پہلی اینٹ سیدھی کیجیے
اب سب کچھ بدل گیا ہے گلی محلے میں ٹینس بال اور گھاس کے میدانوں میں ہارڈ بال سے کھیلنا بھی آسان نہیں رہا ۔۔۔
کرکٹ ایک ایسا موضوع ہے جس پر میں گاہے بگاہے قلم اٹھاتا رہتا ہوں لیکن اس بار وقفہ کچھ زیادہ ہی لمبا ہو گیا وجہ یہ تھی کہ میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تک موجودہ پاکستانی ٹیم کی مجموعی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لینا چاہتا تھا تاکہ ہم وقتی جذبات سے بالاتر ہو کر دیکھ سکیں کہ اس کھیل کے متعلقہ مسائل کیا' کیوں اور کیسے ہیں؟ بوجوہ اب یہ ایک امر واقعہ ہے کہ اس میں ہار جیت کا براہ راست اثر کم و بیش پورے معاشرے پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے اور بقول کسے اب کرکٹ میچ میں جیت ہی ایک ایسا موقع مہیا کرتی ہے جس میں ساری قوم (کچھ دیر کے لیے ہی سہی) ایک پلیٹ فارم پر متحد اور یک زبان ہو جاتی ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ ماضی کے اہم اور بین الاقوامی کرکٹ کے اسرار و رموز سے آگاہ کئی بڑے نام بہت کم ٹی وی اسکرین پر دکھائی دیتے ہیں حنیف محمد' امتیاز احمد' سعید احمد' وقار حسن اور ان کی نسل کے کچھ اور لوگ تو شاید عمر اور علالت کے باعث نہ آ سکتے ہوں لیکن مشتاق محمد' آصف اقبال' ماجد خان' سلیم الطاف' مدثر نذر' پرویز سجاد' جاوید برکی' سعید انور اور کسی حد تک انضمام' ثقلین مشتاق اور شفقت رانا جیسے تجربہ کار اور نامور کھلاڑیوں کی غیر موجودگی یقیناً ایک سوالیہ نشان ہے کہ ناظرین کو ان کی شخصی سرگرمیوں اور کرکٹ بورڈ اور حکومت وقت سے ان کے تعلقات سے کوئی غرض نہیں کیونکہ وہ تو صرف ان کی آس دانش اور تجربات سے بہرہ مند ہونا چاہتے ہیں جس کے یہ اہل اور حامل ہیں۔
اپنی بات کو اس ایک ہی کالم تک محدود رکھنے کے لیے اب میں اپنی موجودہ کرکٹ ٹیم اور اس کے معاملات و مسائل کی طرف آتا ہوں کہ مستقبل قریب میں غیر ملکی ٹیموں کی پاکستان میں آمد کے امکانات بہت کم ہیں اور یوں بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے ہمارے کھلاڑیوں کو ہوم گرائونڈز Advntage حاصل نہیں ہو سکے گا جو بہت ضروری ہوتا ہے لیکن میری ذاتی رائے میں ہمارا بنیادی مسئلہ بین الاقوامی نہیں بلکہ ملکی اور قومی نوعیت کا ہے کہ اصل خرابی ہمارے بنیادی ڈھانچے' کھیل کے امور میں سیاسی مداخلت اور کرکٹ بورڈ کی اس گورننس کا ہے جو نہ تو آسٹریلیا' سائوتھ افریقہ اور انگلینڈ کی طرح ممکنہ اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو دس برس کی عمر سے ہی Pick & groom کرنا شروع کر دیتے ہیں اور نہ اپنے پڑوسی ملک بھارت کی طرح نوجوان کھلاڑیوں کو وہ معاشی تحفظ فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے Passion کو Profession میں تبدیل کر سکیں۔ ایک زمانے میں اسکولوں اور کالجوں کے کھیل کے میدانوں کے ساتھ ساتھ شہروں اور قصبوں میں بھی یہ سہولت کسی نہ کسی حد تک موجود تھی اور کھیل میں استعمال ہونے والا سامان بھی زیادہ مہنگا نہیں تھا۔
اب سب کچھ بدل گیا ہے گلی محلے میں ٹینس بال اور گھاس کے میدانوں میں ہارڈ بال سے کھیلنا بھی آسان نہیں رہا کرکٹ بال اور بلے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے ساتھ ساتھ اچھی وکٹ اور گرائونڈ کی فیس اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب یہ ''شوق'' کی حدوں سے باہر نکل گئے ہیں کم و بیش یہی حال کلب کرکٹ کا ہے سو لے دے کر ڈویژن' صوبے اور مختلف ادارے ہی باقی بچتے ہیں جہاں ان کھلاڑیوں کی کسی حد تک دیکھ بھال اور تربیت ہو سکتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقاعدہ نرسریوں کی عدم موجودگی میں یہ ''خودرو'' پودے کتنی دیر تک ان ہوائوں کا مقابلہ کر سکیں گے جو ان کے چاروں طرف تباہی مچا رہی ہیں۔ گزشتہ رات ایک پروگرام میں جاوید میانداد' محمد یوسف اور سکندر بخت سنجیدگی سے اور شعیب اختر اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں موجودہ پاکستانی ٹیم بالخصوص اس کے بیٹسمینوں کی بنیادی کمزوریوں پر تنقید کر رہے تھے جس کا لب لباب یہ تھا کہ یہ عوام کو محظوظ کرنے والے شاٹس تو کسی نہ کسی حد تک کھیل لیتے ہیں۔
مگر ان کو بیٹنگ کے بنیادی اصولوں' ان کی ٹیکنیک سے عدم واقفیت کے ساتھ ساتھ کھیل کی صورت حال کے مطابق اپنے آپ کو Adjust کرنے کا سلیقہ نہیں آتا کہ یہ باتیں اصل میں اس وقت سیکھنے کی ہوتی ہیں جب وہ کھلاڑی بننے کے عمل میں یعنی اسکول کالج اور کلب کی سطح پر ہوں۔ ہمارا کھیل کا ڈھانچہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ان مراحل سے باقاعدہ انداز میں گزرے بغیر یہ لڑکے ایک Raw Talent کی شکل میں فرسٹ کلاس کرکٹر بن جاتے ہیں اور پھر ایک سطحی اور غیر مرتب مقابلہ جاتی دور سے گزرنے کے بعد قومی ٹیم تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور ہمارا سلیکشن کا نظام بھی ایسا ہے کہ سلیکٹر حضرات کھلاڑی کی صلاحیت' استعداد' استقامت اور ٹیکنیک کو براہ راست دیکھنے کے بجائے ان اعدادوشمار پر تکیہ کرتے ہیں جو بوجوہ انتہائی ناقص اور ناقابل اعتبار ہیں یوں اٹکل پچو انداز میں جو کھلاڑی منتخب ہوتے ہیں وہ اپنی خداداد صلاحیت کی بنا پر ایک ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو ہنڈولے کی طرح گاہ بلند اور گاہ پست ہوتی رہتی ہے۔
ایک دوسرے پروگرام میں ڈاکٹر نعمان نیاز' چیف سلیکٹر راشد لطیف' عبدالرزاق' محمد وسیم اور اظہر کی گفتگو سے جو بات سامنے آئی میرے نزدیک وہ بہتر اور قابل عمل ہے کہ جب تک ہم بنیادی ڈھانچے کو ٹھیک نہیں کر پاتے ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ سترہ سے انیس برس کے کھلاڑیوں کو وہ کوچنگ اور ماحول مہیا کیا جائے جو اس وقت ان قومی کھلاڑیوں کو حاصل ہے جو بنیادی تربیت میں کمی کے باعث صلاحیت کے باوجود اچھی اور مسلسل کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ ہمارے بائولرز ہمارے بیٹسمینوں کی نسبت کم مسائل کا شکار ہیں میرے خیال میں وسیم اکرم' وقار یونس اور ثقلین مشتاق کے بعد سے یہ صورت حال بدل چکی ہے سعید اجمل' شاہد آفریدی' محمد عرفان کو اگر مستثنیات میں شامل کر بھی لیا جائے تب بھی اس وقت کا کوئی پاکستانی بائولر ایسا نہیں جو اپنے زور پر ٹیم کو کوئی بڑا میچ جتوا سکتا ہو یعنی ہمیں بالنگ پر بھی اتنی ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ ماضی کے اہم اور بین الاقوامی کرکٹ کے اسرار و رموز سے آگاہ کئی بڑے نام بہت کم ٹی وی اسکرین پر دکھائی دیتے ہیں حنیف محمد' امتیاز احمد' سعید احمد' وقار حسن اور ان کی نسل کے کچھ اور لوگ تو شاید عمر اور علالت کے باعث نہ آ سکتے ہوں لیکن مشتاق محمد' آصف اقبال' ماجد خان' سلیم الطاف' مدثر نذر' پرویز سجاد' جاوید برکی' سعید انور اور کسی حد تک انضمام' ثقلین مشتاق اور شفقت رانا جیسے تجربہ کار اور نامور کھلاڑیوں کی غیر موجودگی یقیناً ایک سوالیہ نشان ہے کہ ناظرین کو ان کی شخصی سرگرمیوں اور کرکٹ بورڈ اور حکومت وقت سے ان کے تعلقات سے کوئی غرض نہیں کیونکہ وہ تو صرف ان کی آس دانش اور تجربات سے بہرہ مند ہونا چاہتے ہیں جس کے یہ اہل اور حامل ہیں۔
اپنی بات کو اس ایک ہی کالم تک محدود رکھنے کے لیے اب میں اپنی موجودہ کرکٹ ٹیم اور اس کے معاملات و مسائل کی طرف آتا ہوں کہ مستقبل قریب میں غیر ملکی ٹیموں کی پاکستان میں آمد کے امکانات بہت کم ہیں اور یوں بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے ہمارے کھلاڑیوں کو ہوم گرائونڈز Advntage حاصل نہیں ہو سکے گا جو بہت ضروری ہوتا ہے لیکن میری ذاتی رائے میں ہمارا بنیادی مسئلہ بین الاقوامی نہیں بلکہ ملکی اور قومی نوعیت کا ہے کہ اصل خرابی ہمارے بنیادی ڈھانچے' کھیل کے امور میں سیاسی مداخلت اور کرکٹ بورڈ کی اس گورننس کا ہے جو نہ تو آسٹریلیا' سائوتھ افریقہ اور انگلینڈ کی طرح ممکنہ اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو دس برس کی عمر سے ہی Pick & groom کرنا شروع کر دیتے ہیں اور نہ اپنے پڑوسی ملک بھارت کی طرح نوجوان کھلاڑیوں کو وہ معاشی تحفظ فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے Passion کو Profession میں تبدیل کر سکیں۔ ایک زمانے میں اسکولوں اور کالجوں کے کھیل کے میدانوں کے ساتھ ساتھ شہروں اور قصبوں میں بھی یہ سہولت کسی نہ کسی حد تک موجود تھی اور کھیل میں استعمال ہونے والا سامان بھی زیادہ مہنگا نہیں تھا۔
اب سب کچھ بدل گیا ہے گلی محلے میں ٹینس بال اور گھاس کے میدانوں میں ہارڈ بال سے کھیلنا بھی آسان نہیں رہا کرکٹ بال اور بلے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے ساتھ ساتھ اچھی وکٹ اور گرائونڈ کی فیس اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب یہ ''شوق'' کی حدوں سے باہر نکل گئے ہیں کم و بیش یہی حال کلب کرکٹ کا ہے سو لے دے کر ڈویژن' صوبے اور مختلف ادارے ہی باقی بچتے ہیں جہاں ان کھلاڑیوں کی کسی حد تک دیکھ بھال اور تربیت ہو سکتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقاعدہ نرسریوں کی عدم موجودگی میں یہ ''خودرو'' پودے کتنی دیر تک ان ہوائوں کا مقابلہ کر سکیں گے جو ان کے چاروں طرف تباہی مچا رہی ہیں۔ گزشتہ رات ایک پروگرام میں جاوید میانداد' محمد یوسف اور سکندر بخت سنجیدگی سے اور شعیب اختر اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں موجودہ پاکستانی ٹیم بالخصوص اس کے بیٹسمینوں کی بنیادی کمزوریوں پر تنقید کر رہے تھے جس کا لب لباب یہ تھا کہ یہ عوام کو محظوظ کرنے والے شاٹس تو کسی نہ کسی حد تک کھیل لیتے ہیں۔
مگر ان کو بیٹنگ کے بنیادی اصولوں' ان کی ٹیکنیک سے عدم واقفیت کے ساتھ ساتھ کھیل کی صورت حال کے مطابق اپنے آپ کو Adjust کرنے کا سلیقہ نہیں آتا کہ یہ باتیں اصل میں اس وقت سیکھنے کی ہوتی ہیں جب وہ کھلاڑی بننے کے عمل میں یعنی اسکول کالج اور کلب کی سطح پر ہوں۔ ہمارا کھیل کا ڈھانچہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ان مراحل سے باقاعدہ انداز میں گزرے بغیر یہ لڑکے ایک Raw Talent کی شکل میں فرسٹ کلاس کرکٹر بن جاتے ہیں اور پھر ایک سطحی اور غیر مرتب مقابلہ جاتی دور سے گزرنے کے بعد قومی ٹیم تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور ہمارا سلیکشن کا نظام بھی ایسا ہے کہ سلیکٹر حضرات کھلاڑی کی صلاحیت' استعداد' استقامت اور ٹیکنیک کو براہ راست دیکھنے کے بجائے ان اعدادوشمار پر تکیہ کرتے ہیں جو بوجوہ انتہائی ناقص اور ناقابل اعتبار ہیں یوں اٹکل پچو انداز میں جو کھلاڑی منتخب ہوتے ہیں وہ اپنی خداداد صلاحیت کی بنا پر ایک ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو ہنڈولے کی طرح گاہ بلند اور گاہ پست ہوتی رہتی ہے۔
ایک دوسرے پروگرام میں ڈاکٹر نعمان نیاز' چیف سلیکٹر راشد لطیف' عبدالرزاق' محمد وسیم اور اظہر کی گفتگو سے جو بات سامنے آئی میرے نزدیک وہ بہتر اور قابل عمل ہے کہ جب تک ہم بنیادی ڈھانچے کو ٹھیک نہیں کر پاتے ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ سترہ سے انیس برس کے کھلاڑیوں کو وہ کوچنگ اور ماحول مہیا کیا جائے جو اس وقت ان قومی کھلاڑیوں کو حاصل ہے جو بنیادی تربیت میں کمی کے باعث صلاحیت کے باوجود اچھی اور مسلسل کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ ہمارے بائولرز ہمارے بیٹسمینوں کی نسبت کم مسائل کا شکار ہیں میرے خیال میں وسیم اکرم' وقار یونس اور ثقلین مشتاق کے بعد سے یہ صورت حال بدل چکی ہے سعید اجمل' شاہد آفریدی' محمد عرفان کو اگر مستثنیات میں شامل کر بھی لیا جائے تب بھی اس وقت کا کوئی پاکستانی بائولر ایسا نہیں جو اپنے زور پر ٹیم کو کوئی بڑا میچ جتوا سکتا ہو یعنی ہمیں بالنگ پر بھی اتنی ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔