خیبرپختون خوا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی
موجودہ حالات کاتقاضاہے کہ ملک کی مین اسٹریم سیاسی قیادت اپنے عمل سے ثابت کرے کہ وہ انتہا پسندی اوردہشت گردی کیخلاف ہیں
بنوں میں محکمہ انسداددہشت گردی کے حراستی مرکزپر دہشت گردوں کا قبضہ کرنا اور سرکاری اہلکاروں کو یرغمال بنالینا، معمولی واقعہ نہیں ہے۔
گزشتہ روز پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرکے سی ٹی ڈی کمپاونڈ کو کلیئر کردیا، اس آپریشن میں تمام دہشت گردوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔
بنوں کا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ زیر حراست دہشت گردوں کی نگرانی کے عمل میں کوتاہی برتی گئی ہے، اتنی بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو ایک ہی تھانے میں رکھنا تکنیکی اعتبار سے درست نہیں ہے، اگر رکھنا بھی تھا تو انھیں ایسی بیرکوں میں رکھا جاتا جہاں سے وہ باہر نہ نکل سکتے ۔
یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ دہشت گردوں نے سرکاری ہتھیار کیسے قبضے میں کرلیے اور وہاں موجود سرکاری اہلکاروں کو یرغمال بنانے میں کامیاب ہوگئے۔اس حوالے سے تحقیقات ضرور ہونی چاہیے اور یہ بھی پتہ چلنا چاہیے کہ سی ٹی ڈی کمپاونڈ میں کتنے دہشت گرد موجود تھے، یہ بھی پتہ لگانا ضروری ہے کہ کیا زیرحراست دہشت گردوں نے اپنے بل بوتے پر ایسا کیا یا انھیں باہر سے بھی کمک ملی ہے۔
کمپاونڈ کے اندر اور باہر ان کے سہولت کاروں تک پہنچنا بھی بہت ضروری ہے۔خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے رول پر بھی غور ہونا چاہیے کہ دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے اس کا عزم ہے یا نہیں ہے۔پاکستان کے شمال مغرب میں افغانستان تاحال غیرمستحکم ہے اور وہاں انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں ہے ۔
افغانستان کے اقتدار پر طالبان کا کنٹرول ہے لیکن اس تنظیم کے اندر وارلارڈز کے اپنے اپنے دھڑے ہیں جو کسی مرکزی نظم کے تحت کام نہیں کررہے ،اس وجہ سے افغانستان کی داخلی پالیسی یکساں نہیں ہے ، خارجہ پالیسی بھی مبہم ہے ، جس کی وجہ طالبان حکومت ابھی تک اقوام عالم کی نظر میں اپنی ساکھ بحال نہیں کرسکی اور ان کی حکومت کو کسی ملک نے باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں گزشتہ ایک برس سے دہشت گردوں کی کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔صوبائی حکومت شاید دہشت گردی کو خطرہ نہیں سمجھ رہی ، اس وجہ سے صوبائی ادارے مفلوج ہوگئے ہیں۔صوبائی وزراء عوام کو حقائق بتانے کے بجائے الٹی سیدھی بیان بازی کرتے ہیں۔صوبے کے عوام اور کاروباری طبقے کی اکثریت بے یقینی اور خوف کا شکار ہے۔
افغان سرحد پر حفاظتی باڑ کی تنصیب کے باوجود پاکستانی علاقوں میں سلامتی کی صورتحال میں بہتری نہیں آسکی۔پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عسکریت پسندوں نے خیبر پختونخوا میں حملوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔
افغانستان سے پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیاں جس طرح پھر سے شروع ہو گئی ہیں، ان سے افغان حکومت کی پاکستان کے بارے میں معاندانہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔
گزشتہ برس جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اس کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ،لیکن اس کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے افغانستان میں کی سرزمین استعمال کرکے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیں۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں کا پاکستان کے خلاف متحرک ہونا ہماری سلامتی کے لیے چیلنج ہے۔سال رواں کے دوران عسکریت پسندوں کی طرف سے صوبے کے متعدد اضلاع میں پولیس اور سرکاری اہلکاروں پر حملوں کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں ۔کاروباری افراد کو بھتہ دینا پڑ رہا ہے، حتی کہ سرکاری افسروں، صوبائی وزراء اور دیگر سیاستدانوں کو بھتہ دینے کی کالیں کی گئی ہیں۔
قومی اداروں کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے ، کاؤنٹرٹیرازم ڈیپارٹمنٹ خیبر پختون خوا دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور صوبے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حملوں کوروکنا اس کے لیے ممکن نہیں ۔ایک برس کے دوران پنجاب میں دہشت گردی کے تین جب کہ خیبر پختون خوا میں تین سو واقعات ہوئے اور بھاری جانی نقصان ہوا۔
ماضی میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے متعدد فوجی آپریشنز ہوئے اور ایک طویل عرصے بعد امن قائم ہوا تاہم اب پھر سے ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ،جس سے امن کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے،گزشتہ چند ماہ کے دوران قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے درجنوں واقعات پیش آئے جن میں سیکیورٹی فورسز اور پولیس سمیت کئی شہری جاں بحق ہوئے،ان اضلاع میں جنوبی و شمالی وزیرستان، ڈی آئی خان اور لکی مروت شامل ہیں۔
ان علاقوں میں دہشت گردی کے ساتھ مختلف شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ بھی کی گئی ہے۔ جنوبی اضلاع میں حالات ایک بار پھر خراب ہو رہے ہیں، ماضی کی طرح دہشت گردی کے بڑے واقعات رونما نہیں ہوئے، تاہم واقعات میں تسلسل نظر آرہا ہے۔
زیادہ تر واقعات کی ذمے داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی اور ان حملوں کو جوابی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے ۔صوبائی ترجمان بیرسٹر سیف کے مطابق'' حکومت کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جس سے دیگر دہشت گرد تنظیمیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
ہمارا بہت ہی کلیئر ایجنڈا ہے جو ہتھیار اٹھائے گا اس کے خلاف آپریشن ہوگا اور جو بات چیت کرنا چاہتا ہے اس سے مذاکرات کیے جائیں گے۔ سیکیورٹی فورسز ٹارگٹڈ آپریشن کر رہی ہے جن میں کافی حد تک کامیابی ملی ہے۔''
تاہم اس ساری صورتحال میں براہ راست متاثر ہونے والے عام شہری حکومتی دعوؤں سے زیادہ متاثر نظر نہیں آتے۔ اسی لیے وہ اپنی مدد آپ کے تحت دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے واقعات کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج کرتے رہے۔
جنوبی وزیر ستان کے قبائلی عمائدین کہنا ہے کہ وہ حکومتی اداروں سے سیکیورٹی کے اقدامات موثر بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں اور یہ کہ وہ اپنے علاقے کے امن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
خیبرپختونخوا کے علاقے سوات اور شانگلہ میں عوام کی جانب سے دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے ۔تحصیل چارباغ کے مختلف علاقوں میں بزرگ، نوجوان اور بچوں نے احتجاج میں حصہ لیاہے ۔
قبل ازیں ملاکنڈ ڈویژن کے ضلع سوات، دیر، بونیر اور شانگلا میں ہزاروں افراد نے امن مارچ کیے ہیں اور حکومت پر زور دیا کے وہ دہشت گردوں کی ان علاقوں میں واپسی کو روکے۔سوات میںاسکول وین پر حملے کے بعد عوام نے چالیس گھنٹے طویل دھرنا دے کر ثابت کردیا تھا کہ وہ دہشت گردوںکے خلاف ہیں۔
اسی طرح خوازہ خیلہ کے مٹہ چوک پر احتجاج کے دوران مظاہرین نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکام اپنا فرض نبھانے میں ناکام رہے کہ وہ دہشت گردوں سے مقابلے کے لیے ہتھیار اٹھائیں گے۔
پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے کافی کوششیں کیں اور اس کا بنیادی مقصد پاکستان میں امن لانا اور افغان مہاجرین کو باعزت ان کے وطن واپس بھجوانا تھا لیکن طالبان حکومت کے دور میں افغانستان سے پاکستانی سرحدوں پرحامد کرزئی اوراشرف غنی کی حکومتی ادوار سے بھی زیادہ حملے ہورہے ہیں ۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین چھبیس سوکلومیٹر طویل سرحد پر حفاظتی باڑ لگانے کے باوجود بھی بہت سے دہشت گردانہ حملوں کے لیے مبینہ طور پر سرحد پار سے آنے والے تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ صوبائی حکومت دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے ۔ کے پی کے میںامن وامان کی صورتحال الارمنگ ہے۔
موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کی مین اسٹریم سیاسی قیادت اپنے عمل سے ثابت کرے کہ وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کی اس حوالے سے ذہن سازی کا اہتمام کریں ' ملک کی دینی اور مذہبی جماعتوں کو بھی اپنی پرانی روش ترک کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے ذریعے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں' یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ' پاکستان کے عوام کا سوال یہ نہیں ہے کہ دہشت گردوں کا مذہب کیا ہے ؟ پاکستان کے عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپ کا عملی کردار کیا ہے اور آپ کا بیانیہ دوٹوک اور واضح کیوں نہیں ہے ۔
یہ دلیل پیش کرنا کہ بھارت وہاں سے پاکستان میں گڑ بڑ کرا رہا ہے ' دراصل افغانستان کی حکومت کو رعایتی نمبر دینا ہے 'افغانستان میں کوئی ملک کتنا اثر رکھتا ہے 'کوئی ملک وہاں کی سرزمین کو کسی کے خلاف کرتا ہے ' اس کی تمام تر ذمے داری افغانستان کی حکومت پر عائد ہو گی کیونکہ وہ افغانستان پر اقتدار اعلیٰ رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے ۔
گزشتہ روز پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرکے سی ٹی ڈی کمپاونڈ کو کلیئر کردیا، اس آپریشن میں تمام دہشت گردوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔
بنوں کا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ زیر حراست دہشت گردوں کی نگرانی کے عمل میں کوتاہی برتی گئی ہے، اتنی بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو ایک ہی تھانے میں رکھنا تکنیکی اعتبار سے درست نہیں ہے، اگر رکھنا بھی تھا تو انھیں ایسی بیرکوں میں رکھا جاتا جہاں سے وہ باہر نہ نکل سکتے ۔
یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ دہشت گردوں نے سرکاری ہتھیار کیسے قبضے میں کرلیے اور وہاں موجود سرکاری اہلکاروں کو یرغمال بنانے میں کامیاب ہوگئے۔اس حوالے سے تحقیقات ضرور ہونی چاہیے اور یہ بھی پتہ چلنا چاہیے کہ سی ٹی ڈی کمپاونڈ میں کتنے دہشت گرد موجود تھے، یہ بھی پتہ لگانا ضروری ہے کہ کیا زیرحراست دہشت گردوں نے اپنے بل بوتے پر ایسا کیا یا انھیں باہر سے بھی کمک ملی ہے۔
کمپاونڈ کے اندر اور باہر ان کے سہولت کاروں تک پہنچنا بھی بہت ضروری ہے۔خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے رول پر بھی غور ہونا چاہیے کہ دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے اس کا عزم ہے یا نہیں ہے۔پاکستان کے شمال مغرب میں افغانستان تاحال غیرمستحکم ہے اور وہاں انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں ہے ۔
افغانستان کے اقتدار پر طالبان کا کنٹرول ہے لیکن اس تنظیم کے اندر وارلارڈز کے اپنے اپنے دھڑے ہیں جو کسی مرکزی نظم کے تحت کام نہیں کررہے ،اس وجہ سے افغانستان کی داخلی پالیسی یکساں نہیں ہے ، خارجہ پالیسی بھی مبہم ہے ، جس کی وجہ طالبان حکومت ابھی تک اقوام عالم کی نظر میں اپنی ساکھ بحال نہیں کرسکی اور ان کی حکومت کو کسی ملک نے باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں گزشتہ ایک برس سے دہشت گردوں کی کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔صوبائی حکومت شاید دہشت گردی کو خطرہ نہیں سمجھ رہی ، اس وجہ سے صوبائی ادارے مفلوج ہوگئے ہیں۔صوبائی وزراء عوام کو حقائق بتانے کے بجائے الٹی سیدھی بیان بازی کرتے ہیں۔صوبے کے عوام اور کاروباری طبقے کی اکثریت بے یقینی اور خوف کا شکار ہے۔
افغان سرحد پر حفاظتی باڑ کی تنصیب کے باوجود پاکستانی علاقوں میں سلامتی کی صورتحال میں بہتری نہیں آسکی۔پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عسکریت پسندوں نے خیبر پختونخوا میں حملوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔
افغانستان سے پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیاں جس طرح پھر سے شروع ہو گئی ہیں، ان سے افغان حکومت کی پاکستان کے بارے میں معاندانہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔
گزشتہ برس جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اس کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ،لیکن اس کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے افغانستان میں کی سرزمین استعمال کرکے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیں۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں کا پاکستان کے خلاف متحرک ہونا ہماری سلامتی کے لیے چیلنج ہے۔سال رواں کے دوران عسکریت پسندوں کی طرف سے صوبے کے متعدد اضلاع میں پولیس اور سرکاری اہلکاروں پر حملوں کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں ۔کاروباری افراد کو بھتہ دینا پڑ رہا ہے، حتی کہ سرکاری افسروں، صوبائی وزراء اور دیگر سیاستدانوں کو بھتہ دینے کی کالیں کی گئی ہیں۔
قومی اداروں کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے ، کاؤنٹرٹیرازم ڈیپارٹمنٹ خیبر پختون خوا دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور صوبے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حملوں کوروکنا اس کے لیے ممکن نہیں ۔ایک برس کے دوران پنجاب میں دہشت گردی کے تین جب کہ خیبر پختون خوا میں تین سو واقعات ہوئے اور بھاری جانی نقصان ہوا۔
ماضی میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے متعدد فوجی آپریشنز ہوئے اور ایک طویل عرصے بعد امن قائم ہوا تاہم اب پھر سے ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ،جس سے امن کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے،گزشتہ چند ماہ کے دوران قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے درجنوں واقعات پیش آئے جن میں سیکیورٹی فورسز اور پولیس سمیت کئی شہری جاں بحق ہوئے،ان اضلاع میں جنوبی و شمالی وزیرستان، ڈی آئی خان اور لکی مروت شامل ہیں۔
ان علاقوں میں دہشت گردی کے ساتھ مختلف شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ بھی کی گئی ہے۔ جنوبی اضلاع میں حالات ایک بار پھر خراب ہو رہے ہیں، ماضی کی طرح دہشت گردی کے بڑے واقعات رونما نہیں ہوئے، تاہم واقعات میں تسلسل نظر آرہا ہے۔
زیادہ تر واقعات کی ذمے داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی اور ان حملوں کو جوابی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے ۔صوبائی ترجمان بیرسٹر سیف کے مطابق'' حکومت کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جس سے دیگر دہشت گرد تنظیمیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
ہمارا بہت ہی کلیئر ایجنڈا ہے جو ہتھیار اٹھائے گا اس کے خلاف آپریشن ہوگا اور جو بات چیت کرنا چاہتا ہے اس سے مذاکرات کیے جائیں گے۔ سیکیورٹی فورسز ٹارگٹڈ آپریشن کر رہی ہے جن میں کافی حد تک کامیابی ملی ہے۔''
تاہم اس ساری صورتحال میں براہ راست متاثر ہونے والے عام شہری حکومتی دعوؤں سے زیادہ متاثر نظر نہیں آتے۔ اسی لیے وہ اپنی مدد آپ کے تحت دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے واقعات کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج کرتے رہے۔
جنوبی وزیر ستان کے قبائلی عمائدین کہنا ہے کہ وہ حکومتی اداروں سے سیکیورٹی کے اقدامات موثر بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں اور یہ کہ وہ اپنے علاقے کے امن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
خیبرپختونخوا کے علاقے سوات اور شانگلہ میں عوام کی جانب سے دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے ۔تحصیل چارباغ کے مختلف علاقوں میں بزرگ، نوجوان اور بچوں نے احتجاج میں حصہ لیاہے ۔
قبل ازیں ملاکنڈ ڈویژن کے ضلع سوات، دیر، بونیر اور شانگلا میں ہزاروں افراد نے امن مارچ کیے ہیں اور حکومت پر زور دیا کے وہ دہشت گردوں کی ان علاقوں میں واپسی کو روکے۔سوات میںاسکول وین پر حملے کے بعد عوام نے چالیس گھنٹے طویل دھرنا دے کر ثابت کردیا تھا کہ وہ دہشت گردوںکے خلاف ہیں۔
اسی طرح خوازہ خیلہ کے مٹہ چوک پر احتجاج کے دوران مظاہرین نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکام اپنا فرض نبھانے میں ناکام رہے کہ وہ دہشت گردوں سے مقابلے کے لیے ہتھیار اٹھائیں گے۔
پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے کافی کوششیں کیں اور اس کا بنیادی مقصد پاکستان میں امن لانا اور افغان مہاجرین کو باعزت ان کے وطن واپس بھجوانا تھا لیکن طالبان حکومت کے دور میں افغانستان سے پاکستانی سرحدوں پرحامد کرزئی اوراشرف غنی کی حکومتی ادوار سے بھی زیادہ حملے ہورہے ہیں ۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین چھبیس سوکلومیٹر طویل سرحد پر حفاظتی باڑ لگانے کے باوجود بھی بہت سے دہشت گردانہ حملوں کے لیے مبینہ طور پر سرحد پار سے آنے والے تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ صوبائی حکومت دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے ۔ کے پی کے میںامن وامان کی صورتحال الارمنگ ہے۔
موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کی مین اسٹریم سیاسی قیادت اپنے عمل سے ثابت کرے کہ وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کی اس حوالے سے ذہن سازی کا اہتمام کریں ' ملک کی دینی اور مذہبی جماعتوں کو بھی اپنی پرانی روش ترک کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے ذریعے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں' یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ' پاکستان کے عوام کا سوال یہ نہیں ہے کہ دہشت گردوں کا مذہب کیا ہے ؟ پاکستان کے عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپ کا عملی کردار کیا ہے اور آپ کا بیانیہ دوٹوک اور واضح کیوں نہیں ہے ۔
یہ دلیل پیش کرنا کہ بھارت وہاں سے پاکستان میں گڑ بڑ کرا رہا ہے ' دراصل افغانستان کی حکومت کو رعایتی نمبر دینا ہے 'افغانستان میں کوئی ملک کتنا اثر رکھتا ہے 'کوئی ملک وہاں کی سرزمین کو کسی کے خلاف کرتا ہے ' اس کی تمام تر ذمے داری افغانستان کی حکومت پر عائد ہو گی کیونکہ وہ افغانستان پر اقتدار اعلیٰ رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے ۔