کراچی کے غیر محفوظ شہری
کراچی پولیس چیف کا شہریوں کو مزاحمت نہ کرنے کا مشورہ درست بھی ہے
کراچی کے پولیس چیف نے ایک قیمتی مشورہ شہریوں کو دیا ہے کہ شہری ڈکیتوں کے سامنے بالکل مزاحمت نہ کریں، بھروسہ نہیں وہ کب فائر کردیں۔ یہ انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ ہے کہ کسی بھی مسلح شخص سے نہ الجھا جائے۔
انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں سال کراچی کے شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہے اور بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کا گراف بھی بڑھا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ دو روز قبل این ای ڈی یونیورسٹی کے جواں سال طالب علم بلال نصیر کے ایک قاتل کو جو تاجک افغان ہے گرفتار کرلیا گیا ہے اور اس کے دوسرے ساتھی کی تلاش جاری ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق 21 سالہ بلال نصیر کی تدفین کے موقع پر رقت آمیز مناظر اور علاقہ مکین بھی غم زدہ تھے اور دکھ کا اظہار کر رہے تھے کہ ہم کب تک یوں ہی ڈکیتوں کے آگے بے بس رہ کر قتل ہوتے رہیں گے۔
بلال نصیر کی تدفین کے دوسرے روز ہی ایک اور دل خراش ڈکیتی میں 22 سالہ اظہر کو کورنگی کے ایریا مارکیٹ میں ڈاکوؤں نے اس کے والد کے سامنے قتل کردیا اور مقتول کا والد اور ایک راہگیر زخمی بھی ہوئے۔ اس موقع پر مشتعل لوگوں نے ایک ڈاکو کو پکڑ کر اس پر اس قدر تشدد کیا کہ وہ ہلاک ہو گیا جب کہ اس کا ساتھی فرار ہوگیا۔
دونوں وارداتوں میں ڈکیت دو تھے اور اسلحہ لے کر موٹرسائیکل پر وارداتیں کر رہے تھے اور دونوں وارداتوں میں دو نوجوان ڈکیتوں کی فائرنگ میں جان گنوا بیٹھے۔ کراچی پولیس چیف کے مطابق رواں سال 96 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
نومبر ،دسمبر میں جنسی جرائم میں چار بچوں کو مارا گیا ہے اسی لیے والدین اپنے بچوں کی تربیت کریں کہ والدین کے علاوہ کوئی ان کے جسم کو چھو نہ سکے اور والدین اپنے معصوم بچوں کو ہرگز اکیلا نہ چھوڑیں۔ قبل ازیں ایم کیو ایم نے کہا تھا کہ شہر میں پولیس گشت موثر نہ ہونے سے جرائم بڑھے ہوئے ہیں۔
اس لیے لوگوں کی حفاظت کے لیے پولیس کے گشت میں اضافہ کیا جائے اور شہریوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ کراچی کی مختلف تنظیموں نے بھی کہا ہے کہ شہر کا امن و امان بگڑ چکا ہے جس کی وجہ سے شہری غیر محفوظ اور دن دہاڑے قتل کیے جا رہے ہیں۔ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے پولیس موجود نہیں۔ اب طلبا بھی ڈاکوؤں سے محفوظ نہیں رہے اور حکومت دعوؤں کے باوجود امن قائم نہیں کرسکی ہے۔
یہ درست ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں تین کروڑ افراد کے لیے پولیس ناکافی ہے۔ پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد پولیس او ریونیو افسران، ارکان اسمبلی، سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی حفاظت کے لیے مخصوص ہے۔
امیروں نے اپنی حفاظت کے لیے نجی طور پر سیکیورٹی گارڈ رکھے ہوئے ہیں اور پولیس کی جو نفری موجود ہے اس نے تھانوں اور سرکاری دفتروں اور وی آئی پیز کی بھی ڈیوٹی دینی ہوتی ہے اور گشت کے لیے جو پولیس اہلکار مقرر ہیں وہ موٹر سائیکلوں اور موبائلوں میں جرائم پیشہ عناصر پر نظر رکھنے کے بجائے منشیات کے اڈوں، کباڑ خانوں سے ہفتہ وار بھتہ وصولی میں مصروف رہتے ہیں یا گلی محلوں میں یہ دیکھتے ہیں کہ کون اپنا گھر بنا رہا ہے یا فراہمی و نکاسی آب سسٹم کی درستگی کے لیے راستوں کی کھدائی کرا رہا ہے۔
مکان کی تعمیر یا کھدائی بلدیاتی اداروں کی اجازت سے ہوتی ہے مگر پولیس پارٹیاں باری باری مکان بنانے والوں سے مٹھائی کے نام پر رقم وصولی میں مصروف رہتی ہیں تو جرائم پیشہ عناصر کو وارداتوں کا موقعہ مل جاتا ہے اور انھیں اکثر چیک نہیں کیا جاتا اور وہ آزادانہ دندناتے پھرتے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق کراچی میں ڈاکو اب مہذب حلیے میں معزز شہریوں کی طرح اچھے کپڑے پہن کر ہی وارداتیں کرتے ہیں تاکہ سفر کے دوران اگر کہیں پولیس موجود ہو تو انھیں شک نہ ہو کہ وہ ڈاکو ہیں۔
کراچی میں ڈاکٹروں کے کلینکس اور حجاموں کی دکانیں بھی محفوظ نہیں نہ ہوٹلوں میں کھانے پینے والے محفوظ ہیں جہاں ایک سے زیادہ لوگ موجود ہوتے ہیں مگر ڈاکو اب ایسے مقامات پر لوٹ مار کرکے فرار ہو جاتے ہیں۔کراچی کو ملک بھر کے جرائم پیشہ عناصر کے لیے پہلے ہی محفوظ سمجھا جاتا ہے کیونکہ کراچی کے شہریوں کو تو اپنے گھروں کے پاس رہنے والوں سے سلام دعا کی فرصت نہیں ہر کوئی مصروف ہے کسی کو پتا نہیں کہ ان کے پڑوس میں کون آتا جاتا ہے اورکیا کرتا ہے ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔
کراچی پولیس نے گزشتہ دنوں غیر ملکیوں پر نظر رکھی تھی اور گرفتاریاں بھی کی تھیں اور عدالتوں نے غیر قانونی طور پر شہر میں داخل ہونے والے 27 گرفتار غیر ملکیوں کو جیل بھیج دیا تھا۔ شہریوں کے مطابق مختلف افغانی وارداتوں میں ملوث ہیں اور بہت کم ہی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں اکثر موقع پر ہی پولیس کو دے دلا کر چھوٹ جاتے ہیں اور پولیس کو رشوت نہ دینے والے پکڑے جاتے ہیں۔ شہر میں ڈکیتیاں کرنے والے یہ غیر ملکی ڈاکو زیادہ تر بستیوں میں رہتے ہیں اور طالب علم کا قاتل بھی پولیس نے افغان بستی سے گرفتار کیا ہے۔
کراچی پولیس چیف کا شہریوں کو مزاحمت نہ کرنے کا مشورہ درست بھی ہے کہ وہ ڈکیتوں کو اپنی نقدی، موبائل اور قیمتی سامان مانگنے پر فوری دے دیا کریں تو محفوظ رہ سکتے ہیں مگر پولیس چیف کو اپنی پولیس کو سختی سے ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ گشت، گشت کے طور پر کریں نہ کہ کمائی کے لیے کیونکہ پولیس اہلکار پولیس موبائلوں اور موٹر سائیکلوں کو گشت کے نام پر صرف بھتہ وصولی کے لیے استعمال کرتے آ رہے ہیں۔
کراچی تو پولیس کے لیے ویسے ہی مشہور ہے کہ کراچی پولیس کے لیے دبئی ہے جہاں ملک بھر سے افسران پوسٹنگ کو ترجیح دیتے ہیں جن کی ترجیح جلد پروموشن ہوتی ہے۔
انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں سال کراچی کے شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہے اور بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کا گراف بھی بڑھا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ دو روز قبل این ای ڈی یونیورسٹی کے جواں سال طالب علم بلال نصیر کے ایک قاتل کو جو تاجک افغان ہے گرفتار کرلیا گیا ہے اور اس کے دوسرے ساتھی کی تلاش جاری ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق 21 سالہ بلال نصیر کی تدفین کے موقع پر رقت آمیز مناظر اور علاقہ مکین بھی غم زدہ تھے اور دکھ کا اظہار کر رہے تھے کہ ہم کب تک یوں ہی ڈکیتوں کے آگے بے بس رہ کر قتل ہوتے رہیں گے۔
بلال نصیر کی تدفین کے دوسرے روز ہی ایک اور دل خراش ڈکیتی میں 22 سالہ اظہر کو کورنگی کے ایریا مارکیٹ میں ڈاکوؤں نے اس کے والد کے سامنے قتل کردیا اور مقتول کا والد اور ایک راہگیر زخمی بھی ہوئے۔ اس موقع پر مشتعل لوگوں نے ایک ڈاکو کو پکڑ کر اس پر اس قدر تشدد کیا کہ وہ ہلاک ہو گیا جب کہ اس کا ساتھی فرار ہوگیا۔
دونوں وارداتوں میں ڈکیت دو تھے اور اسلحہ لے کر موٹرسائیکل پر وارداتیں کر رہے تھے اور دونوں وارداتوں میں دو نوجوان ڈکیتوں کی فائرنگ میں جان گنوا بیٹھے۔ کراچی پولیس چیف کے مطابق رواں سال 96 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
نومبر ،دسمبر میں جنسی جرائم میں چار بچوں کو مارا گیا ہے اسی لیے والدین اپنے بچوں کی تربیت کریں کہ والدین کے علاوہ کوئی ان کے جسم کو چھو نہ سکے اور والدین اپنے معصوم بچوں کو ہرگز اکیلا نہ چھوڑیں۔ قبل ازیں ایم کیو ایم نے کہا تھا کہ شہر میں پولیس گشت موثر نہ ہونے سے جرائم بڑھے ہوئے ہیں۔
اس لیے لوگوں کی حفاظت کے لیے پولیس کے گشت میں اضافہ کیا جائے اور شہریوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ کراچی کی مختلف تنظیموں نے بھی کہا ہے کہ شہر کا امن و امان بگڑ چکا ہے جس کی وجہ سے شہری غیر محفوظ اور دن دہاڑے قتل کیے جا رہے ہیں۔ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے پولیس موجود نہیں۔ اب طلبا بھی ڈاکوؤں سے محفوظ نہیں رہے اور حکومت دعوؤں کے باوجود امن قائم نہیں کرسکی ہے۔
یہ درست ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں تین کروڑ افراد کے لیے پولیس ناکافی ہے۔ پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد پولیس او ریونیو افسران، ارکان اسمبلی، سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی حفاظت کے لیے مخصوص ہے۔
امیروں نے اپنی حفاظت کے لیے نجی طور پر سیکیورٹی گارڈ رکھے ہوئے ہیں اور پولیس کی جو نفری موجود ہے اس نے تھانوں اور سرکاری دفتروں اور وی آئی پیز کی بھی ڈیوٹی دینی ہوتی ہے اور گشت کے لیے جو پولیس اہلکار مقرر ہیں وہ موٹر سائیکلوں اور موبائلوں میں جرائم پیشہ عناصر پر نظر رکھنے کے بجائے منشیات کے اڈوں، کباڑ خانوں سے ہفتہ وار بھتہ وصولی میں مصروف رہتے ہیں یا گلی محلوں میں یہ دیکھتے ہیں کہ کون اپنا گھر بنا رہا ہے یا فراہمی و نکاسی آب سسٹم کی درستگی کے لیے راستوں کی کھدائی کرا رہا ہے۔
مکان کی تعمیر یا کھدائی بلدیاتی اداروں کی اجازت سے ہوتی ہے مگر پولیس پارٹیاں باری باری مکان بنانے والوں سے مٹھائی کے نام پر رقم وصولی میں مصروف رہتی ہیں تو جرائم پیشہ عناصر کو وارداتوں کا موقعہ مل جاتا ہے اور انھیں اکثر چیک نہیں کیا جاتا اور وہ آزادانہ دندناتے پھرتے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق کراچی میں ڈاکو اب مہذب حلیے میں معزز شہریوں کی طرح اچھے کپڑے پہن کر ہی وارداتیں کرتے ہیں تاکہ سفر کے دوران اگر کہیں پولیس موجود ہو تو انھیں شک نہ ہو کہ وہ ڈاکو ہیں۔
کراچی میں ڈاکٹروں کے کلینکس اور حجاموں کی دکانیں بھی محفوظ نہیں نہ ہوٹلوں میں کھانے پینے والے محفوظ ہیں جہاں ایک سے زیادہ لوگ موجود ہوتے ہیں مگر ڈاکو اب ایسے مقامات پر لوٹ مار کرکے فرار ہو جاتے ہیں۔کراچی کو ملک بھر کے جرائم پیشہ عناصر کے لیے پہلے ہی محفوظ سمجھا جاتا ہے کیونکہ کراچی کے شہریوں کو تو اپنے گھروں کے پاس رہنے والوں سے سلام دعا کی فرصت نہیں ہر کوئی مصروف ہے کسی کو پتا نہیں کہ ان کے پڑوس میں کون آتا جاتا ہے اورکیا کرتا ہے ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔
کراچی پولیس نے گزشتہ دنوں غیر ملکیوں پر نظر رکھی تھی اور گرفتاریاں بھی کی تھیں اور عدالتوں نے غیر قانونی طور پر شہر میں داخل ہونے والے 27 گرفتار غیر ملکیوں کو جیل بھیج دیا تھا۔ شہریوں کے مطابق مختلف افغانی وارداتوں میں ملوث ہیں اور بہت کم ہی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں اکثر موقع پر ہی پولیس کو دے دلا کر چھوٹ جاتے ہیں اور پولیس کو رشوت نہ دینے والے پکڑے جاتے ہیں۔ شہر میں ڈکیتیاں کرنے والے یہ غیر ملکی ڈاکو زیادہ تر بستیوں میں رہتے ہیں اور طالب علم کا قاتل بھی پولیس نے افغان بستی سے گرفتار کیا ہے۔
کراچی پولیس چیف کا شہریوں کو مزاحمت نہ کرنے کا مشورہ درست بھی ہے کہ وہ ڈکیتوں کو اپنی نقدی، موبائل اور قیمتی سامان مانگنے پر فوری دے دیا کریں تو محفوظ رہ سکتے ہیں مگر پولیس چیف کو اپنی پولیس کو سختی سے ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ گشت، گشت کے طور پر کریں نہ کہ کمائی کے لیے کیونکہ پولیس اہلکار پولیس موبائلوں اور موٹر سائیکلوں کو گشت کے نام پر صرف بھتہ وصولی کے لیے استعمال کرتے آ رہے ہیں۔
کراچی تو پولیس کے لیے ویسے ہی مشہور ہے کہ کراچی پولیس کے لیے دبئی ہے جہاں ملک بھر سے افسران پوسٹنگ کو ترجیح دیتے ہیں جن کی ترجیح جلد پروموشن ہوتی ہے۔