بھٹو میرا آئیڈیل آخری حصہ

32 سال گزر جانے کے بعد بھی ہم جب ٹی وی پر بھٹو کی دستاویزی فلمیں دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔۔۔۔

وہ کہتے تھے کہ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عورت کو اسلام میں مکمل تحفظ حاصل ہے وہ بھی عورت کی بے حد عزت کرتے ہیں۔ بھٹو کی شادی 11 سال کی عمر میں اپنی رشتے دار شیریں بیگم سے ہوئی جس کی اس وقت عمر تقریباً 32 سال تھی۔ بھٹو کا کہنا تھا کہ اسے شادی کے بارے میں پتہ بھی نہیں تھا اور وہ نکاح کے بعد کرکٹ کھیلنے کے لیے چلے گئے جب اس میں شعور آیا تو اس نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینا پسند نہیں کیا اور کہا کہ وہ اس کی ذمے داری ہے مگر افسوس ہے کہ وہ اسے پورا وقت نہیں دے سکے۔

بھٹو کا نام ذوالفقار علی، ان کے والد کے دوست امیر علی لاہوری نے رکھا تھا۔ بھٹو کے والد شاہ نواز اکثر جب لاڑکانہ شہر کی سیر کے لیے بھٹو کو لے کر جاتے تو انھیں پرانی بلڈنگز، مسجدیں، مندر اور دوسری کلچرل جگہیں دکھاتے تھے اور ان کی اہمیت کے بارے میں بتاتے تھے۔ بھٹو نے کہا تھا کہ وہ امیر گھرانے میں ضرور پیدا ہوئے تھے مگر اقتدار تک پہنچنے کے لیے اس نے بڑی سختیاں جھیلیں ہیں۔ وہ جادو کے قالین پر بیٹھ کر نہیں آئے۔ ایوب خان سے اختلافات بھی ملک کی بہتری کے لیے کیے تھے۔ ایوب سے جدا ہونے کے بعد انھیں بڑا تنگ کیا گیا۔ ہر قسم کی دھمکیاں دی گئیں اور دو مرتبہ مارنے کی کوشش کی گئی ایک مرتبہ 1968ء میں اور دوسری مرتبہ 1970ء میں اس حملے میں بھٹو کو بچاتے ہوئے ایک کارکن جاں بحق اور کئی زخمی ہو گئے۔ اس کے علاوہ ایوب کی Cabinet سے الگ ہونے پر روس اور امریکا بڑا خوش ہوا مگر انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اب بھٹو نے اپنی پی پی پی بنا کر اپنے آپ کو اور زیادہ مضبوط بنا دیا ہے۔

بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ اس لیے لگایا تھا کہ وہ اس نظام کے تحت غریبوں کو حق دلا سکیں جس کی ابتدا انھوں نے اپنی 4 ہزار ایکڑ زمین غریب کسانوں میں بانٹ دی اور پھر کبھی نہیں واپس لی جب کہ اس کے ساتھ باقی لیڈرز نے وہ زمینیں واپس لے لیں۔ وہ ملک کے اندر ملک سے باہر طوفانی دورے کرتے رہتے تھے ابھی تو اقتدار کا پہلا وقت ملک کی عزت اور وقار بڑھانے میں لگ گیا۔ معیشت کو مضبوط کرنے میں لگ گیا، انھوں نے سوچا تھا کہ ملک کو ترقی یافتہ بنائیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور مسلمانوں کے خلاف طاقت نے بھٹو کو شہید کروا دیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو ایک تنگ کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا، لیٹرین بھی وہاں تھا۔ ایک مرتبہ اس پر کال کوٹھری میں حملہ کروایا گیا۔ بھٹو کی بیگم نصرت کو لہو لہان کیا گیا، نظر بند رکھا گیا، آخری وقت کی ملاقات میں بھٹو نے بے نظیر کو کچھ چیزیں دیں جس میں ایک خاندانی انگوٹھی اور دوسرا عوام جس کے لیے کہا کہ وہ عوام کو ان کو سونپ رہے ہیں۔ پھانسی پر جانے سے پہلے کہا کہ شیو کا سامان دیا جائے کیوں کہ وہ اس خوبصورت دنیا کو خوبصورت بن کر چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر بھٹو بزدل ہوتے تو ملک چھوڑنے پر رضامند ہوجاتے۔ کئی ممالک نے پیشکش کی جسے بھٹو نے اس لیے ٹھکرا دیا۔


ضیالحق نے جب بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد آزاد کیا تھا اور اس کا یہ خیال تھا کہ بھٹو کی مقبولیت ختم ہو گئی ہے مگر جب بھٹو ٹرین کے ذریعے پورے ملک کے دورے پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ بھٹو اب بھی لوگوں کے دلوں میں بستا ہے اور دوبارہ اسے گرفتار کیا گیا اور قتل کا کیس بناکر راستے سے ہٹایا گیا۔

مجھے بھٹو کا ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے جس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کو ہر چیز کو کرنے میں بڑی جلدی ہے جس کے جواب میں بھٹو نے کہا تھا کہ وہ اس لیے کہ اس کے خاندان میں عمریں بڑی کم ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک اور عوام کے لیے کچھ کر کے جائیں۔

محبت کی انتہا یہ ہے کہ 32 سال گزر جانے کے بعد بھی ہم جب ٹی وی پر بھٹو کی دستاویزی فلمیں دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور ہماری نئی نسل بھی بھٹو کی تقاریر دیکھ کر متاثر ہوتی ہیں۔ بھٹو کے یہ الفاظ بڑی اہمیت رکھتے ہیں کہ جب ان کی زیادہ مخالفت ہوتی تھی تو وہ کہتے تھے کہ ''مردہ گھوڑے کو کوئی چابک نہیں مارتا'' جس کا مطلب یہ تھا کہ جو شخص اہم ہوتا ہے اس کی مخالفت ہوتی ہے مگر وہ اس تنقید پر اپنا وقت ضایع نہیں کرنا چاہتے اور اپنا سفر جاری رکھیں گے۔ یہ نعرہ کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ یہ ایک ایسی تحریک اور نظریہ ہے جس سے بھٹو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ان کا کہنا تھا جب ہر عام آدمی کو اس کے اپنے علاقے میں ہر ضرورت کی چیز ملے گی، ان کے بچے تعلیم، صحت، روزگار اور دوسری ضروریات زندگی سے آراستہ ہوں گے تو پھر وہ دوسرے شہروں کا رخ نہیں کریں گے۔ اس نے اپنے وقت میں گائوں، گائوں بجلی اور گیس پہنچانے کا ارادہ کیا تھا۔ اس عمل سے لوگوں میں احساس محرومی پیدا نہیں ہوتی اور جرائم جنم نہیں لیتے اور ہر طرف خوش حالی کا راج ہوتا ہے۔

جب محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں اور ضیاالحق کا خاتمہ ہوا تو پھر PNA کے کئی لیڈروں کو میں نے ٹی وی پر سنا کہ بھٹو اور PNA کے درمیان معاہدہ ہو چکا تھا کہ دوبارہ الیکشن ہو گا اور صبح دوسرے روز اس پر دستخط ہونے تھے مگر رات کو ہی اقتدار پر قبضہ ہو گیا۔ کافی عرصے کے بعد کئی ریٹائرڈ ججز نے بھی اعتراف کیا کہ یہ بھٹو کا پھانسی والا فیصلہ صحیح نہیں تھا۔ بھٹو نے با وقار انداز سے موت کو گلے لگایا کیوں کہ موت وہی جو دنیا دیکھے۔ بھٹو نے تعلیم مغرب میں حاصل کی تھی مگر اس کا دل مشرقی اور مسلمانوں والا تھا۔ امریکا میں پڑھنے کے دوران جب انھوں نے دیکھا کہ میکسیکو والوں کے خلاف نفرت، ریڈ انڈین اور نیگروز کے ساتھ نفرت ہے جو انھیں پسند نہیں آیا اور انھوں نے لندن جا کر تعلیم جاری رکھی۔

بھٹو گڑھی خدابخش میں پیدا ہوئے اور اپنی وصیت کے مطابق اسے اپنے خاندانی قبرستان میں ہی دفن کیا گیا۔ کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ وہ اپنے والد اور دوسرے قریبی رشتے داروں کے پہلو میں رہیں۔ بھٹو کو سزا اس لیے ملی کہ وہ مسلمانوں کو ایٹمی طاقت بنانا چاہتے تھے جس کی ابتدا اس نے پاکستان سے کی وہ ٹیبل ٹاک کا بادشاہ تھا اس کی انگریزی اتنی اچھی تھی کہ خود انگریز اس سے گھبراتے تھے۔ مطالعہ اتنا وسیع کہ کوئی نہ جیت سکے۔ بھٹو جیسی شخصیت صدیوں میں بھی پیدا نہیں ہو گی۔ بھٹو نے گیدڑ کی سو سالہ زندگی پر شیر کی ایک دن کی زندگی کو ترجیح دی اور امر ہو گئے۔
Load Next Story