16 دسمبر اور ہمارے زخم
پاکستان ہی نہیں پوری دنیا اس ظلم و سفاکی پر اشک بار ہوئی ہے
پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر کا دن قومی جسد پر لگے ایسے گہرا گھاؤ کی یاد دلاتا ہے جو ہر سال اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ تازہ ہو جاتا ہے۔
16 دسمبر 1971سقوط ڈھاکا کے زخم تازہ کرتا ہے، اس دن پاکستان دو لخت ہوا، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ متحدہ پاکستان کے حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی ہوس اقتدار، زر پرستی، اقرباپروری اور نااہلی نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔پھر یہی اشرافیہ بچے کچھے پاکستان پر مسلط ہوگئی اور اپنا سازشی اور ہوس پرستی کا کھیل دوبارہ شروع کردیا جو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے، کسی نے سقوط ڈھاکا کے ذمے داروں کا تعین کیا نہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی۔
لیکن اس ملک کے عوام نے اس دن کو بھلایا نہیں ہے،ہر سال سولہ دسمبر انھیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے ملک کے وسائل کی بندربانٹ کس طرح کی اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیشن بنانے میں کیا کردار ادا کیا۔ پھر2014میں 16 دسمبر پاکستان شہریوں کے سینے چھلنی کرگیا۔ اس روز دہشت گردوں نے پشاور میں اے پی ایس اسکول میں گھس کر خون کی ہولی کھیلی۔
بزدل اور ننگ انسانیت دہشت گردوں نے ہمارے 132 معصوم اور بے گناہ طالب علم بچوں اور ان کے 8 اساتذہ و اسٹاف ممبران کو دن دیہاڑے آٹومیٹک گنز سے بے رحمی کے ساتھ شہید کیا۔یہ دن ان والدین و لواحقین کے لیے ہی نہیں پورے پاکستان کے لوگوں کو خون کے آنسو رلاتا ہے۔ پاکستان کے لوگ اس ظلم کو کبھی نہیں بھولیں گے اور نہ ہی ظالم دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو معاف کریں گے۔
پاکستان ہی نہیں پوری دنیا اس ظلم و سفاکی پر اشک بار ہوئی ہے ۔ گزشتہ روز پشاور میں سانحہ اے پی ایس کے شہدا کی آٹھویں برسی پردعائیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ میڈیا کے مطابق اس تقریب میں شہداء کے والدین ، اساتذہ اور غازی طلباء نے شرکت کی۔
رپورٹس کے مطابق شہداء کے لواحقین آج بھی غمزدہ تھے۔ شہید بچوں کی آبدیدہ مائیں اپنے بچوں کی تصاویر اٹھائے اس ملک کے حکمرانوں، سیاسی و دینی جماعتوں کی قیادت اور اہل علم کو یاد دلا رہی تھیں کہ جو قوم اپنے بچوں کے قتل پر بھی خاموش ہوجائے تو پھر اس قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
اے پی ایس میں شہید بچوں کو سلامی پیش کی گئی، شہداء کے والدین نے یادگار شہداء پر پھول چڑھائے، اس کے بعد انصاف کے منتظرشہید بچوں کے والدین خیبر روڈ پر جمع ہوئے، ریلی نکالی اور احتجاجاً سڑک کو ٹریفک کے لیے بند کردیا۔ملک کی مین اسٹریم سیاسی و دینی جماعتوں کا رویہ لاتعلقی پر مبنی نظر آیا، قوم پرست بھی لاتعلق رہے۔ شہداء کے والدین آج بھی صدمے سے نڈھال ہیں، جن والدین کے بچے اس سانحہ میں بچ گئے، وہ بھی اس ہولناک دن کوفراموش نہیں کر سکے۔
خیبرپختونخوااسمبلی میں اے پی ایس شہداء سے اظہار یک جہتی کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیارکی گئی۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اس حوالے سے اپنے روایتی بیان میں کہا ہے کہ سانحہ اے پی ایس نے قوم کو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے لیے تیار کیا، پوری قوم دہشت گردی کی باقیات کو حتمی طور پر ختم کرنے کے لیے یکجا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی روایتی پیغام جاری کیا۔
انھوں نے کہا 16 دسمبر دہشت گردی کے خلاف پورے پاکستان کے ایک آواز ہونے کا دن ہے۔ برسوں بعد بھی غم ہے کہ بھلایا نہیں جاتا۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے امریکا کے شہر نیویارک میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کی آٹھویں برسی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کی یاد میں ہے جس میں 132 بچے اور 8 اساتذہ و اسٹاف ارکان شہید ہوئے۔ دہشت گرد حملے کی ذمے داری ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی ۔ اسے سلامتی کونسل اور دیگر رکن ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کیے ہیں۔ یہ فوجی آپریشن کامیاب ہوئے اور پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں سے پاک ہوگئی۔ بدقسمتی سے ٹی ٹی پی نے سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں تلاش کرلیں، ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے کے لیے عالمی برادری کا عزم ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے بچوں کے قتل عام کے صدمے نے پاکستانی قوم کو تمام دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے متحرک کیا ۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کی۔ 80,000شہری اور فوجی شہید یا زخمی ہوئے اور معیشت کو 120بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔
یہ پاکستان کی امید ہے کہ کابل میں نئے حکام ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف سرحد پار سے دہشت گردانہ حملے بندکرنے پر قائل کریں گے یا روک سکیں گے جیسا کہ انھوں نے دوحہ معاہدے اور اس کے بعد کے پالیسی اعلانات میں وعدہ کیا ہے تاہم اس مقصد کی طرف کوششیں ناکام نظر آتی ہیں۔ اس وجہ سے ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف ''جنگ'' کا اعلان کرنے کا حوصلہ کیا ہے اور اس کے حملے تیز ہو گئے ہیں۔ پاکستان اس ضمن میں اپنی کوششیں جاری رکھے گا اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں بھرپور تعاون کرے گا۔
ادھر چمن میں افغان بارڈر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بلا اشتعال گولہ باری پر اسلام آباد میں افغان ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق چمن میں افغان بارڈر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بلا اشتعال گولہ باری کے حالیہ واقعات پر پاکستان کی جانب سے شدید مذمت کی گئی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ شہریوں کا تحفظ دونوں فریقوں کی ذمے داری ہے۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
پاکستان کے لیے مشرقی اور شمال مغربی سرحد پر خطرات موجود ہیں تاہم حالیہ چند برسوں میں شمال مغربی سرحد کے ذریعے دہشت گرد گروپ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی اسٹرٹیجک ریلیشن شپ تبدیل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ملکوں اور ریاستوں کی نئی صف بندی تشکیل پا رہی ہے۔ اس لیے پاکستان کے پالیسی سازوں کو ان تبدیل شدہ حالات میں اپنی خارجہ پالیسی اور اسٹرٹیجک پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو شمال مغرب اور جنوب مغرب کی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس اور دلیرانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاک افغان سرحد کا نرم ہونا، پاکستان کی معیشت اور داخلی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ افغانستان پر طالبان کی عبوری حکومت جنگجو گروپوں پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ پاکستان اور عالمی برادری کو افغانستان کی طالبان حکومت سے جو توقعات وابستہ تھیں، وہ پوری ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔
افغانستان میں داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی سرگرم عمل ہیں۔ شمالی افغانستان میں بظاہر طالبان کا کنٹرول نظر آتا ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ممکن ہے کہ طالبان کی عبوری حکومت میں بھی اختلافات موجود ہوں، انتہاپسند اور اصلاح پسند گروپ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہوں اور اس کا فائدہ افغانستان میں موجود جنگجو گروپوں کو ہو رہا ہے۔
ٹی ٹی پی کے حوالے سے تو افغان حکومت کی پالیسی ہی یہ نظر آتی ہے کہ وہ اس تنظیم کے خلاف اپنے ملک میں کارروائی نہیں کرنا چاہتی۔ افغان حکومت کی اس پالیسی کے نتیجے میں پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت کو عالمی قبولیت اسی وقت مل سکتی ہے جب وہ دوہا معاہدے کی شرائط اور وہاں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔
افغانستان کی حکومت کو پاکستان کے ساتھ اپنے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد گروپوں، اسمگلروں اور دیگر جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ کر کے سرحد کو محفوظ بنانا چاہیے۔ اس کا فائدہ طالبان حکومت کو بھی ہو گا۔ طالبان حکومت کو اس وقت زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنی عالمی ساکھ بہتر بنانی ہے تاکہ دنیا اسے تسلیم کر لے۔ سرحد پر قانونی تجارت اور لین دین ہو گا تو پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کی حکومت کو بھی ریونیو ملے گا۔
افغانستان میں وار لارڈز کی طاقت جتنی کمزور ہوتی جائے گی، افغان حکومت کی رٹ میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا اور سرحدوں پر بھی امن ہو جائے گا۔ افغانستان کو اس وقت پاکستان سے بھی زیادہ امن کی ضرورت ہے۔ طالبان حکومت کو اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے قوت نافذہ کی ضرورت ہے تاکہ وار لارڈز اور دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
16 دسمبر 1971سقوط ڈھاکا کے زخم تازہ کرتا ہے، اس دن پاکستان دو لخت ہوا، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ متحدہ پاکستان کے حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی ہوس اقتدار، زر پرستی، اقرباپروری اور نااہلی نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔پھر یہی اشرافیہ بچے کچھے پاکستان پر مسلط ہوگئی اور اپنا سازشی اور ہوس پرستی کا کھیل دوبارہ شروع کردیا جو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے، کسی نے سقوط ڈھاکا کے ذمے داروں کا تعین کیا نہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی۔
لیکن اس ملک کے عوام نے اس دن کو بھلایا نہیں ہے،ہر سال سولہ دسمبر انھیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے ملک کے وسائل کی بندربانٹ کس طرح کی اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیشن بنانے میں کیا کردار ادا کیا۔ پھر2014میں 16 دسمبر پاکستان شہریوں کے سینے چھلنی کرگیا۔ اس روز دہشت گردوں نے پشاور میں اے پی ایس اسکول میں گھس کر خون کی ہولی کھیلی۔
بزدل اور ننگ انسانیت دہشت گردوں نے ہمارے 132 معصوم اور بے گناہ طالب علم بچوں اور ان کے 8 اساتذہ و اسٹاف ممبران کو دن دیہاڑے آٹومیٹک گنز سے بے رحمی کے ساتھ شہید کیا۔یہ دن ان والدین و لواحقین کے لیے ہی نہیں پورے پاکستان کے لوگوں کو خون کے آنسو رلاتا ہے۔ پاکستان کے لوگ اس ظلم کو کبھی نہیں بھولیں گے اور نہ ہی ظالم دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو معاف کریں گے۔
پاکستان ہی نہیں پوری دنیا اس ظلم و سفاکی پر اشک بار ہوئی ہے ۔ گزشتہ روز پشاور میں سانحہ اے پی ایس کے شہدا کی آٹھویں برسی پردعائیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ میڈیا کے مطابق اس تقریب میں شہداء کے والدین ، اساتذہ اور غازی طلباء نے شرکت کی۔
رپورٹس کے مطابق شہداء کے لواحقین آج بھی غمزدہ تھے۔ شہید بچوں کی آبدیدہ مائیں اپنے بچوں کی تصاویر اٹھائے اس ملک کے حکمرانوں، سیاسی و دینی جماعتوں کی قیادت اور اہل علم کو یاد دلا رہی تھیں کہ جو قوم اپنے بچوں کے قتل پر بھی خاموش ہوجائے تو پھر اس قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
اے پی ایس میں شہید بچوں کو سلامی پیش کی گئی، شہداء کے والدین نے یادگار شہداء پر پھول چڑھائے، اس کے بعد انصاف کے منتظرشہید بچوں کے والدین خیبر روڈ پر جمع ہوئے، ریلی نکالی اور احتجاجاً سڑک کو ٹریفک کے لیے بند کردیا۔ملک کی مین اسٹریم سیاسی و دینی جماعتوں کا رویہ لاتعلقی پر مبنی نظر آیا، قوم پرست بھی لاتعلق رہے۔ شہداء کے والدین آج بھی صدمے سے نڈھال ہیں، جن والدین کے بچے اس سانحہ میں بچ گئے، وہ بھی اس ہولناک دن کوفراموش نہیں کر سکے۔
خیبرپختونخوااسمبلی میں اے پی ایس شہداء سے اظہار یک جہتی کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیارکی گئی۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اس حوالے سے اپنے روایتی بیان میں کہا ہے کہ سانحہ اے پی ایس نے قوم کو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے لیے تیار کیا، پوری قوم دہشت گردی کی باقیات کو حتمی طور پر ختم کرنے کے لیے یکجا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی روایتی پیغام جاری کیا۔
انھوں نے کہا 16 دسمبر دہشت گردی کے خلاف پورے پاکستان کے ایک آواز ہونے کا دن ہے۔ برسوں بعد بھی غم ہے کہ بھلایا نہیں جاتا۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے امریکا کے شہر نیویارک میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کی آٹھویں برسی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کی یاد میں ہے جس میں 132 بچے اور 8 اساتذہ و اسٹاف ارکان شہید ہوئے۔ دہشت گرد حملے کی ذمے داری ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی ۔ اسے سلامتی کونسل اور دیگر رکن ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کیے ہیں۔ یہ فوجی آپریشن کامیاب ہوئے اور پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں سے پاک ہوگئی۔ بدقسمتی سے ٹی ٹی پی نے سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں تلاش کرلیں، ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے کے لیے عالمی برادری کا عزم ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے بچوں کے قتل عام کے صدمے نے پاکستانی قوم کو تمام دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے متحرک کیا ۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کی۔ 80,000شہری اور فوجی شہید یا زخمی ہوئے اور معیشت کو 120بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔
یہ پاکستان کی امید ہے کہ کابل میں نئے حکام ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف سرحد پار سے دہشت گردانہ حملے بندکرنے پر قائل کریں گے یا روک سکیں گے جیسا کہ انھوں نے دوحہ معاہدے اور اس کے بعد کے پالیسی اعلانات میں وعدہ کیا ہے تاہم اس مقصد کی طرف کوششیں ناکام نظر آتی ہیں۔ اس وجہ سے ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف ''جنگ'' کا اعلان کرنے کا حوصلہ کیا ہے اور اس کے حملے تیز ہو گئے ہیں۔ پاکستان اس ضمن میں اپنی کوششیں جاری رکھے گا اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں بھرپور تعاون کرے گا۔
ادھر چمن میں افغان بارڈر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بلا اشتعال گولہ باری پر اسلام آباد میں افغان ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق چمن میں افغان بارڈر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بلا اشتعال گولہ باری کے حالیہ واقعات پر پاکستان کی جانب سے شدید مذمت کی گئی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ شہریوں کا تحفظ دونوں فریقوں کی ذمے داری ہے۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
پاکستان کے لیے مشرقی اور شمال مغربی سرحد پر خطرات موجود ہیں تاہم حالیہ چند برسوں میں شمال مغربی سرحد کے ذریعے دہشت گرد گروپ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی اسٹرٹیجک ریلیشن شپ تبدیل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ملکوں اور ریاستوں کی نئی صف بندی تشکیل پا رہی ہے۔ اس لیے پاکستان کے پالیسی سازوں کو ان تبدیل شدہ حالات میں اپنی خارجہ پالیسی اور اسٹرٹیجک پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو شمال مغرب اور جنوب مغرب کی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس اور دلیرانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاک افغان سرحد کا نرم ہونا، پاکستان کی معیشت اور داخلی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ افغانستان پر طالبان کی عبوری حکومت جنگجو گروپوں پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ پاکستان اور عالمی برادری کو افغانستان کی طالبان حکومت سے جو توقعات وابستہ تھیں، وہ پوری ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔
افغانستان میں داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی سرگرم عمل ہیں۔ شمالی افغانستان میں بظاہر طالبان کا کنٹرول نظر آتا ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ممکن ہے کہ طالبان کی عبوری حکومت میں بھی اختلافات موجود ہوں، انتہاپسند اور اصلاح پسند گروپ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہوں اور اس کا فائدہ افغانستان میں موجود جنگجو گروپوں کو ہو رہا ہے۔
ٹی ٹی پی کے حوالے سے تو افغان حکومت کی پالیسی ہی یہ نظر آتی ہے کہ وہ اس تنظیم کے خلاف اپنے ملک میں کارروائی نہیں کرنا چاہتی۔ افغان حکومت کی اس پالیسی کے نتیجے میں پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت کو عالمی قبولیت اسی وقت مل سکتی ہے جب وہ دوہا معاہدے کی شرائط اور وہاں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔
افغانستان کی حکومت کو پاکستان کے ساتھ اپنے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد گروپوں، اسمگلروں اور دیگر جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ کر کے سرحد کو محفوظ بنانا چاہیے۔ اس کا فائدہ طالبان حکومت کو بھی ہو گا۔ طالبان حکومت کو اس وقت زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنی عالمی ساکھ بہتر بنانی ہے تاکہ دنیا اسے تسلیم کر لے۔ سرحد پر قانونی تجارت اور لین دین ہو گا تو پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کی حکومت کو بھی ریونیو ملے گا۔
افغانستان میں وار لارڈز کی طاقت جتنی کمزور ہوتی جائے گی، افغان حکومت کی رٹ میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا اور سرحدوں پر بھی امن ہو جائے گا۔ افغانستان کو اس وقت پاکستان سے بھی زیادہ امن کی ضرورت ہے۔ طالبان حکومت کو اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے قوت نافذہ کی ضرورت ہے تاکہ وار لارڈز اور دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔