبروں میں ایک قبر امریکی مشنری لونتھل کی ہے جس نے پشتو کی گرامر کی کتاب مرتب کی، اس کی قبر پر پشتو کے الفاظ کندہ کئے گئے ہیں۔
ان قبروں میں ایک قبر ایسی ہے جس میں انگریز میاں بیوی دونوں مدفون ہیں، جس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک انگریز فارسٹ آفیسر کی بیوی اس کی یہاں تعیناتی کے دوران فوت ہو گئی، اسے اپنی بیوی سے اتنی محبت تھی کہ اس نے وصیت کی کہ مجھے مرنے کے بعد میری بیوی کے ساتھ دفن کیا جائے۔ وہ یہاں سے ریٹائر ہو کر برطانیہ چلا گیا جہاں اس کا انتقال ہوا۔ اس کے جسد خاکی کو یہاں لایا گیا اور اس کی بیوی کے پہلو میں دفن کیاگیا۔
پارسی قبرستان
انگریزوں نے جب پشاور میں اپنی افواج کے قیام اور قبضہ برقرار رکھنے کے لیے یہاں چھاؤنی بنائی تو اس کا نظام اورکاروبار زندگی چلانے کے لیے برصغیر کے بڑے بڑے شہروں سے تاجروں اورکاروباری شخصیات کو دعوت دی کہ وہ یہاں آکر اپنے تجارتی ادارے اور مختلف سٹور قائم کریں۔ ان کی دعوت پر برصغیرکے کئی شہروں سے ہندو، مسلمان اور سکھ تاجر آئے اور پشاورکنٹونمنٹ میں مال روڈ، صدر روڈ پر اپنی دکانیں اور ڈیپارٹمنٹل سٹور قائم کئے۔
اسی طرح دہلی، بمبئی،کلکتہ اورکراچی سے برصغیرکی امیر اور کھاتی پیتی اقلیت پارسی برادری کے افراد بھی یہاں کی سماجی زندگی میں نہ صر ف شامل ہوئے بلکہ یہاں رچ بس گئے۔
تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد جب ان میں اموات کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے اپنے مردوں کو آبائی شہروں میں لے جانے کے بجائے، پشاور چھاؤنی کو ہی ان کی آخری رسومات اور تجہیز و تدفین کے لیے منتخب کیا۔ یہاں پر اپنے لیے ایک علیحدہ قبرستان بنایا جوصرف انہی کے لیے مخصوص تھا، یہ قبرستان بعد میں پشاور صدر کا پارسی قبرستان کہلایا۔
سنہری مسجد روڈ پر واقع یہ قبرستان پشاورکا نادر و نایاب اور پارسی اقلیت کا خیبرپختون خوا میں واحد قبرستان ہے جو پشاور چھاؤنی کی داغ بیل پڑنے کے تقریباً ایک عشرے بعد 1860ء میں وجود میں آیا۔ اپنے قیام کے وقت یہ چھاؤنی کی آخری سڑک ساؤتھ سرکلر روڈ پر واقع تھا مگر اب اس کا نام تبدیل کرکے پشاور کی مشہور و معروف سنہری مسجد کے نام سے منسوب ہو چکا ہے۔
ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں یہاں کی آبادی انتہائی سست رفتار سے بڑھی اور تقریباً چالیس کنال رقبے پر مشتمل اس قبرستان میں صرف سو کے قریب قبریں ہیں جن میں زیادہ تر سنگ مرمر کی ہیں اور ہر قبر پر مدفون کے نام کا کتبہ نصب ہے۔
یہاں سب سے پہلی قبر1867ء میں جب کہ دوسری پندرہ سال بعد 1875ء میں بنی۔ پارسی قبرستان ابتدا میں کنٹونمنٹ کے لیز قوانین کے بغیر بنا تھا، اس کے قیام کے دو عشرے بعد تک یونہی رہا بعد ازاں لیزکی درخواست دی گئی اور1895ء میں کنٹونمنٹ بورڈ پشاور نے اسے باقاعدہ لیز پر پارسی کمیونٹی کو دے دیا اور یوں اسے قانونی شکل مہیا ہوئی۔
پارسی لوگ مجوسی یا آتش پرست کہلاتے ہیں، ان کا اصل وطن ایران ہے جہاں اسلام کی آمد کے بعد یہ لوگ نقل مکانی کرکے برصغیر منتقل ہوئے۔
ان کی بڑی تعداد ممبئی،کلکتہ اورکراچی میں آکر بسی۔ ایران کا قدیم نام پارس جس سے فارس بنا، ایران کی زبان فارسی اور اس کے پرانے لوگ پارسی کہلائے۔ پارسی لوگوں کا مذہب زرتشت ہے، یہ بڑے پر امن اور سادہ لوگ ہوتے ہیں۔ فارسی کے ساتھ اپنی پارسی زرتشتی مذہبی زبان بھی بولتے ہیں اور بہت کامیاب بزنس مین ہیں۔ ان کا لباس، زبان اور زندگی کے طور اطوار مخصوص علاقوں میں مقامی لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں مگر یہ اپنی انفرادیت ہرحال میں قائم رکھتے ہیں۔
انیسویں و بیسویں صدی میں ان کے پورے پورے خاندان پشاور صدر میں آباد تھے مگر اب صرف چار پانچ افراد موجود ہیں، باقی وفات پا چکے یا یورپی ممالک کو نقل مکانی کرچکے ہیں۔
پارسی اپنے مردوں کو ابتدا میں دفن کرتے نہ جلاتے بلکہ ایک چبوترے پر کھلے آسمان تلے رکھ دیتے، چیل کوے آکر ان کا گوشت نوچ لیتے جب صرف ڈھانچہ رہ جاتا تو اسے غالباً اسی حالت میں مٹی میں دفن کر دیا جاتا۔ اس چبوترے کو پارسی لوگ ''خاموش مینار'' کے نام سے پکارتے ہیں۔
پشاور صدرکے پارسی قبرستان میں اس طرح کا کوئی چبوترہ موجود نہیں، اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس وسیع وعریض قبرستان کے کسی کونے کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہوںگے۔ اس قبرستان میں سب سے آخری قبر کئی برس پہلے بنائی گئی۔ اب تو پشاور میں پارسی برادری کے افراد کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
خیبرپختون خوا کے دارالحکومت پشاور میں بھی بہت سے شہرِ خموشاں ہیں، جن میں سے کئی ایک اپنی قدامت کے سبب تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ پشاور شہر میں درجنوں قبرستان ہیں جن میں غیرمسلموں کے قبرستان بھی شامل ہیں۔
گورا قبرستان تاریخی اہمیت کا حامل ہے لیکن بد قسمتی سے برطانوی دور کا یہ تاریخی قبرستان اس وقت تجاوزات کی زد میں ہے، جہاں تاریخ آہستہ آہستہ مٹی کی تہہ در تہہ پرتوں میں دفن ہوتی جا رہی ہے کیوں کہ یہاں پرانی تاریخی قبریں مسمار ہوتی جا رہی ہیں یا ان پر نئی قبریں بننے سے پرانی قبریں منوں مٹی تلے دفن ہوتی جا رہی ہیں۔
تجاوزات اور نئی قبروں کی وجہ سے پرانی قبریں ختم ہوتی جا رہی ہیں، قبرستان کا کچھ حصہ سڑک کی توسیع کی زد میں بھی آ چکا ہے۔ مقامی مسیحی برادری کی اس قبرستان میں تدفین کا سلسلہ دو عشرے پہلے شروع ہوا تھا، ماہرین کے مطابق نئی قبروں کی کھدائی میں خالی جگہیں تلاش نہیں کی جاتیں بلکہ پرانی منہدم قبروں پر ہی نئی قبریں بنا دی جاتی ہیں۔
پشاور کے گورا قبرستان کو اس حوالے سے انفرادیت حاصل ہے کہ اس قبرستان میں برطانوی دور کی ایسی شخصیات کی بھی قبریں ہیں جو افغانستان کے ساتھ جنگ، مختلف قبائل کے ساتھ جھڑپوں یا تشدد کے دیگر واقعات میں ہلاک ہوئے۔
یوں تو ہر قبرستان میں ہر قبر کی اپنی الگ کہانی ہوتی ہے لیکن گورا قبرستان ایک ایسی تاریخی کتاب کی طرح ہے جس کی ہر قبر تاریخ کا ایک باب ہے۔ ہر کتبے پر تفصیل درج ہے کہ اس قبر میں کون دفن ہے، کب فوت ہوا، کیسے فوت ہوا، کس نے قبر بنوائی اور اس نے کیا کارنامے سر انجام دیئے۔
پشاور میں غیر مسلم افراد کے لیے تین مزید قبرستان ہیں جن میں سے ایک قبرستان تہکال کے علاقے میں ایئر پورٹ کے رن وے کے ساتھ ہے۔
گورا قبرستان 1853ء میں قائم ہوا، اس قبرستان کا ذکر تاریخی کتب اور ٹریول گائیڈز میں بھی ملتا ہے۔ برطانیہ میں اس قبرستان کے بارے میں کتابچے چھپ چکے ہیں جن میں قبرستان کا مکمل نقشہ اور اس قبرستان میں دفن برطانوی فوجیوں اور دیگر افراد کا ذکر ہے۔
ایک قبر کے کتبے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں دفن شخص لیفٹیننٹ جارج رچمنڈ ہیں جو 1863ء میں سوات میں یوسفزئی قبیلے کے ساتھ ہونے والی ایک جھڑپ میں مارے گئے۔
اس مقام پر مقامی قبائل کے ساتھ جھڑپ میں برطانوی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور ایک اندازے کے مطابق اس میں ایک ہزار برطانوی فوجی مارے گئے۔
ایک قبر پر پشتو اور فارسی زبان میں مدفون شخص کا تعارف کندہ کیاگیا ہے، یہ قبر ازیڈور لیونتھال کی ہے جنہوں نے اپنا یہودی مذہب ترک کرکے عیسائی مذہب اختیار کیا اور پشاور میں عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی۔ انہوں نے انجیل کی ایک جلد کا پشتو میں ترجمہ کیا اور پشتو کی لغت بھی ترتیب دی۔ انہیں ان کے چوکیدار نے 27 اپریل 1864ء کو قتل کیا۔
اس قبرستان میں لیفٹیننٹ سر رچرڈ واربرٹن کی قبر بھی ہے جنہوں نے پہلی اینگلو افغان جنگ میں حصہ لیا، رچرڈ وار برٹن نے افغانستان کے بادشاہ امیر دوست محمد کی بھانجی سے شادی کی، ان کے صاحبزادے رابرٹ باردرٹن نے اس علاقے میں مقامی فورس خیبر رائفل کی بنیاد رکھی ۔
رچرڈ واربرٹن 1863ء میں مر گئے، سینٹ جارج میڈوو شبقدر میں قبائل کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوئے جب کہ رابرٹ رائے ایڈم جو ڈپٹی کمشنر پنجاب تعینات ہوئے تھے، پشاور میں زخمی ہوئے اور پھر اسی زخم سے ہلاک ہو ئے۔ ان کی قبریں بھی اسی قبرستان میں ہیں۔ قبرستان میں مختلف مقامات پر ہلاک ہونے والے افراد یا اہم واقعات کی یادگاریں بھی قائم کی گئی ہیں۔ یہاں وہ گورے بھی مدفون ہیں جنہیں اعزازات یا اعلی عہدے دیئے گئے۔
قبرستان کے ایک حصے میں دو درجن کے قریب ایسی قبریں ہیں، جو دو سے تین دنوں میں بنائی گئیں اور ان کے ہلاک ہونے کی وجہ انفلوئنزا نامی ایک بیماری کندہ کی گئی ہے۔
اسی قبرستان میں گوڈین فیملی کی قبریں بھی ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں قائم مشنری ہسپتال میں ایک عرصے تک گوڈین فیملی کے افراد مقامی لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرتے رہے۔ آئیے مزید جانتے ہیں کہ گورا قبرستان کی بنیادکب اور کیسے پڑی۔
گورا قبرستان
انگریز دنیا میں جہاں بھی گئے اور کالونیاں بنائیں، وہاں اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی کی۔ وہ زمانہ ایسا تھاکہ مرنے والے کسی انگریز کو دفن کرنے اور آخری رسومات کے لیے برطانیہ نہیں لے جایا جا سکتا تھا اس لیے انہوں نے برصغیر میں ہر چھاؤنی، کنٹونمنٹ اور فوجی کیمپ میں جو کہ زیادہ تر قبائل اور سرحدی علاقوں میں تھے، اپنے لیے چھوٹے اور بڑے قبرستان بنائے، جہاں پر صرف انگریزوں کو دفن کرنے کی اجازت تھی۔
برصغیر میں چوں کہ عام لوگ انگریزوں کو گورے کہا کرتے تھے، اس لیے ان قبرستانوں کا نام بھی گورا قبرستان پڑ گیا۔
یہ قبرستان اس وقت پاکستان کے بہت سے شہروں میں موجود ہیں جن میں پشاور، مری، راولپنڈی، لاہور اور کوئٹہ قابل ذکر ہیں۔ آج کل ان قبرستانوں کو کرسچن قبرستان کہا جاتا ہے مگرعوام کی زبانوں پر گورا قبرستان ہی ہے۔
پشاور چوںکہ برصغیرکی شمال مغربی سرحد پر سب سے بڑا شہر تھا اور اس کے آس پاس قبائلی علاقوں میں فوجی فتوحات کے دوران انگریزوں کی کافی اموات ہوئیں، اس لیے گوروں نے پشاور میں چار قبرستان بنائے، جن میں سب سے پرانا قبرستان شہرکی چاردیواری سے باہر وزیر باغ کے قریب تھا جو 1842ء میں پشاور چھاؤنی کے وجود میں آنے سے پہلے سرکولن کیمبیل نے بنایا۔
اس وقت پشاورگریژن صرف قلعہ بالاحصار اور تحصیل گورگھٹڑی تک محدود تھا، یہ 1848-49ء میں جارج لارنس کے دور تک زیر استعمال رہا۔ بعد ازاں چھاؤنی کا اپنا قبرستان بن جانے کے بعد پشاور مشن نے اس کو کبھی کبھار استعمال کیا۔ پشاور میں دوسرا اور چھاؤنی کا سب سے پہلا قبرستان 1849ء میں بغیر منصوبہ بندی کے وجود میں آنا شروع ہوا، یہ قبرستان صدر بازار کے باہر واقع تھا اور اس کا رقبہ ڈیڑھ ایکڑ پر محیط تھا، اب اس جگہ پر اسٹیٹ بینک کی عمارت تعمیر ہو چکی ہے۔
یہاں قبرستان کے وجود میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ انگریز فوج کے ہسپتال (رائل آرٹلری ہسپتال بعد میں سی ایم ایچ) کے عقب میں تھا۔ جب ہسپتال میں کوئی ایسا فوجی مر جاتا جس کے وارث دور ہوتے تو اسے ہسپتال کے پیچھے واقع خالی اراضی میں دفنا دیا جاتا، اس طرح یہ گورا قبرستان وجود میں آتاگیا۔
1857ء میں مدراس کے بشپ نے اس کا باقاعدہ طور پر آغازکیا۔ انگریزگورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی نے اپنے عہدے اور اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1851ء میں ہی ایک نیا قبرستان قائم کیا جو اولڈ جمرود روڈ پر تعمیرکیا گیا۔
یہ1861ء میں سیلاب سے شدید متاثر ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران پشاور ائیر بیس کی توسیع کی وجہ سے یہ ہوائی اڈے کے احاطے میں آگیا اور منظرعام سے غائب ہوگیا، یہ قبرستان اب بھی پشاور ایئرپورٹ کے بڑے رن وے کے ساتھ موجود ہے، پشاور میں یہ تیسرا گورا قبرستان تھا۔
پشاورکا چوتھا اور پشاورگریژن کا سب سے اہم گورا قبرستان 1853ء میں بنایا گیا، جو تہکال گیٹ کے قریب تھا اور انگریز اسے تہکال کا قبرستان کہتے تھے۔ یہ قبرستان آج کل موجود ہے اور پشاورچھاؤنی کا واحد گورا قبرستان ہے جو افغانستان اور سنٹرل ایشیاء جانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع ہے۔ عوام وخواص سب اس سے واقف ہیں۔
تہکال کے گورا قبرستان کے متعلق اس وقت کے مشہور بشپ میتھو کہتے ہیں، ''یہ پنجاب کے میدانوں میں انتہائی خوبصورت اور کلیساکے دلچسپ قبرستانوں میں سے ایک تھا۔'' اس قبرستان کے رقبے میں تین مرتبہ توسیع کی گئی، تہکال کا یہ گورا قبرستان اردگرد چاردیواری سے ڈھکا ہوا ہے جو قیام پاکستان سے قبل کی ہے، اس کے اندر جانے والا راستہ اور واحد گیٹ بھی پرانے طرزکا بنا ہوا ہے۔
قبرستان کے اندر چاروں طرف اونچے اونچے درخت موجود ہیں جو اس کے قیام کے بعد اگائے گئے، یہ اب تناور درختوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ پرانی قبریں اب بھی قبرستان کے شمال مغربی کونے میں موجود ہیں جن کی نشانی یہ ہے کہ ان میں اینٹوں اور پتھرکے کالے سلیٹ کا استعمال ہوا ہے اور اس پر لکھائی بھی کی گئی ہے۔
قبرستان میں قبائلی علاقوں میں ڈیوٹیاں دینے والے انگریز جو مختلف قبائل کے ہاتھوں مارے گئے، دوسری افغان جنگ اور دیگر مختلف چھوٹے موٹے معرکوں میں کام آنے والے انگریزوں کی قبریں بھی شامل ہیں جو شلمان ریلوے لائن بچھانے کے دوران مر گئے۔
بعد ازاں شلمان کی طرف ریلوے لائن بچھانے کے کام میں انتہائی مشکلات کی وجہ سے یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا اور طورخم کی طرف ریلوے لائن بچھائی گئی۔ پشاور چھاؤنی کے اس قبرستان میں اپنے وقت کے مشہور لوگ آسودہ خاک ہیں جس میں سول و ملٹری آفیسرز اور انگریز تاجر شامل ہیں۔ پرانی قبروں میں ایک قبر امریکی مشنری لونتھل کی ہے جس نے پشتو کی گرامر کی کتاب مرتب کی، اس کی قبر پر پشتو کے الفاظ کندہ کئے گئے ہیں۔
ان قبروں میں ایک قبر ایسی ہے جس میں انگریز میاں بیوی دونوں مدفون ہیں، جس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک انگریز فارسٹ آفیسر کی بیوی اس کی یہاں تعیناتی کے دوران فوت ہو گئی، اسے اپنی بیوی سے اتنی محبت تھی کہ اس نے وصیت کی کہ مجھے مرنے کے بعد میری بیوی کے ساتھ دفن کیا جائے۔ وہ یہاں سے ریٹائر ہو کر برطانیہ چلا گیا جہاں اس کا انتقال ہوا۔ اس کے جسد خاکی کو یہاں لایا گیا اور اس کی بیوی کے پہلو میں دفن کیاگیا۔
پارسی قبرستان
انگریزوں نے جب پشاور میں اپنی افواج کے قیام اور قبضہ برقرار رکھنے کے لیے یہاں چھاؤنی بنائی تو اس کا نظام اورکاروبار زندگی چلانے کے لیے برصغیر کے بڑے بڑے شہروں سے تاجروں اورکاروباری شخصیات کو دعوت دی کہ وہ یہاں آکر اپنے تجارتی ادارے اور مختلف سٹور قائم کریں۔ ان کی دعوت پر برصغیرکے کئی شہروں سے ہندو، مسلمان اور سکھ تاجر آئے اور پشاورکنٹونمنٹ میں مال روڈ، صدر روڈ پر اپنی دکانیں اور ڈیپارٹمنٹل سٹور قائم کئے۔
اسی طرح دہلی، بمبئی،کلکتہ اورکراچی سے برصغیرکی امیر اور کھاتی پیتی اقلیت پارسی برادری کے افراد بھی یہاں کی سماجی زندگی میں نہ صر ف شامل ہوئے بلکہ یہاں رچ بس گئے۔
تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد جب ان میں اموات کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے اپنے مردوں کو آبائی شہروں میں لے جانے کے بجائے، پشاور چھاؤنی کو ہی ان کی آخری رسومات اور تجہیز و تدفین کے لیے منتخب کیا۔ یہاں پر اپنے لیے ایک علیحدہ قبرستان بنایا جوصرف انہی کے لیے مخصوص تھا، یہ قبرستان بعد میں پشاور صدر کا پارسی قبرستان کہلایا۔
سنہری مسجد روڈ پر واقع یہ قبرستان پشاورکا نادر و نایاب اور پارسی اقلیت کا خیبرپختون خوا میں واحد قبرستان ہے جو پشاور چھاؤنی کی داغ بیل پڑنے کے تقریباً ایک عشرے بعد 1860ء میں وجود میں آیا۔ اپنے قیام کے وقت یہ چھاؤنی کی آخری سڑک ساؤتھ سرکلر روڈ پر واقع تھا مگر اب اس کا نام تبدیل کرکے پشاور کی مشہور و معروف سنہری مسجد کے نام سے منسوب ہو چکا ہے۔
ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں یہاں کی آبادی انتہائی سست رفتار سے بڑھی اور تقریباً چالیس کنال رقبے پر مشتمل اس قبرستان میں صرف سو کے قریب قبریں ہیں جن میں زیادہ تر سنگ مرمر کی ہیں اور ہر قبر پر مدفون کے نام کا کتبہ نصب ہے۔
یہاں سب سے پہلی قبر1867ء میں جب کہ دوسری پندرہ سال بعد 1875ء میں بنی۔ پارسی قبرستان ابتدا میں کنٹونمنٹ کے لیز قوانین کے بغیر بنا تھا، اس کے قیام کے دو عشرے بعد تک یونہی رہا بعد ازاں لیزکی درخواست دی گئی اور1895ء میں کنٹونمنٹ بورڈ پشاور نے اسے باقاعدہ لیز پر پارسی کمیونٹی کو دے دیا اور یوں اسے قانونی شکل مہیا ہوئی۔
پارسی لوگ مجوسی یا آتش پرست کہلاتے ہیں، ان کا اصل وطن ایران ہے جہاں اسلام کی آمد کے بعد یہ لوگ نقل مکانی کرکے برصغیر منتقل ہوئے۔
ان کی بڑی تعداد ممبئی،کلکتہ اورکراچی میں آکر بسی۔ ایران کا قدیم نام پارس جس سے فارس بنا، ایران کی زبان فارسی اور اس کے پرانے لوگ پارسی کہلائے۔ پارسی لوگوں کا مذہب زرتشت ہے، یہ بڑے پر امن اور سادہ لوگ ہوتے ہیں۔ فارسی کے ساتھ اپنی پارسی زرتشتی مذہبی زبان بھی بولتے ہیں اور بہت کامیاب بزنس مین ہیں۔ ان کا لباس، زبان اور زندگی کے طور اطوار مخصوص علاقوں میں مقامی لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں مگر یہ اپنی انفرادیت ہرحال میں قائم رکھتے ہیں۔
انیسویں و بیسویں صدی میں ان کے پورے پورے خاندان پشاور صدر میں آباد تھے مگر اب صرف چار پانچ افراد موجود ہیں، باقی وفات پا چکے یا یورپی ممالک کو نقل مکانی کرچکے ہیں۔
پارسی اپنے مردوں کو ابتدا میں دفن کرتے نہ جلاتے بلکہ ایک چبوترے پر کھلے آسمان تلے رکھ دیتے، چیل کوے آکر ان کا گوشت نوچ لیتے جب صرف ڈھانچہ رہ جاتا تو اسے غالباً اسی حالت میں مٹی میں دفن کر دیا جاتا۔ اس چبوترے کو پارسی لوگ ''خاموش مینار'' کے نام سے پکارتے ہیں۔
پشاور صدرکے پارسی قبرستان میں اس طرح کا کوئی چبوترہ موجود نہیں، اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس وسیع وعریض قبرستان کے کسی کونے کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہوںگے۔ اس قبرستان میں سب سے آخری قبر کئی برس پہلے بنائی گئی۔ اب تو پشاور میں پارسی برادری کے افراد کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔