زندگی کیسی ہو شیر کی یا لومڑی کی
اگر قوم کو ان قرضوں سے نجات ملی تو ہی یہ قوم شیر کی زندگی جی سکے گی یا اقبال کا شاہین بن پائے گی
کوئی چالیس برس قبل میرے محترم استاد جن سے میں نے قرآن پاک پڑھنا سیکھا تھا، ان کی ایک خوبی تھی کہ وہ جو بات کرتے اس کی تفہیم کے لیے کوئی مثال ضرور دیتے۔
ایک روز میں کام یا روزگار کے سلسلے میں بے حد پریشان و مایوس تھا اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ مایوسی گناہ میں شمار ہوتی ہے مگر بہرکیف بشریت کا تقاضا ہے کبھی کبھی انسان مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔
رب جلیل مایوسی و ناامیدی سے سب کو محفوظ رکھے تو اس مایوسی کے عالم میں ہمارے استاد نے ہماری دل جوئی کے لیے ایک واقعہ یا کہاوت بیان کی۔ ان الفاظ میں کہ ایک دانش مند آدمی نے جوکہ کسی حد تک معقول جائیداد کا مالک بھی تھا اور گزر بسر کے لیے آمدنی کے ذرایع بھی تھے چنانچہ اس دانش مند آدمی نے اپنے جواں سال بیٹے سے کہا کہ ''بیٹا! ایسا کرو کہ تم قریبی شہر چلے جاؤ۔ کوئی کاروباری معاملات کی سمجھ بوجھ حاصل کرلو۔ دیکھو آنے والا زمانہ جدید زمانہ ہوگا، ممکن ہے کہ آنے والا زمانہ اپنے ساتھ بہت سارے چیلنجز لے کر آئے چنانچہ عقل مندی کا تقاضا ہے آنے والے وقتوں کے لیے ابھی سے پیش بندی کرلی جائے۔''
اس دانش مند آدمی کے بیٹے نے جوکہ کاہل و سست روی کا شکار تھا باپ کی بات پوری توجہ سے سنی اور جواب دیا کہ'' سب کچھ تو ہے ہمارے پاس، اپنی جائیداد ہے، آمدنی کا معقول ذریعہ ہے، پھر بھلا شہر جا کر پرائے لوگوں میں گھر سے دور کیوں خوار ہوتے پھریں؟ ''گویا اس بیٹے نے اپنے دور اندیش باپ کی بات تسلیم نہ کی ،البتہ باپ نے وقت بے وقت اپنے بیٹے کو قائل کرنے کی کوشش جاری رکھی کہ اس کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ شہر جائے۔ باپ و بیٹے کی تکرار جاری رہتی اور بالآخر بیٹے نے اپنے باپ کی بات تسلیم کرلی اور شہر جانے کے لیے رضامند ہوگیا۔
چنانچہ گزشتہ روز وہ علی الصبح بیدار ہوا اور ضروری سفر کا سامان ساتھ لیا اور شہر کو روانہ ہو گیا۔ راستے میں ایک جنگل بھی تھا جب وہ نوجوان اس گھنے جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے کیا دیکھا کہ ایک ہاتھ و پاؤں سے معذور لومڑی جنگل میں بیٹھی ہے اس لومڑی کو دیکھ کر اس نوجوان کو یہ تجسس ہوا کہ یہ اپنی خوراک کیسے حاصل کرتی ہوگی، کیونکہ یہ تو معذور ہے چنانچہ وہ نوجوان تھوڑی دور جا کر بیٹھ گیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا اس نوجوان کا تجسس بھی بڑھتا گیا۔ البتہ کافی دیر کے بعد اس نوجوان نے دیکھا کہ ایک شیر منہ میں شکار دبائے چلا آ رہا ہے۔
شیر کو دیکھ کر وہ نوجوان ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا اس خوف سے کہ ایسا نہ ہو کہ شیر مجھے کوئی نقصان پہنچائے۔ چنانچہ وہ شیر اپنے شکار کردہ جانور کے ساتھ لومڑی کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور اپنے شکار کردہ جانور کا گوشت کھانے لگا۔ جب اس شیر کا پیٹ بھر گیا تو وہ باقی ماندہ بچے کچھے شکار کو چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔ البتہ شیر کے جانے کے بعد وہ معذور لومڑی شکار کردہ جانور کے پاس گئی جیسے تیسے بھی اور باقی ماندہ شکار کو نوچ نوچ کر کھانے لگی اور بالآخر اپنا پیٹ بھر لیا۔
اس تمام صورت حال کا اس نوجوان نے خوب مشاہدہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر اس معذور لومڑی کو رزق مل سکتا ہے تو میں تو ایک نوجوان ہوں، بھلا میں کیسے بھوکا رہ سکتا ہوں۔ خدا ضرور مجھے کھلائے گا اور میری دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھے گا۔ اپنی اس سوچ کے ساتھ وہ واپس گاؤں میں اپنے باپ کے پاس آگیا اور اپنے باپ کے سامنے تمام واقعہ بیان کردیا۔
اپنے بیٹے کے منہ سے تمام ماجرا سننے کے بعد باپ نے افسردہ ہو کر اپنے بیٹے سے کہا کہ'' بیٹا! مجھے تمہاری بات سن کر بہت افسوس ہوا ہے۔ بیٹا! میں نے تمہیں شیر بنانے کی کوشش کی تھی جوکہ خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے مگر تم تو ہاتھ و پاؤں سے معذور لومڑی بن کر آگئے۔ ایسی لومڑی جوکہ دوسروں کے چھوڑے ٹکڑوں کی تلاش میں ہوتی ہے کہ کب کوئی اپنا پیٹ بھرکر، کوئی کھانے کا ٹکڑا چھوڑے اور میں اپنا پیٹ بھر سکوں۔ بیٹا! ہمیشہ کوشش کرو کہ شیر بنو، خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ شیر اور لومڑی کا قصہ ہوا تمام۔
اب ہم آتے ہیں حقیقی مقصد کی جانب تو عرض یہ ہے کہ ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال جنھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک اسلامی فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اس قوم کو شاہین بننے کی تلقین کی کیونکہ شاہین کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اس کی پرواز بلند سے بلند تر ہوتی ہے اور پستی میں جانا گویا شاہین کے نزدیک ایک ذلت ہے۔ پھر بانی پاکستان قائد اعظم نے بھی تو ہمیں ایک خوددار قوم بنانے کی پوری پوری کوشش کی۔
قائد اعظم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ پاکستان نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں بلکہ تمام امت مسلمہ و تمام مظلوم قوموں کی مرکز نگاہ ہے اور پاکستان کو ان کی امیدوں پر پورا اترنا ہے۔ یہ سب ناممکن نہ تھا اگر قائد کی حیات فقط چند برس اور وفا کرتی تو لازمی بات تھی کہ بانی پاکستان قائد اعظم اس قوم کو ایسا شیر بنا دیتے جوکہ خود اپنے لیے کھانے کے خوب وسائل پیدا کرتی اور دوسروں کو بھی کھلاتی۔
اور یہ قوم ایسا شاہین بنتی کہ جس کی پرواز بلند سے بلند تر ہوتی اور یہ قوم پستی کی جانب دیکھنا بھی گوارا نہ کرتی۔ البتہ یہ قوم نہ تو شیر بن سکی اور نہ شاہین بن سکی۔ البتہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والی ایک معذور لومڑی کی مثل ضرور بن گئی۔
آج کیفیت یہ ہے کہ یہ ملک بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مکمل گرفت میں جا چکا ہے، وہ جو خوشی خوشی ہمارے جانب ڈالر پھینکتے تھے اور ہم مال مفت جان کر وہ ڈالر وصول کرتے رہے ہم نے کبھی یہ تفہیم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ پرائے ڈالر ہمیں واپس بھی کرنا ہوں گے۔ جیسے جیسے ان مالیاتی اداروں کے قرضے بڑھتے گئے ویسے ویسے ان اداروں کی شرائط بھی کڑی سے کڑی ہوتی چلی گئیں۔
مگر اب کیفیت یہ ہے کہ یہ مالیاتی ادارے قرضہ فراہم کرنے سے قبل قسم قسم کی ضمانتیں طلب کرتے ہیں اور اگر کہیں سے کوئی قرضہ حاصل ہونے کی ہمارے حکمرانوں کو نوید ملتی ہے تو یہ حکمران قوم کو کہتے ہیں کہ مبارک ہو، آئی ایم ایف نے ہمیں قرضہ دینا منظور کرلیا ہے۔ ہمارے یہ بھولے بھالے حکمران اس وقت یہ حقیقت بھی فراموش کردیتے ہیں کہ ہم قوم کو کس بات کی مبارک باد دے رہے ہیں۔
یہ قوم ناک ناک تک ہماری مہربانیوں کے باعث قرضے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ پھر یہ بھی ایک کھلی صداقت ہے کہ اگر فوری طور پر ملک پر عائد شدہ قرضوں کی واپسی کا عمل شروع کیا جائے جوکہ موجودہ حالات میں ناممکن ہے تو بھی دو سے تین نسلوں کو یہ قرض کی رقم واپس کرنا پڑے گی وہ بھی تمام تر ترقیاتی و تمام تر غیر ترقیاتی اخراجات کا خاتمہ کرتے ہوئے۔
اب یہ فیصلہ قوم کو کرنا ہے کہ اسے ان قرضوں سے نجات حاصل کرنی ہے یا موجودہ صورت حال میں رہتے ہوئے قرضوں کا بوجھ مزید برداشت کرنا ہے۔ خیال رہے اگر قوم کو ان قرضوں سے نجات ملی تو ہی یہ قوم شیر کی زندگی جی سکے گی یا اقبال کا شاہین بن پائے گی۔ فیصلے کی گھڑی شاید زیادہ دور نہیں ہے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی یہ قوم کی ہمدردی میں آنسو تک بہاتے ہوئے ہر ایک در پے دستک ضرور دیتے ہوئے نظر آئیں گے۔
ایک روز میں کام یا روزگار کے سلسلے میں بے حد پریشان و مایوس تھا اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ مایوسی گناہ میں شمار ہوتی ہے مگر بہرکیف بشریت کا تقاضا ہے کبھی کبھی انسان مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔
رب جلیل مایوسی و ناامیدی سے سب کو محفوظ رکھے تو اس مایوسی کے عالم میں ہمارے استاد نے ہماری دل جوئی کے لیے ایک واقعہ یا کہاوت بیان کی۔ ان الفاظ میں کہ ایک دانش مند آدمی نے جوکہ کسی حد تک معقول جائیداد کا مالک بھی تھا اور گزر بسر کے لیے آمدنی کے ذرایع بھی تھے چنانچہ اس دانش مند آدمی نے اپنے جواں سال بیٹے سے کہا کہ ''بیٹا! ایسا کرو کہ تم قریبی شہر چلے جاؤ۔ کوئی کاروباری معاملات کی سمجھ بوجھ حاصل کرلو۔ دیکھو آنے والا زمانہ جدید زمانہ ہوگا، ممکن ہے کہ آنے والا زمانہ اپنے ساتھ بہت سارے چیلنجز لے کر آئے چنانچہ عقل مندی کا تقاضا ہے آنے والے وقتوں کے لیے ابھی سے پیش بندی کرلی جائے۔''
اس دانش مند آدمی کے بیٹے نے جوکہ کاہل و سست روی کا شکار تھا باپ کی بات پوری توجہ سے سنی اور جواب دیا کہ'' سب کچھ تو ہے ہمارے پاس، اپنی جائیداد ہے، آمدنی کا معقول ذریعہ ہے، پھر بھلا شہر جا کر پرائے لوگوں میں گھر سے دور کیوں خوار ہوتے پھریں؟ ''گویا اس بیٹے نے اپنے دور اندیش باپ کی بات تسلیم نہ کی ،البتہ باپ نے وقت بے وقت اپنے بیٹے کو قائل کرنے کی کوشش جاری رکھی کہ اس کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ شہر جائے۔ باپ و بیٹے کی تکرار جاری رہتی اور بالآخر بیٹے نے اپنے باپ کی بات تسلیم کرلی اور شہر جانے کے لیے رضامند ہوگیا۔
چنانچہ گزشتہ روز وہ علی الصبح بیدار ہوا اور ضروری سفر کا سامان ساتھ لیا اور شہر کو روانہ ہو گیا۔ راستے میں ایک جنگل بھی تھا جب وہ نوجوان اس گھنے جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے کیا دیکھا کہ ایک ہاتھ و پاؤں سے معذور لومڑی جنگل میں بیٹھی ہے اس لومڑی کو دیکھ کر اس نوجوان کو یہ تجسس ہوا کہ یہ اپنی خوراک کیسے حاصل کرتی ہوگی، کیونکہ یہ تو معذور ہے چنانچہ وہ نوجوان تھوڑی دور جا کر بیٹھ گیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا اس نوجوان کا تجسس بھی بڑھتا گیا۔ البتہ کافی دیر کے بعد اس نوجوان نے دیکھا کہ ایک شیر منہ میں شکار دبائے چلا آ رہا ہے۔
شیر کو دیکھ کر وہ نوجوان ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا اس خوف سے کہ ایسا نہ ہو کہ شیر مجھے کوئی نقصان پہنچائے۔ چنانچہ وہ شیر اپنے شکار کردہ جانور کے ساتھ لومڑی کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور اپنے شکار کردہ جانور کا گوشت کھانے لگا۔ جب اس شیر کا پیٹ بھر گیا تو وہ باقی ماندہ بچے کچھے شکار کو چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔ البتہ شیر کے جانے کے بعد وہ معذور لومڑی شکار کردہ جانور کے پاس گئی جیسے تیسے بھی اور باقی ماندہ شکار کو نوچ نوچ کر کھانے لگی اور بالآخر اپنا پیٹ بھر لیا۔
اس تمام صورت حال کا اس نوجوان نے خوب مشاہدہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر اس معذور لومڑی کو رزق مل سکتا ہے تو میں تو ایک نوجوان ہوں، بھلا میں کیسے بھوکا رہ سکتا ہوں۔ خدا ضرور مجھے کھلائے گا اور میری دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھے گا۔ اپنی اس سوچ کے ساتھ وہ واپس گاؤں میں اپنے باپ کے پاس آگیا اور اپنے باپ کے سامنے تمام واقعہ بیان کردیا۔
اپنے بیٹے کے منہ سے تمام ماجرا سننے کے بعد باپ نے افسردہ ہو کر اپنے بیٹے سے کہا کہ'' بیٹا! مجھے تمہاری بات سن کر بہت افسوس ہوا ہے۔ بیٹا! میں نے تمہیں شیر بنانے کی کوشش کی تھی جوکہ خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے مگر تم تو ہاتھ و پاؤں سے معذور لومڑی بن کر آگئے۔ ایسی لومڑی جوکہ دوسروں کے چھوڑے ٹکڑوں کی تلاش میں ہوتی ہے کہ کب کوئی اپنا پیٹ بھرکر، کوئی کھانے کا ٹکڑا چھوڑے اور میں اپنا پیٹ بھر سکوں۔ بیٹا! ہمیشہ کوشش کرو کہ شیر بنو، خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ شیر اور لومڑی کا قصہ ہوا تمام۔
اب ہم آتے ہیں حقیقی مقصد کی جانب تو عرض یہ ہے کہ ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال جنھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک اسلامی فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اس قوم کو شاہین بننے کی تلقین کی کیونکہ شاہین کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اس کی پرواز بلند سے بلند تر ہوتی ہے اور پستی میں جانا گویا شاہین کے نزدیک ایک ذلت ہے۔ پھر بانی پاکستان قائد اعظم نے بھی تو ہمیں ایک خوددار قوم بنانے کی پوری پوری کوشش کی۔
قائد اعظم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ پاکستان نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں بلکہ تمام امت مسلمہ و تمام مظلوم قوموں کی مرکز نگاہ ہے اور پاکستان کو ان کی امیدوں پر پورا اترنا ہے۔ یہ سب ناممکن نہ تھا اگر قائد کی حیات فقط چند برس اور وفا کرتی تو لازمی بات تھی کہ بانی پاکستان قائد اعظم اس قوم کو ایسا شیر بنا دیتے جوکہ خود اپنے لیے کھانے کے خوب وسائل پیدا کرتی اور دوسروں کو بھی کھلاتی۔
اور یہ قوم ایسا شاہین بنتی کہ جس کی پرواز بلند سے بلند تر ہوتی اور یہ قوم پستی کی جانب دیکھنا بھی گوارا نہ کرتی۔ البتہ یہ قوم نہ تو شیر بن سکی اور نہ شاہین بن سکی۔ البتہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والی ایک معذور لومڑی کی مثل ضرور بن گئی۔
آج کیفیت یہ ہے کہ یہ ملک بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مکمل گرفت میں جا چکا ہے، وہ جو خوشی خوشی ہمارے جانب ڈالر پھینکتے تھے اور ہم مال مفت جان کر وہ ڈالر وصول کرتے رہے ہم نے کبھی یہ تفہیم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ پرائے ڈالر ہمیں واپس بھی کرنا ہوں گے۔ جیسے جیسے ان مالیاتی اداروں کے قرضے بڑھتے گئے ویسے ویسے ان اداروں کی شرائط بھی کڑی سے کڑی ہوتی چلی گئیں۔
مگر اب کیفیت یہ ہے کہ یہ مالیاتی ادارے قرضہ فراہم کرنے سے قبل قسم قسم کی ضمانتیں طلب کرتے ہیں اور اگر کہیں سے کوئی قرضہ حاصل ہونے کی ہمارے حکمرانوں کو نوید ملتی ہے تو یہ حکمران قوم کو کہتے ہیں کہ مبارک ہو، آئی ایم ایف نے ہمیں قرضہ دینا منظور کرلیا ہے۔ ہمارے یہ بھولے بھالے حکمران اس وقت یہ حقیقت بھی فراموش کردیتے ہیں کہ ہم قوم کو کس بات کی مبارک باد دے رہے ہیں۔
یہ قوم ناک ناک تک ہماری مہربانیوں کے باعث قرضے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ پھر یہ بھی ایک کھلی صداقت ہے کہ اگر فوری طور پر ملک پر عائد شدہ قرضوں کی واپسی کا عمل شروع کیا جائے جوکہ موجودہ حالات میں ناممکن ہے تو بھی دو سے تین نسلوں کو یہ قرض کی رقم واپس کرنا پڑے گی وہ بھی تمام تر ترقیاتی و تمام تر غیر ترقیاتی اخراجات کا خاتمہ کرتے ہوئے۔
اب یہ فیصلہ قوم کو کرنا ہے کہ اسے ان قرضوں سے نجات حاصل کرنی ہے یا موجودہ صورت حال میں رہتے ہوئے قرضوں کا بوجھ مزید برداشت کرنا ہے۔ خیال رہے اگر قوم کو ان قرضوں سے نجات ملی تو ہی یہ قوم شیر کی زندگی جی سکے گی یا اقبال کا شاہین بن پائے گی۔ فیصلے کی گھڑی شاید زیادہ دور نہیں ہے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی یہ قوم کی ہمدردی میں آنسو تک بہاتے ہوئے ہر ایک در پے دستک ضرور دیتے ہوئے نظر آئیں گے۔